شریکِ مطالعہ: محمد الیاس کے تین ناول

2274

نعیم الرحمن
محمد الیاس 1980ء کے عشرے میں منظرعام پر آنے والے اہم افسانہ نگاروں کی صفِ اوّل میں شامل ہیں۔ تین دہائیوں سے زائد مدت میں محمد الیاس اردو ادب کا دامن کئی بے مثال افسانوں سے مالامال کرچکے ہیں، جن میں ’’دوزخ میں ایک پہر‘‘، ’’تحفہ‘‘،’’سانولی سلونی‘‘ اور ’’دعا‘‘ جیسے افسانے شامل ہیں۔ ان کے 9 افسانوی مجموعے قارئین کے ذوقِ مطالعہ کی بھرپور تسکین کرچکے ہیں جن میں’’منظر پسِ غبار‘‘، ’’صدیوں پر محیط اک سفر‘‘، ’’مور پنکھ پر لکھی کہانیاں‘‘، ’’دوزخ میں ایک دوپہر‘‘، ’’لوحِ ازل پر لکھی کہانیاں‘‘، ’’آئینے میں گم عکس‘‘، ’’کٹریاں اور چوبارے‘‘، ’’اندھیروں کے جگنو‘‘ اور ’’گلیوں اور بازاروں میں‘‘ شامل ہیں۔ ارشد نعیم کا ایک دیباچے میں کہنا ہے کہ ’’محمد الیاس تعلقاتِ عامہ سے بھاگے ہوئے درویش صفت تخلیق کار ہیں اور کسی صلے یا ستائش سے بے پروا افسانوی ادب میں خوب صورت اضافے کررہے ہیں۔ انہوں نے چوں کہ عملی زندگی کے کٹھن ادوار کا سامنا کیا ہے اسی لیے ان کی کہانیوں میں مشاہدے کی گہرائی اور گیرائی بہت متاثر کن ہے۔ ان کا مشاہدہ اکثر اوقات اتنی جزئیات کے ساتھ افسانے کے قالب میں ڈھلتا ہے کہ اس پر مکمل تجربے کا گمان ہوتا ہے۔‘‘
خاقان ساجد کے مطابق محمد الیاس کے موضوعات کا کینوس بہت وسیع ہے۔ شاید ہی کوئی موضوع ان کے سحرآفریں، دل نشیں، دل ستاں قلم سے بچ سکا ہو۔ انہوں نے ہماری تہذیبی اور سماجی زندگی کی ہر کروٹ اور ہر قوس کو فن کارانہ چابک دستی سے اپنی گرفت میں لیا ہے۔ وہ اسی سرزمین کے باسی اور اسی پر بسنے والے انسانوں کی کلفتیں اور راحتیں بیان کرنے کے خوگر، اپنے کھیتوں، کھلیانوں، دریاؤں، پہاڑوں اور ریگستانوں کے سفیر بن کر اپنے لوگوں کے آدرشوں، انفرادی و اجتماعی رویوں، غموں اور خوشیوں، آسودگیوں اور محرومیوں کی تصویرکشی کرتے ہیں۔ زندگی جن کی رقیب ہے، جو زندگی کے سوتیلے ہیں، محمد الیاس کا قلم بطورِخاص ان بلاد کشوں کا دَم ساز ہے۔
کئی افسانوی مجموعوں کے بعد محمد الیاس کے قلم نے ناول کی جولان گاہ میں قدم رکھا اور یکے بعد دیگرے تین ناول تحریر کرکے اپنی دھاک بٹھا دی۔ محمد الیاس کا پہلا ناول ’’کہر‘‘ تھا۔ پھر انہوں نے ’’برف‘‘ تحریر کیا۔ ان کا تیسرا ناول ’’بارش‘‘ کے نام سے منصہ ٔ شہود پر آیا، جس کے بعد انہوں نے تین مزید ناول ’’دھوپ‘‘، ’’پروا‘‘ اور ’’حبس‘‘ بھی تخلیق کیے۔ اردو ادب کے بیشتر قارئین اور ناقدین یہ گلہ کرتے ہیں کہ اردو زبان میں اچھے ناول بہت کم لکھے گئے ہیں۔ اردو کے شاہکار ناولوں کو ایک ہاتھ کی انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے۔ مجھے اس نقطۂ نظر سے ہمیشہ اختلاف رہا ہے اور میرا دعویٰ ہے کہ اردو زبان کے قارئین اور ناقدین نے کئی اہم اور بڑے ناولوں پر توجہ ہی نہیں دی۔ اسی خیال کو مدِنظر رکھتے ہوئے محمد الیاس کے ابتدائی تین ناولوں کا جائزہ پیشِ خدمت ہے۔
محمد الیاس کے تینوں ناولوں کے موضوعات، کردار، فضا اور کہانی ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہیں لیکن ان کے بعض پہلو اور مرکزی کرداروں میں کسی حد تک مماثلت نظر آتی ہے۔ ناول نگار کا بنیادی موضوع مذہبی انتہا پسندی کے مختلف روپ، مذہبی اور جاگیرداری سماج کے استبداد کی بیخ کنی اور تمام انسانوں کی برابری اور اتحادِ بین المذاہب کی تلقین ہے۔ مذہب کی من مانی تعبیرکرنے اور اسے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے والے اپنی راہ میں حائل ہونے والی کسی بھی رکاوٹ کو ہٹانے کی خاطر ہر اقدام درست سمجھتے اور اس پر عمل پیرا ہوتے ہیں، اور انہیں مفتیانِ دین اور برتر سماج کی بھرپور حمایت میسر ہوتی ہے۔ ناول ’’کہر‘‘ کا مرکزی کردار خان اسلم اور زرینہ کا مہاجر خاندان اور ان کا اکلوتا کمسن بیٹا اکرم ذوالقرنین عرف نین ہے۔ ناول کی اصل کہانی نین اور اس سے سات سال بڑی عیسائی میگی کی انوکھی داستانِ عشق پر مبنی ہے۔ ناول ’’برف‘‘ کا مرکزی کردار صوم وصلوٰۃ کے پابند کپڑے کے متمول تاجر شیخ نورالاسلام کی بیٹی اور چار بھائیوں کی اکلوتی بہن فخرالنساء عرف بی بی جان ہے۔ کہانی فخرالنساء اور ظفر کے ملکوتی اور بے مثل پیارکی ہے۔ جب کہ ناول ’’بارش‘‘ کا ہیرو وسیع جاگیر اور جائداد کی مالک بیگم تاجور سلطانہ کا پوتا اور اکلوتا وارث شہریار عرف شہری ہے۔ اس کی کہانی بھی شیری اور شہری کی منفرد قسم کی بچپن کی محبت کے گرد گھومتی ہے۔ تینوں مرکزی کردار معاشی طور پر مضبوط اور امیر خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں جن کے بارے میں بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ وہ منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوئے، لیکن رواداری پر مبنی اور مختلف سوچ کا حامل ہونے کی وجہ سے اپنوں ہی کے نادانستہ فیصلوں اور تغافل کا شکار بن جاتے ہیں اور تمام عمر ان کے اپنے بھی انہیں سمجھ نہیں پاتے اور وہ انہی کے ستم کا نشانہ بنتے ہیں۔
محمد الیاس کی فکر اور کسی حد تک ناول کے موضوع کا اندازہ ہر ناول کے ابتدائیے اور انتساب ہی سے بہ خوبی ہوجاتا ہے۔ ’’کہر‘‘ کا ابتدائیہ کچھ یوں ہے: ’’ابتدا! علیم و خبیرکے نام سے… جو جانتا ہے کہ زمین پر ظالم کی رسّی درازہے۔‘‘ ناول کا انتساب ہے: ’’اُن انسان دوستوں کے نام، جنہوں نے اپنی زندگیاں محروم طبقات کو غصب شدہ حقوق دلانے کے لیے وقف کردیں۔‘‘
’’برف‘‘ کا پہلا ورق الٹتے ہی قاری کی نظر ان الفاظ پر پڑتی ہے: ’’ابتدا! اللہ کے نام سے جو بندے کا ذہن اور دل اپنے نور سے منورکرتا ہے۔‘‘ اور انتساب ہے: ’’اللہ کے ان چنیدہ بندوں کے نام جو زمین پر محبت کی فصل بوتے ہیں۔‘‘
’’بارش‘‘ کے پہلے ورق پر تحریر ہے: ’’ابتدا! اللہ کے نام سے جو بکھرے ہوؤں کو… یک جا کرنے والا ہے۔‘‘ اور انتساب ہے: ’’غلام نسلوں کی نمائندہ انسان نما مخلوق۔ ہاریوں، مزارعوں، چوہڑوں، بھکاریوں اور کسبیوں کے نام، جن کے خون پسینے کی کمائی، بھیک اور خرچی پر حکمراں اور مراعات یافتہ طبقے عیش وعشرت کی زندگی بسرکرتے ہیں۔‘‘
منشا یاد کا کہنا ہے کہ محمد الیاس ایک ایسے فکشن رائٹر ہیں جو نمود و نمائش اور تعلقاتِ عامہ کے اِس دور میں الگ تھلگ رہ کر اپنی خوب صورت تحریروں سے اردو فکشن کو مالامال کررہے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ بڑے ادبی کارناموں کے لیے گوشہ نشینی، بے نیازی اور میر تقی میر، میاں محمد بخش، مجید امجد اور قرۃ العین حیدرکی تنہائی پسندی کی تقلید ازحد ضروری ہوتی ہے۔ میں ایک مدت سے ان کے افسانے پڑھتا اور ان میں چھپی ہوئی انسانی درد مندی کو دل ہی دل میں سراہتا اور فکری حوالے سے ان کے نسلی، سماجی، سیاسی اور مذہبی تعصبات کے خلاف فن کارانہ احتجاج کو دیکھتا آرہا تھا۔ جب وہ بے نیاز مگر باکمال فکشن رائٹر ’’کہر‘‘ کا تحفہ لے کر افسانہ منزل پر طلوع ہوا، میری اس کے افسانوں سے دیرینہ شناسائی تھی۔ مگر ناول نے مجھ پر اس کے تمام فکری اور فنی کمالات ایک ساتھ وا کردیے، اعتراف کے عنوان سے دیباچے نے پوری طرح گرفت میں لے لیا جس میں مصنف نے سارا دکھ، سارا غم و غصہ، اپنے دل کی بھڑاس نہایت مناسب الفاظ اور پیرائے میں بیان کردی۔ چند ٹکڑے دیکھتے ہیں:
’’جس معاشرے کو ظالموں نے یرغمال بنا رکھا ہو، مجھ ایسا کوئی بھی بے نوا ادیب سارا سچ لکھنے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ ظلم اور جبر کے نطفے سے منافقت اور ریا کاری جیسی فاحشہ اولادیں جنم لیتی ہیں۔ ایسے ماحول میں بہت سی نیکیاں بھی معاشرتی جبر کے تحت کی جاتی ہیں۔‘‘
’’زندگی کے ہر شعبے میں راہ بنانے کے لیے طالع آزماؤں نے چور راستے کھوج نکالے ہیں۔ جنت میں جانے کے لیے بھی شارٹ کٹ اختیار کرنے کی جستجو لگی رہتی ہے۔ دینی اور دنیاوی معاملات میں یکساں جارحانہ رویّے اپنانے کا چلن عام ہے۔ ایسے سماج میں سچ بولنے والے کو جہنم رسید کرنے کے لیے رضاکار ہمہ وقت کمربستہ رہتے ہیں، جن کا ایمان ہے کہ ایک ’’نابکار‘‘ کی لاش کے فاصلے پر جنت کا دروازہ ان پرکھل سکتا ہے۔‘‘
’’کہر‘‘ کا آغاز کشمیر، پوٹھوہار اور پنجاب کے وسط میں کہیں آباد ایک چھوٹے سے قصبے سے ہوتا ہے جہاں قیامِ پاکستان کے بعد ضلع امرتسر میں آگ اور خون کے دریا سے گزر کر آنے والے ضلع امرتسر کے زمین دار گھرانے کو جائداد الاٹ ہوئی ہے۔ میاں بیوی اپنے کم سن بچے کے ساتھ ایک صبح ٹرین سے قصبے پہنچتے ہیں۔ سردی کی اس صبح مقامی دکان دار حافظ برخوردار، خان اسلم اور زرینہ کو اپنے گھر لے جاتا ہے۔ خان اسلم خان اور زرینہ کو ابتدا میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور الاٹ شدہ جائداد اور زمین کا مکمل قبضہ حاصل کرنے اور قصبے میں اپنے قدم مضبوطی سے جمانے کے لیے مضبوط سہارا درکار ہوتا ہے۔ اسی مقصد کی خاطر خان اسلم اور زرینہ اپنی ہی زمینوں پر کچے گھروں میں آباد عیسائی گھرانے کے ایک فرد پاکھڑا پہلوان سے رشتہ استوار کرتے ہیں۔ پاکھڑا کی بیٹی میگی جو اکرم سے سات سال بڑی ہے، اس سے بے حد پیار کرتی ہے اور اسے نین کے نام سے پکارتی ہے۔ بچہ پیار کا بھوکا ہوتا ہے، اس لیے نین بھی میگی کا دیوانہ بن جاتا ہے اور اس کے بغیر پل نہیں گزارتا۔ اپنی ضرورت کے تحت زرینہ کو پاکھڑا پہلوان میں اپنا بچھڑا بھائی نظر آتا ہے۔ لیکن جائداد پر مکمل قبضے کے بعد اسلم اور زرینہ کو عیسائی خاندان سے ملنا جلنا ناگوارگزرنے لگتا ہے۔ زرینہ تہجد گزار اور عبادت گزار ہونے کے ساتھ بے حد توہم پرست اور وہمی خاتون ہے۔ نمازی پرہیزگار خان اسلم بیوی کی ہر بات پر آمنا صدقنا کرنے کا عادی ہے۔ مطلب براری کے بعد زرینہ کو غیر مذہب سے میل جول سے اپنا اور بچے کا ایمان خطرے میں نظر آتا ہے۔ اس قسم کے مواقع سے فائدہ اٹھانے والے تو عموماً آس پاس ہی ہوتے ہیں جو زرینہ کے خیال کو مزید پروان چڑھاتے ہیں۔ زرینہ کو غیر مسلم خاندان سے دور رہنے کے لیے الہام بھی ہونے لگتے ہیں۔ جب کہ نین کسی صورت بھی میگی سے دور ہونے کو تیار نہیں۔ اس کا اسکول میں بھی میگی کے بغیر دل نہیں لگتا۔ بچے کی اس ضد کو جادو کا شاخسانہ قرار دیا جاتا ہے۔
اس کے بعد ناول کا پورا پلاٹ نین اور میگی کی روز بروز پروان چڑھتی محبت اور خان اسلم اور زرینہ کی اپنے بیٹے کو میگی کے سحر سے بچانے کی کش مکش کے گرد گھومتا ہے۔ میگی اور نین کا لگاؤ رنگ، نسل، مذہب اور سماجی حیثیت سے ماورا ہے۔ وہ ایک دوسرے کو ہی اپنا سب کچھ سمجھتے ہیں۔ اس انوکھے عشق کی اصل نوعیت کا قدرے بڑی عمر کی میگی کو بھی علم نہیں۔ وہ نین کو اپنا دوست، بھائی، بیٹا، باپ، محبوب اور شوہر سب کچھ مانتی ہے۔ نین کو بھی اس میں حقیقی ہمدرد، دوست، محبوبہ اور بیوی نظر آتی ہے۔ انسانوں کے درمیان مذہبی دیواریں حائل کرنے کے خلاف محمد الیاس نے ان کرداروں کی تشکیل کمالِ مہارت سے کی ہے، اور ان کی وساطت سے اپنا پیغام بہ خوبی قاری تک پہنچایا ہے اور معاشرے کے تضادات اور فرسودہ روایات کا پردہ چاک کیا ہے۔
محمد الیاس کو کردار نگاری پر عبور حاصل ہے۔ ان کا قلم جو کردار بھی تشکیل دیتا ہے، اس کردار کا حلیہ، قد و قامت، رنگ ڈھنگ اور سراپا اس مہارت سے صفحۂ قرطاس پر بکھرتا ہے کہ پڑھنے والے کے سامنے جیتی جاگتی شخصیت آجاتی ہے۔ ’’کہر‘‘ میں بھی کرداروں کی ایک کہکشاں ہے جو زندگی کے مختلف روپ اور انداز آشکار کرتے ہیں۔ نصیرالاسلام اور اس کی بیوی حسینہ بیگم بھی دو ایسے ہی کردار ہیں اور ان کے حوالے سے انوکھا کردار حضرت صاحب کا بھی سامنے آتا ہے۔ حضرت صاحب دراصل چودہ، پندرہ سالہ گونگا اور ذہنی طور پر معذور لڑکا بگا ہے جو پاک پتن میں نصیر اور حسینہ کے ہاتھ لگ گیا۔ بگا کے بال پیدائشی طور پر سفید اور چہرہ دودھیا گلابی ہے۔ روشنی میں اس کی آنکھیں پوری طرح نہیں کھلتیں۔ دونوں میاں بیوی نے بگا کو پیر کے روپ میں پیش کر رکھا ہے اور بڑی تعداد میں خواتین اولاد اور دوسری منتوں کے لیے پیر صاحب کے پاس آتی ہیں۔ حسینہ ان عورتوں کو نشہ آور مٹھائی کھلا کر بلیک میلنگ کے لیے ان کی برہنہ تصویریں لیتی ہے۔ نصیر ان کی آبروریزی بھی کرتا ہے۔ یہی حسینہ مکمل پردے میں حضرت صاحب کا پیغام لے کر زرینہ کے پاس بھی جاتی ہے اور اسے عیسائی خاندان کی قربت کے سنگین نتائج سے آگاہ کرکے کافی پیسہ اینٹھتی ہے۔ بے شمار وارداتوں کے بعد یہ دونوں میاں بیوی قانون کی گرفت میں آجاتے ہیں اور بگا اپنے والدین کے پاس پہنچ جاتا ہے۔ بگا کا باپ اورچچا بھی دولت کے لالچ میں اپنے بیٹے کو بوستان نامی مجرم کو ٹھیکے پر دے دیتے ہیں، جو اسے لے کر پیر خانے کا نیا کاروبار شروع کردیتا ہے، اور جب بگا کے والدین کے مطالبات بڑھنے لگتے ہیں تو اسے گلاگھونٹ کر قتل کردیا جاتا ہے، کیوں کہ زندہ پیر کے مقابلے میں مُردہ پیر سوا لاکھ کا ہوتا ہے۔
اکرم کے دوست جلال خان کا باپ حضرت گل بھی کہر کا دلچسپ کردار ہے۔ حضرت گل کبھی خرکار تھا اور اس نے لوٹ مار اور اس قسم کے کاموں سے خاصی دولت جمع کرلی ہے۔ اس نے کشمیر کے جہاد میں حصہ لیا تھا، جہاں چودہ سالہ بملا کماری کی آنکھوں کے سامنے اس کے والدین کو ان کا سونا چھین کر قتل کیا اور اسے بوری میں ڈال کر ساتھ لے آیا اور روتی پیٹتی لڑکی کو مسلمان کرکے اپنی بیوی بنا لیا۔ نکاح کے وقت بملا کماری سے کہتا ہے کہ اللہ کا شکرکرو تم کو مسلمان کردیا۔ روزگوشت کھاؤ اور موج اڑاؤ۔ رو مت، اللہ ناراض ہوجائے گا۔
عمدہ پلاٹ، شاندار اسلوب اور زندہ جاوید کرداروں سے مزین ناول ’’کہر‘‘ شروع سے آخر تک انتہائی دل چسپ ہے اوراس کا شمار بجا طور پر اردو ادب کے بہترین ناولوں میں کیا جا سکتا ہے۔
(جاری ہے)

حصہ