سودا

486

نگہت یاسمین
گلی میں داخل ہوتے ہی اطمینان کا احساس پورے وجود پر چھا گیا۔ عمر، اظہر، ماریہ سعدیہ بھی چھلانگ مارکر گاڑی سے اترے، ساتھ میں اپنی اپنی پسند کے شاپرز اٹھا لیے۔ ٹھنڈے پانی کے چھپاکے منہ پر مارتے ہوئے نہ جانے کیا سوچ کر وضو بھی کرلیا، حالانکہ ٹی وی لائونج میں ڈھیروں اشیائے صرف پر مشتمل سودا الماریوں، ڈبوں اور اسٹور میں رکھے جانے کا منتظر تھا۔ کچھ نہیں تو ڈیڑھ گھنٹے سے پہلے فرصت کے امکانات صفر تھے۔ نرم روئیں والے سفید تولیے سے منہ تھپتھپا کر خشک کیا۔ بچے تو اپنی دل چسپی کی چیزوں کو الٹ پلٹ کر دیکھ رہے تھے، البتہ فرید صاحب شیشے کے جگ میں شربت گھول کر گلاس میں ڈال رہے تھے۔ افشاں نے تشکر سے انہیں دیکھا۔
’’کتنا مزا آیا شاپنگ مال میں آج۔‘‘ ماریہ نے فرش پر رکھے سامان کی طرف دیکھا۔
’’دل چاہ رہا تھا کچھ وقت اور گزارتے۔‘‘ سعدیہ نے جوابی ٹکڑا لگایا۔
افشاں نے مسکراتے ہوئے ایک گلاس اٹھایا اور یخ مشروب کی چسکیاں لینے لگی۔ پھر پنکھے کے عین نیچے کرسی گھسیٹ کر تقریباً خود کو گرا لیا۔ ٹانگیں اوپر کرکے پنجے اور پنڈلیاں آہستہ آہستہ دبانے لگی۔ درد کی ٹیسیں دھیرے دھیرے کم ہونے لگی تھیں۔ سب نے چونک کر دیکھا۔ عمر مشہور جوس پیکٹ چھوڑ کر آگے بڑھا مگر افشاں نے ارادہ بھانپ کر اُس کے ہاتھوں کو پیر چھونے سے پہلے ہی اپنے ہاتھوں میں تھام لیا۔
’’امی! آپ تھک گئی ہیں، مجھے دبانے دیں۔‘‘
’’ہاں بھئی عمر کا تقاضا ہے۔‘‘ فرید صاحب نے مسکراتے ہوئے چوٹ کی۔
عورت تعلیم یافتہ ہو یا کم پڑھی لکھی، آسودہ ہو یا تنگ دست… عمر کا طعنہ مشکل سے ہی برداشت کرتی ہے۔ افشاں نے غور سے شوہر کو دیکھا، ان کے بڑھے ہوئے پیٹ کو نگاہوں میں تولا، گنج پن کو پرکھا اور پھر حق سے زیادہ بدلہ یہ کہہ کر چکا دیا ’’ارے بھئی! آپ نے چربی پگھلانے اور بال اُگانے کے ٹانک یاد سے لے لیے، یا چٹخارے دار مسالوں اور شام کے خستہ ناشتوں میں بھول گئے؟‘‘ فرید صاحب نے زور دار قہقہہ لگایا۔
’’مزا آگیا، کیا کراری نمکین پیشکش ہے، کسی بھی مشہور باورچی سے بڑھ کر۔‘‘ بچے بھی ماں باپ کی نوک جھونک سے لطف اندوز ہونے لگے۔
’’امی جی بتائوں! ابو اُس سیلز گرل سے مشورے بھی لے رہے تھے۔‘‘ اظہر نے شرارت سے آنکھیں گھمائیں۔
’’امی! ماریہ نے ٹوئن پیک لیا ہے، میچنگ نیل پالش، لپ اسٹک سیل سے۔‘‘ سعدیہ نے پنسل جیسی باریک پیکنگ لہرائی۔ ’’اس قدر خوب صورت نئے رنگ ہیں۔‘‘
’’کیا…؟‘‘ سب کے منہ حیرت سے کھلے کے کھلے رہ گئے۔ ’’اسکول میں تو اجازت نہیں ہے۔‘‘ عمر بے صبری سے بول اٹھا۔
’’ارے! تو کبھی کبھی شام میں اور ویک اینڈ پارٹی پر کیا حرج ہے؟‘‘ ماریہ نے سوچا ہوا جواب بڑھا دیا۔
’’ہفتے اور اتوار کے بعد پانچ دن اسکول لگتا ہے!‘‘ افشاں نے جواب دیا۔ ماریہ اور سعدیہ کا چہرہ فق ہونے میں ایک سیکنڈ بھی نہ لگا تھا۔
’’کوئی بات نہیں، ابو اور بھیا کی پرفیوم ہے ناں… حساب برابر۔‘‘ ماریہ نے عمر کے تمتماتے چہرے کو دیکھا۔
’’ہرگز نہیں! خبردار جو ان خوب صورت خوشبودار بوتلوں کو بری نیت سے دیکھا بھی…‘‘ عمر چلّایا۔
’’چلو کوئی اور ٹوٹکا سوچتے ہیں۔‘‘ سعدیہ نے مصالحانہ انداز اپنایا۔
’’ہاں ہاں! مٹی کا تیل ہے موٹر کی صفائی کے لیے‘‘۔ عمر نے بہنوں کو جلایا۔
’’اُف! یہ بچوں کی نوک جھونک کتنی ٹھنڈک اتار دیتی ہے ماں باپ کے دل میں۔‘‘ افشاں نے سوچا۔ ’’ہمارے گھر میں زندگی کا ثبوت یہ ہر روز کی جھڑپیں ہی تو ہیں۔‘‘
’’میں بل دیکھ لوں، پندرہ ہزار کیش اور پانچ کریڈٹ کارڈ پر۔‘‘ فرید صاحب نے موبائل فون اٹھایا تو فوراً اسکرین سے نظریں اٹھا کر کہا ’’چلو بچو! جلدی سامان سمیٹو! بڑی پھپھو آنے والی ہیں تھوڑی دیر میں، ہما آپی اور اُن کے بچے بھی ساتھ ہیں۔ فون سائلنٹ پر تھا اب دیکھا ہے۔‘‘
’’ارے… ارے!‘‘ سب سے بلند آواز افشاں کی تھی‘ ہڑبڑاہٹ میں ’’ٹشو پیپر، صابن، ہینڈ واش اور الم غلم جو تم لوگ لائے ہو، سب کو اسٹور میں رکھو اور دالیں، مسالے، تیل، چاول باورچی خانے میں۔‘‘ افشاں نے شکایتی نگاہ فرید صاحب پر ڈالی جو اچانک اعلان پر بھی پُرسکون نظر آرہے تھے۔
’’آرام سے بھئی…‘‘ ان کے الفاظ تو انداز سے بڑھ کر تھے۔ افشاں کے لیے صبر کا گھونٹ پینے کے سوا چارہ ہی نہ تھا۔
’’بریانی کے چاول نہ ملا دینا روز پکنے والے میں۔‘‘ اس نے اپنی آواز پر قابو پانے کی بھرپور کوشش کی مگر سعدیہ کو پانچ کلو کی خوب صورت پیکنگ میں چاول کا تھیلا گھسیٹتے دیکھ کر اس سے رہا نہ گیا۔
’’اوں ہوں… یہ وہ روزمرہ والے چاول ہی ہیں۔‘‘ فرید صاحب نے نفی میں سر ہلایا ’’بس پیکنگ پر زور ہے اور قیمت میں زبردست اضافہ۔‘‘ انہوں نے مزید وضاحت کردی۔ ’’میں سوچ رہا ہوں صدیق کو بول دوں کہ ساہیوال سے لیتا آئے۔‘‘
سعدیہ ٹھٹھک گئی ’’کیا کروں امی جلدی بتائیں؟‘‘
کئی بار پلکیں جھپکنے کے بعد افشاں صدمے کی حالت سے نکلی ’’مہمان آنے کو ہیں، بریانی کیسے بنے؟‘‘ عمر اور اظہر کے سامان اٹھاتے ہاتھ بھی رک گئے۔
’’ٹھیرو! ویسے ہم اتنے بڑے سپر اسٹور سے لینے کیا گئے تھے؟ شاید بریانی کے چاول، اچھے والے چاول۔ اور وہی رہ گئے اور لے کر کیا آئے؟ یہ سودا۔‘‘
بڑا سا شاپنگ بیگ ان کی آنکھوں کے سامنے گھوم گیا جو چھوٹے بڑے پندرہ سے زائد شاپرز سمیت سب کا منہ چڑا رہا تھا۔

حصہ