فتنہ

324

آسیہ بنت ِ عبداللہ
ثاقب کے دماغ میں پتا نہیں کیا فتور آگیا تھا، عجیب عجیب باتیں کرنے لگے تھے۔ شاید کوئی مضمون پڑھ لیا ہے یا آفس میں کوئی نیا کولیگ وارد ہوا ہے جس کی باتوں پر انہوں نے یقین کرلیا ہے۔ کچھ توتھا جو سمجھ میں نہیں آرہا ہے۔
ایک دن کہنے لگے ’’ہمارا معاشرہ بھی کتنا تنگ نظر ہے، ایک کمانے والا اور پوری فیملی کا خرچ اٹھائے، سمجھ نہیں آتا آگے کیا ہوگا؟‘‘
’’آپ یہ نہ سوچا کریں، وقت کے ساتھ ساتھ سب کام ہوجاتے ہیں اور بندہ سوچتا ہے ہم تو خوامخواہ ہی پریشان ہوتے ہیں۔‘‘
’’بیگم صاحبہ! یہ سب کتابی باتیں ہیں، کہنے اور پڑھنے کی حد تک‘‘۔ ایک دن دفتر سے آئے تو کہنے لگے ’’یہ عورتیں تو گھر بیٹھ کر بالکل نکمی ہوجاتی ہیں، بس سالن بنایا، روٹیاں تھوپیں اور فارغ۔ یہ نہ ہوا کہ کہیں چھوٹی موٹی جاب ہی کرلیں یا گھر میں ہی کچھ کرلیں۔‘‘
میرے تو تن بدن میں آگ ہی لگ گئی، جی چاہا ایک کی چار سنائوں، مگر وہ جملہ یاد آگیا کہ غصہ حماقت سے شروع ہوتا ہے اور ندامت پر ختم ہوتا ہے، اس لیے گھونٹ گھونٹ حلق سے اتار لیا اور یہ طے کرلیا کہ اب تدبیر سے کام لینا ہوگا۔
شام کی چائے بڑے خوش گوار ماحول میں پی گئی، اچانک کہنے لگے ’’بھئی نویدہ! خواتین کی تعداد دفاتر میں بڑھتی جارہی ہے، آج میں نے دیکھا لڑکیاں پینٹ شرٹ پہن کر بائیک پر جارہی ہیں، ہماری اماں تو ہم کو بیس سال کی عمر میں بھی بائیک چلانے سے منع کرتی تھیں، ڈرتی تھیں حادثہ نہ ہوجائے اور بیٹا شادی سے پہلے ہی کوئی ہڈی تڑوا بیٹھے۔‘ُ
’’ٹھیک کہتی تھیں آپ کی اماں جان، اُن کی روک ٹوک کی وجہ سے تو آپ مجھے صحیح سلامت مل گئے، شکر ہے خدا کا۔‘‘
’’تم بھی کچھ کرلو میڈم، تاکہ ہماری جیب کچھ بھاری ہوجائے۔‘‘
’’سنیے! اگر میں ڈاکٹر یا ٹیچر ہوتی تو ضرور جاب کرکے اپنے ہم جنسوں کی خدمت کرتی۔ اب خوامخواہ بسوں میں خوار ہونا اور ذرا سی غلطی پر افسر کی گھرکیاں برداشت کرنا کہاں کی عقل مندی ہے!‘‘ میں نے ان کو جواب کیا۔
’’کیا مطلب…؟‘‘
اپنا اپنا نکتہ نظر ہے جناب! میں خواتین کے لیے ڈاکٹر اور ٹیچر کی جاب کو مناسب سمجھتی ہوں، ان دو شعبوں میں خواتین کی ہمیشہ سے ضرورت رہی ہے اور رہے گی۔‘‘
’’افوہ تمہارا تو فلسفہ ہی اور ہے، اب میں تھوڑی دیر سو جائوںگا، دفتر سے آتے آتے ہی شام ہوجاتی ہے۔‘‘
’’ٹھیک ہے آپ سوجائیں، کب اٹھا دوں؟‘‘
’’سات بجے تک۔‘‘ یہ کہہ کر وہ چلے گئے کمرے میں۔
ایمان اور ایقان دونوں بیٹے صحن میں کھیل رہے تھے، ان دونوں کو اپنے ساتھ لے کر دوسرے کمرے میں آگئی۔ ’’بیٹا تم لوگ کھیلنا چاہو تو آرام سے بیٹھ کر کھیلو، تمہارے بابا سو رہے ہیں، شور نہیں ہونا چاہیے۔‘‘
’’تو امی ہم ہوم ورک کرلیتے ہیں۔ مغرب کی نماز پڑھ کر آئیں گے تو کھیل لیں گے‘‘۔ بڑے بیٹے ایمان علی نے کہا۔
’’ہاں یہ سب سے اچھی بات ہے۔‘‘
آج اتوار تھا، ثاقب اپنے بڑے بھائی کو لینے اسٹیشن گئے تھے، وہ کسی سرکاری کام سے دو دن کے لیے آرہے تھے۔
میں نے جلدی جلدی کام نمٹایا، دوپہر کے کھانے کے لیے کوفتے، کسٹرڈ بنا کر رکھ دیے، مٹر پلائو کا سامان بھی تیار تھا۔
’’تایا ابو آگئے، تایا ابو آگئے‘‘ کا شور مچا۔ بچے اپنے تایا کے دونوں سائیڈ پر ان کے ہاتھ پکڑے ہوئے تھے۔ میں اپنا دوپٹہ لپیٹ کر باورچی خانے سے نکلی اور سلام کیا۔
’’وعلیکم السلام، خوش رہو، جیتی رہو۔‘‘
ثاقب، بھائی کو ہال کمرے میں لے آئے اور فرشی نشست پر گائو تکیہ دے کر بٹھا دیا۔ گیٹ سے اندر آتے آتے عاقب بھائی نے پورے گھر پر نظر ڈال لی تھی۔ گھر کی سیٹنگ تھوڑے سامان کے ساتھ بھی بہت سلیقے سے کی گئی تھی، اور یہ صفائی ایمرجنسی میں کی گئی نہیں لگتی تھی جیسے کہ بعض لوگ مہمان کے آنے کا سن کر اوپری اوپری کرلیتے ہیں، ہر چیز چمک رہی تھی۔
تیسرے دن عاقب بھائی رخصت ہوگئے۔ میں کمرے میں اپنے بیڈ پر لیٹی سوچ رہی تھی: صبح سے شام تک نہ صرف جسمانی محنت بلکہ ذہنی محنت کے کام کے ساتھ ساتھ بچوں پر نظر رکھنا، ان کی باتوں پر توجہ دینا… شین قاف کی درستی پر توجہ نہ دوں تو محلے کے بچوں کی طرح ابے تبے کرنے لگیں۔ کون سا ایسا کام ہے جو گھر والی کی توجہ نہیں مانگتا؟ پھر بھی گھر میں بیٹھنے والی عورت کو بڑے آرام سے نکمی، کام چور، آرام طلب اور نہ جانے کیا کیا کہہ دیتے ہیں۔ یہ سوچتے ہوئے آنسو آگئے اور نہ جانے کب بہنے لگے۔
’’ابو تایا جان اب کب آئیں گے؟‘‘ ایقان نے پوچھا۔
’’ایک سال بعد ہی اُن کا آنا ہوتا ہے سرکاری کام سے‘‘۔ ’’جی اچھا‘‘ دونوں نے کہا اور اپنے کمرے میں جاکر کیرم کھیلنے لگے۔
ارے ثاقب آگئے… میرے آنسو دیکھیں گے تو نہ جانے کیا سمجھیں گے! مردوں کا کیا بھروسا، کسی بھی وقت کچھ بھی سوچ سکتے ہیں، با اختیار جو ٹھیرے۔
واش روم سے منہ دھوکر نکلی تو ثاقب کمرے میں آچکے تھے۔ مجھے دیکھ کر کہنے لگے ’’آج بھائی جان تمہاری بہت تعریف کررہے تھے… گھر کے سلیقے، بچوں کی تربیت، اور ہاں پکوان کی بھی۔‘‘
’’بھائی جان ہی کررہے تھے ناں، آپ تو مجھے نکمی کہتے ہیں۔‘‘ بے اختیار میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔
ثاقب تڑپ گئے… ’’نہیں نہیں، میں لوگوں اور میڈیا سے سن سن کر بہک گیا تھا، ورنہ میرا پُرسکون گھر… میری جنت ہے، جہاں حوروں سے بڑھ کر میری بیوی ہے۔وہ بیویاں جو بلا ضرورت نوکری کے لیے باہر نکلتی ہیں، باہر کے لوگوں کے لیے حور ہوتی ہیں، اور گھر کے لیے…؟
ثاقب نے شرارت سے ذرا رک کر کہا… خالی جگہ تم خود پُر کرلو۔‘‘

حصہ