غرور کا سرنیچا

1661

عشرت زاہد
آج رات دادی جان کے کمرے میں پہنچنے سے پہلے ہی بچے وہاں پہنچ چکے تھے اور آج تو عائشہ بھی ان کے گھر رکنے کے لیے آئی ہوئی تھی۔ اور دادی جان کی کہانی کا بے تابی سے انتظار کر رہی تھی۔
” دادی جان، آج آپ کون سی کہانی سنائیں گی؟”
” آج میں آپ لوگوں کو ایک خوب صورت مرغے کی کہانی سناتی ہوں۔ ٹھیک ہے؟”
ایک کسان کا بہت بڑا سا کھیت تھا۔ اور اسی کے اندر اس کا پیارا سا گھر بھی بنا ہوا تھا۔ کسان کو اپنے کھیت میں کام کرنے کے لیے بہت سے جانوروں کی ضرورت پڑتی تھی۔ جیسے ہل چلانے کے لیے اور کنویں سے پانی نکالنے کے لیے بیل، کھیت کی حفاظت کے لیے کتے، گھر میں استعمال کے لیے مرغیاں ، دودھ کے لیے بھینس اور بکریاں۔۔۔ اور ساتھ میں بلی بھی پل گئی تھی۔ ان جانوروں کو کسان نے گھر کے پیچھے والے حصے میں ایک چھپر بنا کر رکھا ہوا تھا۔
“دادی جان یہ چھپر کیا ہوتا ہے؟” یہ چھوٹی عائشہ تھی۔
بیٹا ،دھوپ اور بارش سے بچنے کے لیے بانس کے سہارے ایک ہلکی سی چھت بنا دی جاتی ہے۔ اسی کو چھپر کہتے ہیں۔
اچھا تو۔۔ میں نے کہاں تک سنائی تھی؟ ہاں اس کسان نے جو مرغیاں پالی ہوئی تھیں، ان میں ایک بہت صحت مند اور خوبصورت مرغا بھی تھا۔وہ مرغا بہت ہی خوبصورت تھا۔ اس کے سر پر سرخ رنگ کا تاج تھا اور اس کے پر بھی بہت چمکدار سرخ اور سنہری تھے۔ اور وہ ایسے شان سے چلتا تھا جیسے کوئی بادشاہ ہو۔ کسان کے خاندان کا تو وہ بہت ہی لاڈلا تھا۔ اور اسی وجہ سے وہ اپنی خوبصورتی پر فخر کرتا تھا۔ اور بہت زیادہ مغرور ہو چکا تھا۔ اپنے آپ کو اعلی سمجھنے لگا تھا۔دوسرے مرغوں اور جانوروں کی طرف وہ حقارت سے دیکھا کرتا تھا۔ اور ان کے ساتھ دوستی بھی نہیں کرتا۔ بس اکیلے ہی گھومتا رہتا تھا۔ اور کھیت میں چگتا پھرتا۔
ایک مرتبہ ایک لومڑی گھومتے گھومتے اس کھیت کے پاس سے گزری۔ اس نے کھیت میں صحت مند اور خوبصورت سا مرغا دیکھا۔ جو کھیت میں چرچگ رہا تھا۔۔ اس کو دیکھ کر لومڑی کے منہ میں پانی بھر آیا۔ وہ سوچ ہی رہی تھی کہ کس طرح اس مرغے کو کھایا جائے! اتنے میں مرغے نے لومڑی کو دیکھ لیا۔ اور خطرہ بھانپ کر وہ فوراً اڑ کر قریب کے درخت پر بیٹھ گیا۔ مرغا بہت اونچا نہیں اڑ سکتا۔ بس تھوڑا سا اونچا اڑ سکتا ہے، جیسے گھر کی چھت سے یا کوئی درخت سے۔۔ یہ مرغا کافی موٹا تازہ تھا۔ اس لیے اس کو اڑنے میں کچھ دقت پیش آئی تھی۔ خیر۔۔ اس وقت تو مرغے نے اپنے آپ کو محفوظ کر لیا تھا۔
اب لومڑی سمجھ گئی کہ مرغا کافی سمجھ دار ہے۔ کوئی ترکیب استعمال کرنی پڑے گی۔ تب ہی یہ مرغا میرے ہاتھ آ سکتا ہے۔ یہ سوچ کر لومڑی نے مرغے کے ساتھ گفتگو شروع کی۔
“اے حسین مرغے، میں نے آج تک اتنا خوبصورت مرغا نہیں دیکھا۔ تم تو ساری دنیا میں سب سے خوبصورت مرغے ہو۔ تم نیچے تو آو۔ ہم کچھ دیر بات چیت کریں گے”۔
تو اس نے کہا “نہیں بھئی، میں تو نیچے نہیں آوں گا۔ اگر میں نیچے آیا تو تم مجھے کھا لوگی”
لومڑی کہنے لگی “نہیں بھائی نہیں۔ میں تمہیں کیوں کھانے لگی؟ مگر ہاں۔۔ مجھے تم سے دوستی ضرور کرنی ہے۔ تم جو صبح صبح اذان دیتے ہو نا، فجر میں اٹھ کر، وہ مجھے بہت اچھی لگتی ہے۔”
اب جیسے ہی مرغے نے اپنی تعریف سنی، وہ فوراً نیچے اتر آیا۔
لومڑی بہت چالاک تھی۔ پہلے دن تو اس سے خوب گپ شپ لگائی۔ اور اپنے گھر چلی گئی۔ اسی طرح سے وہ تین چار دن تک لگاتار آتی رہی۔ اچھی اچھی باتیں کرتی۔ اس طرح اس نے مرغے سے دوستی کرلی۔ وہ خوب مزے مزے کی باتیں کرتی اور مختلف کہانیاں سناتی۔ اس طرح مرغا لومڑی سے مانوس ہوتا چلا گیا۔
پھر ایک دن جب مرغا باتوں کے دوران کچھ غافل ہوا، تو لومڑی نے مرغے کو گردن سے پکڑ لیا۔ اور جنگل کی طرف دوڑنے لگی۔
اب مرغے کو اپنی بے وقوفی کا اندازہ ہوا۔ اس نے سب جانوروں کو مدد کے لیے پکارا۔ لیکن کسی نے بھی اس کی پکار کو اہمیت نہیں دی۔ کیوں کہ مرغا بھی کبھی ان سے بات چیت نہیں کرتا تھا۔
اب وہ سوچنے لگا کہ، جو کچھ کرنا ہے مجھے ہی کرنا ہے۔ اب لومڑی کے چنگل سے چھٹکارا کیسے پایا جائے۔ وقت کم تھا۔ لومڑی کسی بھی وقت اس کو چیر پھاڑ کر رکھ دیتی۔ اچانک اس کو ایک ترکیب سوجھی۔ وہ لومڑی سے کہنے لگا۔
“بی لومڑی، آپ مجھے لے کر دوڑ لگا رہی ہیں، تو تھک گئی ہو گی۔ ایسا کرتا ہوں کہ آپ کو میں ایک کہانی سناتا ہوں۔ جس سے آپ کا دل بھی بہل جائے گا اور تھکن بھی کم ہوجائے گی”
یہ کہہ کر مرغے نے کہانی سنانا شروع کر دی۔
“ایک جنگل میں بہت بڑا سا شیر رہتا تھا۔ ایک گدھا راستہ بھٹک کر اس جنگل میں آگیا۔ وہاں کی ہری بھری اور نرم نرم گھاس دیکھ کر اس کا دل وہیں لگ گیا۔ اور وہ واپس گھر جانے کے بجائے اسی جنگل میں رہنے لگا۔ روزانہ ہری ہری گھاس کھا کھا کر خوب صحت مند ہوگیا۔ شیر روزانہ گدھے کو دیکھتا اور دل ہی دل میں اس کو کھانے کے منصوبے بنایا کرتا۔
ایک دن موقع دیکھ کر شیر نے اسے پکڑ لیا۔ اب گدھے کی عقل ٹھکانے آ گئی کہ اچھا خاصا میں اپنے مالک کمھار کے پاس محفوظ تھا۔ اب تو میری اپنی بیوقوفی کی وجہ سے میری جان تو چلی جائے گی۔ تو اس نے شیر سے بچنے کے لیے شیر سے کہا۔
” آپ تو جنگل کے بادشاہ ہیں۔ بادشاہ سلامت، یہ میرا فرض ہے کہ میں آپ کی خدمت کروں۔ آپ اگر چہ مجھے کھانے کا ارادہ کر ہی چکے ہیں۔ تو اپنی خواہش پوری کر لیں۔ لیکن میں بھی آپ کو خوش کرنا چاہتا ہوں۔ ایسا کیجیے کہ آپ مجھے پیچھے سے کھانا شروع کریں اور میں آپ کو گانا سناتا ہوں تاکہ آپ کھانے کے دوران موسیقی سنتے رہیں”
شیر کو کیا اعتراض ہو سکتا تھا!
وہ گدھے کے پیچھے کی طرف پہنچ گیا اور اس کو کھانا شروع کرنے لگا۔ اتنے میں گدھے نے اپنے پیچھے کے دونوں پیروں سے دولتی جھاڑ دی۔ شیر کے مونہہ پر ایسی زوردار لات پڑی کہ شیر دور جا کر گر گیا اور اس کا سر ایک پتھر سے ٹکرا گیا۔ جس کی وجہ سے وہ بے ہوش ہوگیا۔ اور گدھا سیدھا اپنے مالک کے پاس پہنچ گیا۔
یہ کہانی سنا کر مرغا کہنے لگا،”آپ ہی بتائیے کہ گدھے جیسا ذہین جانور اور کوئی ہوگا؟ کیسے اس نے اپنی عقل استعمال کر کے اپنی جان بچائی۔”
گدھے کی تعریف سن کر لومڑی کو بڑا غصہ آیا۔ وہ کہنے لگی،” ارے بے وقوف ، مجھ سے زیادہ ذہین جانور کوئی ہو سکتا ہے؟”
لیکن یہ کہتے ہوئے وہ بھول گئی تھی کہ میں منہ کھولو گی تو مرغا میرے منہ سے نکل جائے گا اور ایسا ہی ہوا۔ جیسے ہی لومڑی نے منہ کھولا مرغا زمین پر گر پڑا۔ اور فوراً اڑ کر ایک درخت کی شاخ پر بیٹھ گیا۔ پھر لومڑی سے کہنے لگا۔ اب بتائیے سب سے زیادہ ذہین کون ہے گدھا، آپ یا میں؟” اس کے بعد مرغے نے سچے دل سے توبہ کرلی اور اپنا غرور چھوڑ کر سب کے ساتھ مل جل کر رہنے لگا۔ کیوں کہ وہ یہ بات اچھی طرح سے سمجھ چکا تھا کہ سب کے ساتھ مل جل کر رہنے سے ہی وہ محفوظ رہ سکتا ہے۔ اور اکیلے رہنے سے کوئی بھی دشمن حملہ کر سکتا ہے۔
کہانی ختم ہوئی تو عائشہ نے دادی جان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا۔ دادی جان آپ نے اتنی اچھی کہانی سنائی کہ، وقت کا پتا ہی نہیں چلا۔ ہم تو اس مرغے کے ساتھ جنگل تک پہنچ چکے تھے۔”
“اچھا؟ یعنی میری بیٹی کو کہانی سن کر مزہ آیا؟

حصہ