عصری علوم اور درسِ نظامی کی مشترکہ تعلیم میں توازن رکھنا ایک مشکل کام تھا

905

شہادۃ العالمیہ سال ثانی میں پاکستان بھر میں اول پوزیشن حاصل کرنے والی کہکشاں بنت راجہ شبیر سے ملاقات

عائشہ برجیس

تری خودی میں اگر انقلاب ہو پیدا
عجب نہیں ہے کہ یہ چارسو بدل جائے

علم دین کے سیکھنے کو فرض قرار دیا گیا ہے اور علم سیکھنے اور سکھانے والے گروہ کو سب سے بہتر اس بات کے پیش نظرجامعات المحصنات پاکستان کے تحت ملک بھر میں ۱۹ جامعات بہترین معاشرے کے قیام کے لئے ایسی مسلمان طالبات تیار کر رہی ہیں جو دینی و عصری علوم سے آراستہ ہوں اور اپنے دائرہ کار میں مثالی خاتون کا کردار پیش کر سکیں ۔اس کام کا آغاز ۱۹۹۰سے شروع ہوا ۔ہر سال کئی طالبات مختلف جامعات سے فارغ ہوتی ہیں اور وقتا فوقتا مختلف مقامات پر پوزیشنز لیتی رہی ہیںآج ہم آپ کو جس طالبہ سے متعارف کروارہے ہیں وہ جامعۃ المحصنات کراچی کی فارغ التحصیل ہیں اور انہوں نے الحَمْدُ ِللہ رابطۃ المدارس پاکستان کے منعقدہ امتحان ۲۱۰۹ کے تحت شہادۃ العالمیّہ سالِ ثانی میں پاکستان بھر میں اول پوزیشن حاصل کی ہے۔اس اعزاز پر انہیں وزیراعظم عمرآن خان کی طرف سے شیلڈ سے نوازا گیا۔
سوال:آپ کا نام اور تعارف؟
جواب:کہکشاں بنتِ راجہ شبیر۔ہم پانچ بہن بھائی ہیں۔۔ تین بہنیں اور دو بھائی۔میں تیسرے نمبر پرہوں۔ میرے والد صاحب منڈی میں کاروبار کرتے ہیں اور ایک سماجی فرد ہونے کے ساتھ رکنِ جماعت بھی ہیں۔امی گھریلو خاتون ہیں۔میں نے ابتدائی تعلیم روضۃ الاطفال کراچی سے حاصل کی،پھر گورنمنٹ اسکول سے میٹرک کیااور اب عثمان پبلک اسکول کیمپس ۲۹ میں معلِّمہ کے فرائض سر انجام دے رہی ہوں۔میرا آبائی تعلق گاں کوٹلی،تحصیل دھیرکوٹ اور ضلع باغ آزاد کشمیر سے ہے۔گلشنِ معمار کراچی کی رہائشی ہوں۔۔
سوال:اپنی موجودہ کامیابی کی تفصیل بتائیے؟
جواب:الحَمْدُ ِللہ رابطۃ المدارس پاکستان کے منعقدہ امتحان رجب۲۰۱۹ے تحت شہادۃ العالمیّہ سالِ ثانی میں پاکستان بھر میں اول پوزیشن حاصل کی ہے۔ جس پر وزیرِ اعظم عمران خان کی طرف سے شیلڈ بھی ملی ہے۔اس سے قبل سال۲۱۰۸ میں سالِ اول میں دوم پوزیشن لی تھی۔۔
سوال:جامعۃالمحصنات میں داخلہ کے لیے کیا جذبہ محرک بنا؟
جواب:ہمارا گھر شروع سے ہی دینی جماعت سے وابستہ ہے۔۔ ابو کی خواہش ہے کہ میری بچیاں داعی دین بن جائیں۔بس اسی داعی دین کے عملی کردار میں ڈھلنے کی تڑپ جامعہ میں داخلہ کا سبب بنی اور دوسری وجہ میری بڑی بہن عفت شبیر تھی جو کہ پہلے سے ہی جامعہ میں زیرِ تعلیم تھیں ان کی سرگرمیاں دیکھ کے دل میں احساس پیدا ہوا۔
سوال:جامعۃ المحصنات سے کہاں تک تعلیم حاصل کی؟
جواب:جامعۃ المحصنات سے ۲۰۱۳ میں انٹر اور خاصہ کیا۔ ۲۰۱۵میں شہادۃ العالیہ کے ساتھ کراچی یونیورسٹی سے گریجویشن کیا۔
والد صاحب کی علالت کی بنأ پر پڑھائی کا سلسلہ موقوف کردیا اور البیرونی اسکول میں معلمہ کے فرائض سر انجام یے۔ سال ۲۰۱۸میں دوبارہ پڑھائی کا آغاز کیا اور ۲۰۱۹میں شہادۃ العالمیہ کے ساتھ کراچی یونیورسٹی سے ایم_اے اسلامک اسٹڈیز مکمل کیا اور اسی دوران علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے بی_ایڈ بھی کیا۔
سوال:عصری علوم او ردرسِ نظامی کی مشترکہ تعلیم میں کن مشکلات کا سامنا ہوا اور ان مسائل کو کیسے حل کیا؟
جواب:عصری اور درسِ نظامی کی مشترکہ تعلیم میں سب سے مشکل وقت اور کاموں کے درمیان توازن رکھنا ہے اس کے علاوہ امتحانات کے دوران ایک ہی دن میں مدرسہ اور یونیورسٹی کے پیپر دینا بھی مشکل مرحلہ تھا۔۔ایک سال میں ڈے اسکالر بھی رہی ہوں جس کی وجہ سے مجھے ۲سے۳گھنٹوں کا سفر بھی کرنا پڑتا تھا۔اس سفر کو درسِ حدیث کے لئے مختص کر رکھا تھا۔والدین کی طبیعت کی ناسازی کی وجہ سے ۲سال تک جامعہ کو خیر باد بھی کہا لیکن جب رب کی نصرت ساتھ ہو تو مشکلات ، مشکلات نہیں رہتیں بس ان کا سامنا کرنے کے لئے رب پر کامل یقین اور توکل رکھنا ضروری ہے۔۔
سوال:آپ کے مشاغل کیا ہیں؟
جواب: مطالعہ کتب، کوکنگ اورپڑھنا۔۔پڑھانا میرے دلچسپ مشغلے ہیں۔۔۔اب تک جن کتب کا مطالعہ کیا ان میں صحاح ستہ،الرحیق المختوم،محمد عربیﷺ،تذکارِ صحابیات،مذاہب کا تقابلی مطالعہ مولانا مودوددی کی مکتوبات میںخطبات ،تنقیحات،اور پردہ سر فہرست ہیں ۔افشاں نوید کی نوید فکر اور دیگر مضامین۔ڈاکٹر احمد غازی کی محاضرات۔صادق حسین صدیقی صاحب کی طارق بن زیاد اور خالد بن ولید پر لکھی کتابیں شامل ہیں ۔
جسارت سنڈے میگزین۔۔۔آپ کی پڑھائی کے معمولات کیا تھے؟
جواب:صبح اساتذہ کی کلاس کے علاوہ اسڈی ٹائم، سفر اور آرام کے وقت کا بھی بھرپور استعمال کیا۔عصری علوم کے لئے کلاس اور ورکشاپس بھی لی ہیں۔
سوال:کامیابی حاصل کرنے کے بعد کیا تاثرات ہیں اور اپنی کامیابی کا کریڈٹ کس کو دیں گی؟
جواب:

مجھ نا چیز سے میرے اِلٰہ
تیری حمد و ثنأ ہو کیسے بیاں

سب سے پہلے میں اللہ رب العزت کی شکر گزار ہوں جس نے مجھ ناچیز کو یہ اعزاز بخشا جو کہ نا صرف میرے لیے بلکہ میرے والدین ،اساتذہ ، جامعہ سے وابستہ افراد اور کشمیر کی دھرتی کے لو گوں کے لئے بھی فخر کا باعث ہے۔اللہ کی مدد اور تعاون کے بعد یہ والدین کی دعائوں اور قربانیوں کا نتیجہ ہے۔۔امی نے ہر لمحہ میرے لئے دعا کی ہے اور ابو کی Support کے بغیر میں کچھ بھی نہیں۔انہوں نے مجھے آگے بڑھنے کا حوصلہ دیا اور میرے ساتھ مضبوط چٹان کی مانندکھڑے رہے۔میرے شفیق اساتذہ کہ جنہوں نے مجھ ناچیز کو علم کے وسیع سمندر سے سیراب کیا۔۔۔اور علمی و عملی راہوں کو روشن کیا۔معلمہ آمنہ جن کی ڈانٹ اور اصلاح نے مجھے ذمہ دار فرد ہونے کا احساس دلایا۔۔معلمہ تہمینہ جنہوں نے تخلیقی و تحریری صلاحیتوں میں معاونت کے ساتھ ساتھ زندگی میں کچھ بننے کی راہ دکھائی۔
معلمہ صائمہ بدر جن کی شخصیت نے عملی کردار میں ڈھلنے کی ترغیب دی اور معلمہ شجیعہ جنہوں نے مجھے اعتماد کی دولت سے مالا مال کیا اور ہر لمحہ بہنوں کی طرح رہنمائی کی۔۔۔
میں ان سب کی مشکور ہوں،ایسے لوگ قابلِ تعریف قابلِ تحسین اور قابلِ فخر ہوتے ہیں کہ جن کی کوششوں اور کاوشوں سے انسان اپنی منزل کے قریب پہنچتا ہے۔۔استاد صاحبان کہ جنہوں نے دورہ حدیث کے کٹھن مرحلے میں رہنما ئی کی اور ذہن کے بند دریچوں کو منور کیا۔
اور ان سب میں میری ہنستی اور کھلکھلاتی ہم جماعت ساتھی جنہوں نے ہر لڑکھڑاتے قدم پر میری مثبت رہنمائی فرمائی۔
سوال:جامعہ کی تعلیم عملی زندگی میں کس طرح معاون ثابت ہوئی؟
جواب:جامعہ نے مقصدِ زندگی کے ساتھ شعور کی دولت بھی عطا کی اور عملی زندگی کے ہر میدان میںتعلیم فائدہ مند ثابت ہوئی۔ وقت کی پابندی کے ساتھ پردے کی پابندی بھی سکھائی۔اور جامعہ ہی کی بدولت تحریری و تقریری صلاحیتوں میں اضافہ ہوااور جامعہ میں رہتے ہوئے سخت اور خوشگوار دونوں طرح کے رویوں سے سیکھنے کو ملا جس کی وجہ سے آج صبر و تحمل مزاج کا خاصا ہے۔
سوال:جامعہ سے وابستہ کوئی دلچسپ یاد؟
جواب:جامعہ میں گزرا ہوا ہر لمحہ ہی میرے لیے دلچسپ یاد ہے۔۔۔۔چاہے وہ اساتذہ کی ڈانٹ اور شفقت ہو۔۔۔آنٹیوں کا پیار ہو یا طالبات کی شرارتیں۔۔۔گیم ٹائم اور اجتماعی ترانے بھی جامعہ کی دلچسپ یاد ہیں۔
سوال:اپنی کامیابی پر دیگر طالبات یا گھر والوں کو کیا پیغام دینا چاہیں گی۔۔؟

وقت نے کی ہیں دہری دہری خدمتیں تیرے سپرد
خود تڑپنا ہی نہیں اوروں کو تڑپانا بھی ہے

طالبات کے نام یہ پیغام دوں گی کہ
دینی تعلیم کے حصول کے لیے اپنی نیتوں کو خالص کر لیں۔اساتذہ کے لیکچرز کو قلم بند کرنے کا اہتمام ضرور کر لیا کریں۔ اور مثبت سوچ و فکر کو پروان چڑھایں۔اور سب سے بڑھ کر اللّہ رب العزت کو اپنا محبوب بنا لیں۔۔گو کہ اس آیت کی عملی تفسیر بن جایں۔
قُل اِنَّ صَلَاتیِ وَ نُسُکِی وَ مَحیَایَ
وَ مَماتِی ِللّٰہِ َربِّ العٰلَمِینَ۔۔۔۔(الانعام۱۶۶)
(کہو میری نماز،میرے تمام مراسم عبودیت،میرا جینا اور میرا
مرنا سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے)
اور دیگر والدین سے یہ کہوں گی کہ
ہر معاملے میں اپنی اولاد کو سپورٹ کریں اور فکری و نظری نشونما کے ساتھ روحانی و اخلاقی تربیت بھی کریں۔

حصہ