کشمیر میرا دیس

217

عالیہ زاہد بھٹی
کھانے کی میز پر آج ایمان کا موڈ آف دیکھ کر اس کے ڈیڈی نے مسکرا کر پہلے اُسے پھر مجھے دیکھا’’کیا بات ہے، آج پھر کھانا مرضی کا نہیں؟‘‘
’’نہیں ڈیڈی کچھ نہیں، اچھا ہے کھانا تو۔‘‘
’’پھر کیا فاطمہ سے لڑائی ہوئی ہے؟‘‘ انہوں نے معمول کی بات سمجھ کر گویا اس کے چڑ جانے کا انتظار کیا۔
’’نہیں ڈیڈی! میری آج کالج میں ایک لڑکی سے بحث ہوگئی۔‘‘ وہ رو دینے کو تھی۔
’’کیا بحث ہوئی؟ تفصیل سے بتائو‘‘۔ ہم سب ہمہ تن گوش ہوگئے۔
وہ گھر میں بہن بھائیوں سے تو لڑ لیتی تھی مگر کبھی باہر بحث تک نہیں کی۔
’’میں کشمیر کے حوالے سے بات کررہی تھی کہ اُدھر کشمیریوں پر ظلم ہورہا ہے اور ہم کرتارپور راہ داری کھول کر خیر سگالی کی دعوت دے رہے ہیں، وہ بھی9 نومبر، یوم اقبال پر۔‘‘ ایمان تفصیل بتارہی تھی۔
’’تو پتا ہے اس لڑکی نے کیا کہا؟‘‘ اب کی بار ایمان کی آنکھیں مزید پھیلیں…ہم سب کو سوالیہ پاکر اس نے اپنی گفتگو کو جوڑا۔ ’’میری سہیلی اچانک غصے میں آگئی، نفرت کے رنگ اس کے چہرے پر واضح تھے، وہ بولی ’’یہ کیا تم لوگ کشمیر، کشمیر کی رٹ لگا رہے ہو! ہمارے اپنے ملک کے اتنے سارے ایشوز ہیں، وہ نظر نہیں آتے؟ کشمیر میں کیا ہورہا ہے ہمیں کیا؟ تم پاکستان کی فکر کرو‘‘۔ ’’میں نے اس سے کہا: چلو پاکستان کی فکر کرلیتے ہیں۔ یہاں سودی معیشت کا تحفہ نسل در نسل منتقل ہورہا ہے۔ ہر چیز مہنگی، غریب عوام کا حال برا۔ وہ میری بات اچکتے ہوئے پھر چلّا کر بولی ’’بس بس، یہ بتاؤ تم گھر سے کھانا کھا کر آئی ہو ناں؟ اتنے مہنگے کالج میں پڑھ بھی رہی ہو۔ ظاہر ہے غربت سے تمہارا کیا لینا دینا…!‘‘ وہ لڑکی نفرت میں بہری ہوکر سرعت سے کہتی چلی جارہی تھی۔ ’’تم بس اپنی بات کرو۔ اور رہے اقبال، تو ان کی شاعری دیکھ لو، وہ بھی تو خود کہتے ہیں کہ سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا…‘‘
اس لمحے مجھے اپنی سماعتوں پر یقین نہ آیا۔ مگر وہ تو اپنی رو میں بولتی چلی جارہی تھی:
’’وہ آج زندہ ہوتے تو سب سے زیادہ خوش ہوتے کہ یوم اقبال پر ہم ہندوستان کے ساتھ جڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘
اُف مت پوچھیں اُس کی اتنی بے ہودہ منطق پر مجھے کتنا غصہ آیا، پھر بھی میں نے صبر کا دامن تھامے رکھا۔ میں نے اسے بتایا کہاقبال کی یہ نظم اُن کے ابتدائی دور کی ہے جب وہ متحدہ ہندوستان کے حامی تھے۔ بعد میں وہ ایک اُمت کے تصور کے شاعر بنے اور انہوں نے ہی نیل کے ساحل سے لے کر کاشغر تک مسلم امت کو حرمِ کعبہ کی پاسبانی کا پابند کیا۔
میں اور بھی بہت کچھ اُسے بتانا چاہتی تھی لیکن سنی اَن سنی کرکے بولی ’’حقیقت یہ ہے کہ ہم کمزور ہیں، ہمیں دب کر رہنا ہوگا۔ ہمیں جنگ سے بچ کر امن کی بات کرنی ہے، کیوں کہ اسلام امن کا مذہب ہے…‘‘یہ کہہ کر وہ تیزی سے آگے بڑھ چکی تھی۔ لیکن میں تو تڑپ کر رہ گئی۔
مجھے بتائیں کہ میری عمر کے لڑکے، لڑکیاں آج کیوں کمزور سوچ اور اپاہج جذبات کا شکار ہو گئے ہیں؟‘‘ایمان اب ہم سے سوال کررہی تھی۔
’’ماما! کیا ان کے بڑے سیرتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم، سیرتِ صحابہؓ اورتذکرۂ صحابیاتؓ پڑھانا بھول گئے ؟ کیا پاکستان کی تاریخ کا مطالعہ کرانا بھول گئے یا…‘‘ وہ ہاتھوں میں منہ دے کر رو دی۔
میں لاجواب تھی، سوچنے لگی کہ یہ نسل بھول گئی یا اسے بھلوا دیا گیا؟
تعلیمی اداروں میں آج حجاب کی پابندی کا ایکٹ دوسرے دن بدل دیا جاتا ہے، مگر ڈانس پارٹیاں اور بے حیائی پر مبنی مخلوط تعلیمی نظام رہنے دیا جاتا ہے۔شاید آج اقبال کی قوم کا اقبال یعنی عروج کھو گیا۔
ذہن سوچوں کے بھنور میں پھنس چکا تھا۔

حصہ