۔”یوگمی” مرتا ہوا ستارہ

433

قاضی مظہر الدین طارق
’’یو کَمی‘‘
’’یو کَیمی ‘‘ایک مرتا ہوا ستارہ ہے،جس کے انتقال کی یہ تصویر’ناسا‘ نے لی ہے۔یہاں اس کا مکمل تعارف کرادینا مناسب معلوم ہوگا۔
یہ کاربن سے مالامال مَرتا ہوا ستارہ ہے،جو ہم سے پندرہ سو نوری سال دُور ہے،یہ ستارہ اس وقت فنا کے گھاٹ اُتر چکا ہے،جس کی تصویر اس صفحے پر موجود ہے۔
اِس ستارے کے قلب (کور) میں ایندھن ختم ہوچکا ہے اوراِس کا بیرونی خول(شَیل)بہت زیادہ گرم(سپر ہیٹڈ) کی بنا پر پھٹ گیا ہے ، اس کو سپر نووا دھماکا کہا جاتا ہے۔
اِس مرحلے پر ستارہ پھیل کر بہت بڑا اور روشن ہو جاتا ہے ۔
یہ ہم کو اپنے سورج کے مستقبل کی اَدنا سی جھلک دیکھا رہاہے،جب ہمارا سورج اِس مرحلے پر پہنچے گا تویہ اتنا بڑا ہوجائے گا کہ عطارد اور زہرہ کو نگل لے گا اور ہماری زمین سے بقدرِ ’سوانیزے‘قریب ہوکر ٹھہر جائے گا۔
ستارہ ’یو کَیمی ‘اپنی زندگی کے اِس مرحلہ پر اُس وقت پہنچا جب قلب کی گرمی کی شدّت سے’ دو ہائیڈروجن‘ مدغم ہو کر’ہیلیئم‘ بن چکے تھے ، اور’ تین ہیلیئم‘ مدغم ہو کر’کاربن‘بن گئے تھے اور لوہے تک کے عناصر تشکیل پا نے کا مرحلہ مکمل ہوگیا تھا، پھرقلب کی گرمی نے خول کو اور بہت ہی زیادہ گرم کر دیا،اور جس میں باقی سارے بھاری عناصرکے بھی بننے کے مرحلے مکمل ہو گئے تھے ، تو آخر میں سپرنووا ہو گیا،یہ تصویر عین دھماکہ کے وقت کی ہے۔
یعنی یہ تصویر ’یو کَیمی ‘کی مکمل ’خاتمہ بال خیر‘ کی ہے ، جو زمین کے ایک پھول(ڈَیڈیلون) کی مانند ہے ، جب وہ موت کے قریب پہنچتا ہے تووہ اپنے بیج چاروں طرف بکھیر دیتا ہے، تاکہ اُس کی حیات کا تسلسل باقی رہے،یہ بڑا رومانوی اور خوبصورت منظرہوتا ہے۔
اِسی طرح ’یو کَیمی‘کی اِس تصویر میں ہم کو یہ خوبصورت منظربا لکل اس پھول جیسانظر آرہاہے ، یہ ستارہ بھی اِس مرحلے پر اپنے چاروں طرف اپنے بنائے ہوئے عناصر کو ’دُخان‘(نیبیولا) کی صورت میں بکھیر رہا ہے ،تاکہ ِان عناصر سے نئے ستارے وجود میں آ سکیں اور نئی حیات پھل پھول سکے۔
دُبِ اَصغر میں ایک دوسرا ستارہ ہمارے سورج جیسا ہے،مگر یہ حجم اور کمیّت(ماس ) میں سورج سے دگنا ہے ، ایک ستارہ جتنا بڑا ہوتا ہے، اُس کی عمراتنی کم ہوتی ہے وہ جلد بوڑھا ہو کر ختم ہو جاتا ہے، یہ دُبِ اصغر کا ستارہ ہمارے سورج سے بڑا ہے، اور اپنی مَوت سے زیادہ قریب ہے ، حالانکہ یہ سورج کے تین اَرب بیس کروڑ سال بعدپیدا ہوا مگریہ سورج سے پہلے مر جائے گا ،یہ اپنی زندگی کے اُس مرحلے میں ہے جو ’سُرخ دیو‘کہلاتا ہے،اِس مرحلے کو ہم انسان کے عالمِ برزخ سے مماثل مرحلہ کہہ سکتے ہیں۔
آسٹریلیا کی قومی یونی ورسٹی کی جنابہ ’میریدت جوائس‘ کا کہنا ہے کہ:’’اِس ستارے میں بڑھاپے کی علامات ہیں، جن کا انسان بلاواسطہ مطالعہ کر سکتا ہے،اس لئے اس کی بہت اہمیّت ہے!‘‘۔
یہ بات اس خیال کو تقویّت پہنچا رہی ہے کہ ہمارا سورج بھی اِن مراحل سے ضرور گزرے گا اورپھریہ ایک بہت چھوٹے سے سفید بونے ستارے کی صورت میں باقی رہ جائے گا،مگر اس کام میں اب سے پانچ اَرب سال لگیں گے۔
’’جب ہمارا سورج موت کے اِس مرحلے پر پہنچے گا تویہ اتنا بڑا ہوجائے گا قبل اس کے کہ وہ سُکڑ کر سفید بونا بن جائے وہ عطارد اور زہرہ کو نگل لے گا اور ہماری زمین کو جلا کر خاک کردے گا!‘‘یہ بات جوائیس کہہ رہی تھی جو سربراہ ہے اُس عالمی ٹیم کی جو اس بات کی تحقیق پرمعمور ہے کہ ایک ستارہ سفیدبونے میں کیسے تبدیل ہوتا ہے۔
اس ٹیم میںوسطی یورپ کے ملک’ ہنگری‘ کی سائنسی اَکادمی کی ’لَیزلو مولنا‘ اور ’لیزلوکِسس‘ شامل ہیں،اِن کی تحقیقات کے نتائج ایک اَیسٹروفیزیکل جرنل ’کوسموس ‘ کے ایک مضمون میں درج ہیں۔
دُبِ اصغر(اِرسا مائینر) کا یہ ستارہ ایک اَرب بیس کروڑ سال قبل پیدا ہوا تھا،یہ سورج سے دگنا بڑا ہے اور ہم سے تین ہزار نوری سال دُور ہے۔
تحقیقات کرنے والوں کو پتہ چلا کہ اس ستارے کے انتقال سے چند لاکھ سال قبل سے اِ س میں عجیب و غریب حرکات و سکنات ہو رہی ہیں،یہ کبھی اچانک گرم ہوجاتا ہے کبھی ٹھنڈا،کبھی اچانک تیزروشن ہو جاتا ہے اور کبھی کم،کبھی بڑا ہوجاتا ہے توکبھی چھوٹا،جیسے معمّر لوگ اپنے بڑھاپے میں ہزاروں بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔
جوائیس کہہ رہی تھی:’’اس مرحلے پرمرنے والے ستارے پر موت کی ہچکیاں طاری ہیں،کیوں کہ اِس کی توانائی کی پیداوار نہایت غیر مستحکم ہوگئی ہے،دیکھیئے یہ ہے ستاروں کا بڑھاپہ۔‘‘
انسان کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا ہے،مرنے سے پہلے وہ اچھا ہو جاتا ہے،پھر انسان ہچکیاں لیتا ہے،یہاں تک کہ آخری ہچکی اِس کوآخرکار موت سے ہمکنار کر دیتی ہے، جیسے چراغ بھی بجھنے سے پہلے بھڑکتا ہے۔
جوائیس اور ان کے ساتھی یہ یقین رکھتے ہیں کہ یہ اس دُبِ اَصغر کے ستارے کی یہ آخری ہچکی ہو گی۔
ماہر ہیّتدان(اَیسٹرونمرز)ہوں یا شوقیہ آسمان پر نظر رکھنے والے لوگ ،تیس سے پچاس سال میں یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ سکیں گے۔
یہ ساری کی ساری معلومات ہم ’کوموس میگزین‘ کے شکریہ ساتھ پیش کر رہے ہیں ، اس میں یہ خبر ستّائیس جولائی دو ہزار انّیس کی تاریخ پر درج ہے، اس رسالے کے مدیر جناب ’نِک کارنی‘ ہیں ، اِن کا تعلق آسٹریلیا کے رائل انسٹی ٹیوشن سے ہے۔

حصہ