سوشل میڈیا کا مثبت استعمال

576

فاطمہ عزیز
آج کل کے زمانے میں کون ایسا ہے جو سوشل میڈیا کا استعمال نہیں کرتا؟ تقریباً تمام گھروں میں انٹرنیٹ کی سہولت موجود ہے، اور کمپیوٹر تو دور کی بات ہے موبائل نے سوشل میڈیا کا استعمال عام کردیا ہے، جس کو دیکھو موبائل ہاتھ میں لیے فیس بک، واٹس ایپ، انسٹا گرام اور دوسری ایپس (Apps) میں لگا ہوا ہے۔ نہ آس کا ہوش، نہ پاس کا پتا۔ تو ہوا کچھ یوں کہ ہم بھی فیس بک کی لت میں مبتلا ہوگئے۔ اصل میں فیس بک میں خواتین کے دو، تین گروپس جو جوائن کرلیے تھے… کچھ کھانا بنانے کے، کچھ سلائی کڑھائی کے، اور کچھ نئی نئی چیزیں بنانے کے۔
جہاں ان گروپس کے فائدے ہیں، وہیں وقت کا ضیاع بھی ہے۔ لگے رہو تو گھنٹوں پتا نہیںچلتا، مگر کیاکریں خواتین کو تعریفیں وصول کرنے کا شوق بھی تو بہت ہوتا ہے، تو اپنے بنائے ہوئے کھانے کی تصاویر لے کر گروپس میں لگانا اور دوسری خواتین سے داد وصول کرنا کسے برا لگتا ہے! دوسری بات، کھانا تو روز ہی بنانا ہوتا ہے جس کی شوہر حضرات تعریف کرنے میں کنجوسی دکھاتے ہیں۔ کہتے ہیں ’’ہاں اچھا ہے‘‘۔ اور تنقید کے جواب میں کہتے ہیں ’’کھانا تو میری امی کے ہاتھ کا اچھا ہوتا ہے‘‘۔ یا پھر ’’سالن اتنا بھونو کہ تیل اوپر نظر آئے۔‘‘ جب کہ ان گروپس میں کچھ خراب بھی بناکر اس کی تصویر لگادو تو خواتین حوصلہ افزائی ہی کرتی ہیں۔ بس تصویر لینے کا فن آنا چاہیے۔
اسی بات پر ایک لطیفہ یاد آگیا: ایک شوہر صاحب نے پکوڑے کھاتے ہوئے اپنی بیوی سے کہا کہ پکوڑوں میں نمک تیز ہوگیا ہے۔ بیوی نے جواب دیا کہ چپ چاپ کھالیں، ان پکوڑوں کو فیس بک پر پچاس لوگوں نے پسند کیا ہے۔
ہاں جی، تو ہم بھی اسی لت میں مبتلا ہوگئے کہ چلو بھئی پکائو، تصویر کھینچو، گروپس پر لگائو اور تعریفیں وصول کرو۔ ایسی بات نہیں ہے کہ ان گروپس کے فائدے نہ ہوں، بہت سی خواتین اپنی خاندانی تراکیب شیئر کرتی ہیں، کچھ پکوان تو ایسے ہوتے ہیں جن کا ہم نے کبھی نام بھی نہیں سنا ہوتا۔ کبھی گجراتی، کبھی میمنی اور کبھی سندھی کھانے کی تراکیب دیکھنے کو ملتیں، اور جب یہ نئی نئی ڈشز گھر میں بنائو تو تعریف بھی سننے کو ملتی۔ اس کے علاوہ ٹوٹکے، گھریلو مسئلے مسائل اور ان کے حل بھی پتا چلتے۔ گروسری کہاں سے لی جائے، کہاں سستی اور اچھی ہے، برتن کہاں سے اچھے ملتے ہیں، دال چاول کا کون سا برانڈ اچھا ہے، مسالے کہاں سے اچھے ملتے ہیں، گھر میں پائے جانے والے کیڑے کیسے مارے جائیں… مطلب یہ کہ دنیا جہاں کی تمام باتیں یہاں پر موضوعِ گفتگو رہتی ہیں، اس کے علاوہ کھانا بنانے کے مقابلے اور انعامات بھی چلتے رہتے تھے، تو اس طرح ہماری دلچسپی ان گروپس پر بڑھتی جارہی تھی۔
ایک دن کچھ یوں ہوا کہ ہم اپنے پودوں کو پانی دے رہے تھے کہ دیکھا ہمارے گملے میں ایک عجیب سا ساگ جیسا پودا اُگ رہا ہے۔ اب ہم پریشان ہوگئے کہ آیا یہ جنگلی پودا ہے یا پھول والا پودا ہے؟ اگر جنگلی ہے تو ہم اس کو نکال کر پھینک دیں۔ ابھی ہم اسی مخمصے میں تھے کہ ذہن کی بتی جل اٹھی۔ ہم نے فوراً پودے کی تصویر لی اور سارے گروپس میں اَپ لوڈ کردی کہ آخر یہ تجربہ کار آنٹیاں کس دن کام آئیں گی! بس پھر کیا تھا، دو گھنٹے بعد آکر دیکھا تو وہاں ایک لڑائی جاری و ساری تھی۔ کچھ کا خیال تھا کہ پودا جنگلی ہے، اس کو اکھاڑ کر پھینک دیا جائے۔ اور کچھ کا خیال تھا کہ پودا کلفہ ساگ ہے، اس کو پکا کر کھایا جائے۔ اور اس کے بعد اسے پکانے کی تراکیب مثلاً قیمے کے ساتھ بنائیں، آلو کے ساتھ ڈالیں، پراٹھے بنائیں وغیرہ چل رہا تھا۔ ایک خاتون تو پودا خریدنے تک کے لیے تیار ہوگئیں۔ کچھ کام کی باتیں جو ان تمام مشوروں کا نچوڑ تھیں وہ یہ کہ پودا سبزی والے کو دکھایا جائے، وہ پہچان کر بتادے گا۔ ایک اور کام کی بات یہ کہ ایک خاتون نے پودے کی تصویر کے ساتھ اس کی تمام معلومات دی ہوئی تھیں۔ ہمیں بڑی حیرانی ہوئی کہ یہ کہاں سے دستیاب ہوئیں! ہم نے اُن سے اس ایپ (App) کا نام پوچھا تو پتا چلا کہ اس ایپ کا نام ’’پکچر دِس‘‘ (Picture this) ہے اور یہ خاص طور پر پودوں کے لیے بنائی گئی ہے۔
بس پھر کیا تھا، ہم نے فوراً یہ ایپ ڈائون لوڈ کی اور تمام پودوں کی تصویریں کھینچنا شروع کردیں۔ جن پودوں کا ہمیں معلوم تھا جیسے کہ ایلوویرا، کیکٹس وغیرہ، اور جن کا ہمیں معلوم نہ تھا تاکہ پتا چلے کہ یہ ایپ کتنی صحیح معلومات فراہم کرتی ہے۔ اس ایپ نے تصویر دیکھتے ہی پودے کا نام، اس کے فائدے، اس کے پھول، پتوں، ڈنڈیوں کی معلومات ہمیں مہیا کردیں۔ اس نے ہمیں یہ تک بتا دیا کہ یہ کس موسم کا پودا ہے، اس کی حفاظت کیسے کرنی ہے، اس کو اُگانا کیسے ہے، اس کو کھاتے کیسے ہیں۔
ہم نے اپنے چھوٹے سے صحن میں موجود تمام پودوں کی تصویریں کھینچ کر اس ایپ میں ڈالنا شروع کردیں اور ہمیں پتا چلا کہ ہمارے پاس ایک چھوئی موئی کا مودا ہے اور ایک چنے کا پودا بھی ہے۔
یہ ایپ باغ بانی کرنے والی خواتین کے لیے ایک تحفہ ہے، تو جو خواتین باغ بانی کرتی ہیں وہ اس کو ضرور ڈائون لوڈ کریں۔ اس کا استعمال پہلے ایک مہینے کے لیے فری ہے، اس کے بعد یہ تین ہزار روپے سالانہ مانگتی ہے۔ مگر آپ اسے ڈیلیٹ کرکے دوبارہ ڈائون لوڈ کرلیں، یا پھر دوسرے موبائل میں ڈائون لوڈ کرلیں، یا اس سے ایک مہینے میں ہی بھرپور فائدہ اٹھائیں یہ آپ کی مرضی پر منحصر ہے۔

حصہ