وہ فیصلہ جس نے تاریخ کا رُخ موڑ دیا

632

سید مہرالدین افضل

آٹھواں حصہ

معاہدۂ راہ داری:۔

اگر کسی خطۂ زمین میں کچھ لوگ رہتے ہیں اور انہوں نے اپنا اجتماعی نظام بھی قائم کیا ہوا ہے تو اُن کا حق ہے کہ اُن کے علاقے کی حدود میں اجازت کے بغیر کوئی شخص یا گروہ داخل نہ ہو، چاہے اس کی غرض تفریحی، تعلیمی یا تجارتی ہو، یا وہ اُس علاقے سے گزر کر کسی اور علاقے میں جانا چاہتا ہو (انسانی تاریخ میں افراد اور قافلوں کے سفر کسی نہ کسی طرح کے معاہدۂ راہ داری کے بعد ہی ہوئے ہیں)۔ اسی طرح اُس علاقے کے لوگ اپنے سرحدی علاقوں کو محفوظ رکھنے کے انتظام کا حق بھی رکھتے ہیں۔ اُن کا یہ حق ہے کہ کوئی اُن کی سرحد سے قریب ہوکر ان کی اجازت کے بغیر نہ گزرے۔ یہ ان کی حفاظت کے لیے بھی ضروری ہے، ورنہ کوئی شرپسند گروہ اُن پر حملہ کرکے فساد پھیلا سکتا ہے اور اگر وہ دشمن ہو، دشمن بھی ایسا جو اس علاقے کے لوگوں کی حیثیت کو تسلیم نہ کرتا ہو، بلکہ اُنہیں مٹا دینے کی دھمکیاں بھی دیتا ہو، اور اس سے بڑھ کر اُس نے اس علاقے کے لوگوں کا حق بھی مارا ہو۔ واقعہ یہ ہے کہ قریش نے مکے سے پُرامن طور پر ہجرت کرنے والوں سے اُن کے مال، یہاں تک کہ رشتے دار تک چھین لیے۔ بیت اللہ کی زیارت، جو اہلِ عرب کے نزدیک ہر شخص کا تسلیم شدہ حق تھا، قریش نے اہلِ مدینہ کو اس حق سے بھی محروم کردیا تھا۔ اس صورتِ حال میں قریش کے تجارتی قافلے کا ریاست مدینہ کے قریب سے گزرنا بنتا ہی نہ تھا۔ اس لیے اہلِ مدینہ اس قافلے کو روکنے کے لیے تیار ہوگئے۔ قافلے کو لوٹنے کا فائدہ سب کے سامنے تھا، پہلے ہی یہ چھوٹی سی ریاست مالی طور پر مستحکم نہیں تھی، یہاں کے لوگ یہود کے مقروض تھے اور پھر مہاجروں کا بوجھ، اور آئے دن جنگ کا خطرہ… ان سب چیلنجز سے نمٹنے کے لیے مال کی بڑی ضرورت تھی، جو اس قافلے کے مال پر قبضہ کرنے سے پوری ہوسکتی تھی۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا فیصلہ یہ تھا کہ اس موقع کو حق و باطل کے درمیان فرق واضح کرنے کے لیے استعمال کیا جائے۔ (آیت نمبر 8) اور اس مقصد کے لیے تمام اہلِ شر کو مدینے پر حملہ کرنے کے لیے اکسایا گیا اور گھیر کر سب کا رُخ مدینے کی طرف کردیا گیا۔ دوسری طرف اللہ کی مرضی کو پوری طر ح سمجھنے والے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اہلِ مدینہ کو لشکر کی طرف رُخ کرنے پر آمادہ کرتے ہیں۔ ایک بات طے تھی کہ مدینے میں رہ کر نہ قافلے کو ایسے ہی چھوڑ دینا مناسب تھا اور نہ ہی مدینے میں ٹھیر کر حملہ آوروں کا انتظار کرنا مناسب تھا، کیوں کہ اس صورت میں منافقوں اور یہود کے سازشی عناصر کے دشمنوں کے ساتھ مل جانے کا خطرہ تھا۔ اب یہ طے کرنا تھا کہ رُخ کس طرف کیا جائے، قافلے کی طرف یا لشکر کی طرف؟ فیصلہ اہلِ مدینہ پر چھوڑ دیا گیا۔ آئیے اس مجلس میں چلتے ہیں جہاں یہ فیصلہ ہوا تھا۔

مجلس شوریٰ :۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ عزم فرما لیا تھا کہ جو طاقت بھی اس وقت حاصل ہے، اُسے لے کر نکلیں اور میدان میں فیصلہ کریں کہ کسے زندہ رہنا ہے اور کسے مٹ جانا ہے۔ اس عزم کے بعد آپؐ نے انصار و مہاجرین کو جمع کیا اور اُن کے سامنے ساری پوزیشن صاف صاف رکھ دی کہ ایک طرف شمال میں تجارتی قافلہ ہے اور دوسری طرف جنوب سے قریش کا لشکر چلا آرہا ہے، اللہ کا وعدہ ہے کہ ان دونوں میں سے کوئی ایک تمہیں مل جائے گا، بتاؤ تم کس کے مقابلے پر چلنا چاہتے ہو؟ جواب میں ایک بڑے گروہ کی طرف سے اس خواہش کا اظہار ہوا کہ قافلے پر حملہ کیا جائے۔ لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ارادے کے پیش نظر اپنا سوال دُہرایا۔ اس پر مہاجرین میں سے مقداد بن عمرو رضی اللہ عنہ نے اُٹھ کر کہا ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جدھر آپؐ کا رب آپؐ کو حکم دے رہا ہے، اُسی طرف چلیے، ہم آپؐ کے ساتھ ہیں، جس طرف بھی آپؐ جائیں۔ ہم بنی اسرائیل کی طرح یہ کہنے والے نہیں ہیں کہ جاؤ تم اور تمہارا خدا دونوں لڑیں، ہم تو یہاں بیٹھے ہیں۔ نہیں! ہم کہتے ہیں چلیے آپؐ اور آپؐ کا خدا، دونوں لڑیں اور ہم آپؐ کے ساتھ جانیں لڑائیں گے، جب تک ہم میں سے ایک آنکھ بھی گردش کررہی ہے۔‘‘ مگر لڑائی کا فیصلہ انصار کی رائے معلوم کیے بغیر نہیں کیا جا سکتا تھا، کیوں کہ ابھی تک فوجی اقدامات میں اُن سے کوئی مدد نہیں لی گئی تھی اور اُن کے لیے یہ آزمائش کا پہلا موقع تھا کہ اسلام کی حمایت کا جو عہد انہوں نے ایمان لاتے وقت کیا تھا، اُسے وہ کہاں تک نباہنے کے لیے تیار ہیں (تفصیل کے لیے سیرت کی کتابوں میں دوسری بیعتِ عقبہ دیکھیے)۔ اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے براہِ راست اُن کو مخاطب کیے بغیر پھر اپنا سوال دُہرایا۔ اِس پر سعد بن معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اُٹھے اور عرض کیا ’’شاید حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا روئے سخن ہماری طرف ہے؟‘‘ آپ ؐ نے فرمایا ’’ہاں‘‘۔ انہوں نے کہا ’’ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے ہیں، آپؐ کی تصدیق کرچکے ہیں کہ آپؐ جو کچھ لائے ہیں وہ حق ہے اور ہم آپؐ سے یہ پکا عہد کرچکے ہیں کہ آپؐ سے جو حکم سنیں گے اُس کی اطاعت کریں گے، اس لیے اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! جو کچھ آپؐ نے ارادہ فرما لیا ہے اُسے کر گزریے۔ قسم ہے اُس ذات کی جس نے آپؐ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، اگر آپؐ ہمیں لے کر سامنے سمندر پر جا پہنچیں اور اس میں اتر جائیں تو ہم آپؐ کے ساتھ کودیں گے… اور ہم میں سے ایک بھی پیچھے نہ رہے گا۔ ہم کو یہ ہرگز برا نہیں لگے گا کہ آپؐ کل ہمیں لے کر دشمن سے لڑ جائیں۔ ہم جنگ میں ثابت قدم رہیں گے۔ مقابلے میں سچی جاں نثاری دکھائیں گے اور ہوسکتا ہے کہ اللہ آپؐ کو ہم سے وہ کچھ دکھا دے، جسے دیکھ کر آپؐ کی آنکھیں ٹھنڈی ہوجائیں۔ پس اللہ کی برکت کے بھروسے پر آپؐ ہمیں لے چلیں۔‘‘

فیصلہ، جس نے تاریخ کا رُخ موڑ دیا:۔

ان تقریروں کے بعد فیصلہ ہوگیا کہ قافلے کے بجائے لشکرِ قریش ہی کے مقابلے پر چلنا چاہیے۔ لیکن یہ فیصلہ کوئی معمولی فیصلہ نہ تھا، جو لوگ اس تنگ وقت میں لڑائی کے لیے اُٹھے تھے ان کی تعداد 300 سے کچھ زائد تھی(86 مہاجر،61 قبیلۂ اوس کے، اور 170 قبیلۂ خزرج کے) جن میں صرف دو تین کے پاس گھوڑے تھے اور باقی آدمیوں کے لیے170 اونٹوں سے زیادہ نہ تھے، جن پر تین تین چار چار اشخاص باری باری سوار ہوتے تھے۔ سامانِ جنگ بھی بالکل ناکافی تھا۔ صرف60 آدمیوں کے پاس زرہیں تھیں۔ اسی لیے چند سرفروش فدائیوں کے سوا اکثر آدمی، جو اس خطرناک مہم میں شریک تھے، دلوں میں سہم رہے تھے اور انہیں ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جانتے بوجھتے موت کے منہ میں جارہے ہیں (گویا وہ آنکھوں دیکھے موت کی طرف ہانکے جارہے ہیں۔ آیت نمبر5)۔ مصلحت پرست لوگ، جو ایمان تو لے آئے تھے مگر ایسے ایمان کے قائل نہ تھے جس میں جان و مال کا نقصان اٹھانا پڑے، اس مہم کو جنون سمجھ رہے تھے اور ان کا خیال تھا کہ دینی جذبے نے ان لوگوں کو پاگل بنادیا ہے۔ (جب کہ منافقین اور وہ سب لوگ جن کے دلوں کو روگ لگا ہوا ہے، کہہ رہے تھے کہ اِن لوگوں کو تو اِن کے دین نے خبط میں مبتلا کر رکھا ہے۔آیت 49) مدینے کے منافقین اور وہ سب لوگ جو دنیا پر ستی اور خدا سے غفلت کے مرض میں گرفتار تھے، یہ دیکھ کر کہ مسلمانوں کی مٹھی بھر بے سروسامان جماعت قریش جیسی زبردست طاقت سے ٹکرا نے کے لیے جارہی ہے، آپس میں کہتے تھے کہ یہ لوگ اپنے دینی جوش میں دیوانے ہوگئے ہیں، اس معرکے میں ان کی تباہی یقینی ہے۔ مگر اس نبیؐ نے کچھ ایسا افسوں ان پر پھونک رکھا ہے کہ ان کی عقل خبط ہوگئی ہے اور آنکھوں دیکھے یہ موت کے منہ میں چلے جارہے ہیں۔ سورۃ الْاَنْفَال حاشیہ نمبر:39) مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور مومنین صادقین سمجھ چکے تھے کہ یہ وقت جان کی بازی لگانے ہی کا ہے۔ اس لیے اللہ کے بھروسے پر وہ نکل کھڑے ہوئے اور انہوں نے سیدھی جنوبِ مغرب کی راہ لی جدھر سے قریش کا لشکر آرہا تھا۔ حالاں کہ اگر ابتدا میں قافلے کو لوٹنا مقصود ہوتا تو شمال مغرب کی راہ لی جاتی۔
اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ ہم سب کو اپنے دین کا صحیح فہم بخشے اور اُس فہم کے مطابق دین کے سارے تقاضے اور مطالبے پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے،آمین۔
وآخر دعوانا ان لحمدللہ رب العالمین۔

حصہ