اقبال کا شاہین

3613

نگہت ظہیر
بندۂ مومن کو اقبالؔ نے ’’شاہین‘‘ سے تشبیہ دی ہے۔ اس کو آرام و سکون اور لذت اپنے شکار پر جھپٹنے میں ہے۔ بندۂ مومن کی زندگی بھی جہدِ مسلسل سے عبارت ہے۔ وہ ہر دَم اپنی کوشش میں لگا رہتا ہے۔

شاہین کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا

اس مصرعے میں اقبالؔ نے بندۂ مومن کو نہ صرف ہمت و جواں مردی کی تعلیم دی ہے بلکہ مسلم نوجوانوں کو پیغام بھی دیا ہے اور انہیں ان کا کام اور مقام یاد دلایا ہے۔ بندۂ مومن اپنے مقصد کے حصول سے پیچھے نہیں ہٹتا۔ سر دھڑ کی بازی لگا دیتا ہے۔ اے قوم کے بیٹو‘ بیٹیو! ساری امیدیں تم سے ہیں، تم ہی قوم کی عزت ہو، تم ہی اقبالؔ کے شاہین ہو۔ امت کی بیداری تم سے ہے۔
اقبال نے اس مصرعے میں یہی بتایا ہے کہ شاہین کا کام پرواز کرنا اور کرتے ہی رہنا ہے۔ بالکل اسی طرح ایک بندۂ مومن کا مقصدِ زندگی ہے، وہ اس کے حصول کے لیے جدوجہد کرتا چلا جاتا ہے، ہمت نہیں ہارتا۔ وہ نہ کبھی تھکتا ہے، نہ گھبراتا ہے اور نہ مایوس ہوتا ہے۔ مومن کو باطل سے لڑتے رہنا ہے، کبھی تھک کر رکنا نہیں ہے۔ چاہے کیسے بھی حالات ہوں، ہمت نہیں ہارنی۔
اقبال نے نوجوانوں کو شاہین سے تشبیہ دیتے ہوئے یہ پیغام دیا ہے کہ طاغوت کے خلاف ڈٹے رہو۔ باطل قوتیں، چاہے وہ یہود و ہنود ہوں یا نصاریٰ، سب مسلم تہذیب کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کے دیار میں ایسی پود تیار ہو جو اسلام سے خارج ہو۔ وہ کاہل، راحت پسند اور دنیا میں غرق ہو، اس کا مقصد شہوت اور لذت ہو۔
لیکن اقبالؔ مومن نوجوانوں کو شاہین کے روپ میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ ایسے میں اقبال کا نہ تھکنے کا، نہ گرنے کا پیغام بہت اہمیت کا حامل ہے۔ ہمیں اقبال کے اس پیغام پر کام کرنا ہے۔ نوجوان نسل کو اس کام کے لیے تیار کرنا ہے۔ بے شک راستہ کٹھن اور منزل دور لگتی ہے لیکن ہم کو اقبال کے شاہین سے سبق سیکھنا ہے جو پرواز سے تھک کر کبھی نہیں گرتا۔ ہمیں بھی ناموافق حالات میں مایوس ہوکر نہیں بیٹھنا چاہیے۔ ہمیں اپنے مشن کو کامیاب کرنا ہے۔ ہمارا مشن اقامتِ دین ہے، اس کے لیے کوشش کرنا اور کرتے ہی رہنا ہے۔
اقبال کے شاہین کی خصوصیات:
اب دیکھنا یہ ہے کہ اقبال کا شاہین ہے کیا؟ کون سی خصوصیات ہیں جن کی وجہ سے یہ ان کا پسندیدہ پرندہ ہے، اور وہ مسلم نوجوان کو شاہین بننے کی ترغیب کیوں دیتے ہیں؟
علامہ اقبال کو شاعرِ مشرق کہتے ہیں۔ ان کی شاعری نے مسلمانوں کو خوابِ غفلت سے جگایا ہے، اسی لیے اقبال اسلام سے محبت کرنے والوں کے محبوب شاعر ہیں اور مسلمان ان کے فلسفے اور پیغام کو سمجھنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔
ان کی شاعری فضائے سخن میں اُس پرندے کی آواز ہے جسے شاہین کہتے ہیں۔ شاہین قوت، تیزی، وسعت ِنظر بینی اور بلندیٔ پرواز کی خصوصیات سے متصف ہے۔ اس کی مشرقی روحانیت میں درویشی، قلندری، خودداری اور بے نیازی کی اعلیٰ صفات موجود ہیں۔ اقبال نے اپنی شاعری میں شاہین کو ایک خاص علامت کی حیثیت سے پیش کیا ہے، اپنی قوم کے نوجوانوں کے لیے مثال بنایا ہے۔ شاہین میں بعض ایسی صفات جمع ہوگئی ہیں جو اقبال کی بنیادی تعلیم سے ہم آہنگ ہیں، اسی لیے یہ ان کا محبوب پرندہ ہے۔ اس میں اسلامی فکر کی کئی خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ مثلاً خوددار اور غیرت مند ہے، کسی اور کا مارا ہوا شکار نہیں کھاتا۔ بلند پرواز، خلوت نشیں ہے۔ تیز نگاہ ہے۔ اقبال کے نزدیک یہی صفات مومن مرد کی بھی ہیں، وہ نوجوانوں میں بھی یہی صفات پیدا کرنا چاہتے ہیں۔
اقبال سخت کوشی اور جدوجہد کے مبلغ ہیں، یہ صفت بھی شاہین میں ملتی ہے۔ اقبال مسلم نوجوانوں میں یہ صفات پیدا کرکے انہیں مجسمۂ عمل و حرکت بنانا چاہتے ہیں۔
اقبال کو شاہین اس لیے بھی پسند ہے کہ وہ طاقتور ہے۔ قوت و توانائی کے تمام جوہر اقبال کو بہت پسند ہیں۔ معصوم خوب صورت پرندے کمزوری کی وجہ سے شکار ہوتے ہیں۔
اقبال کو حریت اور آزادی کی صفت اور قدر بہت پسند ہے، یہ قدر بھی شاہین کی ذات میں انہیں نظر آتی ہے۔ یہی وجوہات ہیں کہ اقبال شاہین جیسی پرواز، شاہین جیسی ہمت، اس جیسی جدوجہد اور تھک کر نہ گرنے کی صفات اور خوبیوں سے متصف کرکے مسلم نوجوانوں کو میدان عمل میں اتارنا چاہتے ہیں۔

حصہ