۔”ارطغرل” اور پاکستانی میڈیا

548

راحیلہ چوہدری
دسمبر 2014کو ترکی کے سرکاری ٹی وی پر نشر ہونے والا ڈرامہ سیریل ’’ارطغرل غازی‘‘ اس وقت عالمی شہرت حاصل کر چکا ہے۔ ڈیریلش ارطغرل 5سیزنز پر مشتمل ترکی کی تاریخ کا سب سے زیادہ دیکھا جانے والا ڈرامہ ہے ۔یہ ڈرامہ 60سے زائد ٹی وی چینلز پر دکھایا جا رہا ہے ۔اب تک دنیا کے 78مما لک میں یہ سیریز دیکھی جا رہی ہے جس میں مستقل اضافہ ہو رہا ہے ۔ تاریخ کے ان عظیم کرداروں کو محمدبزداغ نے بطور مصنف اور اسکرین رائٹر بڑی مہارت اور شان سے زندہ کیا ہے ۔ہمت و جرات کی اس عظیم الشان داستان میں دکھایا گیا ہے کہ چرواہوں کا یہ خانہ بدوش قبیلہ جو جاڑے کے بے رحم موسم میں قحط سے بچنے کے لیے حلب کے امیر سے ایک زرخیز چراگاہ میں قیام پذیر ہونے کی اجازت مانگ رہا ہوتا ہے پھر آگے چل کر ایک ایسی سلطنت کی بنیاد رکھ دیتا ہے جو آٹھ سو سال قائم رہتی ہے ۔
چرواہوں کا یہ جنگجوقائی قبیلہ ایک عظیم الشان سلطنت کی بنیاد کیسے رکھتا ہے اس غیر معمولی جدو جہد کی داستان کا نام ’’ارطغرل‘‘ ہے ۔یہ ڈرامہ اپنی نوعیت میں ایک شاہکار ہے ۔اس ڈرامے کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ ڈرامہ مسلمانوں پر مسلط کردہ احساس ِکمتری کا طلسم کدہ توڑ کر پھینک دیتا ہے ۔اس ڈرامے کی دوسری خوبی یہ ہے کہ تھوڑے سے خانہ بدوش چرواہے کس طرح دین کی طاقت اور اسلام کی حفاظت کرنے سے سپر پاور بن جاتے ہیں ۔
2017میں نیو یارک ٹائمز میں ولیم آرمسڑانگ نے لکھا کہ طیب اردغان اور ترکی کی نفسیات جاننے کے لیے ’’ارطغرل‘‘ ڈرامہ دیکھ لیجئے ۔اس بیان نے ایک پروپیگنڈے کی شکل اختیار کر لی اور بیان کے جواب میں طیب اردغان نے صرف ایک فقرہ بولاکہ’’ جب تک شیر اپنی تاریخ خود نہیں لکھیں گے ۔تب تک شکاری ہی ہیرو بنے رہیں گے۔ ‘‘
طیب اردغان کا یہ جملہ پاکستانی میڈیااور اسکرین رائٹرز کے لیے بڑا توجہ طلب ہے ۔کسی بھی ملک کا میڈیا معاشرے کی اصلاح میں اہم کردار ادا کرتاہے ۔میڈیا جو کچھ بھی دکھاتا ہے لوگوں کی زندگیوں پر اس کے بہت گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔

حصہ