اعجاز رحمانی کی رحمت پر ممتاز شخصیات کے تعزیتی کلمات

1915

سیمان کی ڈائری
روایت کے ساتھ جدیدیت کا حسین امتزاج رکھنے والے معروف نعت گو اور غزل گو شاعر جناب اعجاز رحمانی صاحب کے بارے میں لکھتے ہوئے کئی بار مضمون میں ردو بدل کرنی پڑی۔ وہ الفاظ نہیں مل سکے جو اُن کے فن اور اُن کی شخصیت کا احاطہ کر سکیں۔محترم اعجاز رحمانی صاحب سے اُن کی محفلوں میں مجھ خاکسار کو بھی ایک خاص نسبت رہی ۔ متعددمشاعرے اُن کی صدارت میں پڑھنے کا اعزاز حاصل رہا ۔ مشاعروں کے دوران اکثر و بیشتر کسی شعر پر گفتگو بھی ہو جاتی تھی ۔ اَدب اوراحترام کے باوجود اُن سے بے تکلفی بھی تھی ،شعر پڑھتے ہوئے انھیں مخاطب کرتا تو وہ میری طرف اپنی چھڑی ہلا کر آہستگی سے کہتے بہت شریر ہو۔یہ اُن کی شفقت اور محبت کا اظہار ہوتا تھا۔تاریخِ اسلام کو منظوم کرنا بلاشبہ اُن کا ایک تاریخی کام ہے۔غزل میں بھی اُن کا اسلوب اورسادہ الفاظ میںشعری ابلاغ خواص ہی میں نہیں بلکہ عوامی سطح پر بھی مقبولیت کا درجہ رکھتاہے۔ یقینا اتنی بلند پایہ شخصیت کا دنیا سے رخصت ہوناایک ناقابلِ تلافی نقصان تو ہے۔مَیں اُن کی وفات پراپنے کالم میں تعزیت نامہ ہی پیش کر سکتا ہوں اور اس تعزیت نامے میں سیاسی، سماجی اور ادبی شخصیات بھی شریک ہیں جن کا محترم اعجاز رحمانی صاحب سے ایک خاص تعلق رہا ہے۔

خواجہ رضی حیدر

مرحوم و محترم اعجاز رحمانی سے مجھے تقریباً نصف صدی اسے نیاز حاصل تھا ۔وہ پاکستان میں اسلامی نظام کے قیام کے پر خلوص داعی تھے وہ چونکہ تخلیق کار تھے لہذا انہوں نے مذہبی شاعری کو اپنے مقصد کے حصول کا ذریعہ بنایا اور پوری عمر اس کام میں مصروف رہے۔اس دلجمعی کے ساتھ اپنے کام کو کرنا ہی ان کی اہم اور بڑی کامیابی تھی۔اللہ تعالیٰ اُن کی مساعی کو قبول فرمائے۔آمین

شاہدہ حسن (ٹورنٹو)

اعجاز رحمانی صاحب کے انتقال کی خبرسن کر بہت افسوس ہوا۔وہ ایک شفیق انسان تھے ۔اُن سے خاص قربت رہی ہے کیوں کہ وہ ہمیشہ بہت ہی محبت سے ملا کرتے تھے وہ ایک عمدہ انسان اور عمدہ شاعر تھے۔اعجاز رحمانی ہمارے بزرگوں میں سے ہیں جن کے درمیان ہم اٹھے بیٹھے ہیں ۔اعجاز رحمانی صاحب ہماری پرانی تہذیب کے نمائندہ تھے، وہ تہذیب جو اپنے تمام تر آثار کے ساتھ اب تقریباً معدوم ہوتی جا رہی ہے۔ذاتی حیثیت سے میں انھیں بہت پسند کرتی تھی کیوں کہ وہ مجھ سے بہت محبت اور شفقت سے پیش آتے تھے۔ میں نے بہت سے مشاعرے ان کے ساتھ پڑھے اور بہت سی محفلوں میں اُن کے ساتھ شریک رہی ۔وہ نہ صرف خود اپنا کلام سناتے تھے بلکہ دوسروں کا کلام بھی بہت غور سے سنتے تھے اور جہاں ضروری سمجھتے وہاں کھل کے داد بھی دیتے تھے۔میں سمجھتی ہوں کہ اگر ہم اُن کے نعتیہ اشعارکویاد کریں تو لگے گا گویا ان کی زندگی کا یہی موٹو تھا کہ جب انھوں نے یہ پڑھا، ’’دوستو! آؤ ایک کام کریں،اسواۂ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو عام کریں‘جن سے ہو روشنی زمانے میں‘اُن چراغوں کا اہتمام کریں ‘‘تو یہ انھوں نے خود اس کو اپنی زندگی میں اختیار بھی کیا تھا۔ جو کچھ ان کی سوچ اور فکر میں تھا اور جو ان کی روحانی کیفیتیں تھیںان کو انھی اصناف کے ذریعے انھوں نے بہت ہی خوبی سے بیان کیا۔ ان کا ایک خاص وصف جو مجھے نظر آیا ان کی شاعری چونکہ اپنے ابلاغ میں کامیاب رہتی تھی اس لیے وہ ہمارے مشاعرں کے مقبول شاعر بن گئے تھے ۔عوام کی سطح تک اتر کر اپنی بات پہنچاتے تھے۔اس لیے وہ عوام سے پوری طرح جڑے ہوئے انسان تھے۔ ان کی غزلیں بھی بہت سادہ ،رواں اور اردگرد کی زندگی کے موضوعات کو سمیٹتے تھے ۔اُن کا لہجہ رواں، اچھا اور دل کو بھا جانے والا لہجہ تھا۔ اللہ تعالٰی انھیں اپنی جوارِ رحمت میں اعلٰی سے اعلٰی جگہ عطا فرمائے ۔اُن کی کمی ہمیں بہت عرصے تک محسوس ہوگی۔وہ ہماری محفلوں کی بھی رونق تھے اور ہماری صحبتوں کی بھی رونق تھے۔

سید فراست رضوی:۔

جناب اعجاز رحمانی پاکستانی شعرا میں بلند پایہ مقام کے حامل تھے ۔ انھوں نے استاد قمرجلالوی کی شاگردی اختیار کی اور استاد سے زبان و بیان کے رموز سیکھے۔ان کی شاعری میں روایت کے گہرے شعور کے ساتھ جدیدیت کی آگہی بھی نظر آتی ہے ۔وہ ایک سچے پاکستانی اور کھرے مسلمان تھے ۔اسی لیے ان کے کلام میں قومی اور ملی رنگ ہمیشہ نمایاں رہا ہے۔مذہبی شاعری حمد،نعت اور سلام میں ان کو خاص انفرادیت حاصل تھی۔ خصوصاً نعت نگاری میں ان کاتخلیقی کام بڑی اہمیت کاحامل ہے۔ان کی نعتوں میں تہذیبِ سخن اور عشقِ رسولؐکے مؤدب جذبات ہمیشہ نظر آتے رہے ہیں۔ نعت گوئی میں انھوں نے اپنا اسلوب خود تشکیل دیا۔ان کی نعتیں ادبی اعتبار سے بہت بڑا جمالیاتی درجہ رکھتی ہیں۔وہ غزل میں عشقیہ مضامین کے ساتھ عصری مسائل کو بھی جگہ دیتے تھے۔اسی لیے ان کی غزل ہر زمانے میں رہنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ تاریخ اسلام کو منظوم کرنا ہے۔شاید حفیظ جالندھری کے شاہ نامہ پاکستان کے بعدیہ اپنی نوعیت کو دوسرا عظیم شعری کرشمہ ہے۔اعجاز رحمانی کا ترنم بہت پختہ اور اثر انگیز تھا۔وہ جب ترنم سے اپنا کلام پڑھتے توسامعین مسرور ر ہو جاتے۔ذاتی طور وہ ایک ملن سار اور مخلص انسان تھے۔ ان کی موت اردوادب و زبان کا ناقابل تلافی نقصان ہے۔پاکستان کے عظیم شاعر ممتاز و معروف غزل نگار نعت نگار اور منظوم مورخ جو اپنے منفرد ترنم اور اثر انگیز لہجے کی وجہ سے ہمارے عہد کی پہچان تھے، اب ہم میں نہیں رہے مگر ان کا فن اور ان کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا۔

اطہر عباسی (جدّہ)

اعجاز رحمانی حمد و نعت کے حوالے سے انتہائی معتبر نام تھا۔ نعت میں خصوصاََ بہت احتیاط و احترام سے کام لیا ہے۔خوش الحان ایسے کہ ان کا کلام پڑھتے ہوئے ان کے ترنم کو آپ اپنا ہم نوا پائیں گے۔مجھے ان کی میزبانی کا شرف حاصل رہا۔ انتہائی خوش مزاج اور ملنسار، شاعری ان کا ذریعہ معاش بھی رہی۔ وہ کہا کرتے تھے کہ میں شاعری کو شاعری کی طرح کرتا ہوں۔ شاعری وقت مانگتی ہے یہ جُزو وقتی کام نہیں۔وہ شاعرِ کشمیر بھی کہلائے۔ان کی شاعری ان کے نظریات کی بھرپور عکاسی کرتی ہے۔اعجاز رحمانی کا شمار ہندو پاک کے ان نامور شعرا میں ہوتا ہے جو مشاعرے کی کامیابی کی ضمانت ہوتے ہیں ۔اعجاز رحمانی جب اپنے مخصوص ترنم میں غزل سرا ہوتے تو مشاعرے کی کیفیت ہی بدل جاتی، خوبصورت کلام اور خوبصورت آواز جب باہم مل جائیں تو محفل کا رنگ ہی بدل جاتا ہے۔اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ان کی غلطیوں اور کوتاہیوں کو در گزر فرمائے اور جنت الفردوس میں بلند درجات سے نوازے آمین!

حافظ نعیم الرحمن

محترم اعجاز رحمانی صاحب ایک صاحبِ اسلوب شاعر تھے اور میرا اُن سے بہت گہرا تعلق تھا۔ نعت گوئی اُن کی پہچان تھی۔موجودہ وقت کے نعت گوشعرا میں سب سے بڑا مقام تھا۔ تاریخ ِاسلام کو منظوم کرنا اُن کا ایک بہت بڑا کارنامہ تھا اور ضرورت اس بات کی ہے کہ اُن کے اِس اہم کام کو بھی عام کیا جائے۔ مزاج کے بہت بھلے آدمی تھے،بچوں میں بچے اور بڑوں میں بڑے۔اردو ادب کی انھوں نے بہت بڑی خدمت کی۔ان کا ایک تحریکی پس منظر تھا۔ انھوں نے شاعری کو محض لفاظی یا اُن جذبوں کی نذر نہیں کیاکہ جس کے کوئی مقاصد نہیں ہوتے۔ اُن کی شاعری میں تحریک، انقلاب اور اسلام کی بالا دستی کی جھلک نظر آتی ہے ۔پاکستان سے ٹوٹ کر محبت کرتے تھے ۔مشرقی پاکستان کے سانحے پر بہت غمگین تھے اور اپنی کئی نظموں میں اس کا اظہار بھی کیا۔اُمت کے حوالے سے بھی اُن کو درد تھا۔ وہ بے مثال شخصیت کے مالک تھے۔ انھوں نے اپنے لیے دنیا نہیں بنائی بلکہ ایک سادہ زندگی گزار کر دنیاسے رخصت ہوئے،اللہ تعالٰی انھیں اپنی جوارِ رحمت میں خاص مقام عطا فرمائیں۔ آمین

حنیف عابد:۔

اعجاز رحمانی اُردو شاعری کا معتبر نام ہے۔ اردو ادب میں بہت کم شاعر ایسے ہیں جن کی زندگی کے کئی پہلو ایسے ہوتے ہیں جن کے مطالعے کی بغیر پوری شخصیت کا درست تعارف ممکن نہیں ہوتا۔ اردو ادب میں احسان دانش کے بعد اعجاز رحمانی وہ واحد شخصیت ہیں جنہوں نے مزدوری اور شاعری ساتھ ساتھ جاری رکھی۔ اعجاز رحمانی کی شاعری بھی کئی جہتوں پر مشتمل ہے۔ وہ بیک وقت غزل کے بہترین شاعر ہونے کے ساتھ ہی ساتھ اعلیٰ اسلامی شاعری کا بھی ایک معتبر نام ہیں۔ نعت گوئی ان کو سب سے زیادہ مرغوب تھی۔ تاہم انہوں نے سیرت النبیؐ اور صحابہ کرام کے حوالے سے جو شاعری کی ہے وہ اردو ادب کا اثاثہ ہے۔استاد قمر جلالوی کے تلامذہ کی بہت بڑی تعداد تھی لیکن ان کی شعری روایت کے وارث اعجاز رحمانی قرار پائے۔ اعجاز رحمانی بہترین شاعر، نفیس انسان، پر خلوص دوست، شفیق استاد، پر عزم سیاسی رہنما، نظریاتی طور پر مرد آہن اور اسلامی تہذیب کا عملی نمونہ تھے۔ اعجاز رحمانی کی شاعری اتنی وقیع ہے کہ اس کے فروغ سے معاشرے میں تہذیبی انقلاب لایا جا سکتا ہے۔ بد قسمتی سے اعجاز رحمانی صاحب کو ایک مخصوص سیاسی پس منظر کی وجہ سے نظر انداز کیا گیا جس کی وجہ سے ان کو وہ مقام نہیں مل سکا جس کے وہ مستحق تھے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اعجاز رحمانی کو ایک ہمہ جہت شاعر کی حیثیت سے ازسر نو دریافت کیا جائے۔ اعجاز رحمانی کی رحلت بلاشبہ ایک قومی اور اسلامی دنیا کا بڑا نقصان ہے۔ ان کا خلا تا دیر پورا نہیں کیا جا سکے گا۔

خالدمعین:۔

اعجاز رحمانی کا رخصت ہوجا نا کئی اعتبار سے دل دکھانے والا سانحہ ہے۔وہ ہماری روایت،تہذیب اور سخن وری کی اُس خاص صف سے تعلق رکھتے تھے،جو پہلے ہی بڑی حد تک معدوم ہو چکی ہے۔کراچی میں جو چند اہم ترین بزرگ باقی بچے تھے،اُن میں ایک نمایاں بزرگ اعجاز رحمانی بھی تھے۔اُنہوں نے شعرو ادب کے حوالے سے اپنی پوری زندگی صرف کی اور اپنی نمایاں پہچان بنائی۔ایک جانب اُن کی خوب صورت نعتیں ہیں۔ایک طرف اُن کی سماجی مسائل اور روز مرہ کی زندگی سے متعلق وہ شاعری ہے جو مقصد یت کی روشن مثال ہے۔یہ شاعری اپنی سادہ بیانی کے حسن کے ساتھ موجودہ معاشرے کے تضادات کی بھرپور ترجمانی کرتی ہے۔اعجاز رحمانی کی پختہ اور استادانہ شاعری میں فنی سقم کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔وہ فنی ریاضت کی اُس منزل پر کھڑے تھے،جہاں اپنے خیال کے مطابق الفاظ اور بحروں کو بڑی خوبی سے استعمال کرتے تھے۔وہ مشاعروں کے کام یاب شاعر بھی تھے۔اس لیے جس مشاعرے میں جاتے وہ مشاعرہ لوٹ لیتے۔اُن کا مخصوص ترنم بھی اُن کی شاعری کی طرح بڑا دل کش اور عوامی پسند کے عین مطابق تھا۔وہ بڑے مشاعروں کے شاعر تھے کیوں کہ اُن کا ہاتھ سامعین کی نبض پر رہتا تھا۔مشاعرہ چاہے کیسا ہی کیوں نہ ہو اعجاز رحمانی کے مائیک پرآتے ہی اُس میں زندگی جاگ جاتی تھی۔ اعجاز رحمانی جیسے بزرگ اب کراچی میں تو کیا پوری اردو دنیا میں خال خال رہ گئے ہیں۔وہ اپنے دقیق تخلیقی کاموں کے سبب ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔میں اُن کے درجات کی بلندی کے لیے دعا گو ہوں۔

احمد مبارک:۔

محترم اعجاز رحمانی دبستانِ کراچی کے شعرا میں ظاہر ہے اپنی الگ شناخت رکھتے تھے ۔مروجہ غزل کہتے تھے داد پاتے لیکن نعت اعجاز رحمانی کا بہت مضبوط محیط رہا اور اس میں انہیں وسعت دینے کی توفیق ملی اور انہیں تکریم سے پزیرائی نصیب ہوئی ۔ اس لحاظ سے تو ہمارے لیے بہت نقصان اور صدمے کی بات ہے کہ گلشنِ شعر کے بزرگ و محترم و یادگار اُٹھتے جاتے ہیں ۔ کلُّ مَنْ عَلیہا فَان۔

زیب اذکار :۔

جناب اعجاز رحمانی صاحب ایک استاد شاعر تھے اور یقینی طور پر ان کے انتقال سے ادب کا بڑا نقصان ہوا ہے۔اعجاز رحمانی ایک مخصوص لہجے کے شاعرتھے اور مسلسل ادب سے تعلق کی وجہ سے کام کرتے رہے ۔ان کی نثر بھی بہت عمدہ تھی ۔ انھوں نے اپنی زندگی کے تجربات نثر میں بھی بیان کیے ۔انھوں نے اپنی زندگی میں بہت جدو جہد کی ۔ انھوں نے نثر کا جادو بھی دکھایا ہے۔شاعری میں بھی وہ ایک ایسے شاعر تھے جو کلیشے سے ہٹ کر شاعری کرتے تھے۔ان کے کئی اشعار ایسے ہیں جومختلف اور یقینی طور پرکہنا چاہیے کہ الگ ڈکشن رکھتے ہیں اور وہ زندہ رہیں گے۔ وہ اُن اساتذہ میں سے تھے جو روایت اور جدیدیت کے امتزاج سے ایک لہجہ بنا رہے تھے اور انھوں نے بنایا۔

افضل گوہر راؤ:۔

شعری حوالوں میں روایت اور جدت کے عمدہ امتزاج کی بات جب بھی چلے گی تو اُس میں مرحوم اعجاز رحمانی کا نام ضرور آئے گا۔زندگی کی ہر ہر کیفیت کو دل کو چھو لینے والے انداز میں تخلیقی اعتبار کے ساتھ بیان کرنا مرحوم اعجاز رحمانی کو اردو ادب میں تادیر زندہ رکھے گا۔

عشرت معین سیما (برلن)

اعجاز رحمانی اردو شاعری کے حوالے سے اس عہد کا وہ چراغ تھے جو اصلاح معاشرہ اور مذہب اسلام سے رغبت رکھنے والے اور رسول خدا ﷺ کی محبت میں نعت لکھنے اور پیش کرنے والے شعرا ء میں صف اوّل کے شاعر شمارکیے جاتے ہیں۔ پاکستان ٹیلی وژن پر بارہ ربیع الاول کے کل پاکستان نعتیہ مشاعرے میں اُن کو ایک سرشاری سے نعت پڑھتا دیکھ کر دل بھر آیا۔ یقینی طور پر یہ ریکارڈنگ اُن کی وفات سے قبل کی تھی۔پروفیسر منظر ایوبی نے کہا ہے کہ اعجاز رحمانی کی شاعری اصلاح معاشرہ اور تبلیغ دین سے مزین ہے۔تبلیغ دین کا جذبہ ان کی رگ رگ میں بسا ہوا ہے۔میں سمجھتی ہوں کہ منظر ایوبی صاحب کا یہ کہنا اُن کی شخصیت اور کلام کا آئینہ دار ہے۔ میری ذاتی طور پر تو ان سے ملاقات بہت مختصر ہوئی تھی لیکن جو بزرگ شعراء اپنے جونئیر شعراء کے کلام کو سراہیں اور انہیں آگے بڑھنے کی ترغیب کریں وہ ہمیشہ یاد رہ جاتے ہیں۔ اعجاز رحمانی صاحب بھی میرے لیے ان معتبر شعرا کی فہرست میں صف اوّل کے شعرا میں شامل ہیں۔ انہوں نے ہر دور میں مختلف موضوعات پرزمانے کے اعتبار سے اخلاص کے ساتھ شاعری کی ہے۔ اعجاز رحمانی نے تاریخی حقائق کو اور خلفائے راشدین کے کردار اور کارناموں کو نہایت ہی خوبصورتی اور کمال کے ساتھ شاعری میں پیش کیا ہے جو اردو شاعری کا بیش قدر خزانہ ہے۔ میں اعجاز رحمانی صاحب کی وفات پر جرمنی کے حلقہ ادب و شاعری کے رفقاء کے ساتھ نہایت رنج و غم میں ہوں اور اُن کے اہل خانہ اور تمام لواحقین سے تعزیت کا اظہار کرتی ہوں۔

اے ایچ خانزادہ:۔

اعجاز رحمانی ایک مکمل شاعر تھے۔ ان کے کلام میں بلا کی غنایت ہے جو ان کے قادر الکلام ہونے کی دلیل ہے۔ حمد، نعت، غزل، رباعی، قطعات اور ان سے بڑھ کر منظوم سیرت اور اصحاب کرام کی منظوم منقبت ان پر مالک کی کرم نوازی کا مظہر رہی ہیں۔ ان کے لہجے کی انفرادیت بھی انہیں ممتاز بناتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں اعجاز رحمانی بھی اسی عصبیت کا شکار ہوئے۔ جس کا شکار ہر اسلام اور پاکستان سے محبت کرنے والا ادیب رہا ہے۔ اعجاز رحمانی کے حلقہ بگوشوں میں اپنے اور غیر سبھی ہیں۔ (جاری ہے)

حصہ