ہند کیسے بنے گا پاکستان؟۔

809

کیاآپ پکے نیٹیزن(Netizin) ہیں؟ میں نے سابقہ تحریروں میں کئی جگہ صورت حال اور دنیا میں رہتے ہوئے ایک الگ دنیا میں ڈوبی کیفیت کو دیکھ کر لکھا تھاکہ انٹرنیٹ ایڈیکشن اور سوشل میڈیا نے اپنی ایک الگ دُنیا بنا لی ہے، اب اس دنیا کے رہنے والوںکے لیے الگ نام/ اصطلاح بھی دیکھنے، پڑھنے کو مل گئی۔ میرا تعارف تو اس اصطلاح سے چند روز قبل ایک مؤقر انگریزی اخبار کی ایک رپورٹ سے ہوا۔ ویسے تو مغرب نے اپنے اطراف میں اس سیلاب میں ڈوبے ہوئے لوگوں کو 1990 ء کی دہائی میں یہ نام دے دیا تھا، مگر یہاں تو سیلاب ذرا بعد میں ہی پہنچا ہے۔ اصل میں تو internet اور citizenکو جوڑ کر نیا لفظ بنایا گیا ہے، جیسے اور بھی کئی الفاظ ہیں جن میں brunch یعنی (بریک فاسٹ جمع لنچ حاصل برنچ) اسی طرح معروف ادارہ Microsoftبھی مائیکرو کمپیوٹر اور سافٹ ویئر کے ملاپ سے بنا ہے۔ Oxbridge معروف جامعات آکسفورڈ اور کیمبرج کے ملاپ سے بنا ہے۔ آج کل آپ نے لفظ brexitکی گونج بھی سنی ہوگی، وہ بھی برطانیہ کے باہر جانے سے یعنی Britian اور Exit سے مل کر بنا ہے۔ ایسے ملاپ شدہ الفاظ یا اصطلاحات کو پورمینٹیو کہتے ہیں۔
16 اکتوبر کو ٹوئٹر ٹرینڈ لسٹ میں قائدِ ملت، پاکستان کے پہلے وزیراعظم نواب زادہ لیاقت علی خان شہید کے حوالے سے کوئی ہیش ٹیگ نہ دیکھ کر دُکھ ہوا۔ اس کی جگہ برطانوی شاہی جوڑے کی پاکستان آمد کا جشن ہی غالب محسوس ہوا۔ اس پر کسی منچلے نے جملہ داغا کہ ’آقا تو آقا ہی ہوتا ہے چاہے سابق ہی کیوں نہ ہو۔‘ ہاں 16اکتوبرکو worldfoodday کا ہیش ٹیگ تو سرکاری آئی ڈی پر موجود تھا، لیکن جس پر ٹرینڈ اجتماعی سوچ اور فکر کے ساتھ بنانا چاہیے تھا اس قائد ملت کے لیے ایک سادی پوسٹ ڈال کر گزار دیا گیا تھا، اب اس کے بعد قوم سے کیا توقع رکھی جا سکتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ اپنے آپ کو (نام نہاد) مسلم لیگ کہنے والوں نے تو وہ پوسٹ بھی ڈالنے کی زحمت محسوس نہیں کی۔ البتہ پاکستان کے قومی اخبارات میں اس برسی کے موقع پر خصوصی ضمیمہ کی شکل میں ذمہ دارانہ صحافت ضرور نظر آئی۔ ویسے ہمارا ’لیاقت علی‘ سے پہلا تعارف ان کی شہادت کے اہم ترین واقعہ کو بچوں کے کھیل میں سننے کا موقع ملا تھا، اور وہ کچھ یوں آتا تھا کہ ’لیاقت علی کو گولی لگی… ساری دنیا رونے لگی… روتے روتے ہچکی لگی …کھا لو بیٹا مونگ پھلی …مونگ پھلی میں دانا نہیں… ہم تمہارے نانا نہیں…‘ اب یہ میں بالکل نہیں جانتا کہ یہ کام کس سازش کے تحت کروایا گیا تھا۔ لفظ سازش یوں کہ پاکستان کے پہلے وزیراعظم، اور صرف وزیراعظم نہیں بلکہ تحریک پاکستان کے اہم رکن اور بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے بھی اہم ساتھی تھے۔ قائدِ مِلّت کی شہادت16اکتوبر1951ء کو راول پنڈی میں ایک بھرے جلسے میں ہوئی۔ ان کی زبان پر آخری الفاظ بھی اللہ سے پاکستان کی حفاظت سے متعلق ہی تھے۔ اب جس طرح ان کی شہادت ہوئی، جس وقت ہوئی وہ سب آج تک معما ہی ہے۔ ریکارڈ کے مطابق بھرے جلسے میں دو گولیاں چلیں، ایک سے وزیراعظم شہید ہوئے، دوسری گولی قاتل کو لگی۔ قتل کی تفتیش کا کام مرکز کے ایک پولیس افسر کے سپرد ہوا۔ وہ بدقسمت افسر کچھ دستاویز لیے کراچی آرہا تھا کہ اس کا ہوائی جہاز کراچی پہنچنے سے پندرہ منٹ پہلے راستے ہی میں گر کر تباہ ہوگیا۔ افسر مرگیا، تفتیش کے تمام کاغذ بھی جل گئے۔چار سال قبل بننے والے ملک کے مقبول وزیراعظم کے ساتھ رچے گئے اس خونیں ڈرامے کی پراسراریت ایک تابندہ روایت بن گئی، جو اُن کے بعد پھر اُسی شہرکی ہوائی پرواز میں صدر ضیا الحق اور پھر اُسی شہر میں سرِ عام جلسے جیسے ہی ماحول میں دن دہاڑے قتل ہونے والی سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو تک جاری ہے۔کسی کے قتل کا کوئی سراغ نہیں مل سکا۔ سارا بوجھ قدرت کے سر تھوپ دیا گیا، اور اگر کوئی انکوائری ہوئی بھی تو اس کی رپورٹ عوام کے سامنے نہیں آئی۔ قاتل سید اکبر کے علاوہ کوئی اور بھی اس کام میں اُس کے ساتھ شریک تھا یا نہیں، قتل کسی سازش کے تحت ہوا یا یہ ایک انفرادی فعل تھا، قاتل کو کس نے مارا؟ قاتل کے پاس ہزاروں روپے کی بھاری نقدی کہاں سے برآمد ہوئی؟ یہ سب سوالات آج بھی معما ہیں۔
چلیں آگے بڑھتے ہیں، نئی نسل یعنی ’نیٹیزن‘ ایسے سنجیدہ معاملات سے فی الحال دور ہے۔وہ تو ’اُشنا شاہ‘ کی پیزا ڈلیوری بوائے کے ساتھ مبینہ بدتمیزی پر ٹرول کرنے میں لگی ہے یا پھر شاہی جوڑے کے دورے پر تبصرہ کرنے میں مصروف ہے۔ ویسے اس کے ساتھ بھی خوب ہوگیا، اس نے کیا بتانے و سمجھانے کے لیے پوسٹ لگائی، لیکن الفاظ کا چناؤ مردوں کی تضحیک یا مبینہ غریب پیزا ڈلیوری والے کا مذاق اڑانے کے مترادف محسوس ہوا تو پھر موصوفہ کو لینے کے دینے پڑ گئے۔ اتنی خبریں ان کی کسی سیریل پر نہ بنی ہوں گی جتنا ان کی ٹوئٹ پر ردعمل آیا۔ اس کے علاوہ گزشتہ ہفتے ٹوئٹر پر بننے والے دیگر ٹرینڈ میں سب سے زیادہ ہیش ٹیگ شاہی جوڑا لے گیا۔ #RoyalsVisitPakistan، #KateMiddleton،#royalvisit، #Chitral برطانوی شاہی جوڑے کی پاکستان آمد سے قبل اس موضوع پر ہیش ٹیگ شروع ہوئے اور دورے کے بعد تک جاری رہے۔ شہزادی کے زیب تن کیے گئے ملبوسات، ملاقاتیں، رکشہ، اسکول وزٹ، چترالی ٹوپی، دورہ شمالی علاقہ جات،لاہور، کرکٹ سب کچھ شامل رہا۔
اسی طرح #WorldFoodDayبھی عالمی سطح پر ٹرینڈ لسٹ میں شامل رہا۔ محتاط اندازے کے مطابق 1.3بلین ٹن کھانا ہر سال ضائع ہوتا ہے۔( الجزیرہ)۔ اس عالمی دن کے موقع پر سماجی میڈیا پر اس ہیش ٹیگ کے ساتھ ابھرنے والے ٹرینڈ دنیا بھر میں کھانا کھانے، صحت مندکھانا کھانے، کھانے کی قدر کرنے، بھوکوں کا احساس دلا کر کھانے کے ضیاع کی جانب متوجہ کرتارہا۔اسی تناظر میں لیکن اس سے کچھ دن قبل ایک گھی کمپنی نے کھانے کے ضیاع کو بچانے کے خوبصور ت تصور کو ویڈیو اشتہار سے پیش کیا جسے بے حد پذیرائی ملی۔ایک ورز قبل 15 اکتوبر کو #GlobalHandwashingDayسے ہاتھ دھونے، بلکہ اچھی طرح صابن سے ہاتھ دھونے کی آگہی پھیلانے کی کوشش کی گئی۔یہ بات ٹھیک ہے کہ اچھی طرح ہاتھ دھونا نہایت اہم ہے اور کئی بیماریوں سے محفوظ رکھتا ہے اور بچوں کو اس کی عادت ڈلوانی چاہیے، لیکن پاکستان یا عالم اسلام کی جانب سے اس ہیش ٹیگ میں اور اس سے پہلے ورلڈ فوڈ ڈے کے ذیل میں اہم اسلامی احکامات و تعلیمات برائے صفائی و رزق کی اہمیت مختلف پوسٹوں کی صورت نمایاں طور پر مجھے نظر نہیں آئے۔چونکہ ان ایام کو مغرب یا مغربی ممالک میں بھر پور انداز سے منایا جاتاہے، اس لیے میرے نزدیک اسلام کی آفاقی دعوت و تعلیمات کو عام کرنے اور حکمت سے سمجھانے، متوجہ کرنے کا یہ بہترین، پر اثر موقع ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ ٹوئٹر پر سیاسی محاذ حسب سابق گرم رہا۔حکومت اپنا راگ الاپتی رہی، بلکہ اس ہفتہ تو مصالحتی اقدامات،امن اقدامات،ا من سفیر کے طور پر عمران خان صاحب چین کے بعد سعودی عرب، ایران کے مبینہ کامیاب دوروں میں چھائے رہے۔ نہ جانے کیوں وہ ملک میں کم وقت گزار رہے تھے؟مولانا فضل الرحمٰن کے ’مارچ نما دھرنے ‘کے حوالے سے مستقل معاملات خراب ہو رہے تھے، حکومت ابلاغی پابندیوں کا سہارا لے رہی تھی تو سماجی میڈیا پر دھرا دھڑ ٹرینڈ بنننا شروع ہو گئے تھے۔یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس مارچ نما دھرنے میں چاہے کچھ کرلیں مخصوص لوگ ہی شریک ہوں گے،یوتھیوں نے اس کی مقبولیت سے خوف زدہ ہو کر پچھلے ہفتہ ’جعلی سرکلر‘ والی پھلجھڑی چھوڑی، پھر اس ہفتہ ’ قادیانی حمایت‘ کا جھنجھنا بجا دیا۔میں تو یہ جانتا ہوں کہ یہ سب کر کے انہوں نے اپنے خوف اور مارچ کے شرکاء کو شرکت کے لیے مزید ایمانی تقویت فراہم کی ہے۔ رضا کاروں کی فورس کا پہلے ہی سوشل میڈیا پر چرچا جاری تھا، جیوکے پروگرام کی ویڈیو جس میں جے یو آئی کے رہنما نے لکھ کر دے دیا کہ اس مارچ میں پندرہ لاکھ لوگ شریک ہونگے، جیو نیوز پر مولانا فضل الرحمٰن کی لائیو پریس کانفرنس نشر ہونے سے روکنے اور وجہ بتانے والی ویڈیو کلپ، پی ٹی آئی کی ڈنڈہ بردار فورس کے کلپ، ایسے میں فواد چوہدری کا نوکریوں والا بیان سب مل ملا کر بھاری بھرکم وزن اختیار کرگئے۔
ایسے میں ساہیوال، قصور، فیصل آباد کے بعد سانحہ کاٹھور ہو گیا۔ٹوئٹر پر#PakForcesKilledPashtuns کئی گھنٹے سخت ترین ری ایکشن دیتا نظر آیا۔اس پربلال احمدلکھتے ہیں کہ ’3 انسانوں کی جان معمولی بات نہیں، تینوں ٹرانسپورٹرز کا تعلق وزیرستان سے ہونا اہم بات ہے۔آج کے دور میں اِسے چھپانا ناممکن ہے۔بہتر ہے کہ حکومت سامنے آئے، بتایا جائے کہ واقعی غلطی سرزد ہوئی یا غفلت، کسی حال میں پورے ادارے کو اسٹیک پر نہیں لگایا جا سکتا۔ جس سے جرم سرزد ہوا اُسے قانون کے کٹہرے میں لانا چاہیے تاکہ عوام کا ریاست پر اعتماد قائم و دائم رہے۔اگر آپ ماضی کی طرح نظر انداز یا چھپانے کی کوشش کریں گے تو نفرتیں، تلخیاںبڑھیں گی، کچھ کیے بغیر دشمن کو موقعہ میسر آئے گا، ملک دشمن قوتوں کے لیے ایسے واقعات ایجنڈے کے لیے ماحول سازگار کرنے کا باعث بنتے ہیں۔کچھ کریں کہ اس پربھی کہیںمنظور پشتین نہ کھڑا ہو جائے۔مقتولین کے اہل خانہ، دوست رشتہ دار، احباب اور سبھی کو چاہیے کہ تحقیقات کا انتظار کیے بغیر کسی پر الزام عائد نہ کریں، ممکن ہے یہ واقعی انسانی غلطی کا معاملہ ہو۔‘
کشمیر ایشو کا شور یقینا تاب نہ لاکر اب سماجی میڈیا میں کہیں دب گیا ہے۔ اب تو سعودی ایران پر بات ہو رہی ہے۔ ایسے میں جماعت اسلامی نے تواتر سے ایشوکو زندہ رکھنے کی خاطر احتجاجی مارچ کا سلسلہ 70دن سے بدستور جاری رکھاہوا ہے۔اس ہفتہ حیدرآباد میں مرد و خواتین جبکہ اسلام آباد میں خواتین کا ایک بڑا احتجاجی مارچ منعقد کیا۔ان مارچوں کا بھارت پر کیا اثر ہوا یا کشمیریوں کو اس سے کیا فائدہ ہوا یہ میرے سامنے نہیں آیا، لیکن جو کچھ سامنے آیا وہ بہت حیرت انگیز معاملہ تھا۔ یہ بات میں وثوق سے کہہ سکتا ہوںکہ مختلف وجوہات کی بناء پر بھارت سے مرعوبیت ہمارے درمیان بھی شدت سے پائی جاتی ہے۔اسلامی جمعیت طلبہ کراچی نے تقریباًڈیڑھ ماہ کے انتظار کے بعد اہل کشمیر کے حق میں ایک بڑے عوامی پروگرام ’آزادی کشمیرکانفرنس‘ کے لیے ایک سلوگن ’ اب ہند بنے گا پاکستان‘ کے تحت مہم چلائی۔ مہم بھی چل گئی، کانفرنس بھی ہو گئی باتیں، نعرے دعوے سب روایتی انداز سے ہوگئے۔لیکن بات کہاں اٹکی یہ دیکھیں۔ اس مہم یا سلوگن کے لیے ایک 46سیکنڈ کی تعارفی ویڈیو بھی بنائی تھی۔ ویڈیو کیا تھی۔ پورا دھماکہ تھا جس کے چلنے سے شروع میں پاکستان میں تو شاید کچھ خاص نہیں ہوا البتہ بھارت زیادہ لرز گیا۔بھارت کے چینل اے بی پی نیوز (سابقہ نام: اسٹار نیوز)نے خوف کا اظہار کرتے ہوئے نہایت بھونڈے انداز سے ایک 4:30منٹ کی رپورٹ بھی نشر کر ڈالی۔ اب اس پر نئی بحث چل پڑی، ویڈیو جس کے بارے میں خود بھارتی ٹی وی کا کہناتھا کہا سے سوشل میڈیا (یوٹیوب) پر کوئی نہیں دیکھ رہا تھااُسے اپنے سیٹلائٹ چینل پر چلا کر خوب مارکیٹنگ بھی کر ڈالی۔اس کا اثر اور کریڈٹ ویڈیو بنانے والوںنے بھی لینا تھا۔ سو اس ویڈیو کے آئیڈیے اسکرپٹ کے تخلیق کار معروف بلاگر، مصنف اور اشتہارکاری کی صنعت سے گہرا تعلق رکھنے والے ایک محب وطن پاکستانی صہیب جمال نے بھی ویڈیو کے لیے بھارتی ’مدح سرائی ‘کو اعزاز جانا کیونکہ 70دنوں سے بے جان مظاہروں، زنجیروں اور بے سروپا تقریری بیانات نے شاید اتنی ہلچل نہیں مچائی تھی جتنا اس ایک چھوٹی سی ویڈیو نے ارتعاش برپا کیا۔صہیب جمال اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیںکہ ’جب چار دن پہلے “ہند بنے گا پاکستان” کلپ اپ لوڈ کیا تو ایک عام سا عزم اور ہلکا سا انڈیا کو ڈرانے کا مذاق لگا، بالکل ایسے جیسے ہم کسی دوست کو اچانک بھؤ کردیں۔پھر کچھ ڈھیلے لبرلز کو دیکھا جو اس کلپ پر انتہائی درجے کے بکری بن کر ڈر کر کہہ رہے تھے “ہمیں ایسی کلپ نہیں بنانی چاہئیں، بچوں میں زہر نہیں گھولنا چاہیے، ہمیں سائنس کے میدان میں آگے نکلنا چاہیے ” وغیرہ وغیرہ۔ جن بچوں میں تو زہر گھولنے کی بات کر رہا ہے ان کے سامنے دس منٹ بیٹھ جائیں تو سمجھ آ جائے گی کہ یہ اس عمر میں کیا کیا حاصل کرچکے ہیں اور کیا کیا جانتے ہیں۔حافظِ قرآن ہونا ہی ایسا اعزاز ہے کہ زندگی بھر ایک لفظ بھی نہ پڑھیں تو تم لوگ ان کے پاؤں کی جوتی بھی نہیں۔اس کے باوجود اپنے اسکول میں چند مہینوں میں الحمد للّٰہ نمایاں طالب علم ہیں۔خیر یہ تو ہوگئی دیسی لبرلز کی ایسی تیسی۔اس کلپ نے انڈیا میں جو کیا انڈینز کا جو ری ایکشن تھا، بالکل کچھ ڈھائی تولہ دیسی لبرلز کا بھی تھا، خوشی ہوئی یہ ہمارا گھی کھا کر انڈیا کی زبان بولتے ہیں اور سب کو پتا ہے گھی کس کو ہضم نہیں ہوتا؟ ایک اور دوست لکھتے ہیںکہ’ہندبنیگاپاکستان انتہائی احمقانہ ٹیگ لائن ہے۔ مزید یہ کہ اس عنوان سے چلنے والی مہم اور وائرل ہونے والی اکثر ویڈیوز شدید فضول، سطحی اور وسائل کا ضیاع ہیں۔ اسلامی جمعیت طلبہ کو اسی اور نوے کی دہائی سے نکل کر ڈھنگ کے کاموں پر اپنی توجہ مرکوز کرنی چاہئے۔ خواہم خوا اپنی شناخت الٹرا نیشنلسٹ اور ہیٹ مونگر کے طور پر کروانے اور اس پر خوش ہونے کا خیال ہی عجیب اور غیر تعمیری ہے۔‘ یہ بات درست اور افسوس ناک تھی کہ ہندوستان کی حقیقت کو سمجھے بغیر لوگ اس ویڈیو اور اس سلوگن کومعمولی یا حقیر، فقیر سمجھ رہے تھے۔میرے نزدیک یہ سلوگن ایک انتہائی سنجیدہ، نظریاتی اور اعلیٰ وژن ہے۔ آپ بھارت سے مرعوب ذہنیت کے ساتھ اس نعرے پر تنقید کر کے پاکستان کے وجود اور پاکستان کے نظریہ پر سوال اٹھا دیتے ہیں۔پاکستان کا قیام دو قومی نظریہ کی بنیاد پر ہوا تھا۔ اندرا گاندھی نے سقوط ڈھاکہ پر جس نظریہ پاکستان کو ڈبویا تھا آج وہی ڈوبا نظریہ بھارت کے اندر سرایت کر گیا ہے۔ یہ جو آئے دن 15 اگست کو بچ جانے والے ہندوستان میں مسلمانوں کو گائے کے گوشت پر سر عام از خود سزاؤں کا عمل ہے، یہ جو تبریز انصاری جیسے سیکڑوں مسلم نوجوانوں کو ‘جے شری رام’ کا نعرہ لگوا کر ماردیا جا تا ہے۔ طلاق آرڈیننس ہے، 5000سے زائد مسلم کش فسادات ہیں۔یہ جو فوراً “پاکستان چلے جاؤ” کا نعرہ لگتا ہے۔ کبھی نیپال، سعودیہ، بنگلہ دیش, سری لنکا، بھوٹان کا نام کیوں نہیں لیاجاتا؟ کبھی سوچنے کی کوشش کی آپ نے… اس ڈوبے ہوئے لیکن کامیاب دو قومی نظریہ کو وہ خود بھارت میں ہوا دے رہے ہیں۔ایسے ہی حالات تھے نا تقسیم ہند سے قبل مسلمانوں کے ساتھ ؟؟تو پاکستان بنا۔اب ہندوستان کے 172ملین مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ بقیہ ہند کو پاکستان بنانے کے مترادف ہی ہے نا۔ ہمارے حکمرانوں کے پاس 70 دن سے تقریروںمیں بھی کوئی واضح وژن یا پالیسی یا روڈ میپ تاحال نہیں ہے۔ آپ دیکھ چکے ہیں۔ایسے میں کوئی نظریاتی نعرہ چاہے وہ کتنا جذباتی ہی کیوں نہ ہو۔ وقت کی ضرورت ہے۔ویسے کلمہ کی بنیاد پر کشمیریوں سے ہمارا رشتہ بھی تو جذباتی ہی ہے نا؟یوں بھی ہمارے جنرل فرماتے ہیں کہ ہم آخری گولی تک لڑیں گے۔اب سچ بتائیں؟۔تو آپ اس آخری گولی تک لڑی جانے والی متوقع لڑائی کے نتیجہ کی دعا یقینا اس نعرے کے سوا کیا کریں گے کہ”اب ہند بنے گا پاکستانـ‘۔

حصہ