آخر ڈانٹ مجھے ہی کیوں پڑتی ہے

552

دانیہ آصف
پیارے دوستو! میرا نام نورین ہے اور میں دو شرارتی بھائیوں فیصل اور عدیل کی بڑی بہن ہوں۔ آج میں آپ کو اپنی یہ کہانی اس لیے سنا رہی ہوں کہ آپ بھی میری طرح اس مشکل کا شکار نہ ہوں۔
ہفتہ:
آج میں صبح اُٹھ کر ناشتے سے فارغ ہوئی تو امی نے پڑھنے بٹھا دیا میں پڑھتے پڑھتے ڈرائنگ بنانے میں ایسی مگن ہوئی کہ بھول ہی گئی کہ میں تو یاد کرنے بیٹھی ہوئی ہوں۔ جب امی کی نظر پڑی تو لگیں مجھے ڈانٹتا کہ ’’یہ کیا کیڑے مکوڑے بنانے میں وقت ضائع کر رہی ہو۔‘‘ اور میں سوچتی رہ گئی کہ میں نے تو اتنی زبردست ڈرائنگ بنائی ہے اور امی کو کیڑے مکوڑے لگ رہے ہیں اور اوپر سے ’’آخر! ڈانٹ مجھے ہی کیوں پڑتی ہے؟‘‘
اتوار:
آج تو چھٹی تھی (یعنی) موج مستی کا دن ہم بیٹھے اپنا پسندیدہ کارٹون ’’ٹام اینڈ جیری‘‘ دیکھ رہے تھے کہ چھوٹے بھائی عدیل نے سارا کیچپ بیڈشیٹ پر مل دیا۔ ہم تو کارٹون میں مگن تھے وہ کب کچن سے کیچپ لایا اور کب یہ کارنامہ انجام دیا کچھ پتا ہی نہ چلا۔ اب جو امی کپڑے دھوکہ کمرے میں آئیں تو ان کی چیخ سے ہوش آیا کہ آگے پیچھے کیا ہو رہا ہے۔ امی بولیں ’’نورین تم بالکل ہی بیکار ہو تمہارے ہونے کا کوئی فائدہ نہیں دیکھو بھائی نے ساری بیڈ شیٹ گندی کر دی۔ ابھی کچھ دیر پہلے ہی صاف ستھری بیڈ شیٹ تبدیل کی تھی‘‘ اور میں سوچنے لگی کہ فیصل بھی تو دھیان رکھ سکتا تھا لیکن… ’’آخر ڈانٹ مجھے ہی کیوں پڑتی ہے؟‘‘
پیر:
آج ہمارے ہاں پھپھو کی دعوت تھی۔ اور! آج تو حد ہی ہو گئی عدیل بابا کے ساتھ بازار گیا ہوا تھا۔ فیصل کلر شیٹ سے پھول بنانے بیٹھ گیا۔ بجائے اس کہ میں اسے منع کرتی میں بھی مل کر پھولوں کی کٹنگ کرنے لگی ہم نے مل کر رنگ برنگے بہت سے پھول بنا ڈالے اور صاف ستھرا کمرہ کاغذ کی کٹنگ سے بکھرا بکھرا نظر آنے لگا۔ اب جو پھپھو آئیں تو سارا گھر ہی گندا لگنے لگا۔ امی نے ’’شرمندگی‘‘ سے جلدی جلدی سارا گھر سمیٹا اور پھپھو سے باتیں کرنے لگیں میں تو سوچ رہی تھی آج تو خوب ڈانٹ پڑے گی۔ اور پھپھو کے جاتے ہی امی نے بہت غصہ کیا میں نے سوچا کہ فیصل کا سارا کارنامہ تھا شروع تو اس نے ہی کیا تھا کچرا بھی زیادہ اس نے ہی پھیلایا تھا۔ پھر! آخر ڈانٹ مجھے ہی کیوں پڑتی ہے۔ میرا موڈ رات تک خراب رہا۔
رات کو سوتے وقت امی میرے پاس آئیں اور مجھے پیار کیا۔ اور سمجھاتے ہوئے بولیں ’’میری پیاری بیٹی نورین! آپ دونوں بھائیوں کی بڑی بہن ہو اس لیے آپ کی ذمہ داری ہے کہ ان کو غلط کاموں سے روکو اور جس طرح بھی سہولت ہو میرا تھوڑا بہت ہاتھ بٹایا کرو۔ اگر آپ اسی طرح لاپروائی برتو گی تو مجھے پریشانی ہوتی رہی گی۔ جبکہ بیٹیاں تو ماں کا ہاتھ بٹاتی ہیں۔ آپ کوشش کیا کرو کہ آپ بھی میرا ہاھ بٹائو اور سمجھداری کا مظاہرہ کرو تاکہ دونوں بھائی بھی آپ کی طرح اچھے بچے بن جائیں۔ امی بات سن کر میں نے سوچا کہ آئندہ میں شکایت کا موقع نہ دوں گی اور نہ ہی یہ سوچوں گی کہ:
’’آخر ڈانٹ مجھے ہی کیوں پڑتی ہے؟‘‘

حصہ