دنیا کی چھت۔۔۔۔ پامیر

1938

جہاں پاکستان، تاجکستان، چین، کرغیزستان، افغانستان، کشمیر اور تبت کی سرحدیں ملتی ہیں

عبدالحفیظ بٹ
۔’’پامیر‘‘ وسطی ایشیا کے ایک پہاڑی سلسلے کا نام ہے۔ اس نام کا اشتقاق وجۂ تسمیہ ’’پایمیر‘‘ سے بتایا جاتا ہے، جس کے لغوی معنی ’’پہاڑکی چوٹی کا زیریں حصہ‘‘ ہے۔
پامیر کا کوہستانی مرکز تبت کی سطح سے مختلف ہے، پامیر میں گلیشی ساخت کی بلند وادیاں ملتی ہیں۔ سطح سمندر سے بلندی 24 ہزار فٹ سے بھی زیادہ ہے۔ پامیرکی سطح مرتفع صاری کول اور موستا آتا نامی پہاڑیوں کی موجودگی سے دو حصوں میں بٹ گئی ہے۔ مغربی حصے کی ڈھلان مغرب کی طرف اور مشرقی حصے کی مشرقی جانب ہے۔ دونوں حصے خاصے مختلف ہیں۔ پامیر کا اصل لفظ متذکرہ بالا گلیشی وادیوں کے لیے استعمال ہوتاہے۔ خاص خاص گھاٹیاں حسبِ ذیل ہیں:
1۔ پامیر کلاں، جس میں جھیل وکٹوریا واقع ہے۔
2۔ پامیر خورد، جسے نکولس کا پہاڑی سلسلہ اوّل الذکر سے جدا کرتا ہے۔
3۔ پامیر واخاں، جو دریائے جیحون (آمو دریا) کے خاص معاون دریا واخان کی وادی سے متعلق ہے۔
4۔ پامیر کلاں کے شمال میں علی چور کی گھاٹی اور دریائے مرغاب کی وادی ہے۔
ان تمام وادیوں کے مابین بلند پہاڑی سلسلے ہیں جو کوہ ہمالیہ سے متعلق ہیں اور جن کی بلند و بالا چوٹیاں مستقل طور پر سال بھر برف سے ڈھکی رہتی ہیں۔ بالائی پامیر کی اوسط بلند سطح سمندر سے 13ہزار فٹ ہے۔ اس کی بلندی کی وجہ سے اسے اکثر’’بامِ دنیا‘‘ یا ’’دنیا کی چھت‘‘ بھی کہتے ہیں۔ ان پامیروں کا بنیادی حصہ تاجکستان کے بلند پہاڑوں میں ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق تاجکستان کا 93 فیصد رقبہ پہاڑوں پر مشتمل ہے، جب کہ 50 فیصد رقبہ سطحِ سمندر سے 3 ہزار میٹر (تقریباً دس ہزار فٹ) سے بھی زائد بلندی پر واقع ہے، تاہم پامیروں کا تاج، تاجکستان کے گورنو، بدخشاں خود مختار اوبلاست صوبہ میں واقع ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں بلند و بالا پہاڑ موجود ہیں۔ ان میں سب سے اونچی چوٹی کوہِ اسماعیل سامانی 7 ہزار 495 میٹر بلند ہے جب کہ کوہِ آزادی 7 ہزار 174 میٹر اورکوہ ابن ِسینا 6 ہزار 974 میٹر بلند ہے۔ یہاں سے متعدد جنوبی وسطی ایشیائی پہاڑی سلسلے پھیلتے ہیں۔ واضح رہے کہ ماہرینِ جغرافیہ اور ماہرینِ ماحولیات کے مطابق قراقرم، ہندوکش، کنلن تیان شان اور دیگر عظیم پہاڑی سلسلوں سے منسلک یہ ایک اہم مرکزی پہاڑی گرہ ہے۔ ان عظیم پہاڑی سلسلوں کے سرے افغانستان، چین اور کرغیزستان میں داخل ہوگئے ہیں۔
پامیر کلاں:۔
تاجکستان، پاکستان اور چین کی سرحد سے ملحق شمال مشرقی افغان صوبہ بدخشاں میں عظیم پامیر (چونگ پامیر) پامیر خورد، لِٹل پامیر (کیچک پامیر) اور دو افغان پامیر واقع ہیں۔ اس علاقے کا اہم ترین پہاڑی سلسلہ صاری کول ہے۔ جس کی ایک چوٹی 24 ہزار 3 سو88 فٹ بلند ہے۔ اس علاقے میں پامیری نامی ایک دریا بھی بہتا ہے جس کا کچھ حصہ تاجکستان اور کچھ افغانستان کے علاقے میں ہے۔ خیال رہے کہ صوبہ بدخشاں افغانستان کا ایک صوبہ ہے یہ تاجکستان اور شمالی پاکستان اور گلگت بلتستان کے مابین افغانستان کے انتہائی شمال مشرقی حصے میں واقع ہے۔ شہر فیض آباد صوبائی دارالحکومت کے طور پر کام کرتاہے۔
پامیر تغدومبش(Taghdumbash Pamir )کا سلسلہ اپنے جائے وقوع کی بِنا پر سیاسی اہمیت کا حامل ہے۔ یہاں افغانستان، کرغیزستان، تاجکستان، کشمیر، پاکستان، چین اورتبت کی سرحدیں ملتی ہیں۔ دلچسپ با ت یہ ہے کہ اس سلسلہ ٔ کوہ کو پار کرنے کے بعد آپ کسی بھی ملک میں داخل ہوسکتے ہیں۔ تاہم یہاں کے پہاڑی سلسلے کافی دشوار گزار ہیں، اگرچہ مندرجہ بالا ممالک کے درمیان بّری تجارت انھیں راستے کے ذریعے ہوتی ہے۔
پامیر: مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر، مشہور سیاح ابن ِ بطوطہ اوریورپی سیاح مارکوپولو کی گزرگاہ:۔
مارکوپولو جب پامیر کے علاقے بدخشاں میں وارد ہوا تو اس نے یہاں ایک قسم کا لعل قیمتی پتھر بھی دیکھا جس کے متعلق کہا جاتاہے کہ یہ صرف بدخشاں ہی میں دریائے کوکچہ پر ملتاہے۔ مارکو پولو نے بھی یہی بات اپنے سفرنامہ میں کہی ہے۔جن کانوں سے یہ لعل نکالے جاتے ہیں ان کے بارے میں مارکو پولو پہلے ہی لکھ چکا ہے کہ وہ خاص بدخشاں کی حدود سے باہر، آمو دریا کے دائیں کنارے پر، شغنان میں واقع ہیں۔ مشہور مسلم سیاح ابنِ بطوطہ اپنے سفر نامہ میں لکھتاہے کہ وہ شہرِ خوارِزم ، بخارا شہر اور افغانستان سے ہوتا ہوا براستہ ہندوکش پامیر کے فلک بوس پہاڑوں سے گزر کر 1333 بہ مطابق 743 ہجری ہندوستان میں وارد ہوا۔ ہندوستان میں مغل سلطنت کے بانی ظہیر الدین بابر نے 3 بار ہندوکش کے راستے پامیر کو عبور کیا آخری بار 1507 بہ مطابق 913 ہجری میں قندھار فتح کرنے کے بعد۔
پامیرکے علاقہ میں روسی مداخلت:۔
1735ء میں وسط ایشیا سے متعلق روسی منصوبے میں یہ تجویزشامل تھی کہ ’’بدخشاں کے دولت مند ملک کوفتح کیاجائے؟‘‘
اس علاقے میں روس کا عمل دخل 1876ء میں شروع ہوا۔ 1885ء میں دریائے مرخاب کے کنارے پامیرسکی کی فوجی چوکی قائم کی گئی۔1891-92 میں یشل کول پر ایک فوجی چھڑپ کے بعد روس نے تمام مشرقی پامیر پر قبضہ کرلیاجو وادیٔ فرغانہ کے علاقے (Oblast)کا ’’ضلع پامیر‘‘قرارپایا اوراس کانظم ونسق پامیر میں متعین روسی فوجی دستے کے کمانڈرکے سپرد کردیا گیا۔
11مارچ 1895 کوبرطانیہ اور روس کے درمیان لندن میں یہ طے پایاکہ افغانستان اور حکومت ِ روس کی زیرِ تسلط ریاست بخاراکے درمیان پامیر کی سرحد کو ازِ سر نو متعین کیاجائے‘ خاص بدخشاں شاہانِ افغانستان کے قبضے میں چھوڑ دیا گیا اور پامیر کے علاقے کا مغربی حصہ جو پَنج کے شمال اور مشرق میں واقع ہے،ریاستِ بخارا کو واپس کر دیا گیا۔
اگرچہ 1918ء میں انقلابِ روس نے ریاست ِبخاراکا خاتمہ کر دیا تاہم پامیر ریجن میں روسی اقتدار کی گرفت1925ء میں سخت مزاحمت کے بعدقائم ہوئی۔
گورنو۔ بدخشاں کاخودمختارعلاقہ :۔
بدخشاں کا خود مختار علاقہ 2 جنوری 1925ء کوپامیر کے دونوں حصوں (شرقی اورغربی ) کو ملا کر’’علاقۂ خاص پامیر‘‘کی شکل دی گئی اورانتظامی حیثیت سے اسے سوویت جمہوریۂ اشتراکیۂ ترکستان کی مرکزی مجلس ِ عاملہ کے ماتحت کردیا گیا۔ (جس کی بنیا د 14 اکتوبر 1924ء کو رکھی گئی) اسی سال دسمبر میں اس کا نام بدل کر’’خود مختار علاقہ ٔ گورنو بدخشاں‘‘ رکھا گیا اور اسے ’’تاجکستان کی خود مختار سوویت جمہوریۂ اشتراکیۂ تاجکستان‘‘ (جس کا یہ نام 5 دسمبر 1929ء کو قرار پایا تھا) کا حصّہ بنا دیاگیا۔ اس کا صدر مقام خاروغ (Khorog) قرار پایا۔
گورنو۔ بدخشاں میں سوویت پامیر کا تمام علاقہ شامل ہے۔ اس کا حدودِ اربع یہ ہے: شمال میں Trans-alai کا سلسلۂ کوہ، مشرق میں چینی سنکیانگ، جنوب میں افغانستان کے علاقے اور مغرب میں پَنج، دَروَاز اکادمی کا سلسلۂ کوہ پامیر کا موجودہ رقبہ 63 ہزار 700 مربع کلو میٹر (24 ہزار 590 مربع میل) ہے۔
9 ستمبر 1991ء کو جب سوویت یونین بکھرگیا تو تاجکستان نے اعلانِ آزادی کردیااورایک آزاد اور خود مختار ریاست کے طور پر دنیا کے نقشے پر جلوہ گر ہوا لیکن اعلانِِ آزادی کے فوری بعد ہی تاجکستان خانہ جنگی کا شکار ہو گیا۔ اس موقع پر گورنو۔ بدخشاں میں مقامی حکومت نے جمہوریہ تاجکستان سے آزادی کا اعلان کردیا۔ اگرچہ تاجکستان کے اندرونی حالات معمول پر آتے ہی گورنو بدخشاں حکومت آزادی کے مطالبے سے دستبردار ہوگئی۔ آج گورنو بدخشاں تاجکستان کے اندر ایک خود مختار خطہ ہے۔
1999ء میں تاجکستان اور چین کے مابین ایک معاہدہ طے پایا جس کے مطابق تاجکستان نے پامیر خطے کا ہزار کلو میٹر (390 مربع میل) علاقہ چین کے حوالے کر دیا۔2011ء میں تاجکستان نے معاہدے کی توثیق کر دی، اس طرح تاجکستان اور چین کے درمیان 130 سالہ پرانے تنارع کا خاتمہ ہو گیا۔ اگرچہ چین اس سے قبل پامیر کے علاقے پر 28 ہزار کلو میٹر (11 ہزار مربع میل) کا دعویٰ کرتا آرہا تھا۔
پامیر کے باشندے اور آبادی :۔
نسلی اعتبار سے گورنو (بدخشاں ) دو بالکل جدا جدا علاقوں پر مشتمل ہے (1) مشرقی پامیرکے بلند میدانوں میں تھوڑے سے کرکرغیزخانہ بدوش آباد ہیں جب کہ مغربی پامیر کی وادیوں میں ایرانی لوگ رہتے ہیں۔ پامیر کے باشندے مشرقی ایران کے لسانی گروہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ پامیر کے خطے میں بولی جانے والی زبانوں میں کوئی زبان بھی کتابت کے ذریعے متعین نہیں ہوئی ہے، اگرچہ سوویت حکام نے 1931ء میں کوشش بھی کی کہ شغنی زبان میں لاطینی ابجد مستعمل ہو اور وہ ایک ادبی زبان بن جائے۔
اس وقت پامیر خطے کی کل آبادی ساڑھے 3 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ اس میں گورنو بدخشاں (تاجکستان) صوبہ بدخشاں افغانستان سمیت چین اور پاکستان کی آبادی بھی شامل ہے۔

حصہ