ابن انشاء (1927ء تا 1978ء)۔

3916

یاسمین سلطانہ فاروقی

انشاء جی ہے نام انہی کا، چاہو تو ان سے ملوائیں؟
ان کی روح دہکتا لاوا، ہم تو ان کے پاس نہ جائیں!۔
یہ جو لوگ بنوں میں پھرتے، جوگی بے راگی کہلائیں
ان کے ہاتھ ادب سے چُومیں، ان کے آگے سیس نوائیں

ابن انشاء نے اپنی خود نوشت ڈائری میں اپنی پیدائش کے بارے میں لکھا:
پیدائش ضلع جالندھر (مشرقی پنجاب) کے ایک دیہاتی کاشتکار گھرانے میں ہوئی۔ اس گھرانے میں تعلیم نہیں تھی۔ فقط والد صاحب نے چوتھی جماعت تک پڑھا تھا پیدائشی نام شیر محمد ہے جو کہ راجپوت ہونے کے ناطے شیر محمد خان ہوگیا تھا۔ پیدائش کی قطعی تاریخ معلوم نہیں۔ دیسی تاریخوں کا جو حساب معلوم ہوا ہے۔ اس سے ہاڑ کی سنکرانت یعنی اساڑھ مہینے کی پہلی تاریخ کا دن ۱۵جون۱۹۲۷ء معلوم ہوتا ہے۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کے میٹرک سرٹیفکیٹ میں ان کی تاریخ پیدائش ۴جنوری ۱۹۲۴ء ہے۔
ابن انشاء اپنے والدین کی پہلی اولاد تھے۔ سات بہن بھائی۔ جن میں چار بہنیں اور ان سمیت تین بھائی تھے۔ ان کی غلط تاریخ پیدائش کی وجہ سے انھیں افسوس بھی رہتا تھا کہ جب ۱۹۴۲ء میں انھوں نے میٹرک پاس کیا تو وہ تقریباً اٹھارہ سال کے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ مجھے دوچیزوں نے نقصان پہنچایا۔ ’’ایک میٹرک کے امتحان میں لکھی ہوئی میری زیادہ عمر اور دوسرے اوائل عمر کی میری شادی نے۔‘‘ ان کا پہلا شعری مجموعہ چاند نگر ۱۹۵۵ء میں شائع ہوا۔ ابن انشاء نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں کے اسکول سے حاصل کی۔وہ اپنی والدہ کے بہت چہیتے تھے اور وہ بھی والدہ کو بے پناہ چاہتے تھے۔ انھیں اپنی والدہ سے ایسی محبت تھی کہ وہ زندگی بھر اس کے حصار سے آزادنہ ہوسکے اور ان کی شادی شدہ زندگی بھی اس کی نذر ہوگئی، ان کی پہلی شادی ۱۹۴۱ ء میں خود سے چند سال بڑی لڑکی عزیزہ بی بی سے ہوئی۔ جن سے ان کے تین بچے تھے۔ ایک بیٹی اور دو بیٹے، ان کے بیٹے انوار کا بچپن میں انتقال ہوگیا تھا۔ ابن انشاء نے اپنی شادی شدہ زندگی کے دس سال بیوی کے ساتھ گزارے اور اس کے بعد علیحدگی اختیار کر لی۔ ان کی دوسری شادی والد کے انتقال کے بعد ۱۹۶۹ء میں ان کی والدہ کے اصرار پر ڈاکٹرعفت قدرت اللہ شہاب نے کروائی۔ دوسری بیوی ’’شکیلہ بیگم‘‘ ایک معزز کشمیری خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔ اس بیوی سے ان کے دو بچے سعدی اور رومی پیداہوئے۔
ابن انشاء ایک موذی مرض (Hodgtirdisease) خون کا سرطان میں مبتلا ہوگئے تھے اور ان کی صحت تیزی سے گرتی جارہی تھی۔ ۱۹۷۶ء میں وہ ٹوکیو جاپان گئے اور وہاں بھی ان کا علاج ہوا مگر افاقہ نہ ہوا اور وہ مایوسی میں مبتلا ہوتے چلے گئے، اسی ذہنی کیفیت میں ۲۹ نومبر کو انھوں نے اپنی شہرہ ٔ آفاق نظم لکھی:۔

اب عمر کی نقدی ختم ہوئی
اب ہم کو ادھار کی حاجت ہے
ہے کوئی جو ساہو کار بنے؟
ہے کوئی جو دیون ہار بنے؟
کچھ سال، مہینے، دن لوگو!
پر سود بیاج کے بن لوگو؟
ہاں اپنی جاں کے خزانے سے
ہاں عمر کے توشہ خانے سے
جب نام ادھار کا آیا ہے
کیوں سب نے سر کو جھکایا ہے؟
ہم مانگتے نہیں ہزار برس
دس پانچ برس، دوچار برس!
آسان بنے دشوار بنے
پر کوئی تو دیون ہار بنے؟
ہم بیٹھے ہیں کشکول لیے
سب عمر کی نقدی ختم کیے

ابن انشاء نیشنل بک سینٹر کے قیام (۱۹۶۲ء )کے وقت سے ہی اس کے سیکریٹری پھر ڈائریکٹربنے۔ آخری زمانہ انھوں نے بہت شدید بیماری اور کرب کی حالت میں گزارا۔ بالآخر ۱۱جنوری ۱۹۷۸ء کو یہ عالمی شہرت یافتہ شاعر، نثرنگار، ادیب، کالم نویس، طنز نگار، لندن کے ایک اسپتال میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملا:۔
اب کوئی آئے تو کہنا کہ مسافر تو گیا۔
ابن انشاء نے نثر کی ابتدا کتابوں پہ تبصرے، ادبی ڈائری، ادبی رپورٹس وغیرہ لکھنے سے کی اور کالم نگاری بعد میں اختیار کی۔ ’’امروز‘‘ جب کراچی سے شائع ہونا شروع ہوا تو اس میں ابن انشاء نے کالم لکھنا شروع کیے اور تقریباً دس سال تک حاجی بابا اصفہانی، درویش مشقی، پہلا درویش کے قلمی نام سے لکھتے رہے۔ ’’امروز‘‘ میں چہار درویش کے نام سے کبھی قاضی ابرار، کبھی نصراللہ خان اور کبھی ابن انشاء بھی کالم لکھا کرتے تھے۔ ۱۹۶۵ء میں ’’باتیں انشاء جی کی‘‘ کے عنوان سے ’’انجام‘‘ میں ’’آپ سے کیا پردہ‘‘ کے نام سے کالم نویسی کی۔ ۱۹۶۷ء میں اخبار جہاں کے اجرا کے بعد سے ’’باتیں انشاء جی کی‘‘ کے عنوان سے کالم لکھے جو کہ دراصل ان کے ’’سفری کالم ‘‘ تھے۔ ۱۹۶۳ء میں ’’حریت‘‘ میں ان کا ایران کے سفر کا احوال کالموں کی صورت میں چھپا، ۱۹۶۴ء سری لنکا کے سفر کا حال ’’انجام‘‘ میں کالموں کی شکل میں شائع ہوا۔ جنگ میں کالم نگاری کا آغاز ۱۹۶۶ء سے کیا۔ ان کے کالم کا عنوان تھا ’’دخل در معقولات‘‘ اور جنگ میں ہی ’’آوارہ گرد کی ڈائری سے‘‘ کے عنوان سے سفری کالم بھی دوران سفر لکھ کے بھیجا کرتے تھے۔ یہ سلسلہ ان کی وفات تک چلتا رہا۔
’’دنیا گول ہے‘‘، ’’اردو کی آخری کتاب‘‘، ’’خمار گندم‘‘، ’’آپ سے کیا پردہ‘‘، ’’نگری نگری پھرامسافر‘‘، ’’آوارہ گردی کی ڈائری سے‘‘، ’’چلتے ہو تو چین کو چلیے‘‘، ’’ابن بطوطہ کے تعاقب میں‘‘ ان کی تصنیفات ہیں۔
ابن انشاء کے سفرنامے ہی دراصل فکاہیہ کالموں کی صورت میں اخباروں میں شائع ہوا کرتے تھے اور ابن انشاء اپنے ان سفرناموں پر مبنی کالموں کو سفری کالم کہا کرتے تھے۔ ابن انشاء جیسے برجستہ مزاح نگار صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ ان کا مزاح فطری مزاح تھا۔ ان کے کالم عام سفرنامہ نگاروں کی طرح خشک حقائق نہیں ہوا کرتے تھے بلکہ وہ ان تمام چیزوں، مناظر اور افراد کو جن سے وہ ملتے اور جنھیں دیکھتے تھے ایک الگ ہی انداز سے دنیا کو ملواتے اور اس طرح دکھاتے کہ پڑھنے والا تا دیر مسکراتا ہی رہ جاتا ہے۔ ان کی حقیقت پسندی اور نظر ہر موضوع پر ہوتی۔ معاشرتی ناہمواریوں پر جو طنز ابن انشا کا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ ان کے جملے، فقرے اور ان کو برتنے کا سلیقہ، سفری کالموں میں ان کی فطری حسِ مزاح، شوخی، شگفتگی، رمز و کنایہ، ظرافت، تحریف کے ساتھ ساتھ مزاحیہ صورت حال، برمحل اشعار، اکثر فارسی اشعار، ہندی الفاظ، محاورے، تشبیہیں اور ضرب الامثال بھی ملتے ہیں۔ انھیں زبان پر مکمل عبور تھا اور سب سے اہم بات ان کا بروقت موقع محل کے لحاظ سے الفاظ کا درست استعمال تھا، وہ لفظوں کے موتی پروتے تھے، الفاظ ان کی تحریروں میں نگینے کی طرح جڑے ہوتے۔ انشاء جی ایک بھرپور لکھاری تھے۔ اپنے قاری سے کہیں تو قہقہے لگوادیتے تھے اور کہیں وہ ان کے کالم پڑھ کر چیخ چیخ کر رونے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ یہ ان کی تحریر کا کمال تھا۔ ان کے اندر سچائی اور کھرا پن تھا۔
ایک مثال ملاحظہ فرمائیے۔
’’دنیا گول ہے‘‘ کے باب ’’فلپائن‘‘ میں ہوٹلوں، کھانے، مہنگائی اور قیمتوں میں ہیر پھیر پر جو ظرافت کے ساتھ طنز کیا گیا ہے۔ ملاحظہ ہو:
کوشش یہی کی کہ کوئی گھاس پات کھانے کو مل جائے۔ مٹر ہوں یا بین Beans وغیرہ۔ مرغ سے ہمارا جی یوں اٹھ گیا کہ ایک روز چاول اور مرغ کی کری یعنی شور بے دار سالن کا آرڈر دیا تھا۔ آج تک اس کی زرد رنگت اور لجلجے پن کو یاد کرکے جی متلاتا ہے۔ تفریح کے شوق میں ایک روز مقامی اسٹائل کے کیفے میں بھی چلے گئے جہاں آئینے کے اوپر ہر چیز کی قیمت لکھی رہتی ہے۔ عین مین ایرانی ہوٹل کا سا نقشہ ہے اور بیرے پانی کا گلاس انگلیاں ڈبو کر لاتے ہیں اور لوگ کھانا کھا کر ہڈیاں فرش پر پھینکتے ہیں۔ شکل بھی ہوٹل والے کی ایرانی سی تھی۔ بنیان پہنے کھڑا تھا۔ ہم نے کوکاکولا تو وہاں ضرورپیا اور کچھ کھانے کو جی نہ چاہا۔ بعض نیم تاریک ریستورانوں میں تنہا جاتے ہوئے بھی جی گھبراتا ہے۔
ایک اور جگہ ہمارے ناقص تعلیمی نظام پر طنز ملاحظہ فرمائیے۔
’’ہم پھر مہمان خصوصی بنے‘‘
خود کو مہمان خصوصی بنتے ہم نے ایک بار دیکھا تھا۔ دوسری بار دیکھنے کی ہوس تھی۔ اب ہم ہر روز بالوں میں کنگھا کرکے اور ٹائی لگا کر بیٹھنے لگے کہ ہے کوئی اندھا محتاج جو دے سخی کو دعوت نامہ بلائے اسے صدارت کے لیے۔ اپنے دوستوں سے بھی باتوں باتوں میں ہم نے بہت کہا کہ ہم خالی ہیں اور خدمت ِقوم کے لیے تن من دھن سے حاضر ہیں۔ کوئی یونیورسٹی یا کالج یا اسکول ہماری بستودہ صفات سے اپنے جلسے کی رونق بڑھانا چاہے تو ہم بخوشی اس کے لیے اپنی مصروفیات میں سے وقت نکال لیں گے۔ ایک جگہ سے دعوت نامہ آیا۔ اسپوٹنک انگلش اسکول گولیمار کے پرنسپل صاحب نے ہم سے استدعا کی کہ آپ ہمارے ہاں مہمان خصوصی بن کر آئیں۔ اور اسکول کو اپنی جیب خاص سے کم از کم پانچ سو روپیہ عطیہ دیں توہم بہت ممنون ہوں گے ہم نے کہا ہم ہیں تو بہت مصروف لیکن آپ کی خاطر آجائیں گے اور پانچ سو تو خیر زیادہ ہیں دوسوروپے اسکول کو دیں گے تاکہ ہمارے ملک میں تعلیم کی ترقی ہو۔ ہم ایسے نیک کاموں کی سرپرستی نہ کریں گے تو اور کون کرے گا؟ ایسا لگتا ہے کہ ان صاحبوں کو اس سے زیادہ عطیہ دینے والا کوئی اور نہ ملا لہٰذا معاملہ پٹ گیا اور ہم نے اپنی شیروانی ڈرائی کلین ہونے کے لیے بھجوادی۔
ابن انشاء تحریف سے بھی اکثر و بیشتر کام لیتے نظر آتے ہیں۔ مثلاً اپنے کالم ’’یونیورسٹی میں شعبہ ٔ حماقت کھل گیا‘‘ میں لکھتے ہیں: (جاری ہے)

حصہ