منفی رویے اور ان کا سدباب

544

شہلا رضا
شام کی چائے ہو اور بسکٹ، چپس اور باقر خانی نہ ہو، یہ تو قطعی ممکن نہیں۔ ان سب لوازمات کی عادت ہوجائے تو عدم دستیابی سے اضطراب اور بے کلی چھا جاتی ہے، ان کے بغیر چائے کی پیالی تو جیسے ویران چمن دکھائی دیتی ہے، اور سہانی شام بھی دلِ مضطرب کو قرار نہیں دے پاتی۔ ایسا ہی کچھ ہمارے ساتھ ہوا جب بچوں کے ششماہی امتحانات کی گہماگہمی میں پتا ہی نہ چلا کہ کب باورچی خانے میں پڑی برنیوں میں چائے ناشتے کا سامان ختم ہوا۔ لہٰذا چائے کی کیتلی کو دَم پر رکھا اور بیٹی کو دھیان رکھنے کا کہہ کر قریبی بیکری سے یہ لوازمات لینے نکلے۔ چند گز کے فاصلے پر ہی ایک معیاری بیکری موجود ہے جہاں صبح شام رش لگا رہتا ہے۔ ہم سے پہلے بہت سی خواتین اور مرد موجود تھے جو سامان کے کائونٹر پر کھڑے تھے اور اپنی باری آنے پر مطلوبہ اشیا لے رہے تھے۔ ہم بھی انتظار کرنے لگے کہ پہلے آنے والے افراد ختم ہوں تو ہماری باری بھی آئے۔ تقریباً دس سے پندرہ منٹ کے بعد ہماری باری آنے کو ہی تھی کہ مین گیٹ سے ایک شخص تیزی سے داخل ہوا اور سیدھا بیکری کائونٹر پر جا پہنچا اور بغیر کسی تامل کے قدرے بلند آواز میں اپنی مطلوبہ اشیا مانگنے لگا۔ اُس کی اس حرکت پر سب اس کی طرف متوجہ ہوگئے، کیوں کہ اس کے آنے سے پہلے سب تہذیب اور طریقے سے اپنی باری پر سامان لے رہے تھے۔
خیر تو جناب اس شخص نے انتہائی بے صبری کا مظاہرہ کرتے ہوئے بیکری کے ملازم کو جلدی سے سامان دینے کو کہا اور ساتھ ساتھ انہیں ہدایات بھی دیتا جا رہا تھا ’’او بھائی! بسکٹ تازہ اور خستہ دیجیو، پچھلی بار جو بسکٹ تم نے دیے تھے وہ تازہ نہیں تھے، ہم تو اس علاقے کے پرانے رہائشی ہیں، ہم ہی رہ گئے تھے چونا لگانے کو!‘‘ اور بھی نہ جانے کون کون سے تبصرے بیکری پر کیے جارہا تھا۔
بیکری کا مالک اس اچانک افتاد سے گھبرا گیا اور اپنے ملازم کو اس کے آرڈر کی تعمیل جلدی کرنے کو کہا۔
المختصر، اس شخص نے ہوشیاری سے اپنی چرب زبانی کی بدولت بغیر انتظار کی زحمت اٹھائے خریداری کی، اور یہ جا وہ جا۔ اس کے جانے کے بعد سب ناراضی کا اظہار کرنے لگے، کیوں کہ سب وہیں کے وہیں کھڑے رہ گئے اور ان کے بعد آنے والا سامان لے کر چلا بھی گیا۔
میں نے بیکری کے مالک سے کہا کہ ’’بھائی یہ کیا طریقہ ہے! ہم سب انتظار کررہے تھے اور آپ نے اس شخص کے شور مچانے اور رعب دکھانے پر متاثر ہوکر فوراً سامان دے دیا۔ یہاں پر بہت سے گاہک کھڑے ہیں جن میں خواتین بھی ہیں جو بچوں کے ساتھ اپنی باری کا انتظار کررہی ہیں۔‘‘
میری اس بات پر اس نے کہا ’’باجی ہر کوئی آپ جیسا نہیں ہوتا، اس ٹائپ کے منہ پھٹ لوگ بھی آتے ہیں جو دوسروں کو بے زار کردیتے ہیں، اسی لیے میں نے اسے جلدی نمٹانے کو کہا، کیوں کہ سب کو اپنی عزت پیاری ہوتی ہے، اگر وہ زیادہ دیر بیکری میں رہتا تو کچھ نہ کچھ سناتا ہی رہتا۔‘‘
میں نے کہا ’’بھائی عزت یا ذلت دینا اللہ کی پاک ذات کے سوا کسی کے دائرۂ اختیار میں نہیں ہے، آپ اس بیکری کے مالک ہیں اور یہاں آپ کے ملازمین آپ کی ہی بات سنتے ہیں، آپ انہیں واضح طور پر سمجھا دیں کہ کسی کے دھونس جمانے یا خوامخواہ ہنگامہ کرنے سے آرڈر نہ لیں بلکہ صرف باری آنے پر آرڈر لیں، اس طرح آپ کی بیکری کی ساکھ اور بھی اچھی ہوجائے گی، اس کے علاوہ جو کوئی بھی اللہ پر توکل کرتا ہے اللہ پاک اُسے کبھی مایوس نہیں کرتا۔‘‘
بیکری مالک کے چہرے پر شرمندگی کے آثار صاف دکھائی دینے لگے۔ خیر میں بیکری سے خریداری کے بعد گھر آگئی۔ چند روز بعد جب دوبارہ اس بیکری میں جانے کا اتفاق ہوا تو مجھے یہ دیکھ کر بے حد خوشی ہوئی کہ عین بیکری کے دروازے کے پاس بڑا سا بورڈ لگا تھا جس پر یہ تحریر تھی:
’’بغیر باری کے مال ہرگز نہیں ملے گا۔‘‘
عزیز ساتھیو! روزمرہ زندگی میں اکثر ہمیں ایسے ہی کچھ حالات و واقعات کا سامنا رہتا ہے جن میں اکثر دو طرح کے ردعمل دیکھنے میں آتے ہیں، یا تو خاموشی سے ناگوار اور غیر مہذب رویّے کو برداشت کرلیا جاتا ہے، یا غصے میں بے قابو ہوکر لڑائی جھگڑا شروع ہوجاتا ہے۔ یہ دونوں ہی غلط رویّے ہیں۔
ایسے موقع پر ہمیں نیک نیتی اور اخلاص کے ساتھ منفی کردار کے حاملین کو حکمت سے سمجھانا ہے اور متبادل راستہ بھی دکھانا ہے۔ جھگڑنے سے کبھی بھی مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ مزید الجھتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہمیں ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی یہی سکھاتے ہیں کہ برائی کو دیکھ کر اسے دل میں برا جان کر روکنے کی کوشش نہ کرنا دراصل ایمان کی کمزور تریں حالت کی نشانی ہے۔
ہم سب یقینا اپنے آپ کو ایسے لوگوں میں شامل نہیں دیکھنا چاہتے، اس لیے آج ہی سے عہد کرلیں کہ ہمیشہ سچائی اور ایمان داری کا ساتھ دیں گے اور ان کے خلاف چلنے والوں کی اصلاح کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔

حصہ