روح تک آگئی تاثیر مسیحائی کی

578

قدسیہ ملک
کراچی جیسے بڑے شہر میں بیمار ہونا کوئی بڑی بات نہیں۔ آئے روز اس شہر میں نت نئے امراض پھوٹتے رہتے ہیں۔ ایک شخص جو کراچی کا باشندہ ہو، چھ ماہ تک تندرست و توانا رہے تو لوگ طرح طرح سے تشویش کرنے لگتے ہیں کہ بھائی کیا کھا رہے ہو جو ابھی تک بیمار نہیں ہوئے! آئے روز یہاں وبائی امراض کا پھوٹنا اور ان سے سینکڑوں افراد کا متاثر ہونا اس بڑے شہر کی خاصیت ہے۔ یہاں آج کل مچھروں اور مکھیوں سے پھیلے ہوئے امراض عروج پر ہیں، جن میں چکن گونیا، ڈینگی، میعادی بخار، ملیریا اور ٹائیفائیڈ سرفہرست ہیں۔ جس سے خیریت پوچھو پتا چلتا ہے گھر میں بیماری نے قبضے جمائے ہوئے ہیں۔ کہیں میعادی بخار ہے تو کہیں ڈینگی اپنے کمالات دکھا رہا ہے۔ کہیں چکن گونیا اور ملیریا سے لوگ سنبھلے نہیں ہیں، تو کہیں ٹائیفائیڈ جیسے امراض نے غریب و مصیبت کے مارے شہریوں کا جینا دوبھر کیا ہوا ہے۔
شہر میں ہر طرف گندگی اور غلاظت کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔ ہر جگہ مچھروں، مکھیوں نے ڈیرے جمائے ہوئے ہیں۔ رہی سہی کسر آوارہ کتوں نے پوری کردی ہے۔ رواں سال سگ گزیدگی کے لاتعداد واقعات ریکارڈ ہوئے ہیں۔ گزشتہ 6 ماہ کے دوران کراچی کے دو ہسپتالوں انڈس ہسپتال اور جناح پوسٹ گریجویٹ میں سگ گزیدگی کے 6 واقعات رپورٹ ہوئے۔ ٹریفک کی مخدوش صورت حال کے باعث ٹریفک حادثات معمول کی بات ہیں۔ آئے روز مختلف حادثات میں شہرِ قائد میں سینکڑوں افراد لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ لیکن حکومتی اداروں و عہدیداروں کے کانوں پر ان تمام حادثات کے باوجود کوئی جوں تو کیا جوں کا بچہ بھی نہیں رینگتا۔ ان کے لیے ہر طرف راوی چین ہی چین لکھتا ہے۔
ایسے حالات میں پھر وہی لوگ کھڑے ہوتے ہیں کہ جنھوں نے ہر دور میں پاکستان کی جغرافیائی، اسلامی، قانونی، معاشی اور قومی حدود کی حفاظت کو اپنی قیمتی جانوں پر ترجیح دی ہے۔ انہی سرفروشوں کے زیراہتمام قائم ایسا ادارہ جو بلا رنگ و نسل، مذہب، لسانیت اور عصبیت کے ہر انسان کی مدد کو اوّلین ترجیح دیتاہے۔ الخدمت فائونڈیشن ہر مشکل وقت اور کڑی آزمائش میں اپنے ہم وطنوں کے دکھ درد کو دور کرنے کے لیے ہمہ وقت کوشاں ہے۔2005ء کا زلزلہ ہو یا2010ء میں آنے والا سیلاب… تھرپارکر میں قحط کی صورت حال ہو یا آئی ڈی پیز کی بڑے پیمانے پر نقل مکانی… ان سانحات اور حادثات نے جہاں ہزاروں لوگوں کی جان لی، وہیں لاکھوں افراد بے گھر بھی ہوگئے۔ کہیں فصلیں تباہ ہوگئیں تو کہیں کاروبار نہ رہے۔ کسی بھی ناگہانی آفت کی صورت میں بروقت اور فوری رسپانس الخدمت فاؤنڈیشن کی اوّلین ترجیح رہی ہے۔ الخدمت کے رضاکار ایسی کسی بھی صورت حال میں فوری جائے حادثہ پر پہنچ کر ریسکیو اور ریلیف سرگرمیوں کا آغاز کردیتے ہیں۔ زخمیوں کو فوری ہسپتال پہنچانا اورلاشوں کو جائے حادثہ سے اٹھا کر ہسپتال یا ان کے آبائی علاقوں تک پہنچانے کا کام بھی الخدمت کے رضاکارسرانجام دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ صحت، کفالتِ یتامیٰ پروگرام، مواخات، صاف پانی کی فراہمی قابلِ ذکر ہیں۔
8 اکتوبر 2005ء کا زلزلہ جو پوری قوم اور خاص طور پر حکومتی اداروں کے لیے ایک مشکل امتحان تھا، بیشک ہماری قوم اِس کڑے امتحان میں پورا اتری۔ فلاحی اداروں نے بھی جس حد تک ممکن تھا زلزلہ زدگان کی خدمت کی۔ زلزلے کو 14 سال بیت چکے۔ بیرونِ ملک سے آنے والی امداد اور خدانخواستہ آئندہ ایسی کسی ناگہانی آفت کی صورت میں منصوبہ بندی پر غور و فکر کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ نعمت اللہ خان کی سربراہی میں ڈاکٹر حفیظ الرحمن، سید احسان اللہ وقاص، ڈاکٹر اقبال خلیل، ڈاکٹر معراج الہدیٰ صدیقی، ڈاکٹر سید تبسم جعفری، شاہد اقبال، انجینئر عبدالعزیز، نورالباری، سید راشد داؤد، میاں تنویر احمد مگوں، خلیفہ انور احمد، ملک نعیم احمد، خالد مکشی، لیاقت عبداللہ، قاضی سید صدرالدین، عبدالمتین، ظفر اقبال چودھری، ڈاکٹر فیاض عالم، ڈاکٹر طارق شیرازی، جاوید اختر، جاوید شیخ، انس سلطان، اسامہ بن شعیب، عبدالرحمن فدا، تنویر اللہ خان، ڈاکٹر عبدالمالک، ڈاکٹرآصف خان، ڈاکٹر محمد خالد، ڈاکٹر خالد مشتاق، ریاض احمد، عبداللہ فیروز، مولانا یونس خٹک، شوکت خان، حاجی اسد، تیمور خان، قاضی وجاہت، مصباح الدین، راشد قریشی، شوکت خان، صفیان احمد، فضل محمود، کفایت اللہ، مشتاق احمد، ساجد انور، عبدالستار اور اسماعیل صدیقی نے متاثرین کے لیے امدادی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ اُن کی بحالی کے لیے جو کرادر ادا کیا وہ قابلِ تحسین ہے۔ وہ تمام لوگ مبارکباد کے مستحق ہیں جن کی انتھک محنت سے لاکھوں متاثرین کے لیے ریلیف ممکن ہوا۔
الخدمت فائونڈیشن کے قیام کا مقصد ہی معاشرے کے محروم طبقات کی فلاح و بہبود ہے۔ الخدمت اس شہرِ قائد میں غریب و لاچار شہریوں کی طبی امداد کے لیے ہر وقت کوشاں ہے۔ الخدمت بلاتفریقِ رنگ و نسل اور مذہب بے سہارا اور دکھی انسانیت کی خدمت میں مصروفِ عمل ہے۔ یہ ادارہ 1990ء سے بطور رجسٹرڈ این جی اوکام کررہا ہے۔ آج اس کا دائرۂ کار آفات سے بچاؤ، صحت، تعلیم، کفالتِ یتامیٰ، صاف پانی، مواخات پروگرام اور دیگر سماجی خدمات تک پھیل چکا ہے۔ الخدمت کو خدمتِ خلق کی ایک نمایاں تنظیم ہونے کا اعزاز حاصل ہے، اور اس کا سب سے بڑا سرمایہ ملک بھر میں پھیلے ہوئے ہزاروں رضاکار ہیں جو نیک نیتی سے بے سہارا اور ضرورت مند لوگوں کی خدمت میں ہمہ وقت مصروف ہیں۔ ادارہ مکمل طور پر خودمختار، غیر سرکاری اور غیر سیاسی ساکھ کا حامل ہے۔ الخدمت فائونڈیشن کی جانب سے تمام تر خدمات تنظیم کے خصوصی اصول و ضوابط کے تحت سر انجام دی جاتی ہیں۔ دنیا بھر میں الخدمت کو دیئے جانے والے عطیات صرف اور صرف فلاحی اور سماجی امور کی انجام دہی کے لیے ہی استعمال کیے جاتے ہیں۔ حقوق سے محروم لوگوں کو زندگی کے بنیادی حقوق کا احساس دلانا اور پھر انھیں یہ حقوق فراہم کرنا ضروری ہے، ورنہ معاشرہ عدم استحکام اور انتشار کا شکار ہوجاتا ہے۔
انہی چند قابلِ ذکر لوگوں میں ایک نام ڈاکٹر سید تبسم جعفری کا بھی ہے۔ بے شک اللہ نے ان کے ہاتھ میں بہت شفا دی ہے۔ گزشتہ دنوں میعادی بخار بگڑ جانے اور ناسازیِ طبع کے باعث راقم نے بہت سے ہسپتالوں کے چکر لگائے۔ میڈیکل ٹیسٹ کی مد میں ہزاروں روپے کے ٹیسٹ کروائے۔ ڈینگی، ملیریا، ٹائیفائیڈ، چکن گونیا، انفیکشن ہر طرح کے ٹیسٹ۔ ہر ڈاکٹر نیا ٹیسٹ لکھ کر دیتا، لیکن کوئی بھی مسیحا درست تشخیص نہ کرسکا۔ بخار بڑھتے بڑھتے 106 تک پہنچ گیا۔ چھ سات روز ہی میں طبیعت ایسی ہوگئی کہ وصیت تک لکھ کر رکھ لی کہ مبادا کہیں ملک الموت ہی نہ حاضر ہوجائیں۔ بالآخر بچپن میں جہاں سے علاج کرواتے تھے بھائی نے وہیں کا مشورہ دیا۔ حیرانی سے پوچھا’’ارے کیا وہ ڈاکٹر انکل اب بھی وہیں بیٹھتے ہیں؟‘‘ جواب ملا ’’ہاں وہیں ہوتے ہیں۔ وہی اوقات ہیں، مغرب کے بعد‘‘۔ خیر، تمام رپورٹس مع اپنی حالت سنبھالتے ہوئے جب وہاں تک پہنچے، حیرت ہوئی کہ اتنے برسوں میں ایسے ڈاکٹر توکہاں سے کہاں پہنچ جاتے ہیں۔ اتنا بڑا نام ہونے کے باوجود کبر و غرور نام کو نہیں۔ اسی چھوٹے سے مطب میں اسی چھوٹی سی کرسی پر ڈاکٹر صاحب بالکل ویسے ہی مریضوں کو دیکھتے ہیں جیسے 18 سال پہلے دیکھا کرتے تھے۔ بے انتہا رش کے باعث 20 واں نمبر تھا۔ خیر خداخدا کرکے نمبر آیا تو پتا چلا کہ ہوا کچھ نہیں ہے بس بخار بگڑ گیا ہے جس کے باعث گلے میں انفیکشن شدت اختیار کرگیا ہے۔ ایک پیلی اور ایک لال دوائی کی شیشی ملی، اگلے روز آنے کوکہاگیا۔ الحمدللہ ایک ہفتے ہی میں طبیعت میں واضح تبدیلی آنے لگی۔ ہم جو اپنے پیروں پر کھڑے بھی نہیں ہو پا رہے تھے، زندگی کی پھر سے امید پیدا ہونے لگی۔ واقعی اگر مسیحا نیک و خداترس ہو تو اللہ تعالیٰ دوا میں شفا اور زبان میں تاثیر دے ہی دیتے ہیں۔ ایسے فرشتہ صفت لوگ آج بھی موجود ہیں۔ ایسے ہی لوگوں کے باعث دنیا قائم ہے۔
الخدمت فائونڈیشن سندھ کے صدر کی حیثیت سے 2014ء سے 2016ء کے اجلاس میں نامزد کیے گئے ڈاکٹر سید تبسم جعفری بھی پچھلی کئی دہائیوں سے الخدمت سندھ کے صدر کی ذمہ داریاں نبھانے کے ساتھ ساتھ الخدمت کے ایک چھوٹے سے شفاخانے میں اپنی بے انتہا مصروفیات میں سے وقت نکال کر روزانہ بلاناغہ دکھی عوام کی خدمت کے لیے ہمیشہ موجود ہوتے ہیں۔1987ء میں کراچی کی مشہور سندھ میڈیکل یونیورسٹی سے سرجری اور انیستھیزیا میں ایم بی بی ایس کرنے والے ڈاکٹر صاحب روزانہ اپنے کئی گھنٹے دکھی انسانیت کی خدمت کے لیے وقف کرکے اللہ سے اپنی تجارت کا عہد کرچکے ہیں۔ انتہائی کم قیمت پر روز کئی کئی گھنٹوں چہرے پر مسکان سجائے سینکڑوں دکھی اور لاچار مریضوں کو دیکھنا، ان کی خیریت دریافت کرنا، انہیں اللہ کے حکم سے انتہائی کم قیمت دوائیوں کے ذریعے شفایاب کرنا بالکل عام بات نہیں ہے۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ وہ شفاخانے میں علاج و معالجہ کے باعث اپنی الخدمت کی اہم ذمہ داریوں سے کسی صورت بھی غافل ہوں۔ ان سے علاج کروانے کے بعد اللہ رب العالمین پر ایمان مزید بڑھ گیا۔
اس کے علاوہ الخدمت کے تحت بہت سی سماجی سرگرمیوں میں اپنے شفاخانے کے اوقاتِ کار کے سوا وہ موجود ہوتے ہیں۔ شفاخانے میں آئے ہوئے بہت سے مریض ان کی سرگرمیوں سے بالکل ناواقف ہیں، جبھی رات کے ایک بج جاتے ہیں اور ڈاکٹر صاحب کے مطب پر رش جوں کا توں ہوتا ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو اپنے عزم و حوصلے میں استقامت دے۔ ان کے مریض یوں ہی ان سے شفایاب ہوتے رہیں اور وہ اسی طرح دکھی انسانیت کی خدمت و دلجوئی کرکے رب کو راضی کرتے رہیں۔

جو اعلیٰ ظرف ہوتے ہیں ہمیشہ جھک کے ملتے ہیں
صراحی سرنگوں ہوکر بھرا کرتی ہے پیمانے

سانحہ تیزگام ایکسپریس

ابھی حال ہی میں سانحہ تیزگام ایکسپریس میں ہونے والے جانی و مالی نقصان پر ہر ذی شعور اشک بار ہے۔ کراچی سے راولپنڈی جانے والی تیزگام ایکسپریس میں صبح سویرے آگ بھڑک اٹھی جس نے دیکھتے ہی دیکھتے تین بوگیوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس واقعے میں 70 سے زائد مسافر جاں بحق جبکہ درجنوں زخمی ہوئے تھے۔ پاکستان ریلوے کے عہدیداران کا کہنا ہے کہ اسٹیشنوں اور ٹرینوں میں ڈیوٹی پر مامور ریلوے پولیس، کنڈیکٹر گارڈز، ٹکٹ چیکرز و دیگر، قوانین اور ایس او پیز کے مطابق فرائض سر انجام دیتے تو یہ سانحہ ہونے سے روک سکتے تھے۔ ملک میں ٹرینوں کے سانحات میں واضح اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ لیکن حکومتی عہدیداران زبانی جمع خرچ اور وعدوں کے سوا اب تک کچھ نہ کرسکے۔ ایسے میں دکھی انسانیت کی مدد کے لیے ہمہ وقت کوشاں الخدمت نے اپنے تمام تر وسائل بروئے کار لاتے ہوئے نہ صرف یہ کہ ان زخمیوں کو فوری طبی امداد بہم پہنچائی بلکہ الخدمت کے تحت سانحے میں شہید ہونے والے افراد کے لیے الخدمت فائونڈیشن سندھ کے دفتر میں تعزیتی اجلاس کا انعقاد کیا گیا جس میں متوفین کے درجات کی بلندی اور زخمیوں کے لیے جلد صحت یابی کی دعا کی گئی۔ اس موقع پر صدر الخدمت سندھ ڈاکٹر سید تبسم جعفری نے انتہائی دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سانحہ تیزگام ایک المناک واقعہ ہے جس میں کثیر تعداد میں معصوم افراد جاں بحق ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ آگ بجھانے والے آلات اور برقت ریسکیو نہ ہونے کی وجہ سے اموات میں اضافہ ہوا۔

حصہ