مطالعہ اور مشاہدہ تحریر کو جِلا بخشتے ہیں

845

معروف قلمکار، مدیرہ دوشیزہ اور سچی کہانیاں منزہ سہام سے گفتگو

فائزہ مشتاق

کہا جاتا ہے کہ محنت اتنی خاموشی سے کرو کہ کامیابی خودبخود تمہاری محنت کا پتا دے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کسی نے اپنی لگن کے راستے میں حائل رکاوٹوں کا بغیر قدم ڈگمگائے مقابلہ کیا، وہ منزل سے ہمکنار ہوا۔ منزہ سہام کا شمار بھی انہی میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنے والد مرحوم سہام مرزا کی وفات کے بعد ماہنامہ ’’دوشیزہ،، کو نہ صرف سنبھالا بلکہ اپنی انتھک کاوشوں اور جہدِ مسلسل سے وہ معیار اور مقام دیا کہ آج ’’دوشیزہ،، ملک کے نامور ڈائجسٹوں کی دوڑ میں شامل ہے۔ منزہ سہام نہ صرف ’’دوشیزہ،، بلکہ ’’سچی کہانیاں،، کی بھی مدیرہ اور پبلشر ہیں۔ ان کی کامیابیوں کے بارے میں جاننے کے لیے گزشتہ دنوں ہم نے ان سے گفتگو کی جو قارئین کی دلچسپی کے لیے پیش کی جارہی ہے۔

سنڈے میگزین: سب سے پہلے تو اپنی کامیابیوںکے بارے میں بتایئے؟
منزہ سہام: میں سمجھتی ہوں کہ انسان اس قابل ہی نہیں کہ کامیابیوں کا سہرا اپنے سر باندھ سکے۔ یہ تو اللہ کی دین اور کرم نوازی ہے۔ میں آج جو کچھ بھی ہوں، یہ میرے رب کا مجھ پر احسانِ عظیم ہے۔
سنڈے میگزین: بچپن کی یادیں کیسی تھیں؟ دل تو کرتا ہوگا اس دور میں دوبارہ جانے کا؟
منزہ سہام: بچپن میرا بہت اچھا تھا جیسے کہ ہر بچے کا ہوتا ہے۔ اپنے والد کی لاڈلی تھی، لہٰذا کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا تھا۔ شرارتی نہیں تھی مگر درختوں اور چھجوں پر بیٹھنے کا شوق تھا۔ میں اصل میں اپنے آپ کو لڑکا سمجھتی تھی، کیوں کہ ابو مجھے ’’میرا بیٹا‘‘ کہتے تھے۔ بس اسی لیے سارے شوق لڑکوں والے تھے۔ سائیکل چلانا، پتنگ اڑانا، غلیل سے نشانے لگانا… لباس بھی لڑکوں والا ہی پہنتی تھی اور لب و لہجہ بھی ویسا ہی تھا۔ میں اپنے بچپن میں ضرور واپس جانا چاہوں گی، اس لیے نہیں کہ وہ بے فکری کا دور تھا، بلکہ اس لیے کہ میرے ابو میرے پاس تھے۔ بڑے ہونے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ والد ساتھ چھوڑ گئے۔ اللہ انہیں جنت الفردوس میں جگہ دے، آمین۔
سنڈے میگزین: تعلیمی پس منظر کے متعلق بتایئے؟
منزہ سہام: میں بہت واجبی سی اسٹوڈنٹ تھی۔ میٹرک ائر فورس کے اسکول سے کیا، پھر سینٹ جوزف سے تعلیم حاصل کی۔ ماسٹرز بین الاقوامی تعلقات میں کراچی یونیورسٹی سے کیا۔
سنڈے میگزین: مصنفہ، مدیرہ، کالم نگار، پبلشر… کس شعبے کو سب سے زیادہ انجوائے کیا؟ کون سا مشکل لگا؟
منزہ سہام: مدیرہ کی کرسی سنبھالنا مشکل محسوس ہوا۔ میں درحقیقت بہت باتیں کرنے والی یا میل جول رکھنے والی خاتون نہیں۔ بس اپنے کام سے کام رکھتی ہوں۔ ذاتی تعلقات کی بنیاد پر کسی قسم کا فیور بھی دینے کی قائل نہیں۔ بس یہی وجہ ہے کہ مجھے بعض اوقات عجیب و غریب صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے، مگر انجوائے بھی اسی شعبے کو کیا۔ مختلف مصنفین کی تحریریں پڑھنا اور جہاں ضرورت ہو اصلاح کرنا اچھا لگتا ہے، اپنا آپ معتبر محسوس ہوتا ہے۔
سنڈے میگزین: تخلیقی جوہر کی موجودگی کا احساس کب ہوا اور اس کا اظہار کیسے کیا؟
منزہ سہام: جیسا کہ میں نے آپ کو بتایا، میں اپنے والد سے بہت قریب تھی، صحافت اُن کے خون میں بستی تھی، اسی لیے بچپن سے ہی میرا بڑا قریبی تعلق کاغذ، قلم اور سیاہی سے رہا۔ پہلی کہانی پانچویں جماعت میں لکھی تھی ’’بلی کانفرنس‘‘، جو بچوں کے رسالے میں شائع ہوگئی تھی۔
سنڈے میگزین: اپنے کیریئر میں کوئی یادگار لمحہ؟
منزہ سہام: مجھے دفتر سنبھالتے ہوئے تقریباً 17 سال ہوچکے ہیں، بہت سے ایسے واقعات ہیں جو یادگار ٹھیرے، مگر ایک واقعہ بہت مزے دار ہے۔ ’’دوشیزہ‘‘ میں مشہور شخصیات کے انٹرویوز کا سلسلہ طویل عرصے سے جاری ہے۔ ایک مشہور ٹی وی آرٹسٹ ’’شہود علوی‘‘ آفس تشریف لائے۔ اس سے قبل میری اُن سے فون پر بھی بات ہوئی۔ اُن کی والدہ اور خالہ سے میری والدہ کے مراسم تھے، ایسے کہ وہ دوشیزہ کی مصنفائیں تھیں، لہٰذا جب شہود دفتر آئے تو میری ان سے ملاقات ہوئی۔ بات چیت کا دور شروع ہوا۔ کچھ دیر بعد انہوں نے کہاکہ میری میزبان کو تو بلائیں۔ ہم سب حیرت سے انہیں دیکھنے لگے۔ ایڈیٹر صاحبہ نے پوچھا ’’آپ کس کی بات کررہے ہیں؟‘‘ تو وہ بولے ’’منزہ سہام‘‘۔ میں نے کہا میں ہی منزہ ہوں، تو وہ حیران ہوئے اور بولے ’’میں تو سمجھا آپ عمر رسیدہ خاتون ہوں گی‘‘۔ وہ شاید میری والدہ کے نام کی وجہ سے کنفیوز تھے۔ بہرحال ہم سب بہت ہنسے اور وہ ملاقات بہت اچھے ماحول میں ختم ہوئی۔
سنڈے میگزین: آج اور پچھلے دور کے ادب میں کیا فرق پایا؟
منزہ سہام: ہر دور کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔ ماضی میں سفر کرنا کسے برا لگتا ہے! آپ بہت کچھ کھو کر نئے دور میں داخل ہوتے ہیں۔ مجھے ایک بہت واضح فرق نظر آتا ہے اور وہ سوائے ناکامی اور بربادی کے کچھ نہیں دیتا، وہ ہے جلد بازی، سب کچھ فوراً پالینے کی آرزو، چاہے وہ شہرت ہو یا پیسہ۔ اب چلن کچھ ایسا ہے کہ نوجوان صبر سے عاری ہوگئے ہیں۔ وہ سمجھ ہی نہیں پارہے کہ محنت اور سخت جدوجہد واحد راستہ ہے کامیابی کا۔ یہی فرق نئے لکھنے والوں میں نظر آتا ہے۔ ایک افسانہ لکھنے کے بعد لکھاری سیکھنے کے بجائے عقلِ کُل بن جاتے ہیں۔ انہیں ایک مہینے میں پاکستان سے نکلنے والے ہر چھوٹے بڑے رسالے میں شائع ہونا ہوتا ہے۔ یہ مزاج ادب اور ادیب دونوںکے لیے خطرناک ہے۔
سنڈے میگزین: کس نے صلاحیتوں کو ابھارنے میں کلیدی کردار ادا کیا؟
منزہ سہام: میرے والد نے مجھ پر بہت محنت کی۔ انہوں نے کبھی یہ احساس نہیں دلایا کہ میں لڑکی ہوں اور مجھے بس ایک حد تک جانے کی اجازت ہے۔ میں نے کبھی حدود سے تجاوز بھی نہیں کیا۔ حد درجہ خود اعتمادی کے ساتھ زندگی میں آگے بڑھتی گئی۔ اگر میں کہوں کہ اپنے والد کی تربیت کی بدولت میں نے مسائل اور مشکلات کا مردانہ وار مقابلہ کیا تو غلط نہ ہوگا۔
سنڈے میگزین: تحریروں میں کیسے موضوعات پسند ہیں؟
منزہ سہام: مجھے وہ تحریر اچھی لگتی ہے جس کو پڑھنے کے بعد انسان اپنی خامیوں کو سدھار سکے۔ معاشرتی رویّوں اور مسائل پر قلم اٹھایا جائے اور پھر ان کا حل بھی بہتر انداز میں بتایا جائے۔ ایسی تحریر انسانی زندگی بدلنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ اچھی اور سچی بات دیر سے مگر اثر ضرور کرتی ہے۔
سنڈے میگزین: جب ابتدا کی، تب سے اب تک اس سفر میں کیا فرق آیا؟
منزہ سہام: ابتدا میں اور اب میں واضح فرق ہے۔ ظاہر ہے عمر اور تجربے سے بڑا تو کوئی استاد نہیں، میں بھی انہی دونوں کی ہمراہی میں یہاں تک پہنچی ہوں، اور اب میں زندگی کے ہر معاملے میں ٹھیرائو کی قائل ہوں اور درگزر میری طاقت ہے۔
سنڈے میگزین: بچوں میں سے کسی میں ادبی ذوق منتقل ہوا؟
منزہ سہام: ابھی تو ایسا بالکل محسوس نہیں ہوتا کہ بچے اس طرف توجہ دیں گے، مگر میرے بڑے بیٹے دانیال وکالت کے ساتھ ساتھ کبھی کبھی کوئی چھوٹی سی کہانی یا پیراگراف مجھے ضرور سناتے ہیں مگر انگریزی میں۔
سنڈے میگزین: کس شخصیت سے بہت متاثر ہوئیں؟
منزہ سہام: اپنے والد کے بعد اگر مجھے کوئی شخصیت بے انتہا پسند ہے تو وہ جنرل ضیا الحق شہید ہیں۔ میں نے ان کو بہت قریب سے دیکھا۔ ان کے بھائی نعیم الحق ہمارے پڑوسی تھے۔ وہ جب بھی کراچی آتے، اپنے بھائی کے گھر رات کا کھانا اپنے بچوں اور بیگم کے ساتھ ضرور کھاتے۔ میں کیوں کہ روزانہ کی بنیاد پر نعیم الحق صاحب کے گھر جایا کرتی تھی، اسی لیے ضیا الحق صاحب کے ساتھ کھانے میں شریک ہوتی۔ اعجازالحق بھی ہوتے۔ صرف محبت والے رویّے یاد رہتے ہیں، مگر اب میں سوچتی ہوں کہ ضیا الحق شہید بہت نفیس انسان تھے، بہت غیر معمولی لوگ تھے وہ۔ انکسار اور خلوص کوٹ کوٹ کر ان میں بھرا تھا۔ وہ سچے اور کھرے، باطل سے نہ ڈرنے والے تھے۔ اللہ ان کے درجات بلند فرمائے۔
سنڈے میگزین: پسندیدہ ادیب اور کتاب کون سی ہے؟ کیا شاعری سے بھی شغف ہے؟
منزہ سہام: ہر اچھی کتاب پسند ہے۔ غالب، علامہ اقبال اور بہادر شاہ ظفر کی شاعری پسند ہے۔ مصنف مجھے پاولوکوئلو، جن کا تعلق برازیل سے ہے، بہت پسند ہیں۔ ان کے علاوہ بانو قدسیہ، زاہدہ حنا صاحبہ پسند ہیں۔ قدرت اللہ شہاب کا ’’شہاب نامہ‘‘ میں نے کئی بار پڑھی، بہت پسند ہے۔
سنڈے میگزین: زندگی کے اتار چڑھائو کا کیسے سامنا کیا؟
منزہ سہام: زندگی تو نام ہی نشیب و فراز کا ہے۔ میں نے اپنے والد کے انتقال کے بعد بہت مشکل وقت دیکھا، مالی اعتبار سے بلکہ اخلاقی اعتبار سے بھی۔ پولیس اور کچہری جس سے عام آدمی گھبراتا ہے، میں نے روزانہ کی بنیاد پر ان کا سامنا کیا۔ اولاد کا بچھڑ جانا بہت اذیت ناک تھا، مگر مجھے یقین تھا کہ میں رشتے ناتوں کے اعتبار سے تنہا ضرور ہوگئی ہوں مگر میرا اللہ میرے ساتھ ہے۔ بہت سے ایسے لوگوں نے مدد کی جو مجھے جانتے بھی نہیں تھے، لیکن اگر میرے دونوں بیٹے دانیال اور زین میرے ساتھ نہ ہوتے تو شاید یہ جنگ ہار جاتی۔ آج جب پیچھے پلٹ کر دیکھتی ہوں تو احساس ہوتا ہے کہ شاید میرے والد کو اندازہ تھا کہ ان کی اس بیٹی پر بہت کڑا وقت آئے گا، اسی لیے انہوں نے مجھے اپنی زندگی ہی میں تیار کردیا تھا، تبھی میں آج پوری متانت کے ساتھ زندہ کھڑی ہوں۔
سنڈے میگزین: لوگ کس طرح کے اچھے لگتے ہیں؟ جلدی سب سے گھل مل جاتی ہیں؟
منزہ سہام: سچے اور کھرے لوگ پسند ہیں۔ سر اونچا کرکے چلنے والے، ہاتھ نہ پھیلانے والے۔ اور میں ایسے لوگوں کی قدر کرتی ہوں۔ میں بہت کم بات کرتی ہوں، اسی لیے زیادہ گھلتی ملتی نہیں۔
سنڈے میگزین: وہ کون سے معاشرتی مسائل ہیں جو دکھ کا باعث ہیں؟
منزہ سہام: معاشرتی مسائل کی بڑی وجہ بناوٹی زندگی کا حصول اور بے حسی ہے، اور یہ دونوں بیماریاں وہیں پیدا ہوتی ہیں جہاں دین سے دوری ہو۔ اگر ہم سچے مسلمان بن جائیں تو زندگی بہت سہل ہوجائے۔
سنڈے میگزین:نئے لکھنے والوں کو کیا مشورہ دیں گی؟
منزہ سہام: نئے لکھنے والے بہت اچھے ہیں، بعض تو ایسے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ میں بس یہی کہوں گی کہ صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔ ایک ساتھ کئی رسالوں میں چھپنا تحریر کو جِلا نہیں بخشے گا، اس کے لیے مزاج میں ٹھیرائو پیدا کریں، اچھی کتب کا مطالعہ اور مشاہدہ کرنے کی عادت ڈالیں۔
سنڈے میگزین: عام طور پر یہ تصور کیا جاتا ہے کہ ڈائجسٹ اخلاق باختہ کہانیوں کی ترویج کرتا ہے۔ بطور مدیرہ آپ نے اس سلسلے میں کیا اقدامات کیے؟
منزہ سہام: یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ صاف ستھری کہانیاں اور افسانے شائع کریں۔ ہم نے کبھی بیچنے کے لیے شمارے شائع نہیں کیے، اسی لیے بھیڑ چال کا حصہ بھی نہیں بنے۔ جو چیز اپنے لیے بہتر سمجھی، وہی اپنے پڑھنے والوں کے لیے پسند کی۔ اللہ کا بڑا احسان ہے کہ دوشیزہ اور سچی کہانیاں والدین اپنے بچوں کو پڑھنے کے لیے دیتے ہیںاور 47 سال کے اس طویل سفر میں ہم نسل در نسل منتقل ہوتے رہے ہیں۔
سنڈے میگزین: اپنے پڑھنے والوں کو کیا پیغام دیں گی؟
منزہ سہام: میں اپنے پڑھنے والوں سے صرف اتنا ہی کہوں گی کہ اپنے بچوں کی اعلیٰ خطوط پر تربیت کریں، انہیں صاف ستھرا رہنے کی عادت ڈالیں۔ حالات چاہے کیسے ہی کیوں نہ ہوں، ہاتھ نہ پھیلانے دیں۔ بس اس صورت میں ہم ایک غیرت مند قوم کھڑی کرسکیں گے۔
سنڈے میگزین: آپ کا وقت دینے کا بہت شکریہ۔

حصہ