محمد صلی اللہ علیہ وسلم مکہ چھوڑنے پر کیوں مجبور ہوئے؟۔

502

سید مہرالدین افضل
چھٹا حصہ

تاریخ انسانی کا انقلابی موقع :۔

موٹیویٹیڈ اور پیشنیٹ ٹیم ،ایک خطہ زمین ، پاور آف اسٹیٹ ، اور امپلی مینٹشن آف آیڈیا لوجی ۔۔۔ یہ چار بنیادی ضرورتیں تھیں جنہیں پورا کرنا حضور ﷺ کے لیے انتہائی ضروری تھا ، اس لیے آپ ﷺ نے متعدد سرداران قبیلہ کے سامنے اپنی دعوت پیش کی اور اسی سلسلے میں طائف گئے ۔۔۔ لیکن جیسا کہ عام طور پر انسانوں کے ساتھ ہوتا ہے کہ اللہ انہیں وہاں سے رزق دیتا ہے جہاں سے انہیں گمان بھی نہیں ہوتا ۔۔۔ ایسا ہی آپ ﷺ کے ساتھ ہوا آپ ﷺ نے کوشش مکہ اور طائف میں کی اور آپﷺ کو رزلٹ یثرب سے ملا ۔مکی دور کے آخری تین چار سالوں سے یثرب میں آفتابِ اسلام کی شعاعیں مسلسل پہنچ رہی تھیں۔۔۔ اور وہاں کے لوگ کئی وجوہات سے عرب کے دوسرے قبیلوں کی بہ نسبت زیادہ آسانی کے ساتھ اس روشنی کو قبول کر تے جا رہے تھے۔ آخر کار نبوت کے بارھویں سال حج کے موقع پر ۷۵ افراد کا ایک وفد نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے چھپ کر ، رات کی تاریکی میں ملا ۔ ۔۔انہوں نے اسلام قبول کیا ، اور آپ ﷺ کو ا پنے پیرووں (Followers) کے ساتھ اپنے شہر میں آ کر رہنے کی دعوت دی ۔ یہ تاریخ میں ایک انقلابی موقع تھا ، جسے خدا نے اپنی عنایت سے فراہم کیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ بڑھا کر پکڑ لیا ۔ یہ بات واضح رہے کہ اہلِ یثرب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک پناہ گزیں کی حیثیت سے نہیں ! بلکہ خدا کے نائب، اور اپنے لیڈر و حکمراں کی حیثیت سے بلا رہے تھے۔ اور اسلام کے پیرووں کو اپنے شہر میں بسنے کی دعوت دینے کا مقصد یہ تھا کہ عرب کے مختلف قبیلوں اور علاقو ں میں جو مسلمان بکھرے ہوئے ہیں ، وہ یثرب میں جمع ہو کر ، اور یثربی مسلمانوں کے ساتھ مل کر ایک منظم معاشرہ بنا لیں۔ اس طرح یثرب نے در اصل اپنے آپ کو ”مدینةالاسلام“کی حیثیت سے پیش کیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قبول کر کے عرب میں پہلا دار الاسلام بنا لیا۔

خطرے کا اندازہ اہل یثرب کو تھا :۔

اہل یثرب جانتے تھے کے اس پیش کش کے نتیجے میں ان کے ساتھ کیا ہو سکتا ہے تھا ! اس کا مطلب یہ تھا کہ ایک چھوٹا سا قصبہ اپنے آپ کو پورے ملک کی تلواروں اور معاشی و معاشرتی بائیکاٹ کے مقابلہ میں پیش کر رہا تھا۔ اسی لیے بیعتِ عَقَبہ کے موقع پر رات کی اُس مجلس میں اسلام کے ان ابتدائی مددگاروں (انصار) نے اس نتیجہ کو خوب اچھی طرح جان بوجھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ہاتھ دیا تھا۔آیئے اس مجلس میں چلتے ہیں جہاں یہ بیعت ہو رہی تھی ۔۔۔ حضور ﷺ انہیں قران سناتے ہیں اور پھر یہ حلف لیتے ہیں کہ وہ آپ ﷺ کی حفاظت اسی طرح کریں گے جیسے اپنی عورتوں اور بچوں کی کرتے ہیں ۔۔۔ اور اگر دشمن ان پر حملہ کرے گا تو وہ آپ ﷺ کے ساتھ مل کر جنگ کریں گے ۔۔۔ اس کے بدلے میں انہیں جنت کی بشارت ہے ۔ اس موقع پر وفد کے ایک نوجوان رکن اسعد بن زُرارہ ؓ نے ، جو پورے وفد میں سب سے کم سن شخص تھے، اُٹھ کر کہا:۔
”ٹھیرو! اے اہل یثرب ہم لوگ جو ان کے پاس آئے ہیں تو یہ سمجھتے ہوئے آئے ہیں کہ یہ اللہ کے رسول ہیں اور آج انھیں یہاں سے نکال کر لے جانا تمام عرب سے دشمنی مول لینا ہے۔ اس کے نتیجہ میں تمہارے بچے مارے جائیں گے ۔۔۔ اور تم پر تلواریں چلائی جائیں گی ۔ اس لیے اگر تمہیں اپنی جانیں عزیز ہیں تو پھر چھوڑ دو اور صاف صاف معذرت کر لو کیونکہ اس وقت معذر ت کر نا خدا کے نزدیک زیادہ قابل قبول ہو سکتا ہے۔“
اسی بات کو وفد کے ایک دوسرے شخص عباس بن عُبادہ بن نَضلَہ نے دوہرایا:
”جانتے ہو تم محمد ﷺ سے کس چیز پر بیعت کر رہے ہو؟ (آوازیں، ہاں جانتے ہیں)تم ان کے ہاتھ پر بیعت کر کے دنیا بھر سے لڑائی مول لے رہے ہو۔ پس اگر تمہارا خیال یہ ہو کہ جب تمہارے مال تباہی کے اور تمہارے اشراف ہلاکت کے خطرے میں پڑجائیں تو تم ا نہیں دشمنوں کے حوالے کر دو گے ۔۔۔تو بہتر ہے کہ آج ہی سے ا نہیں چھوڑ دو۔۔۔ کیونکہ خدا کی قسم یہ دنیا اور آخرت کی رسوائی ہے۔ اور اگر تمہارا ارادہ یہ ہے کہ جو بلاوا تم ا نہیں دے رہے ہو اس کو اپنے اموال کی تباہی اور اپنے اشراف کی ہلاکت کے باوجود نبا ہو گے تو بے شک ان کا ہاتھ تھام لو خدا کی قسم یہ دنیا اور آخرت کی بھلائی ہے۔“
اس پر تمام وفد نے بالا تفاق کہا ”ہم ا نہیں لے کر اپنے اموال کو تباہی اور اپنے اشراف کو ہلاکت کے خطرے میں ڈالنے کے لیے تیار ہیں“۔ تب وہ مشہور بیعت واقع ہوئی جسے تاریخ میں بیعت عَقَبہ ثانیہ کہتے ہیں۔ذرا اس جبر کے ماحول کا تصور کریں جس کی وجہ سے یہ معاہدہ رات کی تاریکی میں چھپ کر کیا گیا ۔۔۔ اور حضور ﷺ کی احتایاطی تدبیر پر بھی غور کریں ۔۔۔ کہ یہ معاہدہ جلسہ عام کی صورت میں نہیں ہو ا کہ اب فلاں سردا ر آئیں گے اور اپنے قبول اسلام کا اعلان کریں گے ۔۔۔ نہ یہ کہا گیا کہ ، اہل مکہ جان لو ! کہ پورا یثرب ہمارے ساتھ ہو چکا ہے ۔۔۔ جب کہ ایک سال پہلے اہل یثرب کے ساتھ ہونے والے پہلے معاہدے کے بعد حضرت مصعب بن عمیر ان کے ساتھ انہیں دین سکھانے گئے تھے اور ان کی تبلیغ سے اہل یثرب بڑی تعداد میں ایمان لا چکے تھے ۔۔۔ نہ صرف ایمان لا چکے تھے۔۔۔ بلکہ ان کی تربیت بھی ہو چکی تھی ۔۔۔ اسی لیے حضرت مصعب بن عمیر کو فاتح مدینہ کہا جاتا ہے ۔

اہل مکہ کا خوف :۔

دوسری طرف جہاں اہل یثرب اس معاہدے کے نتیجے میں پیش آنے والے خطرات کو جانتے تھے ! وہیں اہل مکہ بھی خوف کھائے ہوئے تھے ۔۔۔وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زبردست شخصیت ، اور غیر معمولی قابلیتوں کو جانتے تھے ۔۔۔ اور ان کی قیادت و رہنمائی میں پیرو انِ اسلام ، کی عزیمت و استقامت اور جاں نثاری کو بھی ایک حد تک آزما چکے تھے۔ ان لوگوں کا کسی ایک خطہ زمین میں جمع ہو جانا پرانے نظام کے لیے موت کا پیغام تھا۔ اس کے علاوہ مدینہ جیسے مقام پر مسلمانوں کی اس طاقت کے جمع ہونے سےانہیں یہ خوف بھی تھا کہ یمن سے شام کی طرف جانے والی تجارتی شاہراہ ، جس پر ان کی معاشی زندگی کا انحصار تھا ، اس شہ رگ پر ہاتھ ڈال کر مسلمان نظامِ جاہلی کی زندگی دشوار کر سکتے تھے۔ صرف اہل مکہ کی وہ تجارت جو اس شاہراہ کے بل پر چل رہی تھی ڈھائی لاکھ اشرفی سالانہ تک پہنچتی تھی۔ طائف اور دوسرے مقامات کی تجارت اس کے علاوہ تھی۔قریش ان نتائج کو اچھی طرح سمجھتے تھے۔ جس رات بیعتِ عقبہ واقع ہوئی اسی رات اس معاملہ کی سن ، گن اہل مکہ کو ہوئی تو وہاں کھلبلی مچ گئی۔ پہلے تو انھوں نے اہل مدینہ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے توڑنے کی کوشش کی۔صبح سویرے انہوں نے مدینہ کے تمام حاجیوں کو جمع کیا ، اور ان سے پوچھا کہ رات تم لوگوں نے محمد ﷺ سے ملاقات اور بات چیت کی ہے ؟ اس پر جو لوگ رات کو سو رہے تھے اور ایمان لانے والوں میں شامل نہ تھے بول پڑے کہ نہیں ایسا ہرگز نہیں ہوا ، اور اہل ایمان نے خاموشی اختیار کی ۔ اس طرح اس وقت معاملہ کھل نہ سکا ۔ (ہجرت بھی اعلان کر کے ایک ساتھ قافلے کی شکل میں نہیں ہوئی ، فرشتوں کے نزول کی امید اس قافلے پر بھی کی جا سکتی تھی ! لیکن نہیں یہ سب کچھ تو فضائے بدر پیدا کرنے کے لیے ہو رہا تھا ۔ اور نہ ہی کسی نے حضور ﷺ سے ہجرت کے لیے سہولیات طلب کیں بلکہ ہر ایک نے اپنے رسک پر ہجرت کی ۔۔۔ معلوم ہوا کہ جب تک جان سے گذر جانے کا حقیقی موقع سامنے نہ آجائے ، مسلمان کے لیے اپنی جان ، اور اپنی اجتماعیئت کی حفاظت ضروری ہے ) پھر جب ہر رکاوٹ اور مشکل کے با وجود ، مسلمان ایک ایک دو دو کر کے مدینہ کی طرف ہجرت کرنے لگے ۔۔۔ اور قریش کو یقین ہو گیا کہ ، اب محمدؐ بھی وہاں منتقل ہو جائیں گے تو وہ اس خطرے کو روکنے کے لیے آخری چارہ کار اختیار کرنے پر آمادہ ہوگئے۔ ہجرت نبوی سے چند ہی روز پہلے قریش کی مجلس شوریٰ منعقد ہوئی جس میں بڑ ے بحث و مباحثے کے بعد آخر کار یہ طے پا گیا کہ بنی ہاشم کے سوا تمام قریش کے خاندانوں کا ایک ایک آدمی چھانٹا جائے اور یہ سب لوگ مل کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کریں تا کہ بنی ہاشم کے لیے تمام خاندانوں سے تنہا لڑنا مشکل ہو جائے ۔۔۔اور وہ انتقام کے بجائے خونبہا قبول کرنے پر مجبور ہو جائیں۔ لیکن خدا کے فضل اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اعتماد علی اللہ اورحسن تدبیر سے اُن کی یہ چال نا کام ہوگئی اور حضور بخیریت مدینہ پہنچ گئے۔(تفصیل کے لیے دیکھیئے دیباچہ سور انفال )
اللہ سُبٰحانہٗ و تعٰالٰی ہَم سَب کو اَپنے دین کا صحیح فہم بخشے ، اَور اُس فہم کے مُطابق دین کے سارے تقاضے ، اَور مُطالبے پُورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین ۔ وآخر دعوانا انالحمد للہ رب العالمین۔

حصہ