موٹاپے کی وبا اور کیپٹل ازم کی بھوک

950

پوری دنیا کو اس وقت ایک عجیب و غریب ہیجانی کیفیت میں مبتلا کیا جا چکا ہے۔ ایک خوف ہے جو ہر صاحبِ حیثیت اور درمیانے طبقے کے فرد کے سر پر مسلط ہے۔ موٹاپے (Obesity) اور اس سے متعلق بیماریوں کا خوف۔
اس وقت دنیا میں جتنی تحقیق، جستجو اور سرمایہ کاری موٹاپا ختم کرنے کے لیے ہورہی ہے اُس کا پانچ فیصد بھی بھوک ختم کرنے اور دنیا کو قحط سے نجات دلانے کے لیے نہیں ہورہا۔ دنیا کی تقریباً چھ ارب آبادی میں سے ایک چوتھائی ناکافی اور گھٹیا خوراک کے استعمال سے قحط سالی اور بیماریوں کا شکار ہورہی ہے، جب کہ ایک چوتھائی لوگ ایسے ہیں جو ضرورت سے زیادہ ایسی خوراک استعمال کرتے ہیں جس میں غذائیت (Nutrients) کم اور کلوریز (calories) زیادہ ہوتی ہیں، جسے عرفِ عام میں جنک (Junk) خوراک کہا جاتا ہے۔ یہ ایک چوتھائی یعنی تقریباً ڈیڑھ ارب افراد جو روزانہ زیادہ خوراک استعمال کرتے ہیں، جدید کارپوریٹ اقتصادی نظام کے محبوب ترین افراد ہیں اور ہر روز ان کی تعداد میں اضافے کے سامان مہیا کیے جاتے ہیں۔
افراد ذیابیطس یعنی شوگر کے مرض کا جلد شکار ہوتے ہیں اور پھر بے شمار بیماریاں انہیں گھیر لیتی ہیں۔ تحقیق کے مطابق میکسیکو شہر کے چودہ فیصد افراد شوگر کے مریض ہیں، جب کہ بھارت کے شہروں میں رہنے والے گیارہ فیصد شوگر کے مرض میں گرفتار ہیں۔ امریکا میں 2000ء میں پیدا ہونے والا ہر تیسرا بچہ آج شوگر میں مبتلا ہوچکا ہے۔ اس سب کی بنیادی وجہ وہ مرض ہے جسے موٹاپا کہتے ہیں، جس نے اس دنیا کو گھیرا ہوا ہے۔
امریکا میں 1980ء سے اب تک موٹاپے کا شکار بچوں کی تعداد میں تین گنا اضافہ ہوچکا ہے۔ موٹے افراد اس کیپٹل ازم اور کارپوریٹ نظامِ زندگی نے جان بوجھ کر کاروباری مقاصد کے تحت تخلیق کیے ہیں۔ انہیں میڈیا کی چکا چوند کی مدد سے خوراک کا ایک ایسا طرزِ زندگی یعنی لائف اسٹائل دیا گیا ہے جس کے تحت وہ خوراک نہیں بلکہ ایک میٹھا زہر اپنے جسموں میں آہستہ آہستہ داخل کرتے ہیں۔ ایک امریکی ایک سال میں سافٹ ڈرنک کی 800 بوتلیں پیتا ہے۔ یعنی وہ روزانہ تقریباً 25 چمچے چینی ضرورت سے زیادہ استعمال کرتا ہے۔ یہاں سے آپ خود آسانی سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہر تیسرا امریکی موٹا کیوں ہے۔ اگراس سافٹ ڈرنک کی لت یا عادت کا سگریٹ پینے کی لت سے موازنہ کیا جائے تو خوف ناک بات یہ سامنے آتی ہے کہ سگریٹ کا اثر تو ساٹھ سال کی اوسط عمر کے بعد ظاہر ہوتا ہے، جب کہ ضرورت سے زیادہ چینی یا شوگر کے استعمال کے اثرات بچپن ہی سے ظاہر ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ سافٹ ڈرنک کے ساتھ ساتھ خوراک جو ہم میڈیا کے بہلاوے اور لائف اسٹائل کی جکڑ بندیوں میں کھا جاتے ہیں اس کے اثرات مزید تباہ کن ہوتے ہیں۔ مثلاً ایک پاؤنڈ کے پیزا اور چٹنی میں سوڈیم کی مقدار ضرورت سے دو گنا زیادہ ہوتی ہے اور کلوریز اتنی کہ دن بھر کے لیے کافی۔ اسی طرح ان برگرز، پیزا اور فرنچ فرائز کی وجہ سے کھانے میں نمک کی مقدار میں بے پناہ اضافہ ہوتا ہے۔ نمک بجائے خود موٹاپا نہیں کرتا لیکن زیادہ نمک کھانے سے سافٹ ڈرنک پینے کی فوری طلب بڑھتی ہے اور آدمی اس طلب کا شکار ہوکر مزید چینی جسم میں انڈیلتا ہے۔ جنک فوڈ میں بے انتہا نمک کا استعمال بلڈ پریشر، دل کے امراض اور فالج (stoke) جیسے امراض میں مبتلا کرتا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق اگر امریکی اپنی خوراک میں آدھا چمچ نمک کم استعمال کریں تو سالانہ ڈیڑھ لاکھ اموات سے بچ سکتے ہیں۔ خوراک کی صورت یہ زہر پیدا ہونے بھی دیا جاتا ہے۔ بوتل سے دودھ پینے والا بچہ پہلے آٹھ ماہ میں ماں کے دودھ کے مقابلے میں 30 ہزار کلوریز زیادہ حاصل کرتا ہے۔ اس کا مطلب ہے اُس نے عام سائز کے 120 چاکلیٹ کھائے ہیں۔ لاتعداد سائنسی تحقیقات یہ ثابت کرتی ہیں کہ بوتل کے دودھ کا موٹاپے سے بنیادی تعلق ہے۔
موٹاپا اس وقت کیپٹل ازم اور کارپوریٹ سماج کا محبوب ترین موضوع ہے، جبکہ اتنے ہی لوگ بھوک اور قحط سالی کا بھی شکار ہیں، لیکن آج کے جدید، مہذب، سیکولر، لبرل، جمہوری اور سرمایہ دارانہ معاشرے میں ان غربا کی کوئی اہمیت نہیں۔ ان کا ذکر صرف فیشن کے طور پر عالمی کانفرنسوں میں کیا جاتا ہے اور بس۔ جب کہ موٹاپے کی وبا ایک پھلتا پھولتا ہوا کاروبار ہے، سکہ رائج الوقت ہے۔ موٹاپے پر خصوصی توجہ کی لاتعداد وجوہات ہیں اور سب کی سب منافع بخش کاروبار سے جڑی ہوئی ہیں۔ بھوک کا تو ایک سادہ سا علاج ہے کہ بھوکے لوگوں تک خوراک پہنچا دی جائے۔ اللہ اللہ خیر صلا، مسئلہ ختم۔ لیکن موٹاپے کو ختم کرنے کے گرد تو کاروبار کی ایک دنیا گھومتی ہے۔ بھوک کا شکار فرد تو ایک دن خود ہی اس دنیا سے گزر جائے گا، اسے زندگی بچانے کے لیے خوراک کے سوا کسی اور چیز کا انتظار نہیں ہوتا۔ جبکہ موٹاپے کے شکار افراد کی باقی ماندہ بیمار زندگی کے لیے ایک کارپوریٹ دنیا آباد کی گئی ہے۔ ورزش اور جم کلچر اس وقت پوری دنیا میں ایک وبا کی صورت پھیلا ہوا ہے۔ ایک ایسا کاروبار جو انسان کو صحت مند رکھنے کے لیے ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں پھیلی ہوئی اربوں ڈالر کی فوڈ انڈسٹری کی پیدا کردہ موٹاپے کی بیماری سے نجات کے بھی کام آتا ہے۔ گلی کوچوں میں جم کھلے ہیں اور ان کے لیے ہر روز نت نئے طریقوں کی ایکسرسائز مشینیں تیار ہوتی ہیں۔ جو لوگ جسمانی مشقت برداشت نہیں کرسکتے، یا ان کا موٹاپا ضرورت سے زیادہ ہے تو ان کے لیے بے شمار آپریشن ہیں، چربی نکالنا، معدہ چھوٹا کرنا وغیرہ وغیرہ۔
جس فوڈ انڈسٹری کی فاسٹ فوڈ اور سافٹ ڈرنکس وغیرہ سے آپ موٹے ہوتے ہیں، وہی کارپوریٹ کلچر آپ کے لیے کم کلوریز والی خوراک بھی علیحدہ سے تیار کرواتا ہے، مثلاً شوگر فری سافٹ ڈرنک وغیرہ۔ موٹاپا کم کرنے والی روزانہ خوراک ایک Diet plan کے تحت مارکیٹ کی جاتی ہیں۔ یہ سب کچھ امیر معاشروں اور شہری زندگی میں ہوتا ہے۔ اسی لیے اربن کلچر کو کارپوریٹ سرمایہ دار کی جنت کہتے ہیں۔ قحط زدہ شخص کو بھوک مٹانے کے لیے تو صرف خوراک چاہیے اور اس کا بندوبست زراعت کرتی ہے۔ لیکن کیا کریں وہ لوگ جن کا پیشہ زراعت ہے اُن کی تعداد دنیا میں ڈھائی ارب، اور ان میں سے 96 فیصد غریب ممالک میں رہتے ہیں۔ اگر دنیا کی ساری توانائیاں بھوک مٹانے پر خرچ کی جائیں تو فائدہ غریب کاشتکار کو ہوگا، کارپوریٹ سرمایہ دار کو کچھ حاصل نہ ہوگا۔ ظالم سیکولر، لبرل، جمہوری سرمایہ دار معاشرے نے ان زراعت پیشہ افراد کو بھی خوراک پیدا کرنے سے دور کرکے کاروبار کی طرف دھکیل دیا ہے۔ ایسی فصلیں اگائی جارہی ہیں جن کا انسان کی خوراک سے کوئی تعلق نہیں، مثلاً تمباکو، جلانے اور توانائی حاصل کرنے والی فصلیں (Agro fuel )، کاغذ اور برادے (Pulp) والے درخت، سویابین وغیرہ۔ انہیں cash crop کہا جاتا ہے۔ یعنی بھوکے سے رزق چھین کر نوٹ تھمائے جاتے ہیں۔
قحط کی طرف توجہ نہ کرنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ بھوک سے مرنے والے عموماً بچے ہوتے ہیں۔ دنیا میں آٹھ کروڑ بچے سالانہ مرتے ہیں۔ مرنے والے غریب لوگ ہیں، انہوں نے کارپوریٹ کلچر کے لیے کون سا بڑے ہوکر بلڈ پریشر، ہائپر ٹینشن، شوگر، دل کے امراض اور کینسر کی ادویہ استعمال کرنی ہیں! ان کی زندگی اہم ہے اور نہ موت افسوسناک۔ ڈیڑھ ارب خوش خوراک زیادہ اہم ہیں جو پہلے موٹاپے کا شکار کیے جاتے ہیں، پہلے انہیں خوراک سے مریض بنایا جاتا ہے پھر ادویہ کے مسلسل استعمال سے انہیں زندہ رکھنے کی جدوجہد کی جاتی ہے۔ کس قدر خوف ناک ہے۔ یہ کارپوریٹ سرمایہ دار ہے جو پورے سیکولر جمہوری نظام کو کنٹرول کرتا ہے، سیاسی پارٹیوں کو مستقل فنڈنگ کے ذریعے خاموشی سے خریدتا ہے۔ دنیا کی تمام پارلیمنٹیں اور کانگریسیں اس کی زرخرید ہیں۔ وہ ان جمہوری بھیڑیوں کے ذریعے ڈیڑھ ارب لوگوں کو بھوک اور قحط سے مرنے دیتا ہے اور ڈیڑھ ارب خوش خوراک لوگوں کو سسک سسک کر مرنے والی زندگی تحفے میں دیتا ہے۔ پارلیمنٹ، حکومت، مالیاتی ادارے، میڈیا سب اس کی مٹھی میں ہیں۔

حصہ