صحرائے سندھ تھر پارکر

955

عائشہ یاسین
پاکستان کا یہ سب سے بڑا صحرا اپنے اندر قدرت کے کئی خوب صورت رنگ سمیٹے ہوئے ہے۔ جہاں وہاںکہیں اڑتی ریت نظر آتی ہے تو کہیں لہلہاتے کھیت ہیں۔ کہیں ٹیلے ہیں تو کہیں پہاڑ (جو قیمتی پتھر گرینائیٹ کے بنے ہوئے ہیں) اور کہیں تاریخی مقامات (مندر و مساجد) ہیں۔ پھر کہیں نمک کی جھیل، غرض یہ کے قدرت کے دلکش مناظر کا شاہکار صحرا طبعی خصوصیات سے پوری طرح مزین ہے۔ یہ سندھ کا وہ خطہ ہے جو نہ صرف معدنی دولت سے مالامال ہے بلکہ جغرافیائی طور پر بھی اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ساڑھے 3 سو کلو میٹر تک بھارت سے جڑا یہ صحرا بہت حساس گردانا جاتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ تھر پارکر دراصل دو نام یعنی تھر اور پار کا مرکب ہے جس کا مطلب پہاڑی علاقہ ہے۔ یہ ایک ضلع ہے جسے 4 تحصیلوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ جس میں مٹھی، ڈیپلو، ننگر پارکر اور چھاچھرو شامل ہے۔ صحرائے تھر ماروی کا دیس، عثمان ڈیپلائی کی جائے پیدائش، مسکین جہان خان کھوسو کا مدفن ہی نہیںبلکہ 16 لاکھ سے زائد افراد کا مسکن بھی ہے۔ یہاں ہندو اکثریت جب کہ مسلم اقلیت میں ہیں۔ یہاں کے عوام کی گزر بسر زیادہ تر مال مویشی اور گھریلو صنعت پر ہے جب کہ لوگ محنت مزدوری بھی کرتے ہیں جوکہ مشکل سے ہی میسر آتی ہے۔ تھر کا موسم شدید ہوتا ہے، گرمیوں میں سخت گرم اور سردیوں میں سخت سرد ہوتا ہے جب کہ جون جولائی میں یہ صحرا آگ اُگلتا ہے۔
تھر میں چوماسہ کافی مشہور ہے جو چار مہینے رہتا ہے۔ صحرا کی خنک ہوائیں موسم کو خوشگوار بنا دیتی ہیں اور ان مہینوں میں پڑنے والی برسات سے شادابی اپنے سحرمیں جکڑ لیتی ہے۔ برسات سے پہلے چلنے والی ہوائیں اس قدر تیز ہوتی ہیںکہ تناور درختوں کو بھی جڑ سے اکھاڑ پھینک دیتی ہے۔ تھر میں ریت اور مٹی کے بڑے چھوٹے ٹیلے ہیںجنہیں مقامی لوگ ’’بھٹ یالسک‘‘ کہتے ہیں۔ اس عظیم صحرا میں پائے جانے والے منفرد نوعیت کے بے شمار درخت عام طور پر دوسرے علاقوں میں نہیں پائے جاتے۔ یہاں پیدا ہونے والی جڑی بوٹیاں کئی موذی امراض میں کام آتی ہے جب کہ کئی جنگلی پودے مال مویشیوں کو کھلانے کے ساتھ ساتھ لوگ سبزی کے طور پر بھی استعمال کرتے ہیں۔ تھر میں آبادیاں طویل فاصلوں پر قائم ہیں۔ ایک گوٹھ سے دوسرے گوٹھ تک کا فاصلہ کئی میل کی مسافت پر ہے۔ زیادہ تر گاؤں بھٹوں کے دامن میں، کہیں صحرائی درختوں کے جھرمٹ میں یا پھر کہیں ریگستانوں میں پائے جاتے ہیں۔
پچھلے کئی سالوں سے تھر کی حالت ابتر ہے۔ مون سون بارشوں کا سلسلہ بند ہوجانے کے باعث یہاں کی عوام مشکلات سے دوچار ہے۔ قحط سالی کی وجہ سے لا تعداد بچے اپنی جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ ضلعی انتظامیہ کے مطابق، جنوری سے لے کر اگست تک، غذائی قلت کی وجہ سے اموات کی مجموعی تعداد 518 ہوگئی ہے۔ دوسری طرف، سرکاری اسپتالوں میں ادویات کی قلت کے سبب مریضوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ جولائی کے مہینے میں حکومت سندھ نے تھر اور میر پور خاص میں نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف چلڈرن ہیلتھ (این آئی سی ایچ) کے دو سیٹلائٹ لگانے کا فیصلہ کیا تھا۔
یو این سی ای ایف کی طرف سے اپریل میں جاری کی جانے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں بچوں کی شرح اموات سب سے زیادہ ہیں جن میں 22 بچوں کی موت ایک ماہ کی عمر سے پہلے ہوجاتی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2018 میں تھر میں 505 سے زیادہ بچے فوت ہوگئے۔ 2017 میں 450، 2016 میں 479 اور 2015 میں 398۔ یہ اموات مختلف وجوہات کی وجہ سے ہوتی ر ہیں۔ جن میں قبل از وقت پیدائش، پیدائش کے وقت بچے کاوزن کم ہونا، حمل کا پیٹ میںدم گھٹ جانا، شدید نمونیا، سانس کی تکلیف، سنڈروم (آر ڈی ایس)، غذائیت کی کمی وغیرہ شامل ہیں۔
نیشنل ڈیزاسٹر کنسورشیم (این ڈی سی) نے ایف اے او، یونیسف، ڈبلیو ایف پی، ڈبلیو ایچ او، ہینڈز اور ایکٹی ای ڈی کے اشتراک سے ملٹی سیکٹر کی ضروریات کا جائزہ لیا اور اس بات کو تصدیق کیاکہ مجموعی طور پر 71 فیصد گھرانے غذائی کمی سے دوچار ہیں جب کہ 32 فی صدشدید غذائی کمی سے دوچار ہیں۔ بیشتر گھرانے غریب ہیں۔ ان میں 18 فیصد قابل قبول ہے، 41 فیصد ناقص اور 41 فیصد غربت کے بارڈرپر ہیں۔ ان نتائج سے معلوم ہوتا ہے کہ خشک سالی کی وجہ سے فصلوں کی کاشت میں مجموعی طور پر 34 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔تھرپارکر میں جن فصل کی کاشت سب سے زیادہ تھی ان میں واضح کمی آئی ہے۔ کلسٹر بین کی کاشت میں 92 فیصد، جوار میں 84 فیصد اور دالوں میں 95 فیصد کمی واقع ہوئی ہے اور صوبہ سندھ کے تھر پارکر اور عمرکوٹ میں، تل کی کاشت میں 100 فیصد کمی واقع ہوئی ہے جس سے غذا اور معاشی صورت حال پر اثر پڑا ہے۔ ایک اور رپورٹ کے مطابق، نیشنل نیوٹریشن سروے کے ابتدائی نتائج سے پتا چلتا ہے کہ پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کے ساتھ ساتھ بلوچستان میں حاملہ اور دودھ پلانے والی خواتین میں بھی غذائی قلت کی شرح خطرناک حد تک زیادہ ہے۔ پانچ سال سے کم عمر بچوں میں عالمی سطح پر شدید غذائیت کی کمی 18.6 فیصد تھی، جو ہر ضلع میں عالمی سطح پر ہنگامی حد سے 15 فیصد ہے۔ اسی طرح حاملہ خواتین میں غذائی قلت 37 فیصد ہے۔ بچوں میں شدید غذائیت کا تقریبا 20 فیصد پایا جاتاہے۔
خشک سالی سے متاثرہ تھرپارکر کے بیشتر علاقے میں جون کے بعد سے بارش کی وجہ سے سبزہ ہونا شروع ہوگیا ہے۔ صحرا کے علاقے کو پچھلے کچھ سالوں میں ایک خوفناک خشک سالی کا سامنا کرنا پڑا تھا لیکن جون اور جولائی میں غیر متوقع بارش کے سلسلے نے اس سال تھرپار کے باسیوں کی امید کو پھر سے زندہ کردیاہے۔ وسط سال سے جاری بارشوں کے بعد چاچرو کے کئی علاقوں میں سبز چراگاہیں ابھرنا شروع ہوگئی ہیں۔ ماضی میںجن سیکڑوں تھر کے عوام کو خشک سالی کی وجہ سے دوسرے علاقوں میں نقل مکانی کرنا پڑی تھی، اب اپنے بیلوں اور مویشیوں سمیت اپنے گھروں کو لوٹنا شروع ہوگئے ہیں اورکھیتی باڑی کا سلسلہ ایک بار شروع ہوچکا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اگر بارشوں کا سلسلہ اسی طرح چلتا رہا تو تھر ایک مرتبہ پھر زراعت میں خود کفیل ہو سکتا ہے۔ بارش کے باعث ہونے والی ہریالی سیاحت کے فروغ میں بھی معاون ثابت ہوسکتی ہے۔
تھر کی اسی خوب صورتی کے پیش نظر اگر حکومت پاکستان اس علاقے میں سیاحت کے فروغ کے لیے ترجیحی بنیادوں پر عملی اقدامات اُٹھائے تو اس سے نہ صرف حکومت کے زر مبادلہ میں اضافہ ہوگا بلکہ تھر کی عوام کوبہتر روزگار کے مواقع مل سکیں گے جس سے معیشت کا پہیہ چلانے میں مدد ملے گی۔ ترقیاتی اور بلدیاتی کام میں تیزی آسکے گی اور اسپتالوں میں معقول علاج اور سہولیات فراہم کی جاسکیں گی۔ ضرورت صرف حکومتی توجہ اور اقدام کی ہے۔

حصہ