حُسنِ خلق کی طاقت

1045

فائزہ مشتاق
طاقت، ذہانت، دولت، شہرت پر سب سے زیادہ حاوی شے اخلاق ہے جس کی بدولت دنیا کو مسخر کیا جاسکتا ہے اور دلوں تک رسائی ممکن ہے۔ یہ بات تاریخ سے واضح ہے کہ جب بھی کسی نے اپنی طاقت کے بل بوتے پر راج کرنا چاہا تو اُسے منہ کی کھانی پڑی۔ اس کے برعکس اخلاق کے زور پر نہ صرف دل و دماغ کو اپنا گرویدہ بنایا گیا بلکہ سلطنتیں بھی سر ہوئیں۔ اسلامی تاریخ میں ایسی مثالیں جابہ جا دکھائی دیتی ہیں۔ انبیاء، رسل، صحابہ کے اخلاقی پہلو اس کی روشن دلیل ہیں۔ خاتم النبیین محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بہترین رویّے اور حسنِ سلوک کی بدولت ہی بغیر خون کا قطرہ بہائے دینِ اسلام کا علَم بلند کرنے اور قرآن کی تعلیمات چپے چپے تک پہنچانے میں کامیاب ہوئے۔ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اخلاقی بلندی ہی تھی جس کی وجہ سے آپؐ کے مخالفین اور دیگر مذاہب 14سو سال گزرنے کے باوجود آپؐ کے اعلیٰ کردار اور عظمت کی آج بھی گواہی دیتے ہوئے ملتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سے کمتر کسی کو نہیں سمجھتے تھے۔ خواتین،بزرگ ،بچے، ماتحت، مساکین ، مخالفین، نادار، مسافر، یہاں تک کہ جانور اور چرند پرند ہر کسی سے آپؐ کی نرم خوئی ہی ہمارے لیے رہنمائی کا ذریعہ اور مشعلِ راہ ہے۔
1)جاہلوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفقت اور رحمت:۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کردار اعلیٰ ومعلمانہ تھا۔ جاہلوں، اَن پڑھ لوگوں کو بھی ایسی محبت سے سمجھاتے کہ اُن پر تاحیات اخلاقی اثر رہتا۔ ایک روایت میں ہے، ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ ایک دیہاتی مسجد میں داخل ہوا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے، اس دیہاتی نے کہا: یااللہ میری مغفرت فرما اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی مغفرت کر، اور ہم دونوں کے ساتھ کسی ایک کی بھی مغفرت نہ کر۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہنسے اور فرمایا: تُو نے وسعت رکھنے والے کو محدود کردیا۔ پھر اس نے پیٹھ پھیری اور چل دیا، یہاں تک کہ مسجد کے کنارے پر پہنچا تو پیشاب کرنے لگا۔ یہ دیہاتی دین کی سمجھ حاصل کرنے کے بعد کہتا ہے کہ میری طرف وہ شخص کھڑا ہوا جس پر میرے ماں باپ قربان ہوں، نہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے جھڑکا، نہ گالی دی۔ آپؐ نے فرمایا کہ یہ مسجد ایسی جگہ ہے جہاں پیشاب نہیں کیا جاتا، یہ تو اللہ کے ذکر اور نماز کے لیے بنائی گئی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی کا ایک ڈول لانے کا حکم دیا جس کو اس کے پیشاب پر بہا دیا گیا۔
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کسی ناگوار اور غلط بات پر فوری ردعمل نہیں دیتے تھے بلکہ درگزر کا معاملہ فرماتے اور فرد کو مثبت انداز میں آمادہ ہونے کا موقع فراہم کرتے۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکمت و دانش مندی ہی تھی کہ اسے پیشاب کرنے سے نہیں روکا بلکہ اسے فارغ ہونے دیا۔ اس سے وہ جسمانی نقصان اور تکلیف سے محفوظ رہا، یعنی کسی کی ناشائستہ حرکات پر بھی درگزر کرنا اور دوسرے کے لیے خیر و آسانی کے پہلو کو فوقیت دینا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسوہ تھا۔
2)آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یتیموں سے رحم کا معاملہ:۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یتیم کی اہمیت اور حقوق کا لحاظ کرتے ہوئے ہمیشہ رحمت اور شفقت کا معاملہ رکھا، یہی وجہ ہے کہ دنیا میں یتیم خانوں کی ابتدا بھی بعثتِ نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد ہوئی۔ ورنہ اس سے قبل دورِ جہالت میں نہ صرف عرب بلکہ دوسرے خطوں میں بھی یتیموں کے ساتھ سلوک نہایت ابتر تھا اور یتیم عام طور پر مظلوم طبقہ سمجھا جاتا تھا۔
حضرت بشیر بن عقبہ الجہنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں احد کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملا اور پوچھا کہ میرے والد نے کیا کیا؟یعنی میرے والد کا کیا ہوا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کی رحمت ہو وہ شہید ہوچکے۔ یہ سن کر میں رونے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سر پر ہاتھ پھیر کر مجھے اپنے ساتھ سواری پر بٹھایا اور فرمایا کہ کیا تم اس بات سے خوش نہیں ہو کہ میں تمہارا باپ اور عائشہؓ تمہاری ماں ہو۔
ایک شہید کے یتیم بیٹے سے پیار، تسلی اور اُسے اپنا بنا لینے کی مثال آج کے دور کی اہم ضرورت کے عین مطابق ہے۔ آج دنیا کے مسلمان ممالک کی صورتِ حال سب کے سامنے ہے۔ بچے والدین سے محروم ہورہے ہیں۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ مخیر حضرات آگے بڑھیں اور ان کے سرپر دستِ شفقت رکھیں تاکہ وہ عیسائیت اور کافروں کی گود میں جانے اور پلنے سے بچ جائیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرے اور محض اللہ کے لیے ہی ہاتھ پھیرے تو جتنے بالوں پر اس کا ہاتھ گزرا ہے اتنی ہی نیکیاں اس کو ملیں گی، اور جو شخص یتیم لڑکے یا لڑکی کے ساتھ احسان کرے جو کہ اس کے پاس رہتا ہو تو میں اور وہ جنت میں اس طرح رہیں گے جیسے شہادت کی انگلی اور بیچ کی انگلی آس پاس ہیں۔
3)آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بچوں سے خوش طبعی:۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بچوں پر بہت شفقت فرماتے، ان سے محبت کرتے، ان کے سر پر ہاتھ پھیرتے، ان کو پیار کرتے اور ان کے حق میں دعائے خیر فرماتے۔ بچے قریب آتے تو ان کو گود میں لے لیتے، بڑی محبت سے ان کو کھلاتے، بچے کے سامنے اپنی زبانِ مبارک نکالتے، بچہ خوش ہوتا اور بہلتا، کبھی سینۂ اطہر پر بچوں کو بٹھا لیتے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس رحیمانہ طبیعت اور بے پناہ محبت کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بچوں کا قلبی تعلق بن جاتا۔ بچے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے تو لپک کر آگے پہنچ جاتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی بڑائی اور رشتے داری کی تخصیص کیے بغیر بچوں کے ساتھ مساوات کا رویہ برتتے تاکہ بچوں میں فرق و امتیاز کا خیال نہ آئے۔
حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسے ہی سفر سے آتے تو سب سے پہلے اپنے خاندان کے بچوں سے ملتے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ سفر سے تشریف لائے تو سب سے پہلے مجھے ان کی طرف بڑھایا گیا، پھر حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بیٹوں میں سے ایک کو آگے بڑھایا تو انہیں اپنے پیچھے بٹھا لیا۔
4) محسنِ انسانیتؐ کا ازواجِ مہطرات کے ساتھ حسنِ سلوک:۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بیرونی زندگی کے ساتھ ساتھ خانگی زندگی میں بھی مساوات اور عدل کو ہمیشہ ملحوظ رکھا۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتی زندگی بھی انصاف و احسان ، صلۂ رحمی، اتفاق، محبت کو یکجا کرنے کی بہترین مثال ہے۔ حضرت ابوسلمہ بن عبدالرحمنؓ نے روایت کی ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے فرماتے تھے کہ تمہارا معاملہ بھی ان اہم معاملات میں سے ہے جن کی مجھے اپنے بعد بڑی فکر ہے، اور اس پر تو صابرلوگ ہی صبر کرتے ہیں۔
ایک مرتبہ حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے کہا کہ اگر تم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مجھ سے راضی کردو تو میں تم کو اپنی باری بخش دوں گی۔ انہوں نے کہا کہ اچھی بات ہے۔ چنانچہ حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی باری کے دن حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپؐ کے پاس حاضر ہوئیں۔ آپؐ نے فرمایا: عائشہ تم کیسے آگئیں؟ واپس جاؤ، یہ تو صفیہ کی باری ہے۔ انہوں نے جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جسے چاہتا ہے دیتا ہے، اور سارا واقعہ عرض کردیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے خوش ہوگئے۔
افسوس، آج جدیدیت کے اس دور میں جوہری قوت کے زور پر دنیا پر حکمرانی کے خواب دیکھے جا رہے ہیں، لیکن رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ سے واضح ہوتا ہے کہ حُسن ِ اخلاق سے بڑھ کر کوئی مؤثر ہتھیار نہیں، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ ہی رہتی دنیا تک عملی اور بہترین نمونہ ہے۔

نعت ِرسولِ مقبولؐ

طیبہ شاکر ناز

میں کروں کیا بیاں مدحتِ رسولِؐ خدا
تعریف میں جن کی خود رطب اللساں ہے خدا
فرمایا اللہ نے جن کے لیے و رفعنا لک ذکرک
ہو کیسے بیاں اس نا چیز سے ان کی رفعت
کہاں میں اور کہاں نعتِ رسولِؐ خدا
جن کے دم سے ہے رونقِ بزمِ جہاں
کیوں نہ کہوں میں انہیں رحمتِ دو عالم صلی علیٰ
کمزوروں کو بخشی جس نے عزت کی ردا
ایسے خاتمی مرتبت پر ہوں میں فدا
کیجیے گا شفاعت میری اے شافعِ محشر
گناہ گار ہوں بہت اے ساقیٔ کوثر
ہے ناز مجھ کو میں آپؐ کی امت میں ہوں
بس یہی نسبت ہے میری جان ہو میری فدا

حصہ