علمی، ادبی اور صحافتی دنیا پر فکرِ مودودیؒ کے اثرات

1112

مرتب: اعظم طارق کوہستانی
(گزشتہ سے پیوستہ)
چراغِ راہ کے ’’نظریہ پاکستان نمبر‘‘ میں اُن ادبی نگارشات کا جائزہ لیا گیا جن میں نظریۂ پاکستان کی بنیادوںپر تیشہ چلایا گیا تھا۔ بالخصوص قرۃ العین حیدر کے عالمی شہرت یافتہ ناول ’’آگ کا دریا‘‘ پر مفصل اوربھرپور محاکمہ کیا گیا۔ یہ ناول سرکاری انعام کے لیے زیرِ غور تھا۔نظریہ ٔپاکستان کے ابطال میں لکھے جانے والے اِس ناول پرایسی مؤثرادبی تنقید کی گئی کہ انعام توکیا ملتا، ناول کی مصنفہ پاکستان کی سفارتی ملازمت اور پاکستانی شہریت چھوڑ کر بھارت کی شہری جابنیں۔ پاکستان میںاس ناول کا سنسر شدہ ایڈیشن فروخت کیا جاتا ہے۔
۱۹۴۸ء ہی میں ’’ادبِ اسلامی کی تحریک‘‘ باقاعدہ تنظیمی سطح پر شروع کی گئی۔جابجاحلقہ ہائے ادبِ اسلامی بن گئے۔ادبی نشستیں ہونے لگیں۔ان حلقوں کے مباحث نے اتنا زور پکڑا کہ ترقی پسندوں کے ہاں بھی اِس موضوع پر بڑی بحثم بحثا ہوئی۔ ماہنامہ ’’نقوش‘‘ نے بھی ایک نمبر نکالا جس کا موضوع تھا:’’اِسلامی ادب کیا ہے؟‘‘ ماہنامہ ’’مشیر‘‘ کراچی کا ’’اِسلامی ادب نمبر‘‘ اورماہنامہ’’ چراغِ راہ‘‘کراچی کا ’’شعرنمبر‘‘ بھی اسلامی ادب کے موضوع پر نکلنے والے یادگارشماروںمیں شمار ہوتاہے۔ماہنامہ سیارہ ڈائجسٹ کا ’’قرآن نمبر‘‘ اور ماہنامہ نقوش کا ’’رسول نمبر‘‘ بھی ’’اِسلامی ادب‘‘ ہی کے شاہکاروں پر مشتمل ہے۔یہ سب’’تحریکِ ادبِ اسلامی ‘‘کے اثرات و ثمرات ہیں۔
ہرچند کہ ’’ادبِ اسلامی کی تحریک‘‘ ترقی پسند ادب کی تحریک کی طرح قبولیتِ عام اور شہرتِ دوام حاصل نہ کرسکی،مگر اس کے بطن سے ’’پاکستانی ادب‘‘ کی ایک تحریک تولد ہوئی جس کے سرخیل محمدحسن عسکری اور محمددین تاثیرؔ جیسے سابق ترقی پسند ادیب بنے۔ سلیم احمد اور انتظار حسین انھی عسکری صاحب کے شاگرد تھے۔’’پاکستانی ادب‘‘ کی تحریک بھی وہ کامیابی حاصل نہیں کرسکی جو ترقی پسند ادب کی تحریک کے حصے میں آئی تھی۔ تاہم ادبِ اسلامی کی تحریک اور پاکستانی ادب کی تحریک کے نتیجہ میں خود ترقی پسندوں ہی میں سے ایسے ادیبوں اور شاعروں کا ایک حلقہ نمودار ہوگیا جسے اصطلاحاً ’’دائیں بازو کے ادیب اور شاعر‘‘ کہا گیا۔ سن ستّر کی دہائی میں جماعتِ اسلامی ایسے ادیبوں اور شاعروںکی بہترین پناہ گاہ ثابت ہوئی۔جس طرح مولانا مودودیؒ کے دینی لٹریچر نے ملحدانہ غیر ملکی نظریات کے آگے معارفِ اسلامیہ کا ایک مضبوط بند باندھ دیا اور اِسلام کی جامعیت اور کاملیت کو قومی شعور کے اندر پوری طرح راسخ کردیا۔ اُسی طرح ’’تحریکِ ادبِ اسلامی‘‘ نے بھی ملک کے شعرا اور ادبا پر اِسی قسم کے مثبت لاشعوری اور نفسیاتی اثرات مرتب کیے۔ چناں چہ سوشل اِزم کا نعرہ لگاکر برسر اقتدار آنے والے ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں جب لاہور میں اِسلامی سربراہی کانفرنس منعقد ہوئی اور رائٹرز گلڈ کے جمیل الدین عالیؔ سے اِس کے لیے ایک ملی نغمہ لکھنے کو کہا گیا تو اُنھوں نے ایک ایسا ملی ترانہ لکھا جو جمیل الدین عالی کا نہیں، تحریکِ ادبِ اسلامی کے سالارِ کارواں نعیم صدیقی کا لکھا ہوا محسوس ہوتاہے۔ نمونہ کے طورپر صرف ایک بند ملاحظہ فرمائیے:
دین ہمارا دینِ مکمل
استعمار ہے باطلِ ارذل
خیر ہے جدوجہدِ مسلسل
عند اﷲ! عند اﷲ!
ہم تابہ ابد سعی و تغیر کے ولی ہیں
ہم مصطفویؐ، مصطفویؐ، مصطفویؐ ہیں
مولانامودودیؒ کے سانحۂ ارتحال (۱۹۷۹ء) کے موقع پر ایک بار پھر ادبِ اسلامی کے علمبرداروں کے خوابیدہ جذبات جاگ اُٹھے۔نہایت اعلیٰ درجہ کی شاعری،خاکہ نگاری اور جذبات نگاری ہوئی۔مگر ۱۹۸۰ء کے بعد شروع ہونے والی دہائی سے یہ تحریک پھر کمزور پڑتی چلی گئی۔موقع ملنے کے باوجود برقی ذرائع اِبلاغ تک رسائی حاصل نہیںکی گئی۔نہایت اعلیٰ معیار کا ادبِ اسلامی تخلیق کرنے والے ادیبوں، افسانہ نگاروں، ڈرامہ نویسوں، شاعروں، مزاح نگاروںاورمزاح گو شعراء کو شخصی طورپر اُجاگر کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔جیسا کہ ترقی پسنداپنے ادنیٰ سے ادنیٰ ادیب کے لیے بھی کیا کرتے تھے۔نتیجہ یہ نکلا کہ پھکڑبازوں کو عروج حاصل ہوا اور ادبِ عالیہ کے معماروں کوسوائے ناقدری اور اِس کے نتیجہ میں مایوسی کے کچھ حاصل نہ ہوسکا۔
شعری اور نثری تخلیقات کے ذریعہ سے پہنچائے گئے پیغامات معاشرے پر اپنے جو گہرے اَن مِٹ اثرات چھوڑتے ہیں، اُن کے پیشِ نظراِس شعبہ کو ملک بھر میں ایک بار پھر فعال کرنے کے لیے سنجیدہ کوششوں کی ضرورت محسوس ہوئی۔ باطل قوتوں کا مقابلہ کرنے کے لیے اِسلامی ذہن رکھنے والے تمام ادیبوں اور شاعروںکو اُن کی سیاسی یا مسلکی وابستگی کا امتیاز کیے بغیر ایک متحدہ قوت بنانے کی ضرورت کا احساس ہوا۔ اس کے نتیجہ میں ۲۶؍اگست ۲۰۱۷ء کو پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد کی سرپرستی میں ’’دائرۂ علم و ادب پاکستان‘‘ کا قیام عمل میں آیا۔ اس کا تاسیسی اجلاس اکادمی ادبیات پاکستان، اسلام آباد میں منعقد ہوا۔ اب الحمدللہ اس کی سرگرمیاں گلگت – بلتستان، آزاد کشمیر، پاکستان کے چاروں صوبائی دارالحکومتوں، وفاقی دارالحکومت اور ملک کے متعدد بڑے شہروں میں جاری و ساری ہیں۔ یوں فکرِ مودودیؒ کے ثمرات سے آج بھی استفادہ کیا جا رہا ہے۔
بچوں کے ادب پر اثرات:
جماعتِ اسلامی نے اپنے آغاز کے وقت ہی سے بچوں کے ادب کو اہمیت دی۔ہرعمر کے بچوں کے لیے کہانیاں، نظمیں، ناول اور سیرت النبیؐ، سیرتِ صحابہؓ اور سیرتِ اسلاف پر مشتمل کتابیں شائع کی گئیں۔اِن کتابوں نے ایک پوری نسل کی نسل کو تحریکِ اسلامی کے کارواں سے لاکر جوڑ دیا۔بچپن کے مطالعہ کے اثرات تمام عمر رہتے ہیں۔جوبات کچی عمروں میں ذہن پر نقش ہوجائے وہ تمام عمر کھرچ کھرچ کر مٹانے سے بھی نہیں مٹتی۔بچوں کے ادب کا شعبہ وہ واحد شعبہ ہے جس پر تحریکِ جماعتِ اِسلامی کے گہرے اثرات اب تک برقرار ہیں اور اب اِس میدان میں تحریکِ اسلامی کا کوئی قابلِ ذکر مدِّ مقابل بھی باقی نہیں رہا۔ملک کے طول وعرض سے نکلنے والے پینتیس(۳۵) سے زائد بچوں کے رسائل وجرائد میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہے جو اِسلام اور نظریہ ٔ پاکستان کا پرچار نہ کرتاہو ۔بچوں کے اِن رسائل کے قلم کاروںکی اکثریت بھی اِسلامی ذہن رکھنے والوں پر مشتمل ہے۔اِس کا سہرا یقینا اسلامی جمعیت طلبہ کے سابق اور موجودہ کارکنان کے سر بھی بندھتاہے۔ اِسلامی جمعیت طلبہ ملک بھر میں بچوں کے لیے متعدد ماہانہ رسائل جاری کرتی ہے۔اِن رسائل کے قاری بچوں کی تنظیمیں بھی قائم کی گئی ہیں۔ اِن تنظیموں کے تحت ملک بھرمیںبچوں کے لیے ادبی پروگرام بھی ہوتے ہیں۔ یہی تنظیمیں بچوں کو مطالعہ کے لیے اُن کی ادبی کتابیں بھی عاریتاً دیتی ہیں۔محلوں کی سطح پر ان کی ’’جمعہ لائبریریاں‘‘ قائم ہیں جو جمعہ کی نماز کے بعد مساجد کے آگے بچوں سے اِن کتابوں کا لین دین کرتی ہیں۔ وطنِ عزیز پاکستان میں اِن تنظیموں کے سوا کوئی بھی غیر سرکاری تنظیم ایسی نہیں ہے جوابتدائی درسی جماعتوں کے بچوں پر مشتمل ہواور جو محض چند گھنٹوں کی مہلت میں سینکڑوںبچوںکو یکجاکرسکتی ہو۔اِنھی رسائل نے ملک کو بچوں اور بڑوں کے بہت سے ادیب اور صحافی بھی فراہم کردیے ہیں۔
تحریکِ اسلامی کی اِس ’’نرسری‘‘ کی آبیاری اور نشوونما پر بھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ مخیر افراد کے تعاون سے بچوںکی ’’جمعہ لائبریری‘‘ کے کام کو ملک کے ہر محلے کی سطح تک پہنچا دینا چاہیے۔جدید طباعتی تقاضوں کے مطابق تحریکی اداروں کی طرف سے بچوں کے ادب پر مشتمل کتابوں کی ازسرنو اشاعت بھی بہت ضروری ہے جس کا سلسلہ اب تقریباً تقریباً رُک ہی گیا ہے۔ علاوہ ازیں بچوں کے لیے سمعی و بصری لوازمات کی تیاری کی بھی اشد ضرورت ہے۔ الحمدللہ اس میدان میں بھی کام کا آغاز کر دیا گیا ہے۔
صحافت اور صحافتی ادب پر اثرات:
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ پیشے کے لحاظ سے خود بھی صحافی تھے۔ اُن کے ماہانہ جریدے ’’ترجمان القرآن‘‘ نے عالمی شہرت ووقعت حاصل کی۔مولاناؒ نے سیاسی واقعات کے نظریاتی تجزیے کی بنیاد ڈالی۔ اُن کا یہ علمی انداز بے حد مقبول ہوا اوررفتہ رفتہ ہماری دُنیائے صحافت میں رائج ہوتا چلا گیا۔ماہنامہ ’’ترجمان القرآن‘‘ کے علاوہ بھی جماعتِ اسلامی کے جرائد مشیر، کوثر، تسنیم، چراغِ راہ، ایشیا، آئین، بتول،روزنامہ ’’جسارت‘‘ کراچی، روزنامہ ’’انصاف‘‘ لاہور اور ہفت روزہ ’’فرائیڈے اسپشل‘‘ کراچی نے نظریاتی صحافت کے رواج میں بڑا اہم کردار ادا کیا ۔ ماہنامہ ’’اُردو ڈائجسٹ‘‘ اور ہفت روزہ ’’زندگی‘‘ جیسے جرائد بھی ان کی فکر سے متاثر ہوئے۔ان اداروں سے بہت بڑے بڑے اور نامور صحافی پاکستانی صحافت کو میسر آئے، جن کی صحافیانہ برتری کا ڈنکا آج بھی بج رہاہے۔صحافت سے زیادہ فکر مودودیؒ صحافتی ادب پر اثر انداز ہوئی۔مجلاتی صحافت پر اس کے اثرات بہت گہرے ہیں۔بھٹو صاحب کے دور میں شائع ہونے والے ’’جسارت‘‘کے اداریوں نے ’’اداریہ نویسی‘‘ کو صحافتی ادب کا شہکار بنادیا۔اُس زمانے میں لوگ صرف ’’جسارت‘‘ کے اداریے پڑھنے کو ’’جسارت‘‘ خریدا کرتے تھے۔کالم نگاری کو بھی تحریکِ اسلامی نے مؤثر نظریاتی ابلاغ کا ایک مقبول ذریعہ بنادیا۔ ملک نصراﷲ خاں عزیز، مولانا نعیم صدیقی اور آباد شاہ پوری سے لے کر ’’جسارت‘‘ کے مقبول ترین کالم نگار ’’خامہ بگوش‘‘ تک نظریاتی کالم نگاری کا فن عروج پر پہنچ گیا۔ایک ادبی سروے کے مطابق ’’خامہ بگوش‘‘ (مشفق خواجہ مرحوم)کو ملک کے تمام کالم نگاروں نے بالاتفاق اپنا ’’پسندیدہ ترین‘‘ کالم نگار قراردیا تھا۔آج بھی بہت سے لوگ نظریاتی کالم نگاری کر رہے ہیں۔
دیگر اخبارات میں رائج ’’فلمی صفحات‘‘ کے متبادل کے طور پر ’’جسارت‘‘ نے ’’ادبی صفحہ‘‘ کا اجراء کیا۔جس کی تقلید بعد کو دیگر اخبارات نے بھی کی۔ تاہم ’’جسارت‘‘ کے ادبی صفحہ کی مقبولیت کا مقابلہ کوئی نہ کرسکا۔ اِس صفحہ کے نگراں ڈاکٹر معین الدین عقیل ہوا کرتے تھے جوبعد میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد میں کلیۂ اُردو کے ڈین ہوئے۔اب ’وظیفہ یاب‘ ہیں اور کراچی میں مقیم ہیں۔متعدد نامورعلماء، سیاست دان، سفارت کار، ادیب، شاعر، صحافی، ماہرینِ نشریات،ماہرینِ ابلاغیات اور کالم نگار ’’جسارت‘‘ کے مجلاتی صفحات پر لکھتے رہے ہیں۔ان مشاہیر کی فہرست بنائی جائے تو سینکڑوں تک جا پہنچتی ہے۔اگراخبارات کے صفحات میں دفن ہو جانے والی ان قیمتی تحریروں کا انتخاب شائع کیا جائے تو کثیر تعداد میں یادگار کتابیں تیار ہوسکتی ہیں۔ان تمام قلم کاروں نے صحافتی ادب پر مفید اور مثبت اثرات مرتب کیے ہیں۔ان اثرات کی جھلک آج بھی تقریباً تمام اخبارات کے مجلاتی صفحات پر نظرآتی ہے۔
آج ایک ایسے دور میں کہ جب آئے دِن نت نئے اخبارات افُقِ صحافت پر طلوع ہوتے جاتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے اُن کاسورج نصف النّہار پر پہنچ کر پوری آب وتاب سے چمکنے لگتاہے‘ گزشتہ چالیس برسوں سے شائع ہونے والا روزنامہ ’’جسارت‘‘ زبوں حالی کا شکار ہے۔ یہی حال ہفت روزہ ’’فرائیڈے اسپشل‘‘ کاہے۔اِس کا سبب محض ترجیحات کی فہرست میں اِن جرائد کی عدم موجودگی اور اِسی باعث اِن پر عدم توجہی ہے۔درخشندہ اور تابندہ روایات رکھنے والے ادارے بہ آسانی وجود میں نہیں آتے۔نہ جانے کتنے جانثاروںکا خونِ جگر ان کی تعمیر وتشکیل میں صرف ہوچکاہے۔ ایسے اداروں کو نہ صرف ختم ہوجانے سے بچانا چاہیے، بلکہ انھیں بہتر نشوونما کے مواقع بھی فراہم کرنے چاہئیں۔انھیں اتنا مضبوط اور مستحکم کیا جانا چاہیے کہ وہ اپنے میدان میں بسہولت اپنا رہنما کردار ادا کرتے رہیں۔تحریکی نظم ونسق کے تحت ایک مثالی ٹیلی وژن چینل کی ضرورت کا احساس بھی اب روز بروز بڑھتاجارہاہے۔وسائل اور باصلاحیت افراد کی کمی نہیںہے، صرف عزم، ارادے اور عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔
حاصلِ کلام:
علم وادب اورصحافت سے تعلق رکھنے والے اِن چارشعبوں کا یہ محض ایک سرسری جائزہ ہے۔ان موضوعات کا مفصل تحقیقی اور تجزیاتی مطالعہ کیا جائے تو اس سے نئے آنے والوں کی راہ نُمائی ہوگی۔
مذکورہ بالا شعبوں کے علاوہ خواتین، خدمتِ خلق، اورتعلیم کے شعبوں سمیت بہت سے دیگر شعبہ ہائے حیات میں بڑا وقیع کام ہوا ہے اور متعدد شعبوں میں اب بھی ہورہا ہے۔ان تمام کاموں کاجائزہ لے کر انھیں اِس طرح سے باہم مربوط اور منضبط کرنے کی ضرورت ہے کہ ہراینٹ دوسری اینٹ کو مضبوط کرتی چلی جائے، یوں پوری ملت استعماری یلغار کے خلاف ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن سکے گی۔آنے والے دور میںعالمی شکست و ریخت کے سبب سیاسی، معاشی اور تہذیبی قیادت کا جوزبردست خلا پیدا ہونے والا ہے، اُسے لپک کر پُر کردینے کی تیاری اگر اُمّتِ مسلمہ کے اہلِ علم ودانش نہیں کریں گے تو قانونِ فطرت کے مطابق قیادت کا یہ خلا کوئی اور پُر کردے گا۔اِس وقت پوری اُمت کو ایک ولولہ انگیز قیادت کی ضرورت ہے، یہ قیادت صرف اسلامی تحریکیں ہی فراہم کر سکتی ہیں اور کر رہی ہیں۔ قصہ مختصر یہ کہ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی برپا کی ہوئی تحریکِ جماعتِ اسلامی ’احیائے اسلام‘ کی ایک ہمہ گیر تحریک ہے۔ اس ہمہ گیریت کو برقرار رکھنے اورترقی دینے کی ضرورت ہے۔

حصہ