اب تو مان جاؤ ڈالر ٹماٹر سے بھی سستا ہوگیا

798

پاکستان میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے بڑھتے واقعات کو صرف نظر کردینا میرے نزدیک ریت میں منہ دینے جیسا ہے ۔ پولیس حراست میں موبائل پر ریکارڈ کیے گئے سہیل ایاز کے اقبال جرم کی ویڈیو سوشل میڈیا ، الیکٹرانک میڈیا پر خوب وائرل رہی ۔بتایا گیاکہ برطانیہ اور اٹلی میں 4سال کی جیل کاٹ کر ڈی پورٹ ہونے والا سہیل ایاز KPK حکومت کے پلاننگ ڈپارٹمنٹ میں مشیر کی نوکری پر تھاجسے 2017میں اسی الزام کی وجہ سے فارغ کیا گیاتھا۔ بعد ازاں یہ شخص برطانیہ واٹلی میں بھی یہی کام کرتا رہا البتہ جدت یہ آئی کہ اس نے بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی ویڈیوز کو انٹرنیٹ پر ڈارک ویب پرنشرکرنا شروع کر دیا۔سہیل کے والد نے تو الزامات کی تردید کی ۔اگلے دن گجرانوالہ سے پولیس نے اسی نوعیت کے ایک اور ملزم ندیم کو گرفتار کیا ۔ وہ بھی اب تک درجنوں بچوں کے ساتھ زیادتی کر نے کا اعتراف اور ویڈیوز کو ڈارک ویب پر نشر کرنے کا اعتراف کر چکا تھا۔میں اس موضوع پر فی الحال زیادہ بات نہیں کررہا کیونکہ یہ دو تازہ واقعات بدترین معاشرتی اخلاقی روحانی منظر نامہ بیان کر رہے ہیں۔
مولانا ابوالحسن ندویؒ تو سوشل میڈیا دور سے قبل (1999ء)میں ہی دنیا سے رخصت ہو گئے ، اپنے وقت کے حالات کی یوںمنظر کشی فرماتے ہیں : ’’دورحاضر کی اس غیر ذمہ دارانہ ، غیر ثقہ اور ناقص صحافت کی وجہ سے بہت بڑی مقدار میں روزانہ صبح وشام ایسا زہر اتارا جاتا ہے جس کا کوئی تریاق نہیں۔یہ نوجوانوں کے اخلاق اور زندگیوں کو اس سے زیادہ تباہ کر رہے ہیں ، جتنا طاعون اور وبائی امراض کسی ملک یا بستی میں پھیل کر انسانی نفوس کو تباہ کرتے ہیں، یا چنگیز وہلاکو اپنے مفتوح ممالک میں تباہی وہلاکت پھیلاتے تھے۔ بد اخلاقی، عریانی وبے حیائی اور فسق ومعصیت کے یہ جراثیم گھر گھر پھیلے ہوئے ہیں۔ آج کوئی شہر یا قصبہ بھی اس سے محفوظ نہیں ہے۔ اگر کچھ عرصہ تک یہی حال رہا تو قوم اخلاق کی اس سطح پر پہنچ جائے گی جس پر فرانس اور یورپ کی بعض دوسری قومیں پہنچ گئی ہیں۔‘‘ (کامیابی ڈائجسٹ، ستمبر واکتوبر2006ء)
پاکستان ایک نظریہ کا نام ہے ۔ یہ ایک خالص نظریاتی خطہ ہے ۔ اس کے قیام کے بعد سے ہی اس کے نظریہ کے پیچھے کئی قوتیں کار فرماہیں۔ دنیا میں پاکستان کے سوا کوئی ملک ایسا نہیں جس کے نظریاتی تشخص کے بارے میں کوئی ابہام یا کوئی بحث موجود ہو۔ سوویت یونین پہلے دن سے70سال تک سوشلسٹ ری پبلک رہا۔اُس کے بارے میں کبھی یہ بحث نہ ہوسکی کہ وہ سوشلسٹ ری پبلک ہے یاکیپٹلسٹ ؟ امریکہ پہلے دن سے سیکولر ہے اور اس کے بارے میں کبھی یہ سوال نہیں اٹھایا گیا کہ بانیانِ امریکا اُسے کیا بنانا چاہتے تھے ۔سیکولر ری پبلک یا عیسائی ری پبلک؟لیکن اسلامی جمہوریہ پاکستان میں سیکولر اور لبرل عناصر پانچ دہائیوں سے یہ بحث چلائے ہوئے ہیں کہ پاکستان کو اسلامی ہونا تھا یا سیکولر؟ قائداعظم پاکستان کو اسلامی جمہوریہ بنانے کے خواہش مند تھے یا سیکولر ری پبلک؟یہ اور اس جیسے کئی پروپیگنڈہ پاکستان کے نظریاتی تشخص کے خلاف سازش اور بغاوت کی سب سے بڑی مثال ہیں۔پاکستان کے نظریاتی تشخص کے حوالے سے ابہام کا ایک ذرہ بھی موجود نہیںلیکن ان سازشوں کے 70سال بعدموجودہ حالات میں یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ اب پاکستان کے نظریاتی مستقبل کے بارے میں بہت اچھی بات کہنا سخت دشوار ہوتا جا رہا ہے ۔ وہ لوگ جو اپنے آپ کوصحافی سمجھتے ،لکھتے یا کہتے ہیں ان کا تو بنیادی فرض ہے کہ وہ اس نظریہ کی حفاظت کے تناظر میں سماج پر مکمل نظر رکھیں ۔اس کے لیے سب سے پہلے ان کا اپنا پاکستان سے نظریاتی تعلق ہونا لازمی ہے ۔ پاکستانی سماج کی بدلتی صورتحال پر ایک صحافی کا فرض ہے کہ کم از کم ایک ٹیلی فون کال سے ہی سہی ، کسی خبر ،کسی کالم سے، مضمون، فیچر ، تجزیہ ، میسیج،گفتگو، پوسٹ سے سماجی اصلاح کا فریضہ انجام دیں۔ چونکہ سوشل میڈیا کا دور دورہ ہے اس لیے یوں کہا جائے گا کہ لائیک اور شیئر کی غرض سے آزاد ہو کر سماج کی اخلاقی ، روحانی، علمی بنیادوں کو بچانے اور مضبوط کرنے کو مشن بنائیں۔مجھے وہ 5سوال والی اہم حدیث کا یہ سوال جو دنیاوی موت کے بعد ہر شخص سے پوچھا جائے گا کہ ’جو علم دیا تھا تو اس ضمن میں کیا کام کیا؟‘۔
اسی تناظر میں ٹوئٹر پر گذشتہ ہفتہ سید شاہد ہاشمی کی ٹوئیٹ میں چھپا ایسا ہی اہم پیغام نظر سے گزرا۔انہوں نے ایک منفرد اصطلاح کا استعمال کر کے پاکستانی سماج کے منظر نامے کا پوسٹ مارٹم کیا۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’پاکستان ’عالمی تہذیبی استعمار‘کے چنگل میں پھنس چکاہے۔ریاستی ادارے ’’تہذیبی استعمار’’کے آگے گھٹنے ٹیک چْکے ہیں۔اب یہاں’’تہذیبی استعمار’’ ہی کا ایجنڈاچلے گا!اِس ایجنڈے کی تکمیل کے لیے۔NGOs۔نجی تعلیمی ادارے۔میڈیا ہاؤسز۔اشتہاری ایجنسیوں۔اور شاپنگ مالز کا جال بچھایا جاچکاہے۔یہ ’عالمی تہذیبی استعمار‘ سب سے پہلے۔خیال و خواب اور فکر و نظر کی دنیا۔عِزّ و شَرَف کے معیاراور کامیابی کے پیمانے پردھاوا بولتاہے۔اس کادوسرا ہدف۔۔تعلیم کا نِصاب، نِظام اور ذریعہ ہوتاہے۔تیسرا ہدف۔۔رزق اور روزی کا نِظام بنتاہے۔چوتھا ہدف۔۔لباس،فیشن اور ثقافتی مَظاہرہوتے ہیں۔ ’تہذیبی استعمار‘کے مقابل کرنے کے 10کام:
1) ایمانیات پر زور۔۔اِسے شعوری زندگی کاحصہ بنانا۔خصوصاً تصورِآخرت کو!
2) اسلامی نِظامِ اَخلاق و اَقدارسے جْڑکر رہنا!
3) خاندانی نِظام کومستحکم کرنا!
4) حیادار لباس اورکلچرکو فروغ دینا!
5) اردو کوانگریزی کی بھینٹ چڑھنے نہ دینا!
6) زندگی کوسادگی سے مْزَیَّن کرنا!
7) قناعت اور توکّل کومضبوطی سے تھامنا!
8) ہوَس اور حَسَد۔حْبِّ جاہ و مال۔اور زَر اَندوزی سے بچنا۔اِس عمل کی حوصلہ شکنی کرنا!
9) اپنی تقریبات میں۔اِسراف و تَبذیر اور دِکھاوے سے گْریز!
10) دنیاداروں اور ہوَس کے ماروں کی صحبت اور قربت سے پرہیز!
نیٹیزن کی دنیا میں قارئین کو اس آنے والی تباہی سے بچنے یا بچانے کے لیے بہت جامع انداز میں نکات کی صورت سید شاہد ہاشمی حق ادا کر گئے ۔ ان کا سمجھانے کا انداز بہت اچھا ہے تاہم میری رائے میں پوسٹ میں شامل ’گاڑھی یا دیسی اُردو ‘کے سبب ابلاغ کا دائرہ محدود ہو تاہم جو یہ اصطلاحات جیسے شعوری زندگی، نظام اخلاق و اقدار، سادگی سے مزین، قناعت، توکل ، ہوس حسد، حب جاہ ، زر اندوزی ، حوصلہ شکنی ، اسراف و تبذیر کو سمجھتے ہیں ان کے عمل کرنے سے بھی بہت فرق پڑے گا۔ نئے سیزن کا سب سے بڑا مسئلہ ہی یہ ہے کہ وہ اپنی زبان و بیان سے بہت دور ہو گئے ہیں ۔ انگلش، رومن اور شارٹ فارم ، انٹرنیٹ ایکرونم کا شکار ہو گئے ہیں۔اطلاعات و معلومات کے تیز ترین بہاؤ کے باوجود نئی نسل کا حال اتنا برا ہے کہ گذشتہ دنوں ’کرتار پور راہداری ‘ اور ’بابری مسجدفیصلہ ‘ پر کراچی کے عوام سے رائے جاننے نکلے تو پتا چلا کہ یونیورسٹی لیول طالبات کی اکثریت تو لا علم تھی،جو جانتی یا جانتے تھے اُن کی کوئی بھی رائے نہیں تھی وہ بالکل ان سب سے لا تعلق تھے۔اب ہم اس سے زیادہ بڑی کیا مثال پیش کریں۔سوشل میڈیا چونکہ ابلاغی ٹول ہے اس لیے وہ اس تباہی کو لانے کے ساتھ ساتھ اس کے سامنے بند باندھنے کا بھی کردار ادا کر سکتا ہے ۔جب امریکی صدارتی الیکشن میں اس کے ذریعہ رائے عامہ بدلی جا سکتی ہیں، بھارت، پاکستان میں بھی اس کے ذریعہ رائے عامہ کی تبدیلی کی کامیاب کوشش کی گئی ہے تو پاکستان کے نظریات و سماجی اخلاقیات کا دفاع کیوں کر نہیں ممکن؟یورپی یونین کی ایک رپورٹ کے مطابق 65ملکوں میں کئی جعلی آؤٹ لیٹس پروپیگنڈہ کے مشن پر کام کر رہے ہیں۔
اسی تناظر میں ایک تازہ مثال لاہور سے صحافی طارق حبیب ایک پوسٹ سے ملی جس میں وہ لکھتے ہیں کہ ’ وزیر اعظم عمران خان کے ایک چہیتے وزیر سے ملاقات میں انکشاف ہوا کہ وہ ترکی کی ڈرامہ سیریز ’’ارتغرل‘‘ دیکھ رہے ہیں اورنجی محفلوں میں امور ریاست سمجھنے کے لیے مسلسل اس کا حوالہ دیتے ہیں ۔‘ ویسے اس سیریز کے بارے میں ایک تفصیلی مضمون لکھا جا چکا ہے لیکن یہاں اہم بات یہ ہے کہ طیب اردوان کو بحیثیت ترک صدر ساتھ ہی امت مسلمہ کی عظیم الشان تاریخ کو ترکی کے تناظر میں سیکولر اثرات کے خاتمے کے لیے ریوائیو کرنے کی ضرورت تھی جسے وہ اپنے اختیار میں موجود تمام ذرائع استعمال کر کے مستقل انجام دے رہا ہے۔یہ کام سب کرتے ہیں بھارت میں مودی حکومت نے نریندر مودی پر کئی فلمیں، نیٹ سیریز بنا ڈالیں۔ امریکہ میں بھی یہی پریکٹس ہوتی ہے اور کیوں نہ ہو ؟اقتدار کی سائنس یہی ہے کہ مجھے اپنے اقتدار کو قائم رکھنے ، مقبولیت پانے اور دوام بخشنے کے لیے جو ضروری ذریعہ دائرہ اختیار میں ہوگا اُسے استعمال کرونگا۔ترکی کے سرکاری ٹی وی پر نشر ہوکر ’ارتغرل‘ نے تو اپنا اثر ترکی اور دنیا بھر میں دِکھا دیا۔ یہی نہیں ترکی میں مستقل اسی تناظر میں ، اسی نظریاتی پس منظر میں کئی اور ڈرامہ و فلمیں بن چکی اور بن رہی ہیں ۔
اب چلتے ہیں اپنے ملک ؛ تو تھوڑی آسان مثال سے سمجھاتا ہوں دیکھیں ترکی شروع سے ترکی ہے ، ترک قبائل کی صورت ہو یا کسی اور شکل میں عرب شروع سے عرب ہے ، ہندوستان شروع سے ہی ہندوستان ہے اور امریکہ بھی اپنی دریافت کے بعد سے امریکہ ہی ہے ، لیکن پاکستان ایک عظیم تاریخی نظریاتی جدو جہد کا حاصل خطہ زمین ہے جو 14 اگست 1947سے پہلے کہیں نہیں تھا۔اس لیے اس کی الگ نظریاتی شناخت ہے جو اسلام سے جڑی ہوئی ہے ۔ اس لیے ٹھیک ہے کہ آپ ’ارتغرل ‘ بھی عوام کو اردو ڈب کر کے ضرور دکھائیں مگر اپنے عمل کو بھی توٹھیک کریں۔ اپنے عمل کوویسا کرنا کیوں بھول جاتے ہیں ۔ خان صاحب آپ عوام تھوڑا ہی ہیں حکمران ہیں ۔ نجی چینلز کی تو بات کرتا ہی نہیں، آپ کے ہوتے ہوئے کیوں سرکاری ٹی وی پر صبح نادیہ خان پھر ’سنو چندہ ‘ ’بے وجہ، ’ابا‘، ’ٹوٹے پتے‘،’ عہد وفا‘ ، ’وفا لازم تو نہیں‘، ’جانباز‘ جیسے ڈرامے سیریل چل رہے ہیں؟ان سب میںجو کچھ دکھایا جا رہا ہے وہ کتنا پاکستان، نظریہ پاکستان اور ہماری تاریخ سے میل کھا تا ہے ، کبھی ’فردوس ‘ باجی سے معلوم ہی کرلیں۔فلموں کی طرف آؤں تو کاف کنگنا یا کے عنوان سے نیلم منیر کا تازہ آئیٹم نمبر منہ چڑاتانظر آتا ہے ۔محترم وزیراعظم صاحب نوٹ کرلیں کہ : وہ تمام لوگ جو انٹرٹینمنٹ کی دنیا میں ’عریانی و فحاشی ‘ کو ’ خواتین کے غیر ضروری استعمال اور ’گلیمرس‘ چکا چوند والی دنیا کو ناظرین کی ڈیمانڈ کا نام دیتے تھے ان کے پاس موجودہ دہائی میں ’ ارتغرل‘ کی کامیابی سے بڑی مثال نہیں ہے۔یہ کامیابی کمرشل، نظریاتی، ثقافتی ،مذہبی ہر اعتبارسے ماڈل ہے۔ویسے سرکاری ٹی وی PTVپر بھی کسی دور میں ہمت کرکے ُاس وقت کے حکمران نے آخری چٹان وغیرہ جیسی کوشش کی تھی جو بہر حال کامیاب ہی رہی ۔اس لیے خان صاحب اگر واقعی ’ارتغرل‘ دیکھ کر کوئی اثر ہوا ہے آپ کو تو پھر پہلے مرحلے پر اپنے سرکاری ٹی وی کا نقشہ پھر سیٹلائٹ چینلز کے زہر کا تریاق کریں۔
یہ تو پورا مضمون ہی اسی میں نکل گیا ۔ہفتہ بھر کے اہم موضوعات پر تو بات ہوئی ہی نہیں ۔ویسے کیا بات کریں پچھلے ہفتہ جو ساراشورتھا ، مولانا کے مارچ کا ، اس ہفتہ وہ سب ختم ہو گیا۔ ٖغبارے سے ہوا نکل گئی اور ’مولانا چلا گیا‘ ، کیونکہ ’نواز نکل گیا‘۔ بہر حال اس دھرنے کے پس منظر میں ۔ کیا کھویا کیا پایا کے ضمن میں سیاسی حامیان و مخالفین کے درمیان دلائل جاری رہے ۔ عوام ایک اور معاملے میں مزہ لیتے رہے خصوصاً کراچی والے۔ کراچی اور عین ممکن ہے کہ ملک بھر میں دوماہ سے ایک بے ربط ، بے قابو مہنگائی کا جو دور دورہ ہے اُس میں حکومت پھر چھری تلے آگئی۔ وفاقی مشیر خزانہ عبدالحفیظ ٹماٹر کی قیمت فی کلو300روپے جانے پر ایک جگہ صحافیوں کے نرغے میں آ گئے اور 17روپے کلو ٹماٹر بتا کر اپنی اہلیت، معلومات اور قابلیت کا سکہ جما دیا ۔اگلے ہی دن وفاقی مشیر اطلاعات فردوس عاشق نے غلام سرور خان کے نام پر مٹر کو 5روپے کلو بتا کر سابقہ وزیر فواد چوہدری کے 55روپے کلومیٹر والے ہیلی کاپٹر سفر کی یاد تازہ کرا دی ۔اب ان تازہ بیانات پر خوب میمز بنیں اور یوتھیوں کو صرف یہ یاد آیا کہ ٹماٹر کے بجائے دہی ڈال کر گزارا کر لو۔اس دوران ٹماٹربائیکاٹ کی مہم بھی چلی ۔ ایک دل جلے نے لکھا کہ اب پی ٹی آئی والے کہہ سکیں گے کہ دیکھو ’ڈالر تو ٹماٹر سے بھی سستا ہوگیا‘‘۔ جتنا وزراء کو ٹماٹر اور مٹر کے ریٹ کا علم ہے اتنا ہی وزیر اعظم کو مدینہ کی ریاست کا علم ہے ۔اسی طرح بھارت نوازی میں موجودہ حکومت کا ابھی نندن، کرتار پور کے بعد کلبھوشن کی رہائی سے متعلق موضوع بھی زیر بحث رہا۔ذیابیطس کے عالمی دن کے حوالے سے بھی سوشل میڈیا پر آگہی مہم اچھی چلی۔

حصہ