عاجزی، و انسکار، ایمان و تقویٰ کا پیکر۔۔۔ ہماری پیاری عابدہ باجی

598

طلعت افشاں عسکری
انسان کی زندگی میں کچھ رشتے بہت انمول اور بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہوتے ہیں اور میرا ایک ایسا ہی عظیم رشتہ عابدہ باجی کے ساتھ تھا،میری مربی،میری استاد بہت شفیق،بہت زیادہ محبت کرنے والی،عاجزی، انکساری، ایمان و تقوے کا پیکر، جب میں 1997میں سیکٹر 7/D3 نارتھ کراچی میں رہائش پذیر ہوئی تو میری ان سے ملاقات ہوئی۔وہ ہفتے میں تقریباًدو دفعہ مجھ سے ملاقات کرنے میرے گھر چلی آتیں اور جب وہ گھر کا دروازہ بجاتی تو کہتیں میں عابدہ تسلیم،طلعت دروازہ کھولو اور میرا کوئی سا بچہ بڑھ کر دروازہ کھول دیتا،بڑی محبت،بڑی اپنائیت سے مجھے گلے لگاتی اور چند پمفلٹ مجھے تھما کر اور میرے بچوں کو بہت زیادہ پیار اور دعائیں دے کر رخصت ہوجاتیں۔
میری ساس جنہیں میں ممی کہتی وہ بھی شدت سے پیر کے دن عابدہ باجی کا انتظار کیا کرتیں،مطلب یہ کہ ان کی بچوں،بڑوں سب سے یکساں گہری دوستی تھی،میرے بچوں کو کتابیں لاکر دیتیں،میرے بیٹے کو پیار کرتیں تو کہتی یہ مجاہد بنے گا اور اس کی چھوٹی چھوٹی باتوں پر خوش ہوتیں اور اکثر اس کے لیے چھوٹی چھوٹی کہانی کی کتابیں لاتیں۔ ایک کتاب جو میرے بیٹے کو بہت پسند آئی وہ پہاڑوں کا بیٹا تھی جسے گھر کے ہر فرد نے پڑھا اور وہ آج تک ہماری لائبریری میں موجود ہے۔پھر انہوں نے بڑی اپنائیت اور پیار کے ساتھ مجھے جماعت اسلامی سے متعارف کروایا،ہر جگہ پروگرامز میں لیکر جاتیں پھر انہوں نے مجھے تربیتی کلاسز اٹینڈ کروائیں۔بفرزون میں طیبہ عاطف کے گھر اور کبھی اقبال انساء کی کلاس میں لے کر جاتیں۔پھر جب انہوں نے میری دین سے دلچسپی دیکھی تو بولیں طلعت اب اپنے گھر میں درس رکھو اور محلے والوں کو دعوت دو۔ کیونکہ مجھے بچپن سے ہی دین سے شغف تھا اس لیے میری اور ان کی گہری دوستی ہوگئی۔جب درس ساڑھے تین بجے دوپہر کا رکھا جاتا سخت گرمی ہوتی اور عابدہ باجی تین بجے ہی آجاتیں اور کہتی طلعت بس نہیں آئی تو میں پیدل آگئی، میں کہتی ہائے عابدہ باجی اتنی گرمی میں،کہتیں طلعت جہنم کی آگ اس سے زیادہ گرم ہے اور مدرس کو پہلے پہنچنا چاہیے۔میں ابھی جماعت کے سیٹ اپ کو سمجھ بھی نہ پائی تھی کہ ایک دن انہوں نے مجھے دستور لاکردیا اور کہا اس کو پڑھ لینا،میں نے پڑھا مگر کچھ سمجھ نہ آیا انہوں نے مجھے عملی طور پر سمجھا یا اور جس طرح میری تربیت کی وہ ان ہی کا کمال تھا۔
جب بارہ ربیع الاول آتا تو کہتیں طلعت اپنے گھر پر پروگرام رکھو اور ہر دروازہ کھٹکھٹاؤ،یہی وجہ ہوتی کہ ہمارے پروگرامز میں 200تکحاضری ہوجاتی۔اس میں اختری، رومانہ خالہ،بلقیس خالہ جان،رفیعہ ہارون ہمارے ساتھ ہوتیں،سب بہنیں تین چار دن تک صبح شام دو وقت دعوت دیتے وہ خود بھی ہمارے ساتھ شریک رہتیں،کہتیں سب صلوۃ الحاجات پڑھو اور گلیاں بانٹ کر نکل جاؤ پھر اللہ کے کرم سے پروگرام کامیاب ہوجاتا تو بہت خوش ہوتیں۔ہمارے علاقے میں لوگ جس مدرس کو پسند کرتے میں اور عابدہ باجی ناظمہ علاقہ سے کہتیں کہ فلاں مدرسہ چاہیے تو ناظمہ منع کردیتی،مگر عابدہ باجی کہتی کہ ہم لوگوں کو کیا دیتے ہیں؟ کیا انہیں اللہ کی اچھی بات بھی نہ سنوائیں،پھر خود ہی کہتیں اللہ کی بات تو اچھی ہوتی ہے مگر کیاکریں لوگوں کو دین سے قریب کرنا ہے تو ان کاتو خیال کرنا پڑے گا۔جمعہ کے دن ہماری مشاورت ہوتی تو کہتی فلاں پروگرام ہونا ہے میں کہتی جی ہوگا۔اور آندھی آئے،طوفان آئے بھلے چار لوگ آئیں پروگرام ہوجاتا،پروگرام کینسل کرنا ہمیں بالکل اچھا نہیں لگتا تھا۔اکثر کہتیں کہ طلعت تمھاری یہی عادت مجھے اچھی لگتی ہے کہ تم جب ارادہ کرتی ہو تو بس جم جاتی ہوتو میں کہتی عابدہ باجی آخر تربیت کس کی ہے؟تو تھوڑا سا مسکرا کر خاموش ہوجاتیں۔
ایک دفعہ کا کرنا ایسا ہوا کہ میرے شوہر کو اسٹیل مل سے برطرف کر دیا گیا۔میں پریشان ہو گئی۔ میں نے عابدہ باجی سے کہا کہ میں بیٹھک اسکول میں جاب کر لیتی ہوں مگر وہ تیار نہ ہو ئیں۔ یہ اُس وقت کی بات ہے کہ جب میں رکن نہیں بنی تھی۔ مجھے بہت دکھ ہوا۔ مگر نظم علاقہ نے مجھے جاب دے دی، میں ویسی بھی پہلے رضاکارانہ طور پربیٹھک اسکول جاتی رہتی تھی، حمیدہ باجی جو بیٹھک اسکول کی نگراں اور ہیڈ تھیں میرے آنے سے بہت خوش تھیں، مگر عابدہ باجی نے کہا کہ تم میری نائب ہو اور دیکھو مشکلیں تو آزمانے کے لیے آتی ہیں غرض ہر طرح سے مجھے سمجھاتیں جاب اورنیابت ساتھ ساتھ چلی، ایک دفعہ کوئی پروگرام تھا مجھے جانا ضروری تھا۔ اُس وقت جو بیٹھک اسکول کی نگراں تھیں،انہوں نے مجھے خاصی سر زنش کی کہ آپ جاب کرتی ہیں چھٹی نہیں ملے گی۔ اُس سے میں دلبرداشتہ ہو گئی اور میں نے عابدہ باجی کا ساتھ چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔
دو دفعہ عابدہ باجی میرے گھر آئیں، میں نے ملاقات نہیں کی۔ آخر تیسری بار جب آئیں تو میں نے اپنا فیصلہ انہیں سُنا دیا، بہت زیادہ فکر مند ہو ئیں،میرے ساتھ بیٹھی رہیں،مجھے سمجھاتی رہیں، میں بہت پریشان تھی، سمجھ نہیں آتا تھا کیا کروں، میں نے کبھی یہ بہانہ بنایا کہ عابدہ باجی میری ساس ناراض ہو جاتی ہیں۔ آپ صبح آجاتی ہیں اور کھانا نہیں پکتا، تو وہ واپس چلی گئیں اور تھوڑی دیر میں واپس آئیں اور تھیلی میں آٹھ دس شامی کباب لا کر مجھے دیئے کہ ساس اور بچوں کو تل کر اور روٹی ڈال کر دے دو۔ اللہ میرے دل سے چیخ نکل گئی،میں تو بہانہ تراش رہی تھی یہ عابدہ باجی نے کیا کیا؟ پھر تو میں ان سے ایسی شرمندہ ہوئی اور میں نے سوچ لیا چھٹکارا نا ممکن ہے، شیطان تو ہر ایک کی راہ میں آتا ہے مگر اللہ کی خاص مہر بانی تھی اُس کے بعد میں عابدہ باجی کی گرویدہ ہو گئی۔پھر مجھے رمضان کے دورہئ قرآن کا کہا کہ کراؤ،میں نے کہا کہ عابدہ باجی میں نہیں کرا سکتی۔یاد نہیں انہوں نے کیا کہا، بہر حال دورہئ قرآن شروع ہو گیا، ہاں اتنا یاد ہے کہ انہوں نے کہا تھا طلعت دیکھنا دورہ ئ قرآن کی برکت سے تمہاری پریشانی دورہو جائے گی اور واقعی خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ میرے شوہر کورٹ سے کیس جیت کر سرخرو ہو کر واپس جاب پر بحال ہو گئے۔ عابدہ باجی ایک بار جس کواَپنابنالیتی تھیں پھر وہ بھی عابدہ باجی کا ہی ہو کر رہ جاتاتھا۔
جب میں پریشانیوں سے دلبرداشتہ ہو جاتی تو اپنا قصہ سناتیں کہ طلعت تم شکر کرو تمہارے میاں تمہارے ساتھ ہیں،میرے میاں کو خبر ہوتی کہ مجھے قرآن کی کلاس میں جانا ہے یا کہیں درس ہے توقیمہ لا کر دیتے کہ عابدہ صاحبہ کو فتوں کا دل چاہ رہا ہے، کوفتے پکایئے۔کہتیں جب کہیں جانے کا ہوتا اُن کی ایسی ہی فرمائش ہو تی۔ اعانت بھی جب وہ بازار یا نماز پڑھنے جاتے تو عابدہ باجی اعانت لے آتیں اور اگر اتفاق سے جلدی آجاتے تو صدف اور سعدیہ جب تک ان بچیوں کی شادی نہیں ہوئی تھی اُن سے کہتے چلی گئیں عابدہ صاحبہ؟
اسلام آباد فیصل مسجد میں اجتماع عام ہوا تو مجھے اجتماع ارکان میں پہلی مرتبہ جانا تھا تو اپنے ساتھ ساتھ رکھااور سمجھاتی جاتیں۔ ایک دفعہ صبح فجر کے بعد قاضی حسین احمد صاحب کا درس ِ حدیث تھا کہ اچانک سے تیز آندھی اور بارش آگئی پھر ہم لوگ ہوٹل منتقل ہو گئے۔ عابدہ باجی واپس کراچی کے لیے روانہ ہو گئیں۔
سارے سفر میں عابدہ باجی اور میں سیکوریٹی گارڈ ہو تے ہر خاتون مسافر کا خیال رکھتے، مجھے کہتیں طلعت تم سو جاؤ میں جاگ رہی ہوں مگر میرے سر پر ذمہ داری ہو تو نیند تو مجھے بھی نہیں آتی، ہم دونوں رات بھر جاگ کر ایک دوسرے کو حدیث سناتے یاکچھ دینی باتیں کرتے، غرض ان کی صحبت سے میں نے بہت کچھ سیکھا۔ انہوں نے دین کی راہ پر نہ صرف مجھے چلنا سیکھایا بلکہ دوڑنابھی سکھایا۔ اگر ہم لوگ ملاقات کے لیے جاتے اور گاڑی اگر کسی کے دروازے پر کھڑی ہو تی تو کہتیں طلعت یہ اللہ کی امانت ہے اس کا حساب دینا ہے، یہی وجہ ہے کہ ہم گاڑی کا بہت خیال کرتے اور پہلے سے پہلے برقعہ اوڑھ کر تیار رہتے تاکہ گاڑی کے استعمال میں وقت ضائع نہ ہو۔ ملاقات پر جاتے تو کوئی کارکن کسی کی بات کرتا تو بڑے خوش گمانی سے کہتیں ارے اُس کے بچے چھوٹے ہیں وہ تو بڑے کام کی ہے بس پریشان ہو گی۔ایسی بات کر تیں کہ سامنے والا قائل ہو جاتا۔ کسی کی شکایت سنتی تو ضرور سمجھاتیں اور اس کو زیادہ وقت دیتیں اور بار بار ملاقات اور سمجھانے سے اس کی شکایت دور ہو جاتی۔
آہ عابدہ باجی آپ تو جنت کے راستے پر ایسی چلیں کہ پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا۔ ہم اللہ سے اچھا گمان رکھتے ہیں۔ اس نے انشاء اللہ ضرورآپ کے لیے مہمان نوازی کا پورا سامان کیا ہو گا۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالی آپ کی قبر کو اپنے نور سے بھر دے اور آپ کو اپنے دامن ِ رحمت میں چھپا لے۔(آمین)۔

حصہ