مولانا نے ناراضی کا اظہار کیسے کیا؟۔

595

بَارک اللہ خان
مرتب: اعظم طارق کوہستانی
جسارت میگزین: (۲۸؍اکتوبر ۱۹۷۹ء) جناب خان! ہم دسمبر ۱۹۷۹ء میں مولانا مودودیؒ پر قومی ڈائجسٹ کاخصوصی نمبرشائع کررہے ہیں۔ مولانا اور نوجوان ذہن کی تربیت ، کے موضوع پر ہم نے چند صفحات مخصوص کیے ہیں۔ اسی سلسلے میں ،میں آپ کے پاس حاضر ہواہوں؟
بارک اللہ خان:میں آپ سے بھرپور تعاون کروں گا ۔ خصوصی نمبر کے لیے مذکورہ موضوع کے علاوہ میرے لیے اور کوئی خدمت ہو تو میں حاضر ہوں۔
جسارت میگزین: شکریہ !تو میں کل یا پرسوں شام کے وقت آئوں گا؟
بارک اللہ خان: ہاں یہ مناسب رہے گا، ہم الگ جا بیٹھیں گے۔
جسارت میگزین:( ۳۰اکتوبر )، آپ اچھے مقرر ہیں۔ جب دریاروانی میں ہوتو بند باندھنا نہ چاہوںگا۔ مولانا نوجوان ذہن کی آبیاری کیسے کرتے تھے، نوجوان ان سے کیسے متاثر ہوتے تھے، وہ نوجوانوں کے اچھے کاموں کو کیسے سراہتے تھے اور اگر نوجوانوں سے کوئی غلطی سرزد ہوجاتی تو مولانا کیسے سمجھاتے تھے، فہمائش کرتے تھے، مولاناکی بذلہ سنجی کا آپ نے کیا عالم دیکھا وغیرہ؟
بارک اللہ خان:جی بہتر،میں بی اے کا طالب علم تھا، چند دوستوں کی رفاقت کے باعث جو جمعیت کے ارکان تھے میں جمعیت سے متاثر ہوا اور رکنیت اختیار کی۔ پھر تو مولانا محترم ( اللہ تعالیٰ اُنھیں غریق رحمت فرماے )کے پاس اچھرہ میں جانے کااکثر اتفاق ہوتا۔ اسلامی جمعیت طلبہ کی تربیت گاہوں میں مولانا تشریف لاتے ۔ ان محفلوں میں ہم اُن سے مختلف سوال کرتے ۔ ہمیں اس بات پر بڑی مسرت ہوتی کہ مولانا ہر طالب علم کو ، اُن طلبہ کو بھی جن کاذہن ابھی ناپختہ تھا، اپنے جوابات سے مطمئن کرتے ، ذہن کو جلا بخشتے ۔ ہم مولانا کی محفل سے واپس آتے تو محسوس کرتے کہ مولانا نے ہمیں ایک نیا حوصلہ ،نیا ولولہ اور نئی جرأت دی ہے موجودہ نظام تعلیم کے مختلف سوالات جن کی وجہ سے نوخیز طالب علموں کے ذہنوں میں انتشار پیداہوتاہے مولانا اُنھیں حل کرتے ۔ یوں مختلف تربیت گاہوں میں ہمیں ان سے مستفید ہونے کاموقع ملا ۔ پھر دوسرا موقع جو ہمیں ملا وہ یہ کہ ہم مولانا کو مختلف تقریبات میں بلاتے، یونیورسٹی میں اور کالجوں میں بلاتے ۔ مولانا ایک دفعہ لاء کالج لاہور کے ہال میں بھی تشریف لائے۔ وہاں بھی تقریر کی۔ اس سے قبل ۱۹۵۶ء میں پنجاب یونیورسٹی میں انٹرنیشنل اسلامک کو لوکیم منعقد ہوا۔ اُن دنوں میاں افضل حسین وائس چانسلر تھے۔ یونیورسٹی کے شعبہ اسلامیات کے سابق صدر اور مشہور و معروف کتاب ’’دی روڈ ٹو مکہ ‘‘ کے مصنف محمداسد منتظمین میں شامل تھے۔ شام کے محمد مصطفی زرقا، ترکی کے ذکی ولیدی تو غان ، بھارت کے مولانا عبدالماجددریابادی ، ہسٹری آف عربز کے مصنف پروفیسر ہٹی الغرض، دنیابھر کے علما کا یہ نادر اجتماع تھا۔ مولانا نے بھی شرکت فرمائی۔ ہال کھچاکھچ بھراہواتھا، علما کے علاوہ طلبہ بھی تھے۔ مولانا نے مدلل باتیں کیں ، یہ بھی ثابت کیاکہ دین و سیاست کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ دین کو سیاست سے الگ کرلیاجائے تو دیواستبداد کے رقص کے علاوہ سیاست میں کچھ باقی نہیں رہتا۔ حاضرین بہت متاثر ہوئے۔
ہمیں مختلف مواقع پر مختلف تقریبات میں، مختلف اوقات میں ان سے ملنے کے مواقع ملتے رہے۔ جب بھی ہمارے ذہن میں کوئی خلفشار پیداہوتا ،ہم سیدھے مولانا کا رخ کرتے …ہم اس قدر بے تکلف ہوگئے تھے مولانا کے ساتھ کہ ہم اُن کی اسٹڈی گاہ، مطالعہ گاہ کا دروازہ کھول کردندناتے چلے جاتے۔ ایک مرتبہ چوہدری غلام قادر نے، جو ہمارے ساتھی تھے اور آج کل ایڈووکیٹ ہیں کہاکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تو پیوند لگے کپڑے پہنتے تھے مولانا پیوند لگے کپڑے کیوں نہیں پہنتے، ہم چلیں اور مولانا سے پوچھیں ، چنانچہ میں اور چوہدری غلام قادر ایک صبح مولانا کے کمرے میں داخل ہوئے اور چوہدری غلام قادر نے بے دھڑک ہو کر پوچھا:
’’مولانا !آپ تو اچکن پہنتے ہیں ، بے پیوند لگا لباس پہنتے ہیں، حالانکہ حضرت عمر ؓ تو پیوند لگا لباس پہنتے تھے۔‘‘
مولانانے کہا :’’میں نے اپنی اچکن پچیس سال قبل سلائی تھی۔ ربع صدی کے بعد وہ چھوٹی ہوگئی ۔ اسے میں نے اپنے بیٹے عمر فاروق کے لیے ٹھیک کروادیا۔ اس کے بعد دوسری اچکن جواب پہنی ہوئی ہے وہ سلوائی جو کئی سال سے میں پہن رہا ہوں۔‘‘ اس پر بھی ہمارے دوست چوہدری غلام قادر مطمئن نہ ہوئے ۔ کہنے لگے ، مولانا یہ تو کوئی بات نہ ہوئی۔ اس پر اُنھوںنے کہاکہ بھئی غلام قادر آپ نے بھی تو یہ بلاپیوند کمبل اوڑھ رکھا ہے۔ آخر کیوں ؟ چوہدری صاحب بغلیں جھانکنے لگے ۔ ایک مزاح کی صورت پیداہوگئی۔
جمعیت نے جب انجمن طلبہ جامعہ پنجاب کی صدارت کا الیکشن جیتاتو مولانا سے بڑھ کر کسی کو خوشی نہیں ہوئی۔ جامعہ پنجاب کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھاکہ جمعیت کانامزد امیدوار (عثمان غنی ) صدر منتخب ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ مولانا بہت خوش ہوئے دوسری مرتبہ نصر اللہ شیخ منتخب ہوئے تو بھی مولانا کو بہت خوشی ہوئی۔
تیسری مرتبہ جب میں کھڑاہوا ۶۴۔۱۹۶۳ء کے لیے ،اس سے قبل ایک دلچسپ واقعہ یہ ہواتھاکہ ذوالفقار علی بھٹو فروری ۱۹۶۱ء میں پنجاب یونیورسٹی کے سینٹ ہال میں تشریف لائے۔ خطاب کے دوران اُنھوںنے روسی انقلاب کی بات کی تو ہم نے احتجاج کیا جواباً کہنے لگے ۔Sorry! I …… to have refered French Relation(معاف کیجیے ۔ مجھے انقلاب فرانس کا حوالہ دینا چاہیے تھا) پھر تو سوالات کی بوچھاڑ ہونے لگی۔ ہم نے کہا آپ مارشل لاء حکومت کے وزیرہیں اور یوں کسی کی نمائندگی نہیںکرتے موجودہ ایوب خانی حکومت چھپ چھپ کر آٹھ کروڑ عوام کے لیے کس طرح آئین مرتب کرسکتی ہے ۔ جب ہم نے اس طرح کے سوالات کیے تو چاروں طرف شور مچ گیا اور بھٹو صاحب کو تقریر مکمل کیے بغیر واپس جاناپڑا۔ اس پر مجھے ایوب خان کے حامی بعض طلبہ اور بعض غنڈوں نے زدو کوب کیا۔ ایک مسئلہ پیداہوگیا ، مقدمے بازی ہوئی اور بہت شور ہوا اخبارات میں ،اس کے بعد ہم مولانا کے پاس گئے تو مولانانے ہمیں کوئی سرزنش نہیںکی بلکہ اُنھوںنے کہاکہ آپ نے جو سوالات پوچھے یہ آپ کا حق تھا ۔ ۱۹۶۳ء میں جب میں الیکشن لڑ رہاتھا، جمعیت طلبہ کی شور یٰ کے چند ساتھی مجھ سے ناراض ہوگئے ۔ ان کاکہناتھا کہ تم ہنگامہ آرائی پسند کرتے ہو جو جمعیت کا طریق کار نہیں ہے۔ یہ الزامات لگا کر اُنھوںنے مجھے جمعیت سے خارج کردیا ۔ چونکہ طالب علم میرے ساتھ تھے۔ میں الیکشن سے دستبردار نہ ہوا۔ یوں ایک مسئلہ کھڑاہوگیا۔ یہ معاملہ پہلے میاں طفیل محمد کے حضور پیش ہوا اور جب کوئی حل نہ نکلا تو مولانا کے پاس پہنچا۔ مولانا نے مجھے باہر بٹھائے رکھا اور دوسرے طلبہ کو باری باری بلایا ۔ اس کے بعد مجھے طلب فرمایا اور یہ کہا: ’’کیاتم اس بات کا حلف لیتے ہو کہ تم جمعیت طلبہ کے دستور کی پابندی کرو گے اور تم کامیابی کی صورت میں ان کے فیصلوں پر عمل کرو گے؟‘‘
میں نے تحریر لکھ کر دی کہ میں ایسا ہی کروں گا۔ اس طرح مولانا کی فراست کے باعث مسئلہ حل ہوگیا ۔ مولانا نے فیصلہ سنایا کہ جمعیت طلبہ بارک اللہ کاساتھ دے۔ اس فیصلے کے مطابق الیکشن لڑ رہاتھا لیکن اس کے بعد مجھے یونیورسٹی سے خارج کردیا گیا اور اخراج کے بعد میری گرفتاری عمل میں آئی ۔ اس گرفتاری سے قبل بھائی دروازے والا واقعہ پیش آچکاتھا۔ اللہ بخش شہید کردیے گئے تھے۔ میرے علاوہ متعدد طالب علم وہاں موجود تھے مولانانے جس انداز سے ثابت قدمی ، جرأت اور حوصلے کااظہار کیا اس سے سب طالب علم حددرجہ متاثر ہوئے۔ خیر ،اس کے بعد جب ہنگامہ آرائی ہوئی اور ہم گرفتار ہوئے تو گرفتاری کے بعد مجھے شاہی قلعہ لے جایا گیا، باقی سب طالب علموں کو رہاکردیاگیا۔ لیکن میری نظر بندی میں توسیع کردی گئی۔ مجھے ۷ جنوری ۱۹۶۴ء کو لاہور ڈسٹرکٹ جیل میں ،چھہ ماہ کی نظر بندی میں توسیع کے بعد لایا گیا ،جب میں ڈیوڑھی میں پہنچا تو سپرنٹنڈنٹ جیل نے اپنے ساتھیوں مشورہ کیا کہ اس نووارد کو کہاں رکھاجائے۔ ایک ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ نے کہاکہ اسے بھی فلاں بیرک میں مولویوں کے ساتھ رکھو یہ اکٹھے ہی نماز پڑھا کریں گے میں یہ سمجھ نہ سکاکہ کون سے مولوی مراد ہیں ۔ میں جب اس بیرک میں پہنچاتو وہاں مولانامحترم تھے اور باقی شوریٰ تھی جو اس وقت گرفتار ہوچکی تھی اور جس الزام میں وہ گرفتار ہوئی تھی اُن میں ایک الزام یہ بھی تھاکہ آپ نے طلبہ کو ، جن میں میرانام بھی شامل تھا اشتعال دلا کر ہنگامہ آرائی کرائی ۔
مجھے یہ سعادت نصیب ہوئی کہ میں چار ماہ تک مولانا محترم کے ساتھ اس جیل میں رہا۔ اس اسیری کے دوران مجھے مولانا کو زیادہ قریب سے دیکھنے کااتفاق ہوا۔
پہلی بات جس سے میں متاثر ہوا وہ یہ تھی کہ جب میں بیرک میں داخل ہوا تو مولانا نے مجھے ایک طرف لے جا کر دریافت فرمایا: ’’تمھاری جرابیں کیا ہوئیں؟‘‘
میں نے عرض کیا:’’ مولانا! گرفتاری کے بعد دو ماہ تک قلعے میں رکھاگیا مجھے کچھ معلوم نہیں میرے کپڑے کہاں گئے ۔ ‘‘
اس پر مولانا نے کہا: ’’جیل کی ڈیوڑھی میں میرا حساب ہے اور آپ میرے حساب میں سے پیسے لے کر جراب منگوالیں۔‘‘
میں بڑامتاثرہواکہ مولانا اس حد تک چھوٹی چھوٹی چیزوںکا خیال رکھتے ہیں۔
دوسری بات جس سے میں متاثر ہواوہ یہ تھی کہ مولانا محترم کئی دنوں تک وہی کھانا کھاتے رہے جو کھانا عام قیدی کھاتے تھے یعنی جیل کاکھانا۔ اس کھانے سے جوان آدمی بھی گھبراتا ہے۔ جیل کاکھانا آپ جانتے ہیں نام کاکھانا ہوتا تھا لیکن مولانا اسے بھی صبر شکر کے ساتھ کھاتے تھے۔ اس کے بعد مولانا کاکھانا گھر سے آناشروع ہواتو میں نے دیکھامولانا اپنے گھر کے کھانے کو بڑے شوق اور بڑی رغبت سے کھاتے ہیں۔ گھر میں پکے کھانے سے اُنھیں خاص اُنس تھا ،پیارتھا ،بعض اوقات وہ گھر کی پکی چیزوں کو کئی کئی دن رکھ چھوڑتے ، استعمال میں لاتے رہتے ۔ ایک مرتبہ مولانا کے گھر سے گاجر کا حلوہ بن کر آیا۔ مولانا تھوڑا تھوڑا کھاتے رہے اور وہ کئی دن پڑا رہا ۔ ایک دن ملک نصر اللہ خاں عزیز مرحوم اور چوہدری غلام جیلانی نے جیل میں موجود تھے دیکھاکہ یہ حلوہ باسی ہوچکاہے۔ مولانا کو علم نہ تھا جب انہیں توجہ دلائی گئی کہ مولانا یہ خراب ہو رہاہے تو مولانا نے اس سے ہاتھ کھینچا …اس سے ظاہر ہوتاہے کہ مولانا کو اپنے گھر کے بیگم صاحبہ کے ہاتھ کے پکے کھانے سے کتنی محبت تھی۔ مولانا صبح سویرے نماز پڑھتے ، دانت صاف کرتے اور چاے پیتے ، بعد ازاں کلام پاک کامطالعہ کرتے پھر قدرے آرام کرتے اور سو کر جب اٹھتے تو ہم سب اکٹھے بیٹھ کر ناشتہ کیاکرتے۔                          (باقی اگلے شمارے)۔

تعارف کتاب: رسائل و مسائل

مولانا سید ابوالاعلی مودودی ؒ ایک بالغ نظر مفکر اور صاحب طرز ادیب تھے۔ اُنھوں نے اردو ادب میں علمی، مذہبی، ثقافتی اور سیاسی موضوعات پر صاف ستھری، شائستہ اور خوبصورت نثر کی ایک درخشندہ روایت کو قائم کیا ہے اور اس کی روایت کو قائم کرنے میں ان کے قلم نے تقریبا نصف صدی کی کوہ کنی ہے۔
رسائل و مسائل دراصل اردو میں فتوی نگاری نیز مکاتیب نگاری کی اعلیٰ قدروں کا مجموعہ ہے۔ یہ خطوط اعزہ، احباب، تحر یکی ساتھیوں اور اجنبیوں کے سوالات کے جواب میں لکھے گئے تھے۔ یہ خطوط ایک خاص طرز کی مقصدی مکتوب نگاری کی بہترین مثال ہیں۔ ان میں سیکڑوں مسائل پر سوچی سمجھی آرا کا اظہار کیا گیا ہے۔ یہ خطوط مکتوب نگار کی شخصیت کا ایک آئینہ ہیں۔ نیز بہت سے خطوط ادبی نقاد کے لیے بہت دلچسپ اور نفع بخش مواد فراہم کرتے ہیں۔ رسائل و مسائل در اصل ماہنامہ ترجمان القرآن، لاہور کا مستقل فتوی و استفتا کا عنوان ہے جو تقریباً چار دہائیوں پر محیط ہے۔
رسائل و مسائل میں مولانا مودودیؒ کہیں مورخ کی حیثیت اختیار کر لیتے ہیں اور کہیں متکلم اسلام نظر آتے ہیں۔ اس طرح اعتقادی مسائل پر بیس (20) سوالات کے جوابات تحریر کیے۔ خالص تاریخی نوعیت کے بیس (20) جوابات مرقوم ہیں۔ تحریک اور دعوت سے متعلق انتالیس (39) سوالات کے جوابات پائے جاتے ہیں۔ اسی طرح تفسیری مباحث، حدیثی موضوعات، شخصیات و واقعات کے ضمن میں ایک سو ترپن (153) خطوط ارسال فرماے۔ مذکورہ بالا تمام عنوانات کے تحت مولانا نے جو کچھ لکھا، اردو ادب کا قیمتی اثاثہ ہیں۔
فقہ کے میدان میں مولانا کا بڑا کارنامہ ان کی توسیع پسندی ہے۔ ان کے پورے فقہی لٹریچر میں اعلیٰ ظرفی اور وسعت قلبی کا مظاہرہ جا بجا قاری محسوس کر سکتا ہے۔ مسلکی تعصب کا شائبہ تک بھی نہیں ہوتا۔ مولانا فقہا اربعہ کی آرا سے بھر پور استفادہ کرتے ہیں اور چاروں کو برحق تسلیم کرتے ہیں۔ امام ابوحنیفہ کو بالعموم افضل مانتے ہیں لیکن کئی مسائل میں امام مالک اور امام شافعی کو ترجیح دیتے ہیں۔
اس ضمن میں قابل ذکر بات یہ ہے کہ تمام اختلافی مسائل میں مولانا کی اپنی ایک رائے ہوتی ہے۔ بعض اختلافات بیان کرنے پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ اپنا رجحان ظاہر کر کے قاری کی مدد فرماتے ہیں۔
مولانا کی فقہی خدمات کے نتیجے میں برصغیر پاک و ہند میں خاص طور پر اور عالم اسلام میں بالعموم دین کے اصولی اور فروعی معاملات و مسائل کا فرق و امتیاز واضح ہوا۔ اس کوشش کے نتیجہ میں جہالت یا تعصب کی وجہ سے اختلافات میں جو شدت پائی جاتی تھی اس میں واضح طور پر کمی آئی۔ مولانا کا خیال ہے کہ تقوی کا تعلق دل سے ہے، پہلے وہاں انقلاب لایا جائے۔ بیرونی انقلاب خود بخود آ جائے گا۔ اسی طرح مولانا کا اصرار ہے کہ حرام و حلال واضح ہیں، استنباطی معاملات میں راے کو علم کا مقام حاصل نہیں ہو سکتا۔ ڈاڑھی کی لمبائی اور چھوٹائی، موزوں پرمسح ، نماز میں ہاتھ اُٹھانا، بلند آواز سے آمین کہنا، زکوٰۃ فی سبیل اللہ اور دیگر فروعی مسائل میں مولانا کا طرز استدلال قابل تحسین ہے۔ اسلام سے رغبت رکھنے والے کے لیے اس کتاب کا مطالعہ ناگزیر ہے۔
٭…٭
www.syedmaududi.info

۱: کیا آپ نے مولانا مودودیؒ کو پڑھا ہے؟
۲: مولانا کو پڑھنے کے بعد آپ نے خود میں کوئی تبدیلی محسوس کی؟
۳: یا پھر مولانا کے حوالے سے آپ نے کوئی مضمون یا نظم تحریر کی ہے؟
۴: اگر آپ مولانا کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کرنا چاہتے ہیں تو دیر کس بات کی؟
اپنا قلم اُٹھائیے اور لکھ دیجیے
…کچھ خاص …کچھ نیا…
آپ کی تحریر ضروری نوک پلک سنوار کر شائع کردی جائیں گی۔
انچارج سید مودودیؒ صفحہ: اعظم طارق کوہستانی
kazam_tariq@yahoo.com

حصہ