شریکِ مطالعہ: ادب کی دنیا میں منفرد پہچان بنانے والے “استعارہ” اور “نقش”۔

1008

نعیم الرحمن
ہر دور کی طرح اردو ادب کے زوال کا ذکر اکثر سننے میں آتا ہے۔ لیکن اردو زبان و ادب نہ صرف برصغیر بلکہ یورپ اور امریکا میں بھی فروغ پارہا ہے۔ ناول، افسانے، تنقید، غزل و نظم اور آزاد شاعری کے ساتھ نت نئے تجربات کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ لوح، تسطیر، کولاژ، مکالمہ، آج، دنیا زاد، سویرا اور اجراء جیسے بے مثال ادبی جرائد مسلسل شائع ہورہے ہیں جو ادب کے پرستاروں سے داد حاصل کررہے ہیں۔ ملک کے مشہور اور بڑے الحمد پبلشرز کے زیراہتمام ڈاکٹر امجد طفیل اور ریاظ احمد کی زیرادارت سہ ماہی ’’استعارہ‘‘ کا چھٹا شمارہ بھی شائع ہوگیا ہے۔ استعارہ اپنے ہر شمارے کے ساتھ خوب سے خوب تر کی جانب گامزن ہے، اور ملک کے ادبی جرائد میں اس نے اپنی ایک الگ پہچان بنالی ہے۔ موجودہ شمارہ قدرے تاخیر سے منظرعام پر آیا ہے لیکن اس کا حُسنِ اشاعت اور معیار برقرار ہے۔ 288 صفحات کے اس جریدے کی قیمت پانچ سوروپے ہے۔ استعارہ چھ کی اشاعت کے ساتھ سہ ماہی کتابی سلسلہ نے اپنا دو سالہ سفر مکمل کرلیا۔ اس دوران اشاعت میں باقاعدگی اور نامور لکھاریوں کے ساتھ نئے ادیب و شعرا کو سامنے لانا پرچے کا اختصاص رہا ہے۔ اس کے ساتھ عالمی ادب کے تراجم، مصوری اور موسیقی پر بھی مضامین کو جگہ دی گئی۔ استعارہ کا اگلا شمارہ اردو کے ممتاز نقاد، افسانہ نگار اور دانشور ’’محمد حسن عسکری نمبر‘‘ ہوگا۔ یہ اردو ادب کے اس محسن کو خراجِ تحسین ہوگا اور محمد حسن عسکری کی شخصیت اور فن کی تفہیم میں سنگِ میل ثابت ہوگا۔ 2019ء ملک کے مایہ ناز ماہر نفسیات، دانش ور اور ماہرِ تعلیم ڈاکٹر محمد اجمل کا صد سالہ سالِ پیدائش ہے۔ اس شمارے میں استعارہ نے ڈاکٹر محمد اجمل کا اقبال آفاقی سے ایک ریڈیو انٹرویو تحریری صورت میں شائع کیا ہے۔ اہم نقاد ابوالکلام قاسمی کا انٹرویو فرحت عمر نے کیا ہے۔ دونوں انٹرویو بہت عمدہ اور بھرپور ہیں جن میں تشنگانِ علم کی تشنگی دور ہونے کا بہت سامان موجود ہے۔
استعارہ کے تازہ شمارے کا آغاز راجا رشید محمود کی حمد و نعت سے ہوا ہے۔ دونوں کے چند اشعار پیش ہیں:۔

وہ جس کے سامنے ہوں بدیہی حقیقتیں
پائے گا حمد کہنے کی وہ استطاعتیں
تشکیل دی ہیں ربِ بدیع و حکیم نے
جو ہیں محیرات و بدائع کی صورتیں
وہ تھیں ظہورِ آقا و مولاؐ کی طلعتیں
کافور جن سے ہو گئیں دنیا کی ظلمتیں

جبارواصف نے کشمیرکے حوالے سے خوب صورت نظم پیش کی ہے جس کا ایک ایک مصرع دل میں اترجاتا ہے:۔
مہاراجا ہری سنگھ نے
اسی کشمیر کا جب غاصبوں سے طے کیا سودا
تو نیلم اور جہلم کی
لو یہ بھی لہر قیدی تھی نہ پانی سرخ ہوتا تھا
اور اِس وادی کا ہر باسی خوشی کی فصل بوتا تھا
یہاں کے لالہ زاروں سے شفا پاتے تھے سب روگی
یہاں کی چاندنی راتوں کے عاشق تھے سبھی جوگی
پہاڑوں پر ہزاروں سال سے رہتے ہوئے چشمے
یہاں پر اُن دنوں بے خوف تھے بہتے ہوئے چشمے
ڈاکٹر محمد اجمل نے اپنے انٹرویو میں بتایا کہ وہ لدھیانہ میں 7 ستمبر1919ء کو پیدا ہوئے۔ ان کے والدین کے علاوہ ماموں اور چچا بھی پڑھے لکھے تھے۔ اس لیے علم اور کتابوں سے بچپن ہی سے آشنائی ہوگئی۔ ملٹری گزٹ کے ایڈیٹر حمید شیخ مرحوم اور عبداللہ ملک ان کے اچھے دوست تھے۔ انہوں نے بی اے میں نفسیات، آنرز میں طبیعات لی اور فلسفہ میں ایم اے کیا۔ فلسفے کے ساتھ دل چسپی بڑھتی گئی اور اسی شعبے کے لیکچرار بن گئے۔ اس انٹرویو سے قارئین کو ڈاکٹر محمد اجمل کی حیات اور دل چسپیوں کے بارے میں بہت سی معلومات ملتی ہیں۔ ابوالکلام قاسمی صاحب نے اپنے انٹرویو میں تنقید کے اصول اور تعین قدرکے ادبی تنقید میں کردار کے حوالے سے بہت دل چسپ اور معلومات افزا گفتگو کی ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ ہم جس موضوع کو زیرِ بحث لاتے ہیں اس کے فنی مسائل کا ادراک بھی رکھیں اور ان مسائل کے نقطۂ نظر سے اگر افسانہ ہے تو افسانے کا، غزل ہے تو غزل کا، اور نظم ہے تو نظم کا تجزیہ کریں اور اس مخصوص صنف کے فنی تقاضوں کی نشان دہی کرنے کے بعد یہ اندازہ لگائیںکہ ہمارے تجزیے سے کیا نتائج مستنبط ہوتے ہیں اور ان نتائج کو تعین قدر کے مترادف کے طور پر پیش کریں۔
استعارہ کے قابل ِ قدر سلسلے ’’نیا قلم‘‘ میں اِس بار نوجوان افسانہ نگار بابر ریاض کے تین افسانے ’’سلسلہ‘‘، ’’ ریتیلی ہوا‘‘ اور’’فیئر ویل‘‘ شامل ہیں۔ یہ افسانے بابر ریاض کے روشن مستقبل کی نشان دہی کرتے ہیں۔
’’تازہ کار و پختہ کار‘‘ میں ابوالکلام قاسمی نے معروف شاعرہ یاسمین حمید کی کلیات’’ہم دو زمانوں میں پیدا ہوئے‘‘ کا جائزہ لیا ہے۔ لکھتے ہیں: ’’پاک و ہند میں عموماً یاسمین حمید کی شاعری کا ذکر نہیں ملتا، یا تو یاسمین حمید کی کم آمیزی اور اُن کے کلام کی عدم تشہیر نے یہ صورت پیدا کی، یا پھر اس لیے کہ اُن کی نظموں اور غزلوں کی طرف قارئین تو قارئین نقادوں تک کی توجہ مبذول نہ ہوئی کہ ان کی شاعری کو بہت آسانی کے ساتھ روایت، رچاؤ، رائج استعارات اور گھسے پٹے لہجوں سے الگ کیے بغیر نہ تو دیکھنا ممکن ہے اور نہ تنقیدی زبان میں اس شاعری کی پہچان کا تعین آسان تھا۔ یاسمین حمید کی نظموں میں آزاد ہیئت کے ساتھ نثری شاعری کی ہیئت کا بھی استعمال ملتا ہے، مگر ہر جگہ تحت البیان کی کیفیت نمایاں ہے۔‘‘
پرچے کا افسانوی حصہ حسبِ سابق بہت عمدہ اور بھرپور ہے جس میں نئے اور پرانے مصنفوں کے 9 افسانے شامل کیے گئے ہیں، جن میں سینئر افسانہ نگار رشید امجد ’’اور کہاں ہے‘‘، محمود احمد قاضی ’’بے کارآمد‘‘، خالد فتح محمد (جن کا نیا ناول ’’زینہ‘‘ حال ہی میں شائع ہوا ہے) ’’چار خانے‘‘، اور محمد جاوید انور ’’اُپچ‘‘ کے ساتھ شامل ہیں۔ جب کہ نئے مصنفین میں شاہدہ صدف ’’بابِ تحیر‘‘، سلمیٰ صنم ’’پت جھڑ کے لوگ‘‘، فارحہ ارشد ’’آدھی خودکشی‘‘، عثمان امجد ’’جی کا جواب‘‘ اور احمد سلیم سلیمی ’’کہو تو لوٹ جاتے ہیں‘‘ لے کر آئے ہیں۔
غزلوں میں ناصر زیدی، صابر ظفر، علی اکبر عباس کی غزلیں اپنی مثال آپ ہیں، جب کہ نظموں میں نصیر احمد ناصر اور ایوب خاور کے عمدہ کلام پر کچھ کہنا سورج کو چراغ دکھانا ہوگا۔
مضامین میں شمس الرحمن فاروقی نے خالد جاوید کی ’’موت کی کتاب‘‘ کا طویل، اور ان کی مشکل نثرکا ان کے افسانوں اور دیگر تحریروں کی روشنی میں محاکمہ کیا ہے جس سے قاری کو خالد جاوید کے اسلوب کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ ڈاکٹر تبسم کاشمیری نے ’’سلیم شہزاد کی نظمیں‘‘ میں شاعر کے کلام کا جائزہ لیا ہے۔ ایک اہم مضمون فاروق خالد کا ’’زبان بحیثیت مُحرک الاصل‘‘ ہے۔ مشہور شاعر اور ماہرِ تعلیم پروفیسر شاہد کمال اپنے مضمون ’’کرشن چندر بحیثیت ناول نگار‘‘ میں بتاتے ہیں کہ ’’کرشن چندر کی تحریر کا تنوع وہ ہنر ہے جو انہیں حسن و محبت سے لے کر سیاسیات تک ہر میدان کی سیرکراتا ہے اور وہ زندگی کے تمام شعبوں سے نصاب کشید کرکے مکالمہ تخلیق کرتے ہیں۔ کرشن چندر کے ناول قصے کہانیاں ہی نہیں بلکہ سماجی اور سیاسی شعور کے بہترین عکاس ہیں، ان کے ناول معاشرے کی جیتی جاگتی تصویریں نہیں بلکہ تاریخ بھی ہیں۔‘‘
استعارہ کے شریک مدیر ریاض احمدکے جلد شائع ہونے والے ناول ’’شجرِ حیات‘‘ کا ایک حصہ بھی اس شمارے میں شامل ہے۔ پنجابی کی معروف ادیب و شاعرہ پروین ملک کی آپ بیتی کا پہلا حصہ استعارہ کے تیسرے شمارے میں شائع کیا گیا تھا۔ دوسری قسط اِس بار شامل ہے ۔ اس سلسلے کو جاری رہنا چاہیے، جس کے بعد الحمد پروین ملک کی آپ بیتی کا ترجمہ اردو قارئین کے لیے بھی شائع کر سکتے ہیں۔
معروف شاعر اکبر معصوم مرحوم کا ایک مختصر گوشہ بھی اس شمارے میں شامل ہے۔ گویا استعارہ کا تازہ شمارہ ہر اعتبار سے مکمل اور بھرپور ہے۔ محمد حسن عسکری صدی کے موقع پر ان پر استعارہ کے خصوصی شمارے کا قارئین کو انتظار رہے گا۔
…٭…
ماضی میں ادبی جرائد کے دوش بدوش ’’نقش‘‘ مختلف ادبی رسائل کی منتخب تحریریں شائع کرتا تھا جس پر خاصے اختلافات بھی ہوئے لیکن نقش کی اشاعت جاری رہی۔ نقش اپنے مدیر کے انتقال کے بعد بند ہو گیا۔ دورِ حاضرکے بہت عمدہ شاعر ضیاالرحمن ضیا کئی سال سے اسی طرح کا لیکن اس سے کہیں بہتر اور منفرد ادبی کتابی سلسلہ ’’ادبی ڈائجسٹ‘‘ شائع کر رہے ہیں جس میں حال ہی میں شائع ہونے والے ادبی جرائد کے انتخاب کے بجائے اولڈ از گولڈ کے مصداق اردو ادب کے بڑے اور نامور ادیبوں اور شاعروں کی یادگار تحریریں شائع کی جاتی ہیں، جنہیں قندِ مکرر کے طور پر پڑھنے میں بہت لطف آتاہے۔ انتہائی عمدہ آفسٹ پیپر پر شائع ہونے والا ’’ادبی ڈائجسٹ‘‘ ایک رسالہ نہیں بلکہ ایک مستقل نوعیت کی کتاب کی حیثیت رکھتا ہے جس کا ہر شمارہ محفوظ کرنے کے قابل ہوتا ہے۔ اس انتہائی خوب صورت رسالے کے ہر سال دو شمارے شائع ہوتے ہیں۔ ضیا الرحمن ضیا کے دو شعری مجموعے ’’پیار کا پہلا دن‘‘ اور ’’کبھی سوچا تھا؟‘‘ چھپ کر قارئین کی داد حاصل کرچکے ہیں۔ حال ہی میں ادبی ڈائجسٹ کا شمارہ نمبر اٹھارہ شائع ہوا ہے، جو اپنی روایت کے مطابق شان دار کتابت و طباعت کے ساتھ منظر عام پر آیا ہے۔ بہترین کاغذ پر 130 صفحات کے اس پرچے کی قیمت دو سو روپے انتہائی مناسب ہے۔ ’’احوال‘‘ کے زیر عنوان اداریے میں ضیا الرحمن ضیا نے حال ہی میں دنیائے فانی سے رخصت ہونے والے تین ادبا ڈاکٹر جمیل جالبی، حمایت علی شاعر اور ڈاکٹر انور سجاد کو خراجِ عقیدت پیش کیا ہے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی انکم ٹیکس کمشنرکے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ مقتدرہ قومی زبان کے صدر رہے۔ کراچی یونیورسٹی کے شیخ الجامعہ تعینات ہوئے۔ انہوں نے تمام عہدوں پر تعیناتی کے دوران مطالعے اور تصنیف و تالیف کا سلسلہ جاری رکھا۔ کئی سال تک سہ ماہی ’’نیا دور‘‘ نکالتے رہے۔ ’’ارسطو سے ایلیٹ تک‘‘ اور ’’پاکستانی کلچر‘‘ کے علاوہ بہت سی وقیع کتابیں تصنیف کیں۔ ’’تاریخ ادبِ اردو‘‘ ان کا سب سے بڑا کارنامہ ہے جس کی کچھ جلدیں شائع ہوچکی ہیں اور کچھ پر وہ کام کررہے تھے۔
حمایت علی شاعر ادب کا بڑا نام ہے۔ انہوں نے فلموں کے بے شمار گانے لکھے اور فلمیں پروڈیوس بھی کیں۔ ان کی ضخیم منظوم آپ بیتی بھی منفرد تحریر ہے۔ ڈاکٹر انور سجاد ہمہ جہت فن کار تھے۔ وہ مایہ ناز ادیب ہونے کے ساتھ دانشور، ڈراما نگار، اداکار، مصور اور رقاص بھی تھے۔
پرچے کا آغاز مرحوم ڈاکٹرسجاد باقر رضوی کی خوب صورت نعت سے ہوا ہے جس کے دو اشعار پیش ہیں:۔

میری ویرانی کو تھی آب و ہوا حبِ رسول
کشتِ دل کے واسطے بادل بنا موسم بنا
میری بربادی پہ اِک عالم کی نظریں ہیں لگی
میرے مولا میری خاکستر سے اِک عالم بنا

ممتاز محقق، نقاد اورکراچی یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر مرحوم ڈاکٹر جمیل جالبی کا 35 سال قبل ’’ادبی ڈائجسٹ‘‘ میں شائع شدہ انٹرویو اس شمارے کا اختصاص ہے۔ یہ انٹرویو یکم ستمبر 1983ء کو جالبی صاحب کے وائس چانسلر کا عہدہ سنبھالنے کے فوری بعد لیا گیا تھا، جس میں انہوں نے اُس دور کے اہم تعلیمی اور انتظامی امور کے ساتھ ادب کے چند اہم موضوعات پر بھی گفتگو کی۔ یہ ایک یادگار انٹرویو ہے جس کی اشاعتِ نو عمدہ اور بروقت ہے۔
محترم شاہد الوری کی غالب کے مصرعوں پر کی گئی تضمین بہت عمدہ ہیں۔ نیاز فتح پوری کا قدرے طویل مضمون ’’لکھنؤ کا ایک مشاعرہ‘‘ صاحبِ مضمون کے روایتی انداز سے بہت مختلف ہے۔ ذکر تو ایک مشاعرے کا ہے لیکن خندہ زیر لب سے مزین اس تحریر سے نیاز فتح پوری کا ایک نیا رنگ قارئین کے سامنے آتا ہے۔ ذرا یہ اقتباس ملاحظہ ہو: ’’لوکل سسرال کو اسی لیے تو ہم برا کہتے ہیں کہ کسی بات کا کوئی تُک ہی نہیں، جب اُن کا جی چاہا ڈولی منگا، چل دیں۔ اور لطف یہ ہے کہ وہاں جاکر اس اطمینان سے قیام فرماتی ہیں گویا ’’بیرون جات‘‘ تشریف لے گئی ہیں۔ حالانکہ چوک سے امین آباد کچھ دور نہیں، یعنی دونوں ایک ہی لکھنؤ کے محلے ہیں جن کے درمیان بے شماری کے دن رات چلاکرتے ہیں، مگر یہ ہمارا اصول ہے کہ ذرا سسرال جاتے ہوئے شرماتے ہیں اور اس کا احساس خود ان کو بھی ہے، لہٰذا وہ تشریف لے جانے کے بعد دوسرے تیسرے روز اپنی خیریت کا دستی خط بھیجتی رہتی ہیں، لیکن اس میں بھی لوکل ہونے کی وجہ سے بے تکا پن شاملِ حال رہتا ہے۔ کوئی ٹھیک نہیں خدا جانے کس وقت خط آجائے، آج صبح سے انتظارکرتے رہے مگر خط غائب، آخر کھڑے کھڑے ایک صاحب کی عیادت کے لیے چلے گئے، وہاں اتفاق سے ہوگیا تھا ان کا انتقال، لہٰذا قبرستان تک جانا پڑا، واپسی میں لیٹر بکس سے منجملہ اور خطوط کے ان کا خط بھی نکلا۔ ان کے خط کی خاص پہچان یہ ہے کہ اس پر لوکل اور دستی ہونے کی وجہ سے مہر نہیں ہوتی اور وہ ٹکٹ بھی نہیں لگاتیں۔‘‘
کہانیوں کے انتخاب میں اردوکے ایک بھولے بسرے مصنف نجم فضلی کی تحریر ’’کمرہ نمبر 47‘‘ پرانی یادوں کو تازہ کرتی ہے۔ ذکاء الرحمن کا افسانہ ’’شاہراہ‘‘، نقش کے مدیر جمیل زبیری کا ’’آسرا‘‘ اور مشہور افسانہ، ناول اور ڈراما نگار یونس جاویدکے ابتدائی دور کا ’’نا مہرباں لمحہ‘‘ اور ’’تن تارارا ‘‘جیسے بے مثال ناول کے خالق مرحوم رحیم گل کا ’’بیس سال بعد‘‘ اور احسان ملک کا ’’رسّہ گیر‘‘ سب ایک سے بڑھ کر ایک ہیں اور مدیر کے حُسنِ انتخاب کی داد دینا پڑتی ہے۔
ادبی ڈائجسٹ شمارہ اٹھارہ کے آخر میں جون ایلیا، صہبا اختر، انور شعور، قابل اجمیری، خالد علیگ، اختر ہوشیار پوری، بشیر بدر، زخمی کانپوری، مبارک مونگیری اور جمال نقوی کی غزلیات اپنے دورکے منفرد شعرا کوخراجِ تحسین کی حیثیت رکھتی ہیں۔

وقت درماں پذیر تھا ہی نہیں
دل لگایا تھا، دل لگا ہی نہیں
(جون ایلیا)
چودھویں شب اُس نے مجھے مہمان کیا
لُطف کیے، اِکرام کیے، احسان کیا
( صہبااختر)
دیکھ تو گھرسے نکل کر کہ گلی میں کیا ہے
تجھ میں کچھ نہ سہی اور کسی میں کیا ہے
(انورشعور)
میرے جنوں کو زندگی مستعار کے
دو دن بھی قبول مگر اختیار کے
( قابل اجمیری)
میں ڈرا نہیں، میں دبا نہیں ، میں جھُکا نہیں، میں بکا نہیں
مگر اہلِ بزم میں کوئی بھی تو اَدا شناسِ وفا نہیں
( خالد علیگ)

ادبی ڈائجسٹ کا یہ تازہ شمارہ بھی حسب ِ سابق اردو ادب کی بہترین اور یادگار تحریروں سے آراستہ ہے جس کے لیے ضیا الرحمن ضیا مبارک باد کے حق دارہیں۔

حصہ