لاہوت کے مسافر

2251

سیدہ عنبرین عالم

لاکھ علم کے جلوے ہوں آپ کے ہاں
ایک بھی کلیم نہیں، ایک بھی خلیل نہیں

ہم اپنی مادّی دنیا سے واقف ہیں، جہاں ہر چیز کی ایک طبعی عمر ہے، اس کے بعد وہ چیز ٹوٹ جاتی ہے، سڑ جاتی ہے یا مر جاتی ہے۔ مر کر کہاں جاتی ہے؟ اس کا کوئی شعوری مظاہرہ ہماری نظروں سے نہیں گزرتا۔ اس دنیا کے برعکس ایک دنیا کا تذکرہ ہمیں انبیاء اور الہامی کتابوں کے ذریعے ملتا ہے، یہ وہ دنیا ہے جو ہمیشہ قائم رہے گی۔ جہاں زوال نہیں۔ جہاں بھوک، بیماری نہیں۔ اسے روحانی دنیا کہتے ہیں، جس سے آخرکار ہمارا واسطہ پڑنا ہی ہے۔ ہر شخص کو اس کے اعمال کے مطابق ماحول فراہم کیا جائے گا۔ قرآن میں اس کے تین درجے ہیں:
’’جب زمین کو زبردست جھٹکا دیا جائے گا، جب پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائیں گے، یہاں تک کہ بکھرا ہوا غبار بن جائیں گے، اُس وقت تم تین گروہوں میں بٹ جائو گے۔ دائیں طرف والے، بھلا کون ہیں یہ دائیں طرف والے (نیک لوگ)، اور بائیں طرف والے، بھلا کون ہیں بائیں طرف والے (بد لوگ)، اور آگے بڑھنے والے، جو آگے ہی آگے ہیں (یعنی انتہائی متقی)۔ انہوں نے قرب حاصل کرلیا۔‘‘ (سورہ واقعہ)
ہمارے ہاں ظلم یہ ہوا کہ اگر قرآن میں بھی ’’قرابت کی محبت‘‘ کا ذکر آیا تو ہم نے اسے رشتے داروں کی محبت بنا دیا، ہم کبھی اپنی امت کو اپنے اللہ سے قرابت کی محبت نہ سکھا سکے تاکہ ہم بھی قرب حاصل کرنے والے بن جائیں۔ رسولؐ سے عشق روایت ہے، علیؓ و حسینؓ کے نام پہ نعرے لگتے ہیں، مہینے منائے جاتے ہیں، مگر ’’اللہ سے محبت‘‘ کا طریقہ خاصا اجنبی اور غیر عملی سمجھا جاتا تھا اور ہے۔ یہی زوال کا سبب ہے۔ ہم توحید کے قائل ہی نہیں۔ بہرحال موضوع کی طرف آتے ہیں۔ صوفیہ بھی چار قسم کے جہاں بیان کرتے ہیں (1) عالم ناسوت: گناہ گاروں کی دنیا، (2) عالم جبروت: نیک لوگوں کی دنیا، (3) عالم ملکوت: کارکنانِ عالَم کی دنیا، (4) عالم لاہوت: جہاں پاک رب کا تخت ہے۔ یہ دنیائیں قیامت کے بعد کی نہیں، یہ دنیائیں ہمیشہ سے ہیں اور ہمیشہ رہیں گی۔ مادّی دنیا پرچھائیں ہیں اصل دنیا کی، ہماری روحیں لوٹ کر اصل دنیا میں جائیں گی، بلکہ ہم خواب میں بھی اصل دنیا کا چکر لگاکر آجاتے ہیں۔ اور جو عشق کی بلندی سے قرابت حاصل کرلیں اُن کی روحیں عالمِ لاہوت تک بھی جاسکتی ہیں، جیسے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سفرِ معراج۔
جب حضرت علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں:۔

اے طائرِ لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی

تو وہ اسی عالمِ لاہوت کا ذکر کرتے ہیں، یعنی مومن کی اصل منزل عالمِ لاہوت ہے۔ ہر وہ شخص جو پیارے نبیؐ کی راہ پر چلے گا، وہ عالمِ لاہوت کا مسافر ہے، جیسے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم عالمِ لاہوت پہنچے، ہر وہ شخص پہنچے گا جو عشق میں فنا ہوگیا۔ عالمِ ملکوت ہماری منزل نہیں کیوں کہ ہم تو مسجودالملائک ہیں، ہم کیوں ٹھیریں گے عالمِ ملکوت میں! ہم نائبِ الٰہی ہیں، ہماری منزل وہ ہے جو اللہ کا عالم ہے، یعنی عالمِ لاہوتی۔ اس عالم تک پہچنے میں جو مشکلات ہیں وہ انبیاء کی زندگی سے عیاں ہیں، ان مشکلات کو سر کرنے میں سب سے بڑی مشکل رزق و وسائل کی فراہمی ہے، جس کا علامہ اقبال ذکر کرتے ہیں، پھر وہ وقت بھی ہے کہ پیٹ پر پتھر باندھنے پڑتے ہیں، اور جو اس منزل سے گزر جائے تو قیصر و کسریٰ بھی قدموں میں، اور عالمِ لاہوت سے حکم ہوکر عشرۂ مبشرہ بھی بن سکتے ہیں، یعنی لاہوت بھی ہاتھ میں۔
اصلی دنیا روح کی دنیا ہے، جہاں سے ہماری روح دنیا میں اپنا امتحان دینے آتی ہے اور پھر واپس وہیں چلی جاتی ہے۔ اصل دنیا سے ہمارا رابطہ مادّی دنیا میں رہتے ہوئے بھی قائم ہوسکتا ہے، جیسے سچے خواب آنا، غیر مرئی آوازوں کے ذریعے کسی مسئلے کا حل، یا مستقبل میں پیش آنے والے واقعے کی نشاندہی۔ یا جو بے حد نیک لوگ ہوتے ہیں جیسے انبیاء اور صدیقین، انہیں اس اصل دنیا کے مناظر بھی دکھا دیے جاتے ہیں۔ اس روحانی دنیا کا ادراک اور پیش قدمی اسی صورت میں ہوسکتی ہے جب آپ کی روح شفاف اور توانا ہو۔ اور روح کی یہ طاقت مادّی دنیا میں رہتے ہوئے ہی حاصل ہوسکتی ہے بشرطیکہ آپ توازن رکھیں۔ اسلام توازن کا دین ہے۔ بدھ مت، ہندو مت اور دیگر مذاہب میں روح کی توانائی حاصل کرنے کے لیے مادّی دنیا کے تمام لوازم سے کنارہ کشی کا طریقہ ہے، ان طریقوں میں روح کی دنیا سے رابطہ و مراسم تو ہوجاتے ہیں مگر روح کی دنیا کے شیطانی حصوں سے… جی ہاں، اس غلط فہمی میں مت رہیے گا کہ روح کی دنیا محض الٰہی طاقتوں کا منبع ہے۔ یہاں شیطانی قوتیں بھی براجمان ہیں، جو مادّی دنیا میں جاری انسانی امتحان میں برابر اپنا حصہ ڈالتی ہیں۔ بعض اوقات آپ کے ساتھ ایسا ہوتا ہوگا کہ دل نور نور محسوس ہوتا ہوگا، عبادت میں دل لگتا ہوگا، اللہ سے محبت و اطاعت کا جذبہ پیدا ہوتا ہوگا… اور بعض اوقات اچانک ہی بے وجہ دل عبادت سے اچاٹ ہوجاتا ہوگا، اذان تک سے دل کو الجھن ہوتی ہوگی، توبہ تلافی کے باوجود دل کی کیفیت انتہائی برائی کی طرف راغب ہوتی ہوگی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اصل دنیا میں موجود الٰہی قوتوں اور شیطانی قوتوں کا میدانِ جنگ آپ کا دل ہے اور دونوں آپ کے دل کو اپنی طرف کھینچ رہے ہیں۔
آج کل کے انسان شیطان کی طرف زیادہ راغب ہیں، اس لیے کالا جادو اور ایسی سائنسی ایجادات آرہی ہیں جو امتحان میں انسان کو ناکام کرنے کا ذریعہ بن رہی ہیں۔ یہ سب روح کی دنیا کے شیطانی حصے سے بہت مضبوط انسانی تعلقات کا نتیجہ ہیں، وہیں سے خیالات وارد ہورہے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ الٰہی حصے کی کاوش کیوں اس قدر کمزور ہے کہ مادّی دنیا پر شیطان ہی غالب آگئے ہیں؟ اس کی وجہ وہی ہے جو مضمون کی ابتدا میں بیان کی گئی، عشقِ الٰہی انسانوں میں رواج پا ہی نہیں رہا۔ جب تک عشقِ الٰہی نہیں ہوگا، روح کی تازگی اور توانائی نہیں ہوگی، اس کے بغیر روح کی دنیا کے الٰہی حصے سے کسی تعاون کا آنا ممکن نہیں۔ عشق روح پرور ہو تو فرشتے بھی اتر آتے ہیں، بدر بھی ہوجاتی ہے اور مکہ کی فتح بھی ممکن ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ ابتدائے اسلام میں اس قدر علم کا غلبہ تھا کہ تمام دنیا کے قائد مسلم عالم اور سائنس دان تھے، اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ عشق کے اعلیٰ مرتبوں پر فائز تھے، روح کی اصل دنیا کے الٰہی حصے سے منسلک تھے، ان کے ذہن میں جو خیالات آتے تھے وہ مبارک تھے، ان کی ایجادات نسلِ انسانی کو فیضان پہنچاتی تھیں، نقصان نہیں۔ اقبال کا بڑا مشہور مصرع ہے ’’نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں‘‘ ایسا کیوں؟ ایسی کیا طاقت ہے مردِ مومن میں؟ تقدیریں تو اللہ رب العزت کے ہاتھ میں ہیں، پھر مومن تقدیریں بدلنے پر کیسے قادر ہے؟ اس لیے کہ اس کا رابطہ روح کی دنیا سے ہے، وہاں سے اسے معلومات حاصل ہوتی ہیں، ان کے مطابق وہ منصوبہ بندی کرتا ہے، عالمِ ملکوت سے اس کی مدد کے لیے فرشتے اترتے ہیں، اور جہاں تقدیریں لکھتی جاتی ہیں، یعنی عالم لاہوت، وہاں بھی اس کی رسائی ہے۔

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

’’خودی‘‘ کیا ہے؟ خودی کا لفظ ’’خود‘‘ سے نکلا ہے، خود یعنی ’’میں‘‘۔ میں کون ہوں؟ کیا میں مٹی کا وہ جسم ہوں جسے دفنا دیا جائے گا، جسے کیڑے کھا لیں گے؟ یا میں وہ ہوں جو پاک ہے ہر مادّی غلاظت سے، اور اپنے رب کی طرف پرواز کرجائوں گی، اپنی پاکی اور غیر مادیت کے ساتھ… جی ہاں میری اصل میری روح ہے۔ روح کیا ہے؟ روح اللہ کی شان ہے، اللہ کے وجود کا وہ حصہ ہے جو ہر زندہ شے کو زندگی اور حرارت بخشتا ہے۔ کبھی اسے پھونک کہا گیا۔ مگر یہ اللہ کی ذات کا حصہ ہے۔ اللہ ہی تمام کائنات کا نور اور زندگی ہے، ہر زندہ شے اللہ کی پھونک کی مرہونِ منت ہے۔ یہ روح اُس وقت طاقتور اور بلند ہوگی جب اِس کو اِس کی اصل سے نشوونما دی جائے۔ روح کی اصل اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات ہے، تو آپ اپنی روح کو اللہ کے جتنا قریب اور تابع رکھیں گے، روح اتنی ہی طاقتور اور بلند ہوگی۔ جزو کو کُل سے جوڑ کر رکھو، یہ ہے لاہوت تک رسائی، یہ ہے خودی، یہ ہے مومن، جو پورے عالم پر خالی پیٹ فتح حاصل کرلیتے تھے، جنہیں لوگ ’’جن‘‘ کہتے تھے، وہ پیٹ پر پتھر باندھ کر ایسی قوتوں کے مالک تھے۔ جس کی اصل دنیا یعنی روح کی دنیا پر حکومت ہوگی، وہی مادّی دنیا پر قابض ہوگا۔
میرے اللہ نے سب کچھ بنایا، وہ دیکھنا چاہتا تھا کہ اب اس تمام مخلوق میں سے کون اس سے زیادہ محبت کرتا ہے۔ اس نے سوال کیا: کون نائب بنے گا؟ آسمان اور زمین تک ڈر کر انکار کربیٹھے کہ عشق کی بازی کھیلنا کوئی آسان کام نہیں۔ انسان نے ہامی بھری۔ پھر وہ انسان ہی ہے جو نوح کی صورت 950 سال اللہ کا عشق پھیلانے کی کوشش کرتا ہے، وہ انسان ہی ہے جو ابراہیم کی صورت اپنا عشق ثابت کرنے آگ میں کود پڑتا ہے، وہ انسان ہی ہے جو عیسیٰ بن کر عشق ثابت کرتا ہے اور سولی چڑھ جاتا ہے۔ کیا کیا بیان کروں، عشق کی داستانیں بیان کرنے کے لیے تو ایک علیحدہ کتاب تصنیف کرنی پڑے گی۔ یہ عاشق ہی ہیں جو لاہوت کے مسافر ہیں، جن کے لیے آگ گلزار ہوتی ہے اور نیل کٹ کر دو ٹکڑے ہوجاتا ہے، یعنی محبت کا جواب محبت سے۔ وہ جو کہتے ہیں کہ ’’دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی‘‘ پھر آخرت کے دعوے الگ۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے ایک باپ اور بچے کی محبت۔ بچے کو تو صرف ایک ٹافی نظر آتی ہے، جو باپ نے اسے دے دی، اور وہ اس کے بدلے باپ کا گال چوم کر محبت کا حق ادا کردیتا ہے، مگر باپ کی نظر سے دیکھیے تو وہ صرف ٹافی نہیں دے رہا، وہ بچے کو رہنے کو گھر دے رہا ہے، کھانا، کپڑا، تعلیم، تربیت سب دے رہا ہے۔ بچے کی نظر میں اس سب کی اہمیت نہیں ہے، اُس کو صرف ٹافی سے خوشی ملتی ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ میرے عشق میں میرے لیے کیا کیا کررہا ہے، کس کس طرح میری زندگی کو ممکن بنارہا ہے، میرے لیے ہدایت کا انتظام کررہا ہے، یہ سب مجھے نظر نہیں آرہا ہے۔ عشق کے جلوے چاروں طرف بکھرے ہوئے ہیں، مجھے عشق کی سمجھ ہی نہیں ہے۔ مجھے صرف وہ مہنگا موبائل فون نظر آرہا ہے جو اوروںکو نصیب نہیں، اللہ نے مجھے دلا دیا ہے اور میں بس دو سجدے شکر کے کرکے فارغ ہوجاتی ہوں۔ یہ ہے کیڑے کا عشق، اور وہ ہے رب کا بہت بڑا عشق۔ ہم کچھ بھی کرلیں، ہم وہ عشق نہیں کرسکتے جو عشق لاہوت کے مکین نے ہم سے کیا ہے، اس کا کوئی مول نہیں۔
اچھا، ایک الگ پیرائے میں اسی بات کو دیکھیے۔ ایک قمقمہ ہے جسے رنگین شیشوں سے بنایا گیا ہے، خوب سائنسی ترقیاں اس میں لاگو کی گئیں، لیکن وہ روشنی نہیں دیتا کیوں کہ اس میں بجلی ہی نہیں آرہی۔ اس کے برعکس ایک معمولی سا بلب ہے، عام سے کانچ کا بنا ہوا، مگر خوب روشنی دیتا ہے، کیوں کہ اس میں بجلی آرہی ہے۔ یہی منطق لے لیجیے میرا اللہ ایک مرکز ہے، جو اس مرکز سے جڑا ہوا ہے وہ لاکھ مصائب، کسمپرسی اور شدید بیماری میں بھی ہمت سے کھڑا رہے گا، کیوں کہ اس کی روح کو مرکز سے توانائی بہم دستیاب ہے یہ نمونہ ہمیں انبیاء کی آلام بھری زندگیوں میں بہ خوبی نظر آتا ہے۔ اس کے برعکس وہ لوگ جو ہر نعمت سے بہرہ مند ہیں، وہ مایوس اور خوف زدہ رہتے ہیں، ان کا دل بجھا رہتا ہے، یہاں تک کہ بڑے بڑے رئیس اپنا خاتمہ خودکشی سے کرلیتے ہیں، کیوں کہ وہ مرکز سے رابطے میں نہیں ہیں، روح کو عرصے سے توانائی مل ہی نہیں رہی۔ روح جب کچرے میں تبدیل ہوگئی تو وہ جسم کو زندہ کیسے رکھے گی! آپ جتنی چاہے ترقی کرلیں، جتنی عقلی دلیلیں لے آئیں مجھ جیسے جاہل کو آپ یہ نہیں سمجھا سکتے کہ روح کیا ہے، کہاں سے آئی ہے، کہاںجاتی ہے۔ آخرکار آپ کو وہی روح کی دنیا، عالمِ لاہوت اور اللہ کو مرکز ماننے والی دلیلوں کو قبول کرنا پڑے گا، یہی سب اللہ کے رسول سمجھاتے رہے، اور پھر ایک وقت آئے گا کہ یہ مادّی دنیا بالکل ختم ہوجائے گی اور صرف روح کی دنیا بچے گی، جہاں مختلف طبقات ہیں۔ ہم اپنے اعمال کے مطابق انصاف کے ساتھ اپنے درجے میں رہیں گے۔
یہ ایک مختلف موضوع ہے، بہت سے قارئین اس میں دل چسپی محسوس نہیں کریں گے، مگر یہ سچ ہے اور اسے جتنی جلدی تسلیم کرلیا جائے نسلِ انسانی کے لیے اتنا ہی بہتر ہے۔ ہم اللہ رب العزت کے نائب ہیں، ایمان کا آخری دور ہے، شیطان عجلت میں ہے اور کامیاب ہے، اب بھی آنکھیں نہ کھلیں تو پھر مزید مہلت نہیں۔ میرا للہ ہم سب کو ہدایت دے۔

حصہ