صرف اللہ مشکل کشا ہے

718

سیدہ عنبرین عالم
۔’’پانچ بجے تک تیار رہنا، دور جانا ہے، گرم شال اوڑھ لینا، اللہ کرم کرے گا۔‘‘ پھوپھی اماں نے حکم صادر کیا۔ راحیلہ مرے مرے قدموں سے اٹھ کر الماری سے اپنے کپڑے نکالنے لگی، اس کے گلے میں چھ تعویذ تھے۔
آج راحیلہ کی شادی کو سات سال ہوچکے تھے اور اس کی گود ابھی تک سونی تھی۔ وہ بیاہ کر اپنی پھوپھی اماں کے گھر آئی تھی، انہوں نے کبھی بے اولادی کا طعنہ تو نہیں دیا تھا مگر روز کسی نئے پیر، فقیر کے ہاں لے جاتی تھیں۔ راحیلہ کی تمام رپورٹس ٹھیک تھیں، بس اللہ کی مرضی نہیں تھی۔ ماشاء اللہ بہت پڑھی لکھی تھی، بس لحاظ مروت میں پیروں اور مزاروں پر پھوپھی اماں کے ساتھ چلی جاتی تھی، مگر اب وہ اس بداعتقادی سے تنگ آگئی تھی۔
پانچ بجے شام چلنا شروع ہوئے تو اندرون سندھ کے کسی گائوں میں موجود پیر صاحب تک پہنچنے میں رات کے گیارہ بج گئے۔ وہ پیر صاحب رات کو دیکھنا شروع کرتے اور صبح فجر تک حاجت مندوں کو دیکھتے۔ راحیلہ کا سفر کی کلفت سے برا حال تھا، اب جو پیر صاحب کے ہاںگئے تو دو گھنٹے لائن میں بیٹھے رہے۔ خدا خدا کرکے راحیلہ کی باری رات کے تقریباً دو بجے آئی، پیر صاحب نے اس کا اور اس کی ماں کا نام پوچھا۔
’’میری ماں کا آپ کو کیا کرنا ہے؟‘‘ راحیلہ کا دماغ گھوم گیا۔
’’پتا کریں گے کہ آپ پر خدانخواستہ کالا جادو تو نہیں ہوگیا، ورنہ ہمیں بھلا کیا کرنا آپ کی ماں کا؟‘‘ پیر نے کہا۔
’’مگر جو لوگ میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مسائل لے کر آتے تھے، میرے نبیؐ نے کبھی ان کی ماں کا نام نہیں پوچھا، آپ یہ کون سا دین لے کر آئے ہیں؟‘‘ راحیلہ کا تھکن سے برا حال تھا، آج وہ کسی لحاظ کے موڈ میں نہیں تھی۔ پھوپھی اماں نے راحیلہ کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھا اور اس کی ماں کا نام پیر کو بتادیا۔ پیر صاحب نے ایک کاغذ پر آڑی ترچھی لکیریں کھینچیں اور کہا ’’آپ کی بہو پر تو بڑا بھیانک کالا جادو ہے، شیطانی اثر بھی ہے، جبھی اللہ والوں کے خلاف بولتی ہے، اس کا توڑ کرنا پڑے گا۔‘‘
پھوپھی اماں تو لرز گئیں۔ ’’ہائے میری نند ہے حمیرا، اس نے جادو کرایا ہوگا۔‘‘ انہوں نے کہا۔ پیر صاحب نے تیر لگتا ہوا دیکھا تو فرمانے لگے ’’ہمارے پاس ہر جادو کا توڑ ہے، سب سے پہلے تو آپ کی بہو کو ایک ہفتے تک پانی سے پرہیز کرنا پڑے گا اور کالے کپڑے ہی پہن کر رکھے، پانی کو ہاتھ ہرگز نہ لگانا۔‘‘
راحیلہ چونک پڑی۔ ’’میں مسلمان ہوں، روز پانچ وقت وضو کرتی ہوں۔ میں پانی سے پرہیز نہیں کرسکتی، اور پھر میرے نبیؐ نے ایسا کوئی علاج کسی کو کیوں نہیں بتایا؟ وہ تو زیادہ سے زیادہ استغفار کو کہتے تھے، یا پھر سورۃ فاتحہ یا معوذتین تین بار پڑھنے کی ہدایت کرتے۔‘‘
پیر صاحب نے اچھل کر کہا ’’شیطان اسے ہماری بات ماننے سے روک رہا ہے، کوئی بات نہیں، ہم اسے ایسا تعویذ دیں گے کہ سارا شیطان بھاگ جائے گا، ہم نمبروں اور زائچوں والے تعویذ نہیں دیتے، یہ کفر ہے، ہم اللہ کی کتاب کی آیتیں لکھ کر تعویذ بناتے ہیں، اللہ کے کلام سے علاج کرتے ہیں۔‘‘ وہ بولے۔
راحیلہ مسکرا اٹھی ’’میرے پاس ایک بہتر آئیڈیا ہے، آپ تو ایک آیت لکھ کر تعویذ بنائیں گے، میرے پاس ایک 8جی بی کی یو ایس بی ہے، سارا قرآن اس میں ڈائون لوڈ ہے، وہ یو ایس بی میںگلے میں ڈال لیتی ہوں، سارا قرآن گلے میں لٹکے گا تو زیادہ فائدہ ہوگا۔‘‘ اس نے کہا۔
پھوپھی اماں نے زور سے راحیلہ کی ٹانگ میں چٹکی بھری، وہ تڑپ کر رہ گئی، اُدھر پیر صاحب بھی غصے میں آگئے۔ ’’بی بی! پہلے تو اس کا صدقہ نکالو، دو کالے بکروں کے پیسے جمع کرادو، یہ آسانی سے جانے والا شیطان نہیں ہے، قبرستان میں جاکر چلّا کاٹنا پڑے گا‘ اس بچی کے جن سے ہمارے جنوںکا مقابلہ ہوگا، پھر دیکھنا ان شاء اللہ ضرور اولاد ہوگی، وہ بھی بیٹا۔ ہمارا اللہ سے براہِ راست رابطہ ہے۔‘‘ انہوں نے فرمایا۔
راحیلہ بھی بہت غصے میں تھی۔ ’’صدقہ ہم بہت دیتے ہیں، یہ ہمارا اور ہمارے رب کا آپس کا معاملہ ہے، آپ کو کالے بکروں کے پیسے کیوں دیں؟ صدقہ اللہ کی راہ میں غریبوں کی مدد کے لیے ہے، اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ صدقے میں بکرا دیں یا کسی کو دوائی دلا دیں۔ ہمیں تو صرف اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ہے، جو بھی ہماری آسانی ہو، جو بھی ہمیں توفیق ہو۔ ایسی پابندیاں تو اللہ نے نہیں لگائیں، آپ کون ہوتے ہیں ہمیں بتانے والے کہ ہم کس چیز کا صدقہ دیں! میرے نبیؐ نے کوئی ایسا حکم نہیںدیا۔ جو چیز بھی میرے نبیؐ سے ثابت نہ ہو وہ شرک ہے، بدعت ہے۔‘‘ وہ بلند آواز میں کہنے لگی۔
’’پھر یونہی بے اولاد رہ جائو گی، شوہر دوسری شادی کرلے گا۔‘‘ پھوپھی اماں نے بھی اسے للکار کر کہا۔
’’یہ تو قرآن میں لکھا ہوا ہے کہ اللہ جسے چاہے بیٹے دے یا بیٹیاں دے، یا دونوں دے دے، یا بے اولاد رکھے۔ آپ لوگ قرآن تو پڑھو۔ یہاں چار گھنٹے کا سفر کرکے آئے، لائن میں لگ کر بیٹھے ہو، مگر گھر میں رکھا ہوا قرآن پڑھنے کے لیے آپ کے پاس پانچ منٹ نہیں ہوتے، کون خدا سے لڑ سکتا ہے، اگر میری تقدیر میں بے اولاد رہنا ہی لکھا ہے؟ میں روز اپنے رب سے دعا کرتی ہوں، اس کی مرضی ہوگی تو اولاد دے دے گا ورنہ میں اس کی رضا میں راضی ہوں، میں کسی پیر فقیر کے پاس نہیں جائوں گی۔‘‘ راحیلہ نے کہا اور اٹھ کر باہر چلی گئی۔
پھوپھی اماں دندناتی ہوئی باہر آئیں۔ ’’میرا کیا ہے، چار بیٹے اور ہیں، 15 پوتے پوتیاں، میرا کیا فائدہ ہے! مگر تُو بڑھاپے میں تنہا نہ رہ جائے، تیرا شوہر تجھ سے بے زار نہ ہوجائے، اس لیے در در بھٹکتی ہوں تجھے لے کر۔‘‘ انہوں نے کھری کھری سنائیں۔
…٭…
دو، چار روز خیریت سے گزرے کہ پھوپھی اماں پھر ہنستی مسکراتی راحیلہ کے کمرے میں آن گھسیں۔ ’’تم سچ کہتی ہو، یہ جھوٹے پیر فقیرکچھ کرسکتے تو آج تمہارے دو، چار بچے ہوتے۔ تم پڑھی لکھی ہو، یہ چیزیں سمجھتی ہو، ہم ٹھیرے جاہل۔ ہمارے ابا تمہارے ابا جیسے کھلے دماغ کے نہیں تھے کہ لڑکیوں کو پڑھاتے، ہم اللہ سے مانگنے کے بجائے بابوں سے مانگتے رہے۔‘‘
راحیلہ پہلے پہل تو حیران رہی کہ پھوپھی اماں کو اتنی خوش اخلاقی بھلا کیسے سوجھی! ساس تو ساس ہی ہوتی ہے، چاہے کتنا ہی قریبی رشتہ ہو۔
’’نہیں پھوپھی اماں، آپ کے سلیقے کا ہم کہاں مقابلہ کرسکتے ہیں!‘‘ وہ بولی۔
پھوپھی اماں نے راحیلہ کے سر پر ہاتھ رکھا ’’بیٹا! ایک مسجد کا پتا لگا ہے، کوئی پیر فقیر نہیں، کوئی پیسہ نہیں لیتے، بس دعا کرتے ہیں اور بلا جھاڑ دیتے ہیں۔ جو اصل بزرگ تھے اُن کا تو انتقال ہو گیا، اب اُن کے شاگرد ہیں، پڑھا ہوا پانی دیں گے۔ کوئی شرک، بدعت نہیں ہے، قرآن سے دَم کرتے ہیں، چلو گی ناں؟‘‘ انہوں نے پوچھا۔
راحیلہ سٹپٹائی، مگر کیا کہتی، مجبور تھی۔ ’’جی اچھا پھوپھی اماں! یہ سارے پرانے تعویذ نکال دوں؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’ہاں نکال دو بیٹا! عقیدے سے جائو گی تو فائدہ ہوگا، عقیدہ نہ ہو تو ہزار تعویذ بے کار۔‘‘ انہوں نے کہا۔
’’پھوپھی اماں قرآن تو میں بھی پڑھتی ہوں، ترجمہ تفسیر سے پڑھتی ہوں، بلکہ اب تو مدرسے میں بالغ خواتین کو پڑھانے لگی ہوں، مجھے اللہ پر بھروسا ہے۔ کشمیر اور فلسطین کی مائیں تو خود اپنے بچے اللہ کی راہ میں قربان کردیتی ہیں، میں صرف اولاد نہ ہونے سے اپنے رب سے کیسے ناراض ہوجائوں!‘‘ راحیلہ بولی۔
پھوپھی اماں کھڑی ہوگئیں۔ ’’کل ظہر کی نماز کے بعد تیار رہنا اور بکواس کم کرنا۔‘‘ وہ کہہ کر چلی گئیں۔
…٭…
’’اے اللہ! میں تجھ سے ناراض نہیں ہوں، اور تیرے در پر تجھ سے دعا مانگنے جارہی ہوں، اگر مجھ سے کوئی غلطی ہوجائے تو مجھے معاف کردینا۔‘‘ راحیلہ نے گھر سے نکلنے سے پہلے دعا مانگی۔ تقریباً ایک گھنٹے کی مسافت تھی۔ ملیر کالا بورڈ کی طرف پہنچے تو کچھ دور وہ مسجد نظر آئی۔ مسجد کے باہر کافی پولیس اور رینجرز تھی، رکشے کھڑے ہوئے تھے، بہت سی خواتین آکر مسجد میں داخل ہورہی تھیں۔ راحیلہ مسجد میں داخل ہوئی۔ خاصی بڑی اور صاف ستھری مسجد تھی، بڑی تعداد میں خواتین بیٹھی ہوئی تھیں۔
پھوپھی اماں ہاتھ میں تسبیح لیے درود پڑھنے میں مصروف تھیں، 500 کا نوٹ ہاتھ میں پکڑ رکھا تھا۔ نذرانہ ہر ایک دے رہا تھا، کوئی 100، کوئی 200، کوئی 500۔ لنگر کے لیے چندے کا ڈبا الگ رکھا تھا۔ خدا خدا کرکے راحیلہ کی باری آئی۔ مولوی صاحب نے راحیلہ اور اس کی ماں کا نام پوچھا۔ راحیلہ پھر کھول کر رہ گئی، سو یہ فرض پھوپھی اماں نے ادا کردیا۔ مولوی صاحب کبھی اِس سے بات کرتے، کبھی اُس سے۔ پیسوں کا لین دین بھی جاری تھا۔ کوئی توجہ راحیلہ پر نہ تھی۔ پھر کہنے لگے کہ آپ پر بہت برا جادو ہے۔ چند تعویذ دیے کہ جسم پر پھیر کر جلانے ہیں، کچھ گلے میں لٹکانے ہیں، کچھ پانی میں گھول کر پینے ہیں۔ راحیلہ کا چہرہ غصے سے لال ہورہا تھا، وہ بغیر کچھ کہے مسجد سے باہر نکل گئی۔
…٭…
اب کے دو مہینے خیریت سے گزر گئے۔ راحیلہ کا شوہر پابندی سے اسے اسپتال میں چیک اَپ کے لیے لے جاتا۔ روز آتے ہوئے راحیلہ کے لیے فروٹ بھی لاتا تھا، دونوں رات میں گھومنے پھرنے بھی نکل جاتے تھے۔ یعنی دونوں خوش تھے۔ اولاد کی کمی کی کسک دوسرے لوگ آگ لگائیں تو تھی، ورنہ یہ دونوں ایک پُرسکون زندگی گزار رہے تھے۔ ’’راحیلہ! اماں کہہ رہی تھیں کل اُن کے ساتھ کسی بابا کے پاس جانا ہے، بہت پہنچے ہوئے بابا ہیں، ہر بات پہلے سے جانتے ہیں، آخری بار جا کر دیکھ لو۔‘‘ راحیلہ کے شوہر نے پھوپھی کا پیغام دیا۔
’’جی اچھا! یہاں بھی چلی جاتی ہوں، جیسے آپ کا اور آپ کی اماں کا حکم۔‘‘ راحیلہ نے بصد مجبوری کہا۔
…٭…
یہ ایک پوش علاقے میں بڑا سا بنگلہ تھا، اندر ائرکنڈیشنر چل رہے تھے، بڑی بڑی گاڑیاں کھڑی ہوئی تھیں اور بڑی ماڈرن خواتین کا آنا جانا لگا ہواتھا۔ اندر گئے تو کمپیوٹرز پر کام ہورہا تھا۔ سب سے پہلے پانچ ہزار روپیکنسلٹنگ فیس جمع کرائی۔ دو گھنٹے میں باری آئی، جاکر بیٹھے تو سوٹ ٹائی والے بابا اپنے آپ ہی کسی موکل سے بات کرنے لگے، پھر خود ہی راحیلہ کا اور اس کی ماں کا نام بتادیا، یہ بھی بتادیا کہ بے اولادی کا مسئلہ ہے، یہ تک بتادیا کہ راحیلہ پانچ سال کی عمر میں گری تھی اور ٹانگ میں جب سے ہی لنگ ہے۔ اس کی شادی کی تاریخ اور شوہر کا پیشہ تک بتا دیا۔ ادھر پھوپھی اماں عقیدت سے صدقے واری جارہی تھیں، اس دوران انہیں کولڈ ڈرنک، سینڈوچ اور بسکٹ پیش کیے گئے۔
’’بابا! میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تو کچھ بھی پہلے سے پتا نہ چلتا تھا، ورنہ وہ غزوہ احد میں اتنا نقصان نہ اٹھاتے، حتیٰ کہ وہ ایک بار خواب کی بنا پر بیت اللہ کو چل دیے اور کفار نے انہیں طواف کی سعادت حاصل نہ کرنے دی اور معاملہ اگلے سال پر ٹل گیا۔ آپ کیا علم غیب رکھتے ہیں؟‘‘ راحیلہ نے کہا۔
’’بابا نے قہقہہ لگایا ’’بیٹی! ہمارے قابو میں جن ہوتے ہیں، جو انسان پیدا ہوتا ہے اُس کے ساتھ اُس کا ایک جن پیدا کردیا جاتا ہے، ہمارے جن تمہارے جن سے رابطہ کرکے تمام معلومات حاصل کرلیتے ہیں۔ کیوں کہ تمہارا جن تو بچپن سے تمہارے ساتھ ہے، اسے سب معلوم ہوتا ہے۔ ہم مستقبل کا کچھ نہیں بتا سکتے، مگر کچھ عمل جنوں کے ذریعے کرتے ہیں۔‘‘ انہوں نے بتایا۔
’’جن تو ملائکہ سے ایک آدھ معلومات حاصل کرکے سو جھوٹ ملا دیتے ہیں۔‘‘ راحیلہ نے خدشہ پیش کیا۔
’’ہاں بیٹا! بس سورۃ مریم پڑھ لیا کرو، شاید اولاد ہوجائے، ہماری کیا طاقت ہے۔‘‘ بابا نے کہا۔
راحیلہ مسکرائی ’’بہت مناسب! آپ میں ریا کاری نہیں ہے، آپ مجھے اچھے لگے۔‘‘ اس نے کہا اور حیران و پریشان پھوپھی اماں کے ساتھ باہر نکل آئی۔
…٭…
دو سال مزید انتظار کے بعد راحیلہ اور اس کے شوہر نے علیحدہ گھر لے لیا اور تین نومولود بچیاں ایدھی سینٹر سے گود لے لیں، اس کے لیے تمام قانونی کارروائی کی۔ پھوپھی اماں چوں کہ لے پالک اولاد کی قائل نہیں تھیں اس لیے الگ گھر لینا پڑا۔ راحیلہ نے اپنی اوپر کی منزل پر ’’ڈے کیئر سینٹر‘‘ کھول لیا، جہاں بیوہ اور طلاق یافتہ عورتیں اپنے بچے چھوڑ کر نوکریوں پر جاتی تھیں، بہت مناسب فیس تھی۔ ایدھی سینٹر سے چھ لڑکیاں لاکر ڈے کیئر سینٹر کی ملازم رکھ لیں، انہیں چھت بھی مل گئی، تنخواہ بھی اور حفاظت بھی۔ بچوں اور لڑکیوں کو روزانہ راحیلہ قرآن کے اسباق دیا کرتی۔ اس کے علاوہ ہر پیر، بدھ، جمعہ کی شام پانچ بجے خواتین کی ترجمہ و تفسیر و احادیث کی کلاس بھی راحیلہ رکھا کرتی۔
ماشاء اللہ آج سینکڑوں بچے اور خواتین ہیں جو اسے ’’ماں‘‘ کہہ کر پکارتے ہیں۔ اس کی تین بیٹیاں بھی آج اس قدر علم رکھتی ہیں کہ سینکڑوں گھروں میں قرآن و حدیث کے لیکچر دینے روزانہ کی بنیاد پر بلائی جاتی ہیں۔ میرے رب نے سب کے لیے الگ الگ آزمائشیں بنائی ہیں۔ اب ہم چاہیں تو اپنی آزمائش کو مصیبت سمجھ کر تمام عمر روتے رہیں، شرک تک کا سہارا لینے کی کوشش کریں، یا اپنی آزمائش کو اپنے لیے جنت کا راستہ بنا لیں۔ ایک در بند ہوتا ہے تو سو در کھلتے ہیں۔

حصہ