اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مرجائیں گے

560

قدسیہ ملک
میئر لاہور کرنل (ریٹائرڈ) مبشر جاوید نے، جن کا تعلق حزبِ اختلاف کی جماعت مسلم لیگ (ن) سے ہے، انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ میٹروپولیٹن کارپوریشن لاہور نے پنجاب حکومت کو نئی قبروں کے حوالے سے تجویز دی ہے کہ فی تدفین ایک ہزار روپیہ ٹیکس لگایا جائے۔ ’’ہم نے حکومتِ پنجاب کو یہ تجویز دے دی ہے۔ اب اس حوالے سے آخری فیصلہ حکومت پنجاب کا ہوگا‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ اس ٹیکس سے اکٹھی ہونے والی رقم کو قبرستانوں کی دیکھ بھال کے لیے خرچ کیا جائے گا۔ اس کا مطلب ہے کہ ہر نئی قبر پر لواحقین کو دیگر اخراجات کے علاوہ ہزار روپیہ ٹیکس بھی ادا کرنا ہوگا۔
لاہور کے شہریوں نے اس تجویز پر ملا جلا ردعمل ظاہر کیا ہے۔ فریدہ گھروں میں کام کاج کرتی ہیں۔ ان کے خیال میں حکومت پہلے ہی اتنی مہنگائی کرچکی کہ سانس لینا بھی مشکل ہوگیا ہے۔ ’’اب مرنے کے بعد بھی پچھلوں کو ہزار روپیہ مزید دینا پڑے گا تو غریب بندہ کیا کرے گا۔ ہم اپنے مُردے پھر گھروں میں ہی دفنا لیں گے‘‘۔ میئر لاہور کے مخالفین اسے سیاسی شعبدہ بازی بھی قرار دیتے ہیں۔
ٹی وی ون کے نمائندے کے مطابق کراچی میں ٹماٹر کی قیمت کو پر لگ گئے اور وہ ڈالر کی طرح اونچی اڑان بھر کر 300 روپے کلو ہوگیا ہے۔ ذرائع کے مطابق25 روپے اضافے کے بعد ٹماٹر 300 روپے کلو ہوگیا ہے جس کے بعد صرف 2 ٹماٹروں کی قیمت 40 روپے تک پہنچ چکی ہے۔ ٹماٹر کی قیمت میں اس ہوش ربا اضافے سے شہری بے حد پریشان دکھائی دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ٹماٹر کھانوں میں نہیں ڈالیں گے تو کیا ڈالیں! اگر اس کا متبادل دہی استعمال کریں تو اس کی قیمت بھی بہت زیادہ ہے۔ خیال رہے کہ پرائس کنٹرول کمیٹیاں سرکاری نرخ کا اطلاق کرانے میں بری طرح ناکام ہیں اور سبزی منڈی سمیت شہر بھر میں کہیں بھی سبزیوں کی سرکاری قیمتوں پر عمل درآمد نہیں ہورہا۔
ڈیلی پاکستان کے مطابق موسم سرد ہے اور بارشوں نے فصل خراب کردی تھی جو دوبارہ لگائی گئی ہے۔ کراچی میں ایران کا ٹماٹر آنا بند ہوگیا ہے، بلوچستان سے بھی لال ٹماٹر کی سپلائی کم ہوگئی ہے جبکہ سندھ میں ٹماٹر کی فصل تیار ہورہی ہے، 15 روز میں صورت حال واضح ہوگی۔ شہر کے ایک بازار سے 380 روپے فی کلو ٹماٹر کی آواز بھی سنائی دی۔ ادھر وزیراعظم عمران خان کے مشیر خزانہ نے ٹماٹر 17 روپے کلو قرار دے دیئے۔ مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ مارکیٹ میں ٹماٹر کی موجودہ قیمت سے لاعلم نظر آتے ہیں، ایک صحافی نے ٹماٹر کی فی کلو قیمت کا معلوم کیا تو انہوں نے 17 روپے کلو بتائی۔ عبدالحفیظ شیخ سے سوال پوچھا گیا کہ کون سی منڈی میں ٹماٹر 17 روپے کلو فروخت ہورہے ہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ دکانداروں نے ٹماٹر پرانی قیمت میں ذخیرہ کرکے رکھے ہوئے ہیں اور اب وہ مہنگا فروخت کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مہنگائی اتنی نہیں جتنا عوام بڑھا چڑھا کر بول رہے ہیں۔ یعنی ہم سب جھوٹے ہیں، ایک وہی سچے ہیں۔
اس وقت سرکارکی جانب سے پھلوں اور سبزیوں کی روزانہ کی بنیاد پر جو فہرستیں جاری ہوئی ہیں ان میں ٹماٹر کی فی کلو قیمت 85 روپے درج ہے، لیکن نہایت دیدہ دلیری سے اسے کھلے عام 260 روپے، اور کہیں 300 روپے فی کلو بیچا جارہا ہے، یہی حال دیگر سبزیوں کا بھی ہے، یعنی جو کریلا ہم نے کبھی پلٹ کر نہیں دیکھا وہ بھی 160 روپے فی کلو میں فروخت ہورہا ہے، جبکہ من پسند مٹر کی قیمت 250 روپے فی کلو ہوگئی ہے۔ ہرے دھنیے اور پودینے کی گڈی 20 روپے سے کم نہیں، جبکہ ہری مرچیں بھی بے حال ہیں جو کسی وقت میں سبزی کے ساتھ ’’بالکل مفت‘‘ ملا کرتی تھیں۔
24 نیوز نے پاکستان کے عوام کو ایک امید افزاء خبر جاری کی ہے کہ ٹماٹر کی بڑھتی ہوئی قیمت اور قلت نے عوام کے ہوش اڑا دیئے، اس بحران پر قابو پانے کے لیے حکومت نے ایران سے ٹماٹر درآمد کرنے کی اجازت دے دی جس کے بعد ایکسپورٹرز نے بڑے پیمانے پر ٹماٹر درآمد کرلیا ہے۔کسٹم ذرائع کے مطابق گزشتہ ایک ہفتے سے ہزاروں ٹن ٹماٹر تفتان کے راستے پاکستان پہنچ گئے ہیں جس سے پاکستان میں ٹماٹر کی قلت اور قیمت پر بڑی حد تک قابو پایا جا سکتا ہے۔ مقامی کسٹم کلیئرنگ ایجنٹ حاجی شوکت علی عیسیٰ زئی اور ظفر اللہ قمرزئی نے کہا کہ گزشتہ پانچ دنوں میں سینکڑوں ٹرالر کلیئر کرا لیے گئے۔
لیکن ابھی آخری اطلاعات آنے تک لاہور میں ٹماٹر 240 روپے فی کلو، آلو 70 روپے، پیاز 90 روپے، جبکہ ادرک 360 روپے فی کلو بیچی جا رہی ہے۔ ملتان اور سرگودھا میں ادرک 400 روپے، ٹماٹر 160 روپے اورپیاز 80 روپے فی کلو فروخت کیے جارہے ہیں۔ پشاور میں ٹماٹر 120 روپے فی کلو، پیاز 90 روپے فی کلو اورمٹر140 روپے فی کلو مل رہے ہیں۔ کوئٹہ میں بھی سبزیاں عوام کی دسترس سے باہر ہیں، یہاں بھنڈی 150روپے اور ٹماٹر 130 روپے فی کلو میں فروخت ہورہے ہیں۔ خیرپور میں ٹماٹر نے ڈبل سنچری مکمل کرلی ہے، جبکہ جھنگ میں اس کی قیمت 220 روپے فی کلو ہوگئی ہے۔ پورے ملک میں مہنگائی بڑھنے کی یکساں صورت حال ہے۔
پاکستان ایک زرعی ملک ہے، اس کے باوجود اس ملک کے عوام بنیادی اشیائے ضروریہ بھی انتہائی گراں قیمت پر حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔ ایک جانب مہنگائی ہے تو دوسری جانب بے روزگاری کا عفریت پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔ ایسے میں عوام سوائے مایوس ہونے کے اور کیا کرسکتے ہیں! عوام کو روٹی، کپڑا اور مکان کے تفکرات سے آزاد کرنا، انہیں بنیادی سہولیات سے آراستہ کرنا حاکمانِ وقت کی ذمہ داری ہے۔
خلیفۂ دوم حضرت عمر رضی اللہ عنہ… جن کے دورِ حکومت میں مسلمان آدھی سے زیادہ دنیا فتح کرچکے تھے… اس دور کے قوانین اس قدر بہترین اور مکمل تھے کہ آج بھی ترقی یافتہ ممالک میں یہ قوانین ’عمرلا‘ کے نام سے ان کے آئین کا حصہ ہیں۔ دنیا کے کونے کونے میں اسلام کا بول بالا تھا۔ ایسے میں ان کا یہ قول کہ اگر دریائے فرات کے کنارے ایک کتا بھی پیاسا مرگیا تو عمر سے پوچھا جائے گا۔ اس قدر خوفِ خدا رکھنے والا، راتوں کو جاگ کر رعایا کی خدمت کرنے والا، اور جس کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ کی تائید میں سورہ نور کی آیات مبارکہ کا نازل ہونا، جس نے اپنی آمد پر مدینہ کی گلیوں میں اعلان کیا: کوئی ہے جسے بچوں کو یتیم کرانا ہو، بیوی کو بیوہ کرانا ہو، ماں باپ کی کمر جھکانا ہو، آنکھوں کا نورگُم کرانا ہو،آئے، عمر نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی کا دعویٰ کر لیا ہے، آج سے اعلانیہ اذان اور نماز ہوا کرے گی۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورِ خلافت میں 1056 شہر مع قصبات و دیہات فتح ہوئے۔ روم و ایران کا جاہ و جلال سرنگوں ہوا۔ چار ہزار مساجد تعمیر ہوئیں۔ 10 سال 6 ماہ 4 دن کے دور خلافت میں 22 لاکھ 51 ہزار 30 مربع میل پر اسلام کا پرچم لہرانے لگا، جس میں شام، مصر، عراق، جزیرہ خوزستان، ایران، آرمینیا، آذربائیجان، فارس، کرمان، خراسان اور مکران شامل تھے۔(تاریخ ابن خلدون، 1: 384)
حضرت عمر ؓ کے دور میں قائم ہونے والے محکموں میں محکمہ فوج، پولیس، ڈاک، بیت المال، محاصل، جیل، زراعت، آبپاشی اور تعلیم شامل ہیں۔ اس سے پیشتر یہ محکمے موجود نہ تھے۔ ان محکموں کے قیام سے یکسر نظام خلافت، نظام حکومت میں بدل گیا۔ تمام محکموں کے افسران اور ملازمین کی تنخواہیں مقرر کی گئیں۔
عمران خان واقعی عوام کو بھوکا نہیں دیکھنا چاہتے اسی لیے توکنٹینر پر بار بار حضرت عمرؓ کا وہ قول دہراتے تھے کہ اُن کی حکومت میں ایک کتا بھی بھوکا نہیں سوتا تھا۔ عمران خان نے عوام کے خواب کی تکمیل کے لیے لنگر خانے بنادیے ہیں، مگر وزیر بتاتے ہیں کہ ان لنگر خانوں سے مستحق کم اور ہٹے کٹے زیادہ فیض یاب ہورہے ہیں تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔ کیونکہ پہلے ہی بار بار یوٹرن پر یوٹرن لینے سے بہت بدنامی ہوچکی ہے۔ عمران خان ڈالر کی قدر بڑھنے پر کس طرح وعدے کرتے تھے کہ اگر میں وزیراعظم بن گیا تو ایسا بالکل نہیں ہوگا اور روپیہ عزت پائے گا۔ پاکستان کے عوام کو مخاطب کرکے انہوں نے کہا تھا کہ میں پاکستان کو ریاست مدینہ کے روپ میں ڈھال دوں گا۔ عمران خان! آپ نے یہ بھی کہا تھا کہ میں وزیراعظم بنتے ہی بے روزگاری کا بھی مکمل خاتمہ کردوں گا، بے روزگاری تو ختم نہ ہوسکی مگر مشیروں اور وزیروں کے غلط مشوروں کی وجہ سے جو فیصلے کیے اُس سے ہزاروں لوگ مزید بے روزگار ہوگئے۔ وزیراعظم کا 50 لاکھ گھر دینے کا وعدہ بھی اب تک شرمندۂ تعبیر نہ ہوسکا۔
محمد حنیف بی بی سی میں لکھتے ہیں کہ عمران خان کو انقلابی سے وہابی بنانے میں زیادہ وقت نہیں لگا۔ انھوں نے قرونِ اولیٰ کے قصے سناکر ہمارا دل گرمایا اور ولایت میں اپنی جوانی کی فتوحات کی جھلکیاں دکھا کر ہمارا ایمان تازہ کیا۔ جب اس سے بھی بات نہیں بنی تو انھوں نے پاکستان کے پرانے گرگوں سے ٹیوشن پڑھی اور اتنے اچھے نمبروں سے پاس ہوئے ہیں کہ یار لوگ ابھی تک گنتی کے چکر میں پڑے ہوئے ہیں۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ کابینہ سے لے کر کور کمانڈروں کے اجلاس تک ہر افسر، ہر وزیر کے آگے منرل واٹر کی ایک بوتل پڑی ہوتی ہے۔ عمران خان کروڑ نوکریاں دے سکیں نہ دے سکیں، ٹیکس کے پیسوں کی چوکیداری کریں نہ کریں، کشمیر آزاد ہو نہ ہو، ان کی کی بات سن کر ان کے نوجوان پرستار سگریٹ نوشی اور گالیاں دینا بند کریں نہ کریں، اگر وہ ہماری جان اس منرل واٹر کی بوتل سے چھڑوا دیں تو مان لیں گے کہ ان کا 22 سالہ سفر رائیگاں نہیں تھا۔ اس کام کے لیے انھیں ورلڈ بینک یا چین سے بھیک مانگنے کی بھی ضرورت نہیں۔ کراچی سے دیسی ساخت کے دو چھوٹے فلٹر پلانٹ منگوائیں، ایک اپنے گھر میں لگوائیں، ایک جی ایچ کیو کو تحفے میں پیش کریں، اور منرل واٹر کی اس وبا سے ہماری جان چھڑوائیں۔ اور آوارہ کتوں کی زیادہ فکر نہ کریں، آرام سے سوئیں، کیوں کہ دریا کے کنارے آزاد گھومتا کتا اپنے رزق کے لیے بادشاہ کا انتظار نہیں کرتا۔

ظالم کو جو نہ روکے وہ شامل ہے ظلم میں
قاتل کو جو نہ ٹوکے وہ قاتل کے ساتھ ہے
ہم سر بکف اٹھے ہیں کہ حق فتح یاب ہو
کہہ دو اسے جو لشکرِ باطل کے ساتھ ہے

ہائے ٹماٹر

کلیم چغتائی

ہر سمت ہے فریاد یہی ہائے ٹماٹر
ڈھونڈے سے بھی اس بار نہ مل پائے ٹماٹر
پہلے تو گلی کوچوں میں تھا ان کا بسیرا
جاتے ہوئے چر جاتی تھی ہر گائے ٹماٹر
اسباب کیا نذر تو ہیں دام چکائے
تب ایک، حفاظت سے بڑی لائے ٹماٹر
شادی تھی منسٹر کے جو فرزند کی، اس نے
پھولوں کی جگہ نوشہ کو پہنائے ٹماٹر
تھی دوستی کیا خوب ٹماٹر سے ہماری
پھر کیا ہوا جو ہم سے ہیں اکتائے ٹماٹر
ہم ان کو کلیجے سے لگانے کو ہیں بے تاب
کیا جانیے کس واسطے شرمائے ٹماٹر
جاری تھا سفر ان کا بڑی تیز روی سے
تھک ہار کے شاید کہیں سستائے ٹماٹر
کم ہی کو یقیں آئے کہ ایسا بھی ہوا تھا
لیڈر پہ خفا لوگوں نے برسائے ٹماٹر
اب عمر گزرتی ہے کلیمؔ اس تگ و دو میں
بھولے سے کہیں ایک ہی مل جائے ٹماٹر

حصہ