حجاب شعور کے ساتھ

550

ناہید خان
’‘ارے یہ کیا کم از کم فٹنگ ہی کرالیتیں فتو فقیرنی لگ رہی ہوں بالکل۔‘‘ کرن رویحہ کے عبایا پر نظر ڈالتے ہوئے بولی۔
’’کیوں کیا خرابی ہے اس عبایا میں؟‘‘
’’ٹھیک تو ہے…‘‘ رویحہ عبایا کی سلوٹیں درست کرنے لگی۔
’’ہاں ہاں آپ کی نظر کے کیا کہنے…بوڑھی روح کہیں کی۔‘‘ پھر ایک دم کالج کی سیڑھیوں پر رک کر بولی۔ ’’دیکھو رویحہ سب تمہارا مذاق اڑاتے ہیں اور مجھے بالکل اچھا نہیں لگتا کسی دن…‘‘
’’کیا کسی دن ؟ بولو…‘‘کرن کا منہ بنا دیکھ کر رویحہ مسکرا دی اور کہا ’’میری پیاری بہن تم خوامخواہ کی ٹینشن مت لیا کرو مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔‘‘
’’کیوں ٹینشن نہ لوں بھئی تم آخر کو میری کزن اور بیسٹ فرینڈ ہو…‘‘ یہ بحث مزید چلتی لیکن سامنے سے آتے سر عامر کی وجہ سے دونوں کو خاموش ہونا پڑا۔ دونوں جیسے ہی کلاس میں داخل ہوئیں پیچھے سے کسی نے آواز کسی’’او ہو نیا ٹینٹ!‘‘
مگر رویحہ سب کو نظر انداز کرتی ہوئی اپنی سیٹ پر جا بیٹھی۔ رویحہ اور کرن ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں دونوں کزن ہونے کے ساتھ ایک دوسرے کی بہترین دوست تھیں اسی محبت کی وجہ سے پہلے اسکول اور پھر کالج میں بھی ساتھ تھیں۔ رویحہ بہترین اسٹوڈنٹ ہونے کی وجہ سے تمام ٹیچرز کی منظور نظر تھی اور اس پر اس کا حجاب لینا اور مخالف صنف سے ُپروقار انداز میں فاصلہ رکھنا اس خوبی کی بہ دولت ٹیچرز اور اسٹوڈنٹ کے دل میں اس کی عزت دوچند ہو گئی تھی۔ کچھ منچلے بگڑے نوابوں کی اولاد حسد میں اس کے حجاب کا مذاق اڑاتے تھے۔ گو کہ رویحہ کا گھرانہ ایسا مذہبی نہیں تھا جو اس پر حجاب کی پابندی ہوتی مگر رویحہ کا رحجان شروع ہی سے مذہب کی طرف تھا اس کی خاص وجہ محلے کی استانی عفت باجی تھیں جو پورے محلے کے بچوں کو بہت پیار اور توجہ سے قرآن پاک ناظرہ پڑھایا کرتی تھیں۔
رویحہ کو ان کی پاکیزہ اور پُروقار شخصیت بہت متاثر کرتی تھی وہ ان کے جیسا بننا چاہتی تھی آہستہ آہستہ ان کی شخصیت رویحہ کے دماغ میں بیٹھتی گئی اور باجی نے اس کے رجحان کو دیکھ کر اس پر خاص توجہ دی اس طرح قرآن کے ذریعے اللہ کی محبت رویحہ کے دل میں راسخ ہو گی۔
کالج شروع ہونے پر حجاب لینے کا فیصلہ بھی اسی کا تھا اس پر امی نے بہت اعتراض کیا کیونکہ اس طرح اسے کوئی مناسب رشتہ ملنا مشکل تھا مگر ایسے موقع پر ابو اس کی ڈھال بن گئے یوں یہ مرحلہ بھی پورا ہوا اور وہ حجاب کے ساتھ کالج جانے لگی۔
آج گھر میں خاص گہما گہمی تھی اس کی وجہ ابو کے دیرینہ دوست رحمن صاحب کی فیملی رات کے کھانے پر مدعو تھی۔ رویحہ‘ امی اور بڑی امی صبح ہی سے باورچی خانے میں مصروف تھیں خاص کر رویحہ کی کوشش تھی کہ کوئی کمی نہ رہ جائے۔ وہ اپنے والد سے بہت قریب تھی اور اسے معلوم تھا کہ رحمن انکل ابو کے بہت اچھے دوست ہیں ان کی خاطر مدارت کرکے وہ ابو کو خوش کرنا چاہتی تھی۔ شام تک جب تمام کام مکمل ہوگیا تو وہ فریش ہو کر اپنے کمرے میں صبح کے ٹیسٹ کی تیاری کرنے لگی۔
’’ارے تم کمرے میں گھسی بیٹھی ہو اور وہاں سب مہمان آگئے ہیں۔‘‘ کرن دھم سے بیڈ پر گرتے ہوئے بولی۔
’’آرام سے آرام سے… آگئے ہیں تو آنے دو تم کیوں خوشی سے بے حال ہو رہی ہو؟‘‘
’’تم نے دیکھا نہیں نئے ماڈل کی لمبی سے کار میں آئے ہیں سب۔‘‘
’’اچھا تو خوشی کی وجہ یہ ہے تمہاری لمبی سی کار… مگر بے فکر رہو وہ تمہیں دے کر نہیں جائیں گے اپنی گاڑی۔‘‘
’’اچھا تم نیچے چلو چچا جان تمہیں بلا رہے ہیں۔‘‘
’’اچھا بابا تم چلو میں آتی ہوں۔‘‘ کرن کی بے تابی پر وہ دل میں مسکراتے ہوئے اپنا حجاب درست کرنے لگی کیونکہ رحمن انکل اور ان کے بیٹے بھی ڈرائنگ روم میں موجود تھے۔
رحمن صاحب کی فیملی اسے حجاب میں دیکھ کر کافی حیرت زدہ تھے لیکن اس کے پُروقار رویے اور تعلیمی کارکردگی سے بہت متاثر ہوئے۔
’’کھانا بہت مزے دار ہے کس نے بنایا ہے…؟‘‘مسز رحمان نے مزے لیتے ہوئے کہا۔
’’یہ سب ہماری بیٹی کی کاوش ہے۔‘‘ امی بولیں۔
’’ماشااللہ بہت سلیقہ شعار بیٹی ہے آپ کی۔‘‘
اور پھر سب حیران تھے کے ایسا کیا دیکھا رحمن صاحب نے کہ اپنے اتنے لائق فائق بیٹے کے لیے رویحہ کا رشتہ مانگ لیا۔ ’’ارے ہماری بیٹی کسی سے کم ہے کیا‘ ایسی سلیقہ مند اور لائق فرمانبردار چراغ لے کر ڈھونڈو تو نہیں ملے گی۔ اب حیرانی ختم کرو اور شادی کی تیاری کرو۔‘‘
اور پھر واقعی شادی کے کچھ ہی عرصے میں رویحہ نے اپنی سلیقہ شعاری خدمت گزاری اور بہترین اخلاق کی بہ دولت پورے سسرال میں اپنا ایک مقام بنا لیا۔ شارق ایک اچھے شوہر ثابت ہوئے وہ صوم و صلوٰۃ کے پابند تو تھے ہی‘ اپنے باپ کی تمام خوبیاں بھی ان میں موجود تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ رویحہ شارق کے ساتھ بہت خوش اور مطمئن تھی۔ رویحہ کے اخلاق کی بہ دولت شارق کے خاندان ہی میں سے کرن کے لیے ایک بہترین رشتہ آیا اور وہ بیرون ملک سدھار گئی تھی۔
آج حسب معمول وہ روز مرہ کاموں سے فارغ ہوئی تھی کہ اس کی بڑی نند اپنے دیور کی شادی کا کارڈ دینے آگئیں۔ ’’بھئی سب کو ضرور شرکت کرنی ہے کیونکہ میرے سسرال والے خاندانی لوگ ہیں اور ہاں رویحہ تم ذرا ہال میں یہ حجاب مت لینا میرے سسرال والے برا مان سکتے ہیں۔‘‘
’’لیکن آپی میرے حجاب سے انہیں کیا مسئلہ ہوگا جو وہ برا مانیں گے؟‘‘
’’بھی یہ سب مجھے نہیں پتا بس تم ہال میں سب کے سامنے ذرا احتیاط کرنا میری عزت کا سوال ہے۔‘‘
’’سوری آپی آپ کا ہر حکم سر آنکھوں پر مگر میں آپ کی یہ بات نہیں مان سکتی۔‘‘
’’کیا مطلب تمہیں اپنی سسرال سے زیادہ اپنے اس دقیانوسی حلیے کا خیال ہے! بی بی مانا کے تم اعلیٰ تعلیم یافتہ ہو مگر ذرا ماڈرن بھی بنو زمانے کے ساتھ چلنا سیکھو۔‘‘ یہ کہتی ہوئی وہ منہ بناکر چل دیں۔
’’یار باجی کی بات مان لینے میں آخر کیا مضائقہ ہے پردہ تو تم کر رہی ہو گھر والوں کی خوشی کے لیے اور موقع کے لحاظ سے اس میں تھوڑی گنجائش نکالی جاسکتی ہے۔‘‘
’’آپ کہاں جا رہے ہیں نماز پڑھنے کیوں آپ ایسا کریں ابھی مسجد نہ جائیں صبح پڑھ لیجیے گا نماز میری خوشی کے لیے اتنا تو کر سکتے ہیں۔‘‘
شارق غور سے اسے دیکھنے لگا جیسے اس کی ذہنی رو بہک گئی ہو ’’تم ٹھیک تو ہو نا فرض قضا کرنے کا کہہ رہی ہو اور یہ میرے سوال کا جواب تو نہیں۔‘‘
’’یہی آپ کے سوال کا جواب ہے۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘
’’مطلب یہ کہ جس طرح نماز فرض ہے ایسے ہی ایک عورت پر اللہ نے پردہ فرض کیا ہے آپ نے سورہ نور کا ترجمہ اگر پڑھا ہو تو اس کے احکام فرضیت کا درجہ رکھتے ہیں اور ان کی جواب طلبی ہوگی تو بتائیے میرے مجازی خدا کہ میں کیسے پردہ ترک کر دوں ہے کوئی جواب…؟‘‘ اس نے شارق کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا جہاں شعور ملنے پر ندامت کے سائے لہرانے لگے تھے۔ وہ اس کی ذہنی کیفیت سمجھتے ہوئے بولی ’’آپ پریشان مت ہوں اللہ پر بھروسہ رکھیں۔‘‘
’‘بھابی یہ دیکھیں میرا سوٹ پیارا ہے نا؟‘‘
’’ہاں بہت پیارا اچھا لگے گا تم پر۔‘‘
’’ابھی تو ولیمے کا سوٹ بھی لانا ہے۔ آپی بھی آتی ہوگی پھر ہم شاپنگ پر چلیں گے۔‘‘
’’رویحہ بیٹا تم بھی ان کے ساتھ جاکے کوئی اچھا سا سوٹ لے آؤ۔‘‘
’’جی امی لے آتی ہوں۔‘‘ آپی نے آتے ہی اس پر اچٹتی سی نگاہ ڈالی ’’ذرا اس عبایا کی فٹنگ ہی کرلو اتنی اسمارٹ ہو اسمارٹنس نظر تو آنی چاہیے نا۔‘‘ آپی نخوت سے بولیں۔
’’آپی ایسے حجاب کا کیا فائدہ جس میں جسم واضع ہو اور ثواب کے بجائے گناہ کا سبب بنے۔ پردہ چھپانے کے لیے ہے نہ کہ دکھانے کے لیے۔‘‘
شاپنگ کے دوران آپی کی بیٹی جو ٹائٹ جینز اور سلیولیس شرٹ میں تھی‘ سب مردوں کی نگاہوں کا مرکز بنی رہی لوگ ندیدوں کی طرح ان بے حجاب خواتین کو دیکھ رہے تھے یہ صورت حال رویحہ کے سامنے آپی کے لیے بڑی شرمندگی کا باعث تھی کچھ لڑکے تو بالکل سامنے کھڑے ہوگئے۔ آخر آپی بول اٹھیں کہ ’’آپ کے گھر میں خواتین نہیں ہیں۔‘‘ ایک لڑکا جو ذرا زیادہ بے باک تھا کہنے لگا ’’رہتی تو ہیں مگر وہ ایسے مست کپڑے نہیں پہنتیں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ قہقہہ لگاتے ہوئے چلے گئے۔
آپی رویحہ سے بہت شرمندہ نظر آ رہی تھی کیونکہ اس کی طرف تو کسی نے نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھا تھا بلکہ عزت ہی دی تھی۔ پھر پوری شادی میں آپی کا رویہ رویحہ کے ساتھ بہت اچھا رہا ان کے دیور نے خود ہال میں پردے والی خواتین کے لیے ایک الگ پورشن بنوایا تاکہ انہیں کھانے وغیرہ میں کوئی دقت نہ ہو۔
’’واہ جناب آج تو پورے ہال میں مسز شارق ہی چھائی ہوئی تھیں۔‘‘
’’کیوں آپ اس بات سے خوش نہیں ہیں کیا؟‘‘رویحہ مصنوعی خفگی سے بولی کہ وہ شارق کا اطمینان بھرا چہرہ دیکھ چکی تھی۔
’’یہ تم نے کیسے کیا سب اور خاص کر آپی تو بہت نخریلی ہیں پتا ہے وہ کل اپنی بیٹی کے لیے عبایا لانے گئیں اور کہہ رہی تھیں کہ عورت کی اصل عزت پردے میں ہے اور اصل پردہ شعور کے ساتھ ہونا چاہیے نہ کہ فیشن کے ساتھ۔‘‘
’’رویحہ میں بہت خوش قسمت ہوں کہ تم میری شریک حیات ہو۔‘‘ اور طمانیت رویحہ کے چہرے سے عیاں تھی۔

حصہ