کاش

387

طوبیٰ احسن
زنیرہ دونوں گھٹنوں کے گرد ہاتھ لپیٹ کر سر جھکائے بیٹھی تھی۔ ’’کیا سوچ رہی ہو؟‘‘ فریال اس کے پاس آبیٹھی۔
’’کچھ نہیں…‘‘ زنیرہ نے سر اٹھایا، آنکھوں میں آنسو چمک رہے تھے۔
’’زنیرہ کیا ہوگیا ہے؟‘‘ فریال تشویش سے اس کی طرف دیکھنے لگی۔
’’کچھ نہیں…‘‘ زنیرہ نے آنسوئوں کو پیچھے دھکیلا اور زبردستی مسکرائی۔ ’’میرے سر میں شدید درد ہونے لگا اسی لیے اندر آگئی۔‘‘
’’ٹھیک ہے…‘‘ فریال نے مسکرا کر کہا۔ ’’چلو پھر کھانا کھاتے ہیں۔‘‘
’’کھانا…؟ مجھے بالکل بھوک نہیں، تم جائو۔‘‘
’’اچھا پھر میں بھی نہیں کھائوں گی۔‘‘ فریال اطمینان سے بیٹھ گئی۔
زنیرہ کو بھی اٹھنا پڑا۔ آج بڑے چچا کی بیٹی وریشہ کی منگنی تھی، چونکہ ان کے بڑے بھائی فاروق کا لان خاصا بڑا تھا جہاں منگنی کی تقریب اچھے طریقے سے کی جاسکتی تھی، اس لیے انہوں نے یہاں پر تقریب کے انتظامات کیے تھے۔ تقریب جاری تھی کہ زنیرہ کا دل ڈوبنے لگا۔ ماضی میں رونما ہونے والے واقعات ایک فلم کی طرح اس کی آنکھوں کے سامنے گردش کرنے لگے۔ سر میں یکایک شدید درد اٹھا اور وہ اپنے کمرے میں آگئی۔
فریال کے کہنے سے وہ باہر لان میں آگئی۔ رسم ہوچکی تھی، اب کھانا کھایا جارہا تھا۔ وہ تھوڑے سے چاول نکال کر بیٹھ گئی اور بے دلی سے چمچہ گھمانے لگی۔ سامنے دولہا، دلہن اسٹیج پر بیٹھے تھے۔ دولہا عمر نے وریشہ کے کان میں شاید کچھ کہا تھا۔ وریشہ مسکرا رہی تھی۔ ویٹر آ، جا رہے تھے۔ لڑکے اور لڑکیاں گروپ کی شکل میں باتیں کررہے تھے۔ زنیرہ نے کپڑوں کے ہم رنگ اسکارف سے اچھی طرح سر ڈھانپا ہوا تھا اور دوپٹہ پوری طرح سے پھیلا کر اوڑھا ہوا تھا۔ کم از کم وہ اپنے ماضی کو فراموش نہیں کرسکتی تھی۔ ماضی میں گزرے واقعات نے اس کو حجاب کی اہمیت اور ضرورت کا احساس دلایا تھا۔ اس نے کرسی سے ٹیک لگا لی اور اپنا منہ اس طرح پھیر لیا کہ بے پردگی سے بچ سکے۔
سب مہمان جا چکے تھے۔ مما، ماسی کے ساتھ مل کر لان سمٹوا رہی تھیں۔ وہ بھی ان کی مدد کرنے لگی۔ رات کے تین بج چکے تھے۔
’’بس اب رہنے دو، باقی کل ہوجائے گا۔‘‘ زنیرہ کے پپا فاروق احمد بھی لان میں چلے آئے۔ زنیرہ اپنے کمرے میں آگئی۔ رات گہری ہوچکی تھی۔ مما، پپا اپنے کمرے میں سوچکے تھے اور زنیرہ چپ چاپ بسر پر لیٹی تھی۔ جسم تھکن سے چُور لیکن نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ ماضی اس کی آنکھوں کے سامنے چکرا رہا تھا۔

یادِ ماضی عذاب ہے یارب!۔
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا

وہ زیر لب بڑبڑائی اور اٹھ کر بیٹھ گئی۔ اس کو اپنی منگنی کی تقریب یاد آئی، جب وہ اسی طرح دلہن بنی بیٹھی تھی اور عزیر احمد نے اس کو انگوٹھی پہنائی تھی۔ اس کی میٹھی میٹھی سرگوشیاں، پیار بھرے جملے اور والہانہ نظریں۔ وہ تو بار بار اپنے نصیب پر ناز کرتی رہتی۔ منگنی اور شادی کے درمیان اس کی بے تابیاں اور چاہتیں عروج پر تھیں۔ روز فون پر بات ہوتی اور زنیرہ، عزیر احمد کی محبت پر خوشی سے پھولے نہ سماتی تھی۔ شادی والی رات وہ نظر لگنے کی حد تک خوب صورت لگ رہی تھی جب عزیر نے اس کو اپنے دوست سے ملوایا ’’یہ میرا دوست نہیں بلکہ میرا بھائی ہے۔ بچپن سے ہم دونوں ساتھ ہیں اسکول، کالج، یونیورسٹی میں بھی، بلکہ اب ہم بزنس پارٹنر بھی ہیں۔‘‘
دلہن بنی زنیرہ نے ایک لمحے کے لیے سر اٹھایا تو سامنے موجود شخصیت کو اپنی جانب گہری نظروں سے دیکھتا پاکر نگاہیں جھکا دیں۔ وہ سخت بے اطمینانی محسوس کررہی تھی، وہ کسی کی گہری اور اندر تک کھب جانے والی نظروں کے حصار میں تھی، اس کو گھبراہٹ سی ہونے لگی۔
’’ارے یار! کیا دیکھ رہا ہے؟‘‘ عزیر نے قہقہہ لگایا۔
’’میں تمہاری قسمت پر رشک کررہا ہوں۔‘‘ دوسری آواز سن کر وہ اپنے آپ میں سمٹ سی گئی۔ وہ دونوں باتیں کررہے تھے اور زنیرہ کو سخت برا محسوس ہورہا تھا۔ عزیر کا قریبی اور گہرا دوست اس کو ذرا بھی اچھا نہ لگا تھا۔
آگے کی زندگی مشکل اور مسائل سے بھرپور ثابت ہوئی۔ عزیر کا ہر وقت اپنے دوست شہباز کو گھر لے آنا، شہباز کا زنیرہ کو گہری اور بے باک نگاہوں سے گھورنا… زنیرہ، شہباز کی موجودگی میں خود کو اپنے ہی گھر میں غیر محفوظ سمجھتی۔
عزیر ویسے بہت سمجھ دار تھا لیکن اپنے دوست پر غیر معمولی اعتبار اور بھروسے نے اسے دوست کی طرف سے سخت بے پروا بنادیا تھا۔ عزیر کی شہباز سے دوستی اور وابستگی اتنی گہری اور پرانی تھی کہ زنیرہ، عزیر کو کچھ کہتے ہوئے ڈرتی تھی۔ منگنی اور شادی کے درمیانی عرصے میں تو شہباز شہر سے باہر تھا اسی لیے ملاقات نہیں ہوپائی اور کچھ اندازہ بھی نہ ہوسکا۔
ویسے تو شہباز نے بظاہر زنیرہ کو کبھی کچھ نہیں کہا، لیکن نگاہیں بہت کچھ کہہ جاتی تھیں جن سے زنیرہ گھبرا جاتی۔ نہ جانے کیوں کسی انہونی کا احساس اس کو عجیب سی کیفیت میں گھیرے رکھتا تھا۔
ایک دن زنیرہ اپنے گھر میں اکیلی تھی اور شہباز کی آمد اس کی چھٹی حس کو خطرے کا احساس دلا رہی تھی۔
’’عزیر تو گھر پر نہیں ہیں۔‘‘ زنیرہ نے دروازہ بند کرنا چاہا۔
’’مجھے معلوم ہے‘‘ وہ مسکرایا۔ ’’ایک فائل لینی ہے، عزیر گھر پر ہی چھوڑ گیا ہے۔‘‘
’’اوہ…‘‘ زنیرہ چپ چاپ اندر چلی آئی، اس کو فائل لا کر دی۔
’’شکریہ خوب صورت خاتون، آپ کو دیکھتا ہوں تو عزیر کی قسمت پر رشک آتا ہے۔ کاش…‘‘ اس نے سرد آہ بھری اور زنیرہ کی آنکھوں میں دیکھ کر مسکرایا۔
’’شٹ اَپ…‘‘ زنیرہ غصے سے کپکپانے لگی۔ ’’آپ ہوش میں تو ہیں! دفع ہوجائیں میرے گھر سے۔‘‘
’’ایسی بھی کیا جلدی ہے…؟‘‘ وہ ہلکے سے ہنسا۔ ’’بہت مشکل سے آپ سے اکیلے میں گفتگو کا موقع ملا ہے۔‘‘
’’میں ابھی عزیر کو فون کرتی ہوں۔‘‘
’’اوکے… اوکے، میں چلتا ہوں۔‘‘
وہ جا چکا تھا لیکن زنیرہ سخت پریشان تھی۔ ’’میں عزیر کو سب کچھ بتادوں گی۔‘‘ اس نے دل میں سوچا، لیکن ہوا اس کے الٹ۔ عزیر گھر آیا تو سخت غصے میں اس پر برس پڑا:
’’تم نے شہباز سے بدتمیزی کی، اس کو صحیح طریقے سے بٹھایا نہیں…‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ عزیر کا غصہ تھا کہ اترتا ہی نہ تھا۔ زنیرہ نے عزیر کو قائل کرنے اور اپنی بات سمجھانے کی کوشش کی، لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا۔ زنیرہ سخت بے بسی محسوس کررہی تھی۔
دوسرے دن عزیر نے شہباز کو کھانے پر بلا لیا۔ ’’تم اس سے اچھے طریقے سے پیش آنا، یار! وہ میرا دوست ہی نہیں بلکہ بزنس پارٹنر بھی ہے، اس سے بناکر رکھنا میری مجبوری ہے، تم خود سوچو اس کے سوا میرا کون ہے…! والدین انتقال کرچکے ہیں، بہنیں دوسرے شہروں میں ہیں، بھائی کوئی ہے نہیں، ایک دوست ہے اُس سے بھی اگر ناتا توڑ لوں گا تو بتائو پھر کیا کروں گا؟ کسی مشکل وقت میں یہی دوست ہے جو میرا مددگار ہوگا۔‘‘ وہ زنیرہ کو رسان سے سمجھا رہا تھا اور زنیرہ پر خاموشی طاری تھی۔
’’اکلوتا دوست اور وہ بھی آستین کا سانپ۔‘‘ اس کے جانے کے بعد وہ بڑبڑائی۔
شہباز کی ہمت بڑھتی جارہی تھی۔ ذومعنی گفتگو، معنی خیز اشارے، دوستی کی خواہش، اکیلے ملنے کی آرزو، عزیر کا اپنے دوست پر اندھا اعتماد… یہ سب مل کر زنیرہ کی زندگی کو تباہی کی طرف لے جارہے تھے۔ زندگی کی نائو ایک خوفناک طوفان میں پھنس چکی تھی جس سے نکلنے کا کوئی راستہ سُجھائی نہیں دیتا تھا۔
ایک دن شہباز نے عزیر کی غیر موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے زنیرہ پر حملہ کرنے کی کوشش کی۔ زنیرہ پوری طرح تیار تھی، اس نے بھرپور دفاع کیا۔ وہ دن آخری دن تھا زنیرہ کا عزیر کے گھر میں۔ اس کے بعد سے وہ ممی پاپا کے گھر تھی اور عزیر آج بھی اپنے دوست کے خلاف کچھ سننے اور سمجھنے کو تیار نہ تھا۔ آج زنیرہ یہ سوچ رہی تھی کہ کاش حجاب زندگی میں ہوتا تو ایسا نہ ہوتا۔

تھیٹر

ہما بیگ

چلو اک چاند کا منظر اٹھائیں
لہو کو روح کے اندر سمائیں
درِ بہزاد تو اٹھتا نہیں ہے
درِ مانی کو لے جاکر دکھائیں
یہ دنیا غم کے ساحل سے گزر کر
نہ جانے کیوں ستاروں پہ کھڑی ہے
بہت بے خوف ہوتی جارہی ہوں
کبھی یوں سر کے بل چلنا تو سیکھو
تمہیں کیا ہوگیا ہے ٹھیک تو ہے
یہ سب کیا لکھ رہی ہو ہما بیگ
تم کیوں اکثر پوچھتے ہو
تمہیں معلوم ہے میں ہوں لکھاری
میں وہ کچھ لکھ رہی ہوں جو ابھی تک
سنا ہے اور نہ دیکھا ہے کسی نے
بتا دوں تم کو…
تم ناراض ہو گے
میں اب تھیٹر کی خاطر لکھ رہی ہوں
وہ تھیٹر جو ہماری زندگی ہے
وہ سب کچھ جو یہاں ممکن نہیں ہے
سراسر جھوٹ کا اوڑھے لبادہ
یہ ممکن ہی نہیںسچ بات لکھیں
یہی دنیا ہماری چاہتی ہے
یہاں میں بھی وہی سب لکھ رہی ہوں
میں ایسے معاشرے میں رہ رہی ہوں
یہ تھیٹر مجھ کو روزی دے رہا ہے
مجھے دنیا میں عزت دے رہا ہے
یہاں سچ کی کوئی قیمت نہیں ہے
یہ دنیا ہے سراسر اک تھیٹر

حصہ