آب زم زم ایک معجزہ

1371

سید مصعب غزنوی
حضرت ابراہیم ؑکو اللہ پاک نے بہت ساری آزمائشوں میں ڈالا مگر حضرت ابراہیم ؑہر آزمائش میں صبر و استقامت کا پہاڑ بن کر پورا اترے۔ حضرت ابراہیم ؑکو اللہ پاک نے حضرت اسماعیل عطا کیے اور پھر اللہ پاک نے اپنے محبوب کو حکم دیا کہ حضرت اسماعیل اور ان کی والدہ حضرت ہاجرہ کو عرب کی بے آب و گیاہ اور پتھریلی زمین پر تنہا چھوڑ آئیں، بظاہر تو یہ بہت سخت حکم تھا مگر حضرت ابراہیم ؑنے رب کریم کے حکم پر اپنے شیر خوار بیٹے اور حضرت ہاجرہ کو صحرائے عرب میں تنہا چھوڑا اور جب آپ ؑانہیں چھوڑ کر واپس آنے لگے تو اماں ہاجرہ ؑنے آپ کو آواز دے کر پوچھا کہ آپ ہمیں کہاں چھوڑ کر جارہے ہیں؟ تو حضرت ابراہیم ؑنے اوپر آسمان کی طرف اشارہ کیا جس پراماں ہاجرہ سمجھ گئیں کہ یہ حکم خداوندی ہے۔ حضرت ہاجرہ گویا ہوئیں کہ ٹھیک ہے اگر حکم خداوند ہے تو ہمارا خدا ہمارے لیے بہتر فیصلہ کرے گا۔ حضرت ابراہیم ؑنے چند کھجوریں اور پانی کا مشکیزہ حضرت ہاجرہ کے پاس چھوڑا اور خود واپس چلے گئے۔
جب پانی اور کھجوریں ختم ہوگئیں اور تپتے صحرا کی گرمی ،تپش اور بھوک و پیاس کی وجہ سے چھاتی کا دودھ تک سوکھ گیا۔ تو حضرت اسماعیل بھوک و پیاس کی وجہ سے رونے لگے ، اورپیاس کی شدت سے تلملانے لگے۔ جس پر اماں ہاجرہؑ ان کے لیے پانی کی تلاش میں ادھر ادھر دوڑیں، اماں ہاجرہ ؑپریشانی کے عالم میں کبھی صفا پہاڑی کی طرف دوڑتیں اور کبھی مروہ پہاڑی کی طرف اور کبھی آکر اپنے بچے کو دیکھ لیتیں۔ اور پھر دوبارہ کبھی صفا کے اوپر پانی کی تلاش میںادھر اُدھر دوڑتیں،اور کبھی مروا کے اوپر اس طرح انہوں نے دونوں پہاڑیوں پر سات چکر لگائے۔ بھوک اور پیاس کے عالم میں حضرت اسماعیل علیہ السلام روتے روتے زمین پر اپنی ایڑیاں رگڑنے لگے، اور جس جگہ وہ ایڑیاں رگڑ رہے تھے رب کے حکم سے وہاں چشمہ جاری ہو گیا جب حضرت ہاجرہ اپنے بیٹے کو دیکھنے کے لیے لوٹیں تو دیکھتی ہیں کہ بیٹے کی ایڑیاں رگڑنے والی جگہ سے پانی نکلنا شروع ہو گیا ہے۔ آپ بھاگ کر پانی کے قریب پہنچیں اور بولیں ـ’’زم زم‘‘ ر ک جا ، رک جا۔ اورپھر جلدی سے پانی کے گرد ڈھیری بنا لی تاکہ پانی رک جائے اور بہہ نہ نکلے۔ اس طرح رب کریم نے حضرت اسماعیل ؑکے واسطے پانی کا انتظام کیا ،اور اس واقعہ کے بعد عرب کی بے آب و گیاہ سرزمین آباد ہونا شروع ہوئی۔
چاہ زم زم حضرت ابراہیم ؑاور حضرت ہاجرہؑ کے شیر خوار بیٹے کی پیاس بجھانے کے واسطے لگ بھگ چار ہزار سال قبل معجزانہ طور پر رب کریم نے مکہ مکرمہ کے پتھریلے اور چٹیل صحرا میں جاری کیا ،جوکہ آج تک جاری ہے۔ چاہ زم زم خانہ کعبہ کے جنوب مشرق میں تقریبا 21 میٹر کے فاصلے پر آجکل تہہ خانے میں واقع ہے۔ یہ کنواں وقت کے ساتھ ساتھ سوکھ چکا تھا، مگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا جناب عبدالمطلب کو رب کریم نے خواب میں اشارہ دیا جس کے بعد انہوں نے چاہ زم زم کی دوبارہ کھدائی کروائی۔ اس کی کھدائی کے دوران اس میںسے سونے کی دو ہرنیں اور تلواریں برآمد ہوئیں۔ جسے جناب عبدالمطلب نے خانہ کعبہ کے لیے وقف کر دیا تھا، اور اس کے بعد عرب کے کچھ لوگوں نے اسے چوری کرلیا ۔
آب زم زم کا سب سے بڑا دہانہ حجر اسود کے پاس موجود ہے، جبکہ اس کے علاوہ بھی حدود حرم میں مختلف مقامات سے شاخوں کی صورت میں نکلتا ہے۔ یہ پانی 1953تک ڈول کے ذریعے نکالاجاتا تھا، اس کے بعد مسجد حرم کے اندر اور باہر مختلف مقامات پر اس کی سبیلیں لگادی گئیں۔ ز م زم کا پانی مسجد نبوی میں بھی نمازیوں کی ضرورت کے مطابق عام ملتا ہے، اور اس کے علاوہ تمام حجاج اور عمرہ کے زائرین اسے دنیا بھر میں اپنے ہمراہ لے کر جاتے ہیں۔
چاہ زم زم کی دوبارہ کھدائی حضرت عبدالمطلب نے کروائی، اس کے بعد سے اب تک اس کی لمبائی ، چوڑائی اور گہرائی وغیرہ میں کوئی تبدیلی نہیں لائی گئی۔ چاہ زم زم کی لمبائی 18 فٹ، چوڑائی 14 فٹ جبکہ گہرائی تقریبا 5 فٹ ہے۔ شہرمکہ چاروں طرف سے گرینائٹ چٹانوں کی پہاڑی میں گھرا ہوا ہے اور حرم شریف اس وادی مکہ میں سب سے نچلی سطح پر ہے۔ شہرمکہ مکمل طور پر ریت اور گاد کی تہہ پر واقع ہے ،اور چاہ زم زم بھی اسی ریت اور گاد کی تہہ پر واقع ہے جبکہ اس جگہ پر پانی سطح زمین سے چالیس پچاس فٹ گہرائی پر ہے۔ آب زم زم پر کی جانے والی ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق آب زم زم میں اہم معدنیات مثلا سوڈیم ،کیلشیئم، میگنیشیم اور اس کے علاوہ اور بھی بہت سی معدنیات مخصوص مقدار میں پائی جاتی ہیں۔
آب زم زم سب پانیوں کا سردار اور سب سے زیادہ شرف و مقدر والا چشمہ ہے۔ آب زم زم کی یہ خاصیت ہے کہ یہ پیاس اور بھوک دونوں کو مٹاتا ہے، نبی کریم ؐکے صحابی حضرت ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ 30 دن تک کعبہ میں مقیم رہے، ان کی خوراک صرف زم زم تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے ان کی خوراک کے بارے دریافت کیا تو وہ بولے کہ میں صرف زم زم پیتا ہوں اور کچھ نہیں، اور اس سے ہی اتنا موٹا ہو گیا ہوں۔ جس پر نبی کریمؐ نے فرمایا کہ،
’’ بلاشبہ زم زم بابرکت، پینے والے کے لیے مشروب اور کھانے والے کے لیے کھانے کی حیثیت رکھتا ہے‘‘
زم زم کے بارے حضرت جابرؓ کی ایک روایت ہے جس میں وہ فرماتے ہیں کہ ’’نبی کریم ؐسے میں نے سنا کہ آب زم زم اسی چیز کے لیے ہے جس کے لیے اسے پیا جائیــ‘‘ یعنی آب زم زم کو جس چیز کی نیت کر کے پیا جائے اسے اللہ پاک پورا ضرور کرتے ہیں۔ز م زم بیماریوں سے نجات کے لیے مفید ہے اسے لگاتار پینے سے بیماریاں جاتی رہتی ہیں ،اور اللہ پاک بیماریوں سے شفاء عطا کر دیتے ہیں یہ آب زم زم کا ایک بہت بڑا معجزہ ہے۔ آب زم زم ایک زندہ و جاوید معجزہ ہے ،ہزاروں سال گزرنے کے باوجود یہ آج تک اسی طرح جاری و ساری ہے۔ ہر سال بلکہ ہر روز لاکھوں زائرین اور حجاج یہ پانی اپنے ساتھ دنیا کے کونے کونے تک لے کر جاتے ہیں ۔کروڑوں کی تعداد میں لوگ گیلن وغیرہ اور دوسرے برتنوں میں زم زم اپنے ہمراہ اپنے علاقوں میں لاتے ہیں مگر کبھی بھی اس پانی میں کمی واقع نہیں ہوئی۔ تمام زائرین حج اور عمرہ کے موقع پر آب زم زم مکہ اور مدینہ میں استعمال کرتے ہیں کسی بھی قسم کی روک ٹوک بالکل نہیں ہے اس کے پینے میں ۔اتنی بڑی تعداد میں استعمال کے باوجود بھی اس میں موجود نمکیات کی مقدار میںکبھی کمی و بیشی واقع نہیں ہوئی ،یہ مقدار ہمیشہ ایک جیسی رہتی ہے۔ اور نہ ہی اس قدر طویل عرصہ گزرنے کے بعد اور وسیع پیمانے پر استعمال کی وجہ سے اس کے ذائقہ میںکبھی کوئی تبدیلی واقع ہوئی ہے۔
آب زم زم کو ہر جگہ پر اس کی اپنی حالت میں فراہم کیا جاتا ہے ۔اس میں کبھی کلورین کی ذرہ برابر بھی مقدار نہیں ملائی جاتی ،اس کے باوجود یہ دنیا میں موجود ہر پانی سے بہترین پانی ہے ۔ہزاروں سال گزرنے کے باوجود چاہ زم زم میں کسی قسم کی جڑی بوٹی یا پودے نہیںاُگے۔ اور یہ کنواںہر طرح کی حیاتیاتی اور نباتاتی افزائش سے پاک ہے۔ جدید تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ آب زم زم میں ایسی خصوصیات موجود ہیںجو معدہ ،جگر اور آنتوں کے لیے انتہائی مفید ہیں۔آب زم زم وزن کے میزان پر دنیا کے تمام پانیوں سے بھاری اور میزان طب میں یہ تمام پانیوں سے بہترین پانی ہے۔

حصہ