خطرۂ جاں

446

عشرت زاہد
جب بھی موسم بدلتا ہے، ساتھ کچھ تبدیلیاں لاتا ہے۔ جیسے پت جھڑ کے موسم میں درختوں کے پتے سوکھ کر گرتے ہیں، تو موسم بہار میں یہی ٹنڈ منڈ سے درخت نئی کونپلوں، نئے پتوں اور پھولوں سے لد جاتے ہیں۔ اسی طرح موسمی تغیرات کی وجہ سے کبھی کبھار لوگوں کو الرجی، نزلہ، کھانسی، بخار وغیرہ بھی ہوجاتا ہے، جیسے ابھی پچھلے دنوں ہم پر فلو کا حملہ ہوا، ساتھ ہی بخار، نزلہ، گلے کی خرابی اور کھانسی نے آ لیا، آواز بھی بند ہوگئی۔ ادویہ لیں جن میں بھاری بھرکم اینٹی بایوٹکس بھی شامل تھی، جس کے سائڈ ایفیکٹس بھی ہوتے رہے۔ بہرحال کچھ دنوں میں طبیعت کچھ سنبھل تو گئی مگر کھانسی نہ گئی۔
ہم سارا دن کھانستے رہتے۔ صبح کے وقت زیادہ تکلیف ہوتی تھی۔ ابتدائی دنوں میں اس کو ہلکا لیا، کہ چلو موسمی تبدیلی سے ہے، وقت کے ساتھ خود ختم ہوجائے گی۔ جوشاندہ، شہد وغیرہ کا استعمال کرتے رہے۔ لیکن ’’مرض بڑھتا گیا، جوں جوں دوا کی‘‘ کے مصداق بجائے کھانسی کم ہونے کے، بڑھنے لگی۔ اب گھر والے بھی بے وقت کی مسلسل کھنکھار سے پریشان ہوگئے۔ دوسری طرف ہمیں لگاتار کھانسنے کی وجہ سے پسلیوں اور حلق میں درد ہونے لگا۔ کہتے ہیں ناں روگ کا گھر کھانسی۔ ایسے ہی کہیں باہر جانا بھی ختم ہوگیا، کہ اچانک کھانسی کا دورہ سا پڑتا اور ہم کھانس کھانس کر دہرے ہوتے ہوئے شرمندہ بھی ہوجاتے۔ اسی حالت میں قریب دو ہفتے گزر گئے، اور ہر گزرتے دن کے ساتھ کھانسی بڑھتی رہی۔
اب جسے بھی خبر ہوتی کوئی نہ کوئی مشورہ ضرور دیتا۔ ہماری ساس صاحبہ ایک روز بوقتِ فجر کھانسی کی آواز سن کر فکرمند ہوتے ہوئے کہنے لگیں ’’اے ہے بیٹا، تمہارا تو بہت برا حال ہورہا ہے۔ تم سونٹھ کیوں نہیں لیتیں؟‘‘ پھر ٹوٹکا بتانے لگیں کہ سونٹھ آدھا پاؤ، ایک پاؤ گڑ لو، اس کو ہاون دستے میں اچھی طرح کوٹ کر وقفے وقفے سے گرم پانی کے ساتھ پھانک لو، دیکھنا دو دن میں کھانسی ٹھیک ہوجائے گی۔ اور ہاں یہ موئی مشین میں نہ پیسنا۔ اس سے اثر زائل ہوجاتا ہے۔‘‘
ہم نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ پھر سورج چڑھتے ہی دونوں چیزیں منگوا کر کوٹ لیں، اور استعمال شروع کردیا۔ دو تین روز استعمال کے باوجود کوئی خاص فرق نہ پڑا، تو ہماری دیورانی کہنے لگیں: ’’سب کچھ چھوڑیں، اب آپ ادرک کو کوٹ کر باریک کریں، پھر شہد ملا کر گرم کرلیں، اور دن میں دو تین بار استعمال کریں۔ ان شا اللہ ضرور فرق محسوس کریں گی‘‘۔ ہمارا چوں کہ پچھلے ٹوٹکے سے اعتماد اٹھ چکا تھا سو یہ استعمال کرنے کی ٹھانی۔ دوا بنائی اور اطمینان سے کھانا شروع کردی، اس یقین کے ساتھ کہ چلو اب تو موئی کھانسی چھوڑے گی۔ اس دوا سے تھوڑا سا فرق پڑا، لیکن جان خلاصی نہ ہوئی۔ روگ کا گھر آباد رہا۔ یعنی کھانسی کا دورہ پڑتا رہا۔
ایک روز ہماری نند آئیں تو کہنے لگیں ’’تمہیں میں جو ٹوٹکا بتاتی ہوں اس کا استعمال کرنا چاہیے‘‘۔ پھر وہ ٹوٹکا بتانے لگیں کہ ’’ایک بڑا چمچہ میتھی دانہ لے کر ڈیڑھ گلاس پانی میں ابال لو۔ جب پانی ایک گلاس کے قریب رہ جائے تو چولہے سے اتار لو۔ پھر یہ گرم جوشاندہ آدھا کپ لے کر اس میں ایک چمچ شہد شامل کرکے پی لو۔ اس سے تو ضرور تمہاری کھانسی ختم ہوگی۔ دو تین دن استعمال کرلو‘‘۔ اب ہم اس نسخے کی تیاری میں لگ گئے۔ نسخہ تیار ہوا، بس اس کا استعمال کرنا تھا کہ جسم بھڑک اٹھا، ایسے جیسے پورے بدن میں آگ لگ گئی ہو۔ جسم جھلس رہا تھا۔ حالت غیر ہونے لگی۔ دل کیا گھبرایا تھا، سارے گھر والے بھی گھبرا گئے۔ شاید بلڈ پریشر شوٹ کر گیا تھا۔ ہماری غیر ہوتی حالت کو دیکھ کر ہماری نند کو ٹھنڈے پسینے آنے لگے۔
اتنے میں ہماری پڑوسن آ دھمکیں۔ انھیں جب صورتِ حال کا علم ہوا تو کہنے لگیں ’’بے چاری کو گرم پڑ گیا میتھی دانہ، اسے لسّی دیں کہ اس سے پیٹ کی گرمی کم ہوجائے گی‘‘۔ ساس گھر پر تھیں نہیں، سو خود ہی انہوں نے لسّی بنائی اور پیش کردی۔ ہم نے بھی گلاس جھپٹا اور غٹاغٹ پی گئے، کہ اس وقت کوئی ٹھنڈی چیز پینے کا ہی دل چاہ رہا تھا۔ اب پی تو لی لیکن فکر بھی ہونے لگی کہ الٹا اثر نہ پڑ جائے۔ اور پھر وہی ہوا، لینے کے دینے پڑ گئے، اور کھانسی بھی پہلے سے زیادہ ہوگئی۔ ہماری داستانِ کھانسی بھابھی تک پہنچی تو دوسرے دن دوپہر کے وقت دیسی انڈے اور نیا علاج لے کر پہنچ گئیں۔ کہنے لگیں ’’روزانہ صبح شام ایک دیسی انڈا اچھی طرح سے پھینٹ کر اس میں گرم گرم دودھ ڈال کر استعمال کرو‘‘۔ پھر چٹکی بجاتے ہوئے بولیں ’’تم دیکھنا، یوں افاقہ ہوگا۔‘‘
کچے انڈے کے خیال سے ہی ابکائی آنے لگی۔ دانت چباتے ہوئے پوچھا ’’کچا انڈا؟‘‘… ’’ہاں تو اور کیا!‘‘ پھر مسکراتے ہوئے کہنے لگیں ’’دیکھ لینا، شرطیہ کہتی ہوں کہ اس سے تمھاری کھانسی ضرور ٹھیک ہوجائے گی‘‘۔ دن گزرا تھا کہ میاں صاحب دفتر سے واپسی پر توت سیاہ کی بوتل لے آئے۔ دفتر کے کسی دوست نے اپنی کھانسی کا تذکرہ کرتے اس دوا کے استعمال کا مشورہ دیا تھا۔ وہ بضد تھے کہ اور جو اتنا کچھ استعمال کیا یہ بھی کرلو، اس سے ضرور فائدہ ہوگا۔ ہم نے بے بسی سے بوتل کی طرف دیکھا اور پھر قسمت آزما لی کہ شاید اس سے ٹھیک ہوجائیں۔ ہم بیزار آچکے تھے۔ دو تین دن میں دوا کی بوتل تو ختم ہوگئی لیکن کھانسی کسی بلا کی طرح ہم سے چمٹی ہی رہی۔
ہمیں مایوسی ہونے لگی تھی کہ اب بس اس سے نجات نہیں ملے گی۔ اس تمام عرصے میں جتنے جاننے والوں سے فون پر بات ہوئی یا ملاقات ہوئی، ہر ایک نے الگ الگ علاج تجویز کیے۔ ہر ایک نے اپنا ٹوٹکا بتایا۔ کسی نے مسور کی دال کو ابال کر اس کا پانی پینے کا کہا، تو کسی نے دیسی مرغ کی یخنی، کسی نے بھنے ہوئے چنے گڑ ملا کر کھانے کو کہا تو کسی نے پستے اور بھنے چنے ہم وزن پیس کر کھانے کو۔ اور ہاں ہر ایک نے اپنی پسند کے اچھے ڈاکٹر کا نام بھی لیا۔ کوئی ہومیوپیتھی، کوئی یونانی، تو کوئی ایلوپیتھی کا مشورہ دیتا۔
اس طرح پورے دو ماہ کا عرصہ گزر گیا۔ اب ہم بیزاری کی انتہا پر تھے۔ یوں ہی ایک دن ہماری بڑی بہن کا اومان سے فون آیا جو ماشاء اللہ سے ڈاکٹر ہیں۔ ابھی سلام دعا ہی ہوئی تھی کہ موئی کھانسی کا دورہ پڑ گیا۔ کھردری آواز کے جھونکے تھے جو بس آہی رہے تھے۔ ہم کھانستے رہے اور دوسری جانب ان کا لیکچر جاری رہا کہ تم اپنی صحت کا خیال نہیں رکھتیں۔ ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ فون میں سے نکل کر آجائیں۔ انہوں نے جو کچھ کہا اس کا لب لباب یہی تھا کہ سارے گھریلو نسخے، ٹوٹکے چھوڑو اور فوراً کسی اسپیشلسٹ سے چیک اپ کراؤ۔ دیکھو، دو ہفتوں سے زیادہ کی کھانسی کا مطلب، معاملہ کچھ سیریس ہے۔ ہماری سانسیں بحال ہوئیں تو کہا ’’ہیں! یہ کیا کہہ رہی ہیں؟ خدا نہ کرے کہیں آپ تپ دق کا تو نہیں کہہ رہیں؟ اللہ سے ڈریں۔ ذرا سی تو کھانسی ہے، خود ہی ٹھیک ہوجائے گی‘‘۔ پھر خود کو تسلی دیتے اختتامی سلام کیا اور فون رکھ دیا، اور فوراً باجی کی گفتگو من وعن میاں کے کان میں انڈیل دی۔ انہوں نے سنا تو وہ بھی پریشان ہوگئے۔
دوسرے دن دفتر سے جلدی آکر ہمیں ایک چیسٹ اسپیشلسٹ کے پاس لے گئے۔ ڈاکٹر صاحب نے اچھی طرح معائنہ کیا اور کہا’’کچھ بڑا مسئلہ نہیں، بس آپ کو الرجی ہوگئی ہے‘‘۔ پھر بڑے سے پرچے پر چند ٹیڑھی ترچھی لکیروں میں مختلف گولیاں اور چند ایک سیرپ لکھ کر دیے، کہ یہ استعمال کیجیے، ان شا اللہ اس سے ضرور افاقہ ہوگا۔ بالفرض نہ ہوا تو ایکسرے کرنا پڑے گا۔ جب ہم نے الرجی کے بارے میں استفسار کیا تو کہنے لگے ’’بی بی! یہ تو اب آپ خود محسوس کریں۔ کسی کو ڈسٹ سے، کسی کو پینٹ یا کسی بھی بو سے الرجی ہوسکتی ہے۔ کسی کو پیٹرول یا فنائل کی بو سے، کسی کو کچھ کھا پی لینے سے۔ غرض یہ کہ اس چیز کا تعین بہت مشکل ہے‘‘۔ پھر بتانے لگے کہ ’’میری ایک پیشنٹ کو تو ٹی وی پر بھی دھول مٹی اڑتی ہوئی نظر آئے تو چھینکیں آنی شروع ہوجاتی ہیں۔‘‘
جواب سن کر ہم کچھ پریشان سے ہوگئے، کیوں کہ الرجی کی وجہ سمجھ نہیں آرہی تھی۔ خیر ہم گھر آئے اور ادویہ کا استعمال شروع کردیا۔ خدا کا کرنا اُن کی دوا سے شفا ملی اور ہم روبہ صحت ہوگئے۔ جب طبیعت سنبھل گئی تو اب سوچ رہے ہیں کیوں ناں وہ تمام نسخے، گھریلو ٹوٹکے، قسم قسم کی دوائیں لکھ کر ایک فہرست بنالیں۔ ان گنت نسخے ہیں کسی ایک سے تو کھانسی بھاگے گی، کسی کو تو صحت ملے گی۔ پھر خیال گزرتا ہے کہ ہم کیسے لوگ ہیں؟ بس بیماری کا سنا نہیں اور دوا تجویز کردی۔ مفت کا مشورہ دے دیا!
خیال ہی نہیں گزرتا کہ میرے بتائے ہوئے ٹوٹکے کا کسی پر الٹ اثر پڑ گیا، طبیعت زیادہ بگڑ گئی تو ذمہ دار کون ہوگا؟ ہمیں جاننا چاہیے کہ نیم حکیم خطرۂ جاں ہوتے ہیں۔ ہمیں یوں بغیر طبیب کے مشورے نہیں دینے چاہئیں۔ بلاشبہ بتانے والے محبت، خیر خواہی اور خلوص کے جذبے سے ہی بتاتے ہیں، لیکن ضروری تو نہیں ناں کہ جس دوا، نسخے، ٹوٹکے سے آپ کو شفا ملی دوسرے کو بھی مل جائے۔ اس لیے احتیاط برتنا ازحد لازم و ضروری ہے۔ آپ مریض کی سنت طریقے سے تیمارداری کیجیے۔ اُسے تسلی دیجیے۔ دعا کیجیے کہ خدا آپ کو اس مرض میں مبتلا نہ کریں۔

حصہ