زندگی کا حاصل

530

قراۃ العین فیضان
شہر کی سب سے بڑی لیبارٹری کے آگے ایک نئے ماڈل کی شان دار گاڑی آکر رکی، جس کی ڈرائیونگ سیٹ پر ایک نہایت نفیس خاتون بیٹھی تھیں۔ برانڈڈ سوٹ، ہاتھ میں برانڈڈ پرس، اور سر پر سلیقے سے دوپٹہ اوڑھے وہ لیب کے داخلی دروازے پر پہنچیں۔ چہرے پر بظاہر مسکراہٹ سجائے وہ خود کو تازہ دم ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہوئے انفارمیشن کائونٹر تک آئیں، لیکن ان کی دکھی آنکھیں اور تھکا تھکا سا وجود طبیعت کی خرابی کا پتا دیتے تھے۔ کائونٹر پر پہنچ کر ٹیسٹ کی ایک لمبی لسٹ تھی جو انہوں نے کائونٹر پر بیٹھی لڑکی کے ہاتھ میں تھِمائی۔ ایک بھاری رقم ادا کرنے کے بعد وہ ویٹنگ ایریا میں اپنی باری کا انتظار کرنے بیٹھ گئیں۔ جونہی اپنا نام سن کر اٹھنے لگیں ایک جھٹکے سے واپس بیٹھ گئیں، جیسے اچانک ہی انہیں چکر سا آگیا ہو۔
’’آنٹی آپ ٹھیک ہیں؟‘‘
’’جی بیٹا! میں ٹھیک ہوں‘‘ کہہ کر دوبارہ اٹھنے کی کوشش کرنے لگیں، پھر سر تھام کر بیٹھ گئیں۔
’’یہ لیجیے آنٹی آپ پانی پی لیں۔‘‘ نوجوان نے ساتھ ہی رکھے ڈسپنسر سے ٹھنڈے پانی کا گلاس پیش کیا۔ شکریہ کے ساتھ خاتون نے پانی کا گلاس تھاما۔
اتنی دیر میں پھر ان کا نام پکارا گیا۔ وہ پھر کھڑی ہونے کی کوشش کرنے لگیں۔ اِس دفعہ وہ کامیاب ہوگئیں اور کائونٹر تک پہنچیں۔
’’میڈم! آپ کے ساتھ کوئی آیا ہے؟‘‘ یہ سوال سامنے بیٹھی لیب اسسٹنٹ کا تھا۔
’’نہیں…‘‘ چکراتے سر کو تھامے مختصراً جواب آیا۔
’’میڈم آپ پلیز اپنے گھر سے کسی کا کانٹیکٹ نمبر دے دیجیے، ہم انہیں کال کرلیتے ہیں۔‘‘ لڑکی نے ہمدردی بھرے لہجے میں کہا۔
’’میں نے آپ سے کہا ناں کہ میرے گھر سے کوئی نہیں آسکتا۔ آپ مہربانی کرکے میرے یہ ٹیسٹ کردیجیے۔‘‘ یہ سن کر کمرے میں موجود تقریباً ہر شخص نے حیرت سے خاتون کو دیکھا۔
’’سوری میڈم، لیکن میں ایسی حالت میں آپ کے بلڈ سیمپل نہیں لے سکتی۔‘‘ لڑکی نے بے بسی سے جواب دیا۔
’’اچھا تو پھر آپ رہنے دیں، مجھے نہیں کروانے یہاں سے کوئی ٹیسٹ۔‘‘ خاتون نے سخت لہجے میں جواب دیا اور اس بڑی رقم کی پروا کیے بغیر جو وہ ٹیسٹ کے لیے ادا کرچکی تھیں، کھڑی ہوئیں اور باہر جانے لگیں۔
’’آیئے آنٹی میں آپ کو باہر تک چھوڑ آئوں۔‘‘ یہ وہی نوجوان لڑکا تھا جس نے انہیں پانی کا گلاس پیش کیا تھا۔ اب وہ خاتون کا ہاتھ تھامے باہر تک آیا۔ وہ خاموشی سے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھنے لگیں۔
’’آپ خود ڈرائیونگ کریں گی؟‘‘ نوجوان جو کچھ دیر پہلے کا منظر دیکھ چکا تھا، حیرت سے انہیں دیکھنے لگا۔
’’ہاں! میں کرلوں گی۔‘‘ مختصر جواب دیا گیا۔
’’لیکن آنٹی مجھے آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں لگتی، اگر آپ مناسب سمجھیں تو میں آپ کو اپنی گاڑی میں آپ کے گھر تک چھوڑ دوں؟‘‘ نوجوان کی آفر سن کر غیر ارادی طور پر اُن کا سر اثبات میں ہلا اور وہ خاموشی سے اس کی چھوٹی سی گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھ گئیں۔
’’میں ابھی اپنی والدہ کے ٹیسٹ کروا کے آتا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ دوبارہ لیب میں داخل ہوا اور تقریباً دس منٹ بعد اپنی والدہ کا ہاتھ تھامے باہر آیا۔ نوجوان کی والدہ کے چہرے پر موجود چمک اور اُن کا پُرسکون وجود دیکھ کر جیسے وہ ماضی میں کھو گئیں۔ ایک ایک کرکے ماضی کے تمام مناظر ان کی آنکھوں کے سامنے سے گزرنے لگے۔
’’عظمیٰ میری پیاری سہیلی…‘‘ ان کی زبان سے بے اختیار نکلا۔
دونوں نے بچپن کی دہلیز پار کی اور جوانی میں قدم رکھا۔ میٹرک میں دونوں نے ہی شان دار کامیابی حاصل کی اور ساتھ ہی کالج میں داخلہ لیا۔ سارہ کی خواہش تھی کہ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے زندگی میں خوب پیسہ کمائے۔
’’میرا خیال ہے کہ دنیا میں پیسے سے زیادہ کچھ بھی نہیں… بس پیسہ ہی سب کچھ ہے۔‘‘ سارہ نے عظمیٰ سے باتوں ہی باتوں میں یہ الفاظ کہے تو عظمیٰ نے عجیب نظروں سے سارہ کو دیکھا۔
’’کیا واقعی؟ سارہ تمہارے نزدیک پیسے سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں؟‘ رشتے، دوستی، عزت کچھ نہیں؟‘‘ عظمیٰ نے حیران ہوکر پوچھا۔
’’نہیں! میرے خیال میں اگر انسان کے پاس پیسہ ہو تو اسے باقی سب خود ہی مل جاتا ہے۔ میری خواہش ہے کہ میرے پاس خوب صورت مکان، شاندار گاڑی اور خوب سارا بینک بیلنس ہو۔ مجھے اپنی زندگی سے اور کیا چاہیے! تم دیکھنا ایک دن میں یہ سب حاصل کرلوں گی۔‘‘ سارہ کی آنکھوں میں مستقبل کے لیے امید کی چمک تھی۔
…٭…
آج میرے پاس یہ سب کچھ ہے لیکن افسوس عمر ہے، نہ صحت ہے، نہ شوہر، نہ اولاد، نہ رشتے، نہ دوست۔ میں نے اپنی زندگی سے یہی سب کچھ تو چاہا جو آج میں نے حاصل کرلیا۔
میں نے اپنی پسند سے شادی کی، اپنے شوہر کو اس کے بیمار والدین سے علیحدہ کیا۔ آہستہ آہستہ اپنے رویّے سے شوہر کے دل سے اترتی گئی۔ میری زندگی کا مقصد صرف پیسہ تھا، لہٰذا میں نے جاب شروع کردی، میں برانڈڈ چیزوں کے شوق میں اپنے گھر اور دونوں بیٹوں سے غافل رہی۔ بس پھر شوہر نے مجھے چھوڑ کردوسری شادی کرلی۔ بڑے بیٹے نے انگلینڈ کی ٹاپ یونیورسٹی میں ایم بی اے کیا اور وہیں جاب کے دوران ایک انڈین مسلم لڑکی سے شادی کرلی۔ چھوٹے بیٹے کی بھی کال آجاتی ہے کبھی چار دن اور کبھی ہفتے بعد، وہ بھی ملائشیا میں ہوتا ہے، اپنی اولاد سے صرف عید کے عید ہی ملاقات ہوتی ہے۔
…٭…
عظمیٰ نے اپنی بہترین سہیلی کی داستان بڑے دکھی دل کے ساتھ سنی اور اسے تسلی دی۔ اس کے پاس بے شمار دولت نہ تھی لیکن رشتے تھے، اور یہی اس کی خوش نصیبی تھی۔
کالج کے بعد عظمیٰ کی شادی اُس کی خالہ کے بیٹے ہاشم سے ہوگئی۔ کریانہ کی دکان کے مالک ہاشم کے ساتھ عظمیٰ نے صبر و شکر سے ساری زندگی گزار دی۔ اس کی تین بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔ بیٹیاں سب اپنے اپنے گھروں میں خوش ہیں، اور بیٹا بھی تعلیم کے ساتھ اپنے والد کا گھریلو اخراجات میں ہاتھ بٹاتا ہے، اور سب سے بڑھ کر اپنی ماں پر جان چھڑکتا ہے۔
آج سارہ کو احساس ہوا کہ تنہائی کی اذیت کتنی بری ہے۔ سارہ، عظمیٰ کے گلے لگ کر رونے لگی،’’میں غلط تھی، عظمیٰ! میں غلط تھی۔ زندگی میں جو مَیں نے چاہا، حاصل کیا، لیکن آج میں خالی ہاتھ ہوں، میرے پاس میرے رشتے نہیں ہیں، میرے دو بیٹے ہوتے ہوئے بھی میں بے اولاد ہوں۔ تمہارے پاس نہ گاڑی ہے نہ خوب سارا پیسہ، لیکن اولاد دنیا کی سب سے بڑی نعمت ہے، اور تمہارے بیٹے سے مل کر مجھے یہ احساس ہوا کہ سعادت مند اولاد سے بڑھ کردنیا میں کچھ نہیں۔‘‘

حصہ