ایشیا رنگین ہے

1144

لاہور میں منعقدہ فیض میلہ کے نوجوان جذباتی شرکاء میں سے پنجاب یونیورسٹی کے کچھ طلبہ و طالبات نے جوش میں آکر طلبہ حقوق کے لیے کچھ نعرے لگائے ۔فیض کے مشن کو پورا کرنے کی بات کی گئی، انقلاب کے نعروں سے چپہ چپہ گونجنے ،ہلا بول، لال لال لہرائے گا تو ہوش ٹھکانے آئے گا ، ملک بچانے نکلے ہیں، تعلیم بچانے نکلے ہیں، اظہار بچانے نکلے ہیں، آؤ ہمارے ساتھ چلو، جیسے پر جوش نعرے لگائے گئے۔ رام پرساد المعروف بسمل شاہجہاں پوری کے لکھے گئے مشہور کلام ’ دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے ‘اور ایشیا کے سرخ ہونے کے نعرے لگائے گئے ۔اسی میں روٹین کے مطابق کسی نے موبائل سے ویڈیو بنائی اور اپ لوڈ کر دی۔ ڈھول کی پس منظر میوزک میں نعرہ لگاتی اس سادہ سی ویڈیو کے وائرل ہونے کا خود اُن طلبہ و طالبات کو بھی احساس نہیں ہوگا۔ ویڈیو میں ایک مقام پر ساتھی کو کندھا مارتا دیکھ کر اندازہ ہوا کہ وہ شاید اپنے پہلے پلان ایجنڈے کے مطابق یہ کام کر رہے تھے ۔اثرات دیکھیں کہ پھر ن کے ساتھ وائس آف امریکہ کے نمائندے نے بازوئے قاتل کو جاننے اور یہ سرفروشی کی تمنا کن لوگوں میں جاگی ہے جیسے سوالات کے جوابات جاننے کی کوشش بھی کی۔تفصیل کے مطابق نعرے لگانے والی مرکزی خاتون جامعہ پنجاب شعبہ ابلاغ عامہ کی طالبہ عروج اورنگزیب تھیں ، ان کے ساتھ دیگر ساتھی طلبہ و طالبات جنہوں نے اپنا تعارف پروگریسیو سٹوڈنٹس کے طور پر کرایا۔
اس ویڈیو نے نئی نسل کے نوجوانوں کو متاثر کیاکیونکہ ان میں داڑھی، اسکارف ، جینز، کلین شیو، فرنچ کٹ، بالی والے ، ڈھول والے، تالی والے سب موجود تھے ۔ کہنے کو تو کوئی تیس چالیس ہی تھے لیکن ویڈیو نے سوشل میڈیا پر نئی بحث کو چھیڑ دیا ہے ۔ان طلبہ کی ملکی حالات پر نظر، انقلابی سوچ، معاشرے کی تشکیل، ملکی اقتصاد اور سیاست بارے شعور سمیت اس حقیقت کا بھی عکاس ہیں کہ طلبہ واقعی ابھی تک زندہ ہیں۔ان کی کی ایک ساتھی طالبہ نے وائس آف امریکہ کو واضح الفاظ میں طلبہ یونین کی ناگزیریت اور بحالیت کو اپنا ایجنڈا بتایا۔اس حوالے سے ایک تحریر اس ضمن میں خاصی وائرل رہی جس کی تلخیص پیش ہے،’’آج ملک میں سیاسی اور جمہوری پارٹیاں تو بہت ہیں لیکن جمہوری حکومتوں کی طلبہ یونین کی بحالی میں ناکامی اور جمہوریت کے سارے اداروں، مزدور یونین، طلبہ یونین، کسان یونین، ٹریڈ یونین وغیرہ عملی طور پر معطل ہیں، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جمہوری کہلانے والے، ووٹ کو عزت دینے والے، اٹھارویں ترمیم کرنے والے ابھی تک زیرِ عتاب ہیں اور ایک دوسرے کا مذاق اڑانے میں مصروف ہیں۔ ان کی اٹھارویں ترمیم سمیت پوری پارلیمان بوٹوں تلے روندی جارہی ہے اور عین ممکن ہے کل کو منال کے بعد انہیں پارلیمان کی عمارت بھی پسند آجائے، پارلیمان میں موجود مہرے عوام سے آنکھیں ملانے کے لئے اور خود کو چھوٹی تسلی دینے کے لئے یہ کہہ دیتے ہیں کہ ایک پیج پر ہیں، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مزاحمت عملاً ختم ہوچکی ہے۔ یہ لوگ کبھی فیض میلے میں نعرے لگا کر فیض کے مشن، وژن اور نظریے کو نعروں میں سمیٹ کر پورے میلے کو لوٹ لیتے ہیں تو کبھی پشتونوں، بلوچوں کے ساتھ مل پنجاب یونیورسٹی میں ان چند سو پشتون اور بلوچ طلبہ کے لئے یونیورسٹی میں ڈھارس بنتے ہیں جو پروفائلنگ اور ریاستی بیانیے کی وجہ سے اقلیت میں ہونے کی وجہ سے اکثر مار کھاتے ہیں، یہ وہ کامریڈز ہیں جنہوں نے پنجاب کی سرزمین پر منظور پشتون کا استقبال کیا تھا اور پشتونوں کی روداد اور مظلومیت کا بیانیہ پوری قوم تک پہنچا نے میں مدد کی تھی جس کی وجہ عمار علی جان کو پنجاب یونیورسٹی میں اپنی نوکری سے ہاتھ دھونا پڑا تھا اور ریاستی غنڈوں نے اس انداز میں اس گھر پر چڑھائی کی تھی ۔یہ چند گنے چنے نوجوان ہیں جو ملک کی مختلف یونیورسٹیوں میں زیرِ تعلیم ہیں، ان میں پشتون بھی ہیں، بلوچ بھی ہیں، پنجابی بھی ہیں، سندھی بھی ہیں، کشمیری بھی ہیں، گلگت بلتستانی بھی ہیں۔ یہ تعلیمی اداروں میں محکوم اقوام اور کمزور طبقات کا مقدمہ لڑ رہے ہیں۔لیکن یہ سب مستقبل کی عاصمہ جہانگیر ، جبران ناصر، طوبیٰ سید، محسن داوڑ، منظور پشتین، بشریٰ گوہر، گلالئی اسمائیل ہیں۔یہ سب مل کر یہ ایک روشن پاکستان اور مساوات پر مبنی معاشرہ بنانے کے مشن میں پاکستان کو پھولوں کے ایک خوبصورت گلدستے کی طرح بنانے کی سوچ رکھتے ہیں۔ ‘‘ اہم بات یہ ہے کہ سرخ آندھی کا مقابلہ کرنے والے نظریاتی افراد کا کوئی موثر جوابی بیانیہ نظر نہیں آیا۔ یہ ضرور ہوا کہ پیپلز پارٹی اپنے شہداء کا لہو لیکر میدان عمل میں کود پڑی ۔ذوالفقار علی بھٹو، شاہنواز بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے خون سے ایشیا کو سرخ کرنا شروع کردیا۔ ایک صاحب لکھتے ہیں کہ ’سوویت یونین ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔ کمیونزم پِٹ گیا۔ ریڈ سکوائر میں میکڈونلڈز کھل گئے۔ روس کی اکانومی نے کیپیٹل ازم کا روپ لے لیا اور ان لوگوں کا ایشیا سرخ ہونے جا رہا ہے۔ پتہ نہیں اتنا اعلیٰ نشہ کہاں سے ملتا ہے؟‘ دوسری جانب سے جواب آتا ہے ، ’چلیں انہیں انجوائے کر لینے دیں۔ پھر انہوں نے گھر جا کر کسی کیپیٹلسٹ یونیورسٹی کی اسائنمنٹ یا ایگزام کی تیاری بھی کرنی ہے۔‘ویسے جن ایشوز جیسے یکساں نظام تعلیم، طلبہ یونین کی بحالی و دیگر کو ان طلبہ نے موضوع بنایا وہ اسلامی جمعیت طلبہ کئی دہائیوں سے موضوع بنا کر چل رہی ہے ۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ اسلامی جمعیت طلبہ کے تنظیمی ، سیاسی، دعوتی مقابلے پر یہ چھوٹا سا گروہ کوئی وزن نہیں رکھتا کہ اس کو اتنا موضوع بنایا جائے لیکن چونکہ بات تو سوشل میڈیا پر زیر بحث موجوع کی تھی اس لیے معلومات کی حد تک جاننا ضروری ہے۔طلبہ کمیونٹی اور مزاحمتی رنگ کے خاتمے کے حوالے سے ایک اور کمنٹ اس تناظر میں بہت اچھاتھا،’’ان بچوں کو ایشیا سرخ دِکھے یا سبز۔۔۔یہ تو بعد کی کہانی ہے۔۔۔خوش آئند بات یہ ہے کہ رنگ دکھائی دے رہے ہیں۔۔۔ نئی نسل کلر بلائنڈ نہیں ہے۔‘‘
اسی طرح کراچی سے نوجوان صحافی اپنی یادداشتیں بیان کرتے ہوئے حامد الرحمٰن لکھتے ہیں کہ ،’ایشیا سرخ ہے کے نعروں سے دور طالب علمی میں پڑھی گئی طلبہ تاریخ یاد آگئی۔ ہم نے سنا اور پڑھا کہ 1960 یا 70ء کی دہائی میں کمیونسٹوں اور سوشلسٹوں کا خوب زور تھا۔ یہ لوگ کارل مارکس کے نظریات اور سوویت یونین سے متاثر تھے جو کمیونزم کی علمبردار تھی۔میں نے یہ بھی سنا تھا کہ کراچی کے ڈاؤ میڈیکل کالج میں نعوذ بااللہ خدا کا جنازہ نکالا گیا تھا۔ اس زمانے پاکستان میں ان کی طلبہ تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن (ایم ایس ایف) تھی۔ وہ پاکستان میں بھی کمیونزم کے خواہاں تھے۔1973 میں ہی لندن گروپ کے نام سے ایک گروہ مشہور ہوا جو میں نجم سیٹھی بھی شامل تھے۔ یہ لوگ بلوچستان میں وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے ہاتھوں نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) کی حکومت برطرف ہونے کے بعد بلوچستان میں کمیونسٹ انقلاب لانا چاہتے تھے جس کے لیے انہوں نے بلوچ عسکریت پسندی میں شمولیت اختیار کی اور پہاڑوں پر بھی چلے گئے۔اس زمانے میں سوویت یونین کو سرخ ریچھ کہا جاتا تھا جس کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ جس جگہ چلا جائے وہاں سے واپس نہیں آتا۔ انہیں دنوں افغانستان میں کمیونسٹ ببرک کارمل کی حکومت قائم ہوگئی جس نے بڑے پیمانے پر اپنے ہی شہریوں پر مظالم ڈھائے اور 6 لاکھ سے زائد افغانوں کا خون بہایا۔پھر 1989ء میں افغان جہاد کے نتیجے میں سوویت یونین کے ٹوٹتے ہی پوری دنیا میں کمیونسٹوں کا زور ختم ہوگیا۔ پاکستان میں بھی ان کی سوچ کمزور ہوتے ہوتے بالکل ماند پڑ گئی اور آج شاید ہی نئی نسل ان سے واقف ہو۔لیکن ضیا الحق کے دور میں طلبہ یونین پر پابندی سے نئی نسل کے سیاسی شعور کو شدید نقصان پہنچا۔ پہلے زمانے میں نظریاتی سیاست ہوتی تھی اور نظریاتی لوگ ہوتے تھے۔ اسلام پسند ہوں یا کمیونسٹ دونوں ہی عوام کے حقوق کے لیے جدوجہد کرتے تھے۔ یونین ختم ہونے کے بعد میری ذاتی رائے میں نظریاتی لوگوں کی جگہ قوم پرستوں نے لے لی۔میں نے دور طالب علمی میں اسلامی جمعیت طلبہ، اے پی ایم ایس او، پختون اسٹوڈنٹس فیڈریشن، پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن، پنجابی اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن، امامیہ اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن اور انجن طلبہ اسلام ان طلبہ تنظیموں کو دیکھا۔ ان میں سے اے پی ایم ایس او، پختون اسٹوڈنٹس اور پنجابی اسٹوڈنٹس قوم پرست جبکہ امامیہ اور اے ٹی آئی فرقہ پرست جماعتیں تھیں۔ اور صرف اسلامی جمعیت طلبہ کو ہی نظریاتی جماعت پایا جو 70 سال سے اپنے اسلامی نظریہ پر قائم ہے۔اگرچہ سب طلبہ تنظیموں کے پاس کچھ نہ کچھ لٹریچر موجود ہوتا ہے جبکہ پختون اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے لوگ کمیونزم کا دعوی کرتے ہیں اور انہیں سرخے بھی کہا جاتا ہے۔ لیکن ان میں وہ نظریاتی بنیاد نہیں ہوتی جو این ایس ایف میں ہوتی تھی اور اسلامی جمعیت طلبہ میں ہوتی ہے۔حالات کے ساتھ ساتھ کراچی میں تقریبا بیشتر تعلیمی اداروں میں زیادہ تر طلبہ تنظیمیں معدوم ہوگئیں اور صرف اسلامی جمعیت طلبہ ہی فعال رہی۔طلبہ یونین پر پابندی اور طلبہ تنظیموں کی کمزوری کا نقصان بہت ہوا۔ یہ ملکی سیاست کی نرسریاں تھیں جو ختم ہوگئیں۔ سیاسی اور عوامی دلچسپی کے معاملات میں ان کا بہت طاقتور کردار تھا جو ختم ہوگیا۔ اگر میں یہ کہوں تو غلط نہ ہوگا کہ طلبہ ملک کے طاقتور ترین ادارے فوج سے بھی ٹکرا جاتے تھے۔ جس کا مشاہدہ ایوب خان کے دور آمریت میں ہوتا ہے۔ اور قادیانیوں کو کافر قرار دینے کی مہم کی ابتدا بھی طلبہ تحریک نے ہی کی تھی۔اب نظریاتی نعروں کی جگہ انصاف، ترقی اور قومیت جیسے سطحی نعروں نے لے لی ہے۔ نظریاتی جدوجہد وہ ہوتی ہے جس میں آپ زندگی کا ایک پورا نظام اور تصور پیش کرتے ہیں۔ اس کے برعکس سطحی اور خوشنما نعرے محض عوام کو دھوکا فریب دے کر ووٹ حاصل کرنے کیلیے ہوتے ہیں۔کمیونسٹ جدوجہد کا دوسرا رخ فیض امن ویڈیو میں وائرل ویڈیو کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ بہت سے لوگوں نے لاہور فیض میلے میں سرخ ہے کے نعرے لگانے والے طلبہ کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا ہے۔نئی دہلی کی جواہر لال نہرو یونی ورسٹی کمیونسٹ نظریات کا مرکز ہے۔ اسی جامعہ کی کمیونزم گروہ سے تعلق رکھنے والی طالبہ شہلا رشید اور اس کے ساتھی جب مودی حکومت کو للکارتے ہیں تو ہم انہیں خوب سراہتے ہیں اور تائید کرتے ہیں۔ لیکن جب لاہور میں اگر کوئی سرخا اس نظام پر تنقید کررہا ہو تو ہم اسے برا بھلا کہتے ہیں۔‘
الطاف حسین کے بھارتی چینل کو دیئے گئے انٹرویو نے بھی اس ہفتہ سوشل میڈیا پر دوبارہ خاصی بحث چھیڑی۔اس انٹرویو میں انہوں نے بھارت سے سیاسی پناہ کی درخواست بھی کر ڈالی، میزبان کے کہنے پر ’ سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘ بھی سنائی ۔ جب اینکر نے کہا کہ یہ سنانے پر لوگ آپ کو غدار کہہ رہے ہیں (آن لائن) تو جواب میں کہا کہ ’ یہ تو علامہ اقبال ‘کی نظم ہے ، لکھنے والا شاعر مشرق اور پڑھنے والا ’غدار ‘ کیسے ؟اسی طرح مقبوضہ کشمیر پر اپنا پرانا بیانیہ دہرایا کہ بھارت نے اچھا فیصلہ کیا 370 ختم کر کے۔ریپبلک ٹی وی پر اینکر اوناب گوسوامی کو براہِ راست انٹرویو دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ وہ وزیراعظم مودی کے لیے نیک تمنائیں رکھتے ہیں کیونکہ انھوں نے ایسا کر کے ’کشمیر کی ماؤں اور بیٹیوں کو بچا لیا ہے۔۔۔ پاکستان میں جو کشمیر ہے وہاں لوگ آزاد نہیں ہیں‘۔ بہر حال ان کے علاوہ میاں صاحب کے جانے ، آزادی مارچ کے بعد دھرنے اور ان کا خاتمہ، عمران خان کے اہم بیانات ، چیف جسٹس کا جوابی بیان کے ساتھ ہی صدارتی نظام کی گونج دوبارہ سنائی دی ۔ مطلب عدالت و انصاف کے ساتھ سوشل میڈیا پر بھی سیاسی بیانیہ کاکنٹرول قائم ہے ۔
صحافی و اینکر حضرات پر ایک بار پھر حالات کے مطابق پیش بینی کرنے پر سخت تنقید کرتے ہوئے صحافت کرو غلاظت نہ کرو کا ہیش ٹیگ بنا کر موجود ہ حکومت کے خلاف بولنے والے تمام لوگوں کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔ویسے ویڈیوز کی بات کریں تو اس ہفتہ حکومت کی جانب سے مہنگائی کی ماری کراچی کی ایک اور خاتون کی ویڈیو خوب وائرل رہی جس میں ان کے آنسوو ¿ں نے خاتو ن اینکر کی آنکھوں کو بھی نم کر دیا۔اسی طرح ایک اور پروگرام کے کلپ نے ایوان صدر کو ہلادیا اور انہیں مریضہ کے علاج معالجہ ان کا پرانا وعدہ یاد دلا دیا ، چنانچہ صدر صاحب نے کراچی کے ایک بے گھر گھرانے سے کیے گئے وعدے کو پورا کرنے کی اطلاع اپنے بیٹے اواب علوی کے ٹوئٹر اکاو ¿نٹ سے دی۔

حصہ