بندریا شہزادی

420

ایک مرتبہ اس کی نظر مجھ پر پڑ گئی۔ بس پھر کیا تھا وہ میرے چکر میں پڑ گیا اور اس کی غیر موجودگی میں مجھ سے ملنے آگیا۔ میں نے کہا کہ میں تمہاری ہر بات مان لونگی لیکن وہ (جن کا دشمن جن) کسی طرح مجھے تمہارے ملک میں لے جائے۔ اسے حیرت ہوئی کہ میں اپنے ملک کی بجائے تمہارے ملک کیوں آنا چاہتی ہوں۔ یہ ایک راز کی بات تھی لیکن پریشانی کی بات یہ تھی کہ جس جن نے مجھے اغوا کیا تھا وہ میری بو سونگ کر کہیں بھی پہنچ سکتا تھا اور یہ بات اس کے غضب کا سبب بن سکتی تھی۔ دوسری اہم بات یہ تھی کہ مجھے اللہ نے بنایا ہی بہت خوبصورت تھا اس لئے اپنی اصل شکل و صورت میں میں کسی جگہ بھی محفوظ نہیں رہ سکتی تھی۔ جب یہ دونوں باتیں میں نے اس جن کے سامنے رکھیں تو اس نے کہا یہ بات میرے لئے بہت مشکل نہیں۔ میں تمہیں بندریا بناسکتا ہوں جس کی وجہ سے تمہاری شکل بھی بدل جائے گی اور تمہارے جسم کی بو بھی بندروں جیسی ہوجائے گی لیکن اس شکل میں تم ایک دن رات یعنی 24 گھنٹوں سے زیادہ نہیں رہ سکو گی۔ لیکن۔۔۔۔ لیکن کہہ کر وہ کسی سوچ میں پڑ گیا۔
میں نے اس سے کہا جو بھی کہنا ہے جلدی کہو اور جو بھی کرنا ہے وہ جلدی کرو کہیں ایسا نہ ہو کہ مجھے اغوا کرنے والا اور تمہارا دوست جن لوٹ کر آجائے۔ اس نے کہا، لیکن بات یہ ہے کہ اگر اس ملک کا شہزادہ تم کو لے جائے خواہ وہ تم کو بندریا سمجھ کر ہی کیوں نہ لیجائے، پھر نہ تو میں تم کو کبھی دیکھ پاؤں گا اور نہ ہی وہ جن جس کا میں بظاہر بہت ہمدرد اور دوست ہوں۔ میں نے کہا ایسا اول تو ممکن نہیں کہ شہزادہ جنگل میں آئے بھی اور مجھے لے بھی جائے لیکن یہ بتاؤ کہ اگر بقول تمہارے 24 گھنٹے گزر گئے اور میں اصل شکل میں واپس آگئی تو پھر کیا ہوگا۔ اس صورت میں میں تمہارے دوست جن سے کیسے بچ سکوں گی۔ وہ کہنے لگا کہ اس کا ایک حل میرے پاس ہے لیکن اس کیلئے مجھے بہت تیزی کے ساتھ ایک عمل کرنا ہوگا لیکن مجھے کیا کرنا ہے یہ میں تم کو کسی صورت نہیں بتا سکتا۔ میرے لئے بھی جلد فیصلہ سنانا ضروری تھا لہٰذا میں نے یہی سوچا کہ فی الحال تو یہاں سے نکلا جائے۔ میں نے اس سے کہا کہ پھر دیر کیسی، چلوں اور مجھے لے چلو کہیں تمہارا دوست جن آہی نہ جائے۔ اس نے بھی دیر نہیں لگائی اور ہم پلک چھپکتے میں تمہارے اس جنگل میں آگئے۔ یہاں ایک گھنا درخت تھا جس پر وہ وہ مجھے چھوڑ کر اپنے کسی عمل کرنے کا کہہ کر فوراً ہی چلا گیا۔ میں نے درمیان میں بتایا تھا کہ ایک بات میں نے بھی اس جن سے چھپائی تھی جو مجھے یہاں لانے کیلئے تیار ہو گیا تھا۔ میں اس ملک میں محض اس لئے آنا چاہتی تھی کہ مجھے یہاں کے ایک بہت بڑے بزرگ کاعلم تھا جسے تم بھی جانتے ہوگے۔ اگر میں سب کی نظروں سے بچتے بچاتے ان تک پہنچ جاتی تو وہ مجھے دنیا کے ہر جن سے محفوظ کر سکتے تھے البتہ پریشانی یہ تھی کہ میں کسی کے سامنے بھی انسانی شکل میں نہیں آسکتی تھی۔ یہی وہ بات میرے لئے شدید پریشانی کا سبب تھی لیکن اس وقت مجھے صرف اور صرف اپنی عزت اور جان کے علاوہ کسی بھی چیز کی پرواہ نہیں تھی خواہ مجھے پوری عمر بندریا ہی بن کر گزارنا پڑجاتی یا میرا اللہ مجھے کوئی اور راہ نہ دکھا دیتا۔ جس عمل کے تحت میں بندریا بنائی گئی تھی اس عمل کے دوران مجھے بندریا بنانے والا جن جو کچھ پڑھ رہا تھا اس میں ایک بات ایسی بھی تھی جو میں سمجھ گئی تھی اور وہ یہ تھی کہ اگر کسی انسان نے مجھ سے شادی کرلی تو میں اپنی مرضی سے لڑکی بن سکتی ہوں اور اپنی مرضی سے بندریا لیکن شادی کے بعد کسی بھی انسان نے، خواہ وہ تمہار سگا بھائی، ماں یا باپ ہی کیوں نہ ہو، گھروں میں کام کرنے والیاں یا والے ہی کیوں نہ ہوں اگر ان کی نظر کسی ایسے وقت مجھ پر پڑگئی جبکہ میں لڑکی کی شکل میں ہوں تو پلک چھپتے میں میں اسی غار میں قید ہوجاؤں گی جو مجھے اغوا کرنے والے جن کے قبضے میں ہے۔ میں بے شک دنیا کے کسی جن کو نظر تو نہیں آ سکوں گی لیکن میں اس وقت تک اس غار سے نہ نکل سکوں گی جب تک کوئی اس غار تک پہنچ کر اس طوطے کی گردن مروڑ کر اس کو ہلاک نہ کردے۔
اللہ سے مدد مانگی جائے تو مرادیں ضرور پوری ہوتی ہیں۔ کیا یہ ضروری تھا کہ اِدھر میں درخت پر اتاری جاؤں اْدھر کوئی تیر آکر ٹھیک میرے پاس گرے وہ بھی اس ملک کے شہزادے کا۔ تیر جیسے ہی ایک تنے میں آکر پیوست ہوا تو میں بہت ہی خوف زدہ ہوگئی تھی۔ مجھے خیال آیا کہ مجھے دیکھ لیا گیا ہے۔ میری شکل و صورت بندریاؤں جیسی ہی تھی لیکن شرم و حیا کی وجہ سے میں نے یہاں آنے سے پہلے ہی اپنے کپڑے اپنے ساتھ ہی رکھ لئے تھے۔ اس لئے میں پریشان تھی کہ اگر کسی نے مجھے دیکھ ہی لیا ہے تو وہ ضرور مجھے پکڑ لے گا۔ میں کیونکہ حقیقت میں بندریا تو تھی نہیں اس لئے شاخوں در شاخوں بھاگ بھی نہیں سکتی تھی۔ تیر کو دیکھنے کے بعد میں نے اپنے آپ کو درختوں کے پتوں میں چھپا لیا تھا۔ اتنے میں میں ایک قافلہ آتا دیکھا۔ تم سب سے آگے تھے اور نہایت سادہ لباس میں تھے، وزیر اعظم کے ٹھاٹ باٹ دیکھ کر مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ ضرور شاہی اہل کاروں میں سے ہوگا۔ تمہارے بادشاہ کی سادگی اور انکساری کے قصے ہمارے ملک تک پہنچے ہوئے تھے۔ ہمارے ملک میں شہزادوں کی انسان دوستی اور سادگی کی شہرت بھی پہنچی ہوئی تھی اور یہ بات بھی بہت زباں زد عام تھی کہ اس ملک کے بادشاہ کے تین بیٹے ہیں۔ دو بہت سنجیدہ ہیں لیکن چھوٹا بیٹا بہت چلبلا ہے اس لئے مجھے شک گزرا کہ شاید اس آنے والے قافلے میں جو سب سے زیادہ عوامی لباس میں ہے وہ شہزادہ ہی ہوگا۔ قافلہ کسی چیز کو تلاش کر رہا تھا۔ اتنے میں ان کی نظر درخت کے ایک تنے میں پیوست تیر پر پڑی۔ تیر کو دیکھتے ہیں سب نے کے منہ سے جب میں نے یہ سنا کہ شہزادے، تمہارا تیر وہ رہا تو میں خوشی سے پاگل ہو گئی اور اللہ کے حضور سجدے میں گرگئی۔ اللہ کی مدد آن پہچی تھی اور اب مجھے پوری دنیا میں کوئی جن بھی نہ دیکھ سکتا تھا، نہ سن سکتا تھا اور نہ ہی سونگھ سکتا تھا لیکن شرط یہی تھی کہ تم مجھے اپنے ساتھ لے جاؤ۔ میں نے فیصلہ کرلیا تھا کہ یا تو میں مرجاؤں گی یا تمہیں مجبور کردونگی کہ تم مجھے اپنے محل تک لازماً لے جاؤ۔ تمہارے محل میں پہنچنے کا مطلب یہ تھا کہ اب میں ہر جن کی دسترس سے دور ہوجاؤں گی۔
اب تم سوچ رہے ہوگے کہ جب میں ایک انسان تھی تو بات کیوں نہیں کرتی تھیں۔ یہی ایک ایسی آزمائش تھی جو مجھے عمر بھر جھیلنا تھی اس لئے کہ میں بندر یا کی شکل میں انسانوں کی طرح ہر بات سن تو سکتی تھی لیکن بول نہیں سکتی تھی۔ دوسری مشکل یہ تھی کہ جب تک میری کسی انسان سے شادی نہیں ہوجاتی میں کبھی انسانی شکل میں آ ہی نہیں سکتی تھی۔ مجھے فی الحال جنوں کی نظروں سے بچنا تھا اس لئے مجھ پر ایک ہی دھن سوار تھی کہ میں تمہارے ساتھ تمہارے محل تک پہنچ جاؤں۔ بس پھر کیا تھا میں تمہاری گردن میں جھول گئی اور مجھے تم نے مایوس بھی نہیں کیا۔ راستے میں تم سب لوگوں کی باتوں سے مجھے ساری کہانی سمجھ میں آچکی تھی۔ میں پہچان چکی تھی کہ تم ہی وہ شہزادے ہو جس کی شرارتوں کے قصے ہمارے ملک میں بھی عام ہیں۔ بچیاں جب کسی لڑکے کی تعریف سنتی ہیں اور اس کی شرافت کی داستانیں اس کے سامنے آتی ہیں تو ان کے دل میں خوامخواہ بھی وہ لڑکا شہزادہ بن کر سامنے آنے لگتا ہے۔ تم تو پھر بھی شہزادے تھے تو ایک شہزادی ہونے کے ناطے میرے دل میں تمہارا شہزادہ بن بن کر آنا تو بنتا ہی تھا۔
یہاں رہتے ہوئے مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ اس ملک کا عجیب عجیب قانون ہیں اور ان ہی ایک قانون کی زد میں نہ صرف تم آگئے بلکہ پوری بادشاہت بھی خطرے میں پڑ گئی۔ یقین مانوں میں رات دن اللہ تعالیٰ سے دعاگو رہا کرتی تھی کہ اللہ تعالیٰ تمہیں، تمہارے خاندان اور پوری رعایا کو اس آزمائش سے نکالے۔ ایک رات میں اپنے کمرے میں اللہ کے حضور گڑگڑا گڑا کر بہت روئی اور بہت دعائیں مانگیں کہ اللہ تعالیٰ اگر کچھ اور نہیں کرسکتا تو مجھے اپنے پاس بلالے تاکہ تم، تمہارے والدین اور بھائی اس کرب سے نکل جائیں۔ ایک یہ صورت بھی اس آزمائش سے نکلنے کی تھی۔ مجھے تم لوگوں کی شرافت پر بھی بہت پیار آیا کیونکہ کسی بندریا کو کسی بھی ذریعے سے ہلاک کیا جاسکتا تھا اور بادشاہت بچائی جاسکتی تھی لیکن تم میں سے مجھے کوئی ایسا سوچتا بھی نظر نہیں آیا۔ میری اس کیفیت پر جیسے اللہ تعالیٰ نے مجھ پر واقعی کرم فرمادیا۔ میں نہ جانے کب سوئی تو میرے خواب میں میری مرحومہ ماں آئیں اور انھوں نے جیسے مجھ سے یہ کہا ہو کہ میری بیٹی پریشان نہ ہو۔ اللہ نے تمہاری سن لی ہے اور بادشاہ اور شہزادے کے دل میں تمہاری محبت بھردی ہے۔ شہزادہ تم سے اپنے ملک کے قانون کے مطابق شادی کر لے گا۔ یہ مسئلہ حل تو ہو جائے گا لیکن ابھی تم پر اور بھی بڑی آزمائشیں آنی ہیں لیکن جو اللہ موجودہ آزامائش سے تمہیں نکال سکتا ہے وہ آنے والی ہر آزمائش سے محفوظ بھی رکھ سکتا ہے اس لئے گھبرانہ نہیں۔
شہزادی کی ساری کہانی سن کر شہزادہ حیران رہ گیا اور کسی حد تک خوش بھی ہوا کہ اس کی شادی کسی بندریا سے نہیں دوست ملک کے بادشاہ کی بیٹی سے ہوئی ہے لیکن بات یہ تھی کہ یہ بات وہ کسی دیوار کو بھی نہیں بتا سکتا تھا۔ شہزادی نے صاف صاف کہہ دیا تھا کہ نہ تو کوئی اسے دیکھ سکتا ہے اور نہ ہی میری حقیقت کسی کے سامنے آنی چاہیے، ہر دو صورت میں وہ پلک جھپکتے میں نہ صرف غائب کر دی جائے گی بلکہ اسے دوبارہ حاصل کرنے کیلئے ہر صورت میں جن کو مارنا ہوگا۔
شادی کو کئی ہفتے گزر چکے تھے۔ وہ وزیر اعظم جو اس انوکھی شادی پر بہت خوش تھا کہ چلو اگر شہزادہ ایک طویل عرصے بادشاہ بھی رہا تو اس کی موت کے بعد تو بادشاہت اس کے اپنے خاندان میں آجائے گی اس لئے کہ کسی انسان سے کسی بندریا کی اولاد تو ہونے سے رہی۔ لیکن وہ چھوٹے شہزادے کو باقی دونوں شہزادوں سے زیادہ خوش دیکھ کر بہت ہی حیران ہوتا تھا۔ رفتہ رفتہ اس کی حیرانی اس کی پریشانی میں بھی بدلنے لگی۔ ایک تو اس کا سب بھائیوں سے زیادہ خوش خوش رہنا اور دوئم امور مملکت میں بے پناہ دلچسپی لینا اس کی فکر مندی کا سبب تھا۔ بادشاہ بھی اپنے بیٹے کو خوش و خرم اور اپنا مددگار دیکھ کر خوش رہنے لگا تھا۔ کئی مرتبہ بادشاہ اور ملکہ نے چاہا کہ وہ اپنی بہو کو دیکھیں لیکن اس کا جواب یہی ہوتا تھا کہ اگر وہ مجھے (شہزادے کو) خوش دیکھنا چاہتے ہیں اور بہو کی زندگی عزیز ہے تو وہ ایسی نہ تو کوئی تمنا کریں اور نہ ہی کوشش۔ اس کا جواب بہت تشویشناک تو ضرور تھا لیکن اب انھوں نے بھی بیٹے کی خوشی کی وجہ سے ایسی ہر فرمائش سے گریز اختیار کر لیا تھا۔ (جاری ہے)۔

حصہ