شادی کو آسان کیسے بنایا جائے

1709

انیلہ افضال
اسلام بڑا پیارا دین ہے۔ یہ اس قدر خوب صورت نظام زندگی ہے کہ اس میں ایک بھی چیز ایسی نہیں جو انسانی فطرت پر گراں گزرے۔ اسلامی نظام معاشرت میں نکاح کو بہت اہمیت حاصل ہے کیونکہ یہ عفت و عصمت کی حفاظت اور نسل انسانی کی بقا کا ذریعہ ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے نکاح کی ترغیب دلائی ہے۔ نکاح محض سنت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہیں بلکہ بعض حالات و معاملات میں یہ فرض اور واجب کی حیثیت اختیار کر لیتا ہے۔ اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے تکمیل ایمان کا حصہ قرار دیا ہے اور بلا وجہ نکاح سے احتراز کرنے والے سے دوٹوک تعلق قطع کیا ہے۔
نکاح ایک ایسا مقدس فریضہ ہے کہ جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ دو اجنبی نفسوں کے درمیان اس قدر محبت پیدا فرما دیتے ہیں کہ اگر ساری کائنات مل کر بھی اتنی محبت پیدا نہیں کر سکتی۔ اسی محبت کے باعث بیوی شوہر کے لیے محبت اور سکون واطمینان کا باعث بنتی ہے اور اسی سکون واطمینان اور محبت و راحت کے باعث شوہر اپنے تمام تر دنیاوی اور دینی فرائض بخوشی ادا کر کے نشاط اور مسرت حاصل کرتا ہے۔ نکاح کے ذریعے عورت کو چادر اور چار دیواری کا تحفظ حاصل ہوتا ہے۔ جس کے اندر رہتے ہوئے بیوی اپنی عزت و آبرو اور شوہر کے مال ومتاع کے حفاظت کرتی ہے اور اپنے بچوں کی بہترین تربیت کرتی ہے۔
یہ وہ طرز معاشرت ہے جس کی بنیاد احکام الٰہی پر استوار ہے۔ جہاں عفت و پاک دامنی اور امن و آشتی پروان چڑھتی ہے۔ اس کے برعکس ابلیسی نظام ہے۔ جس کے تحت فحاشی و عریانی کی اشاعت، غیر شرعی رسوم رواجات کی ترویج، مساوت مردو زن اور آزادی نسواں کے نام پر نکاح کو مشکل اور زنا و بے حیاء کو آسان تر بنا دیا گیا ہے۔حتی کہ یہاں تک کہہ دیا جاتا ہے ’’نادان ہے وہ جو محبت کا مندر تعمیر کر کے اس میں ایک ہی بت کا پجاری بن کر بیٹھ جاتا ہے، لطف کی ہر گھڑی میں نئے مہمان کا انتخاب کرنا چاہے‘‘۔ ایسے حالات میں اہل اسلام کا فرض ہے کہ وہ ایسا لائحہ عمل اپنائیں جس کے ذریعے زنا کا خاتمہ ہو اور نکاح آسان ہو سکے اور اس کا واحد طریقہ یہی ہے کہ نکاح اسلامی تعلیمات کے مطابق کیا جائے۔
یاد رہے کہ جنسی خواہش تمام خواہشات میں سے سب سے زیادہ شدید ہوتی ہے اور صاحب خواہش سے تقاضا کرتی ہے کہ اس کی تکمیل کے لیے کوئی راہ نکالے اور اگر کوئی راہ میسر نہ ہو تو یہ خواہش اسے اٹھا کر گناہ اور بدکاری کے اندھیروں میں پھینک دیتی ہے۔ اس خواہش کی تکمیل کا بہترین اور فطری ذریعہ صرف اور صرف شادی ہی ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس مہنگائی اور نفسا نفسی کے دورمیں شادی کرنا بھی کہاں آسان رہ گیا ہے۔ اول تو خاندانی نسب اور جاہ و حشمت اول تو رشتہ طے ہونے ہی نہیں دیتی اور اگر کسی نہ کسی طرح رشتہ طے ہو بھی جائے تو شادی پر اٹھنے والے اخراجات عفریت بن کر سر پر سوار ہو جاتے ہیں۔
سورۃ النساء میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’جو عورتیں تمہیں پسند ہوں ان سے نکاح کرو‘‘۔ اس میں کہیں بھی اللہ تعالیٰ نے اسراف کا عندیہ نہیں دیا۔ شادی کو آسان بنانے کے لیے سب سے پہلے تو ہمیں دور جاہلیت کی بیہودہ اور فرسودہ رسومات سے جان چھڑانا ہو گی۔ دھوم دھام سے کی جانے والی منگنی، مہندیاں، اور باراتیں آسان شادی کی راہ میں سب سے بڑی روکاوٹ ہیں۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اگر لڑکے والوں کی طرف سے جہیز کے نام پر لڑکی والوں کو لوٹا جاتا ہے اور لڑکے کی عزت و غیرت کا سودا کیا جاتا ہے وہیں مہر کے معاملے میں لڑکی والے بھی کسی قسم کی رعایت برتنے کو تیار نہیں ہوتے۔ مہر کی کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ مقدار کے حوالے سے علماء میں کسی حد تک اختلاف پایا جاتا ہے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان بھی قابل ذکر ہے ’’عورتوں کا مہر بہت زیادہ نہ کرو کیونکہ اگر یہ دنیا میں عزت اور اللہ کے ہاں تقویٰ کا باعث ہوتا تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تم میں سے اس کے سب سے زیادہ حقدار ہیں‘‘۔
ولیمہ کے لیے جاہ و حشمت کے دکھاوے کی قطعاً ضرورت نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عبدالرحمن بن عوف سے فرمایا ’’ولیمہ کرو خواہ ایک بکری کے ساتھ‘‘۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے اگر طاقت نہ ہو تو بے جا بوجھ لینے کے بجائے مختصر کھانے سے بھی ولیمہ کیا جا سکتا ہے۔ لیکن وائے افسوس! آج کل جو ابلیسی رسومات و رواجات شادی کے دیگر معاملات میں عمل کرنے سے رہ جاتے ہیں ان کی رہی سہی کسر دعوت ولیمہ میں پوری کر دی جاتی ہے۔ بے جا اخراجات کے ساتھ فضول سجاوٹ، بے شمار رنگ برنگ کھانوں، حتی کہ ناچ گانے تک کا بھی بندوبست کیا جاتا ہے۔ ایسے میں لاکھوں روپے بازاری لوگوں کی نظر کر دیے جاتے ہیں۔ روپے کے ساتھ ساتھ وقت اور ملکی وسائل کا بھی ضیاع کیا جاتا ہے۔
شادی جیسی حرمت والے معاملے کو اللہ کے احکامات اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کے مطابق انجام دیا جائے تو معاشرے کو بہت بڑے بگاڑ سے بچایا جا سکتا ہے۔ آیے عہد کریں کہ نکاح کو آسان بنا کر بدکاری کی بیخ کنی کے لیے عمل طور پر اقدامات کریں گے۔ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔

حصہ