کتنا لاچار بنادیتی ہے یہ غربت

1291

آصف اقبال انصاری
انسانی جسم میں پیٹ ایک وہ چیز ہے جو انسان کو متحیر العقول کارناموں کا عامل بنادیتی ہے۔ اس معاملے کی نزاکت کا اندازہ یوں لگالیں کہ ایک حدیث میں سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:” کوئی بعید نہیں کہ فقر کفر کا سبب بن جائے” کیا مطلب؟؟
فقر وفاقہ، افلاس و غربت ایک ایسی دشوار گزار گھاٹی ہے جس کے ایک طرف ایمان کا اعلیٰ مرتبہ اور دوسری جانب کفر ہے۔ تنگی ٔ حال اور بھوک و افلاس گوکہ جسمانی لاغر بناتے ہیں مگر زبان کو وہ قوت دیتے ہیں کہ رب کی وحدانیت کا پرچار کرنے والا بھی وہ بول بولنے لگتا ہے جو اسے دائرہ ایمان میں سکونت کے قابل نہیں چھوڑتے۔ ”
کیا ہم ہی ملے تھے اللہ کو غریب بنانے کے لیے؟ اللہ کو تو غریبوں سے کوئی واسطہ ہی نہیں؟ اللہ تو بس امیروں کی جیبیں ہی بھرتا ہے۔۔۔وغیرہ( نعوذباللہ) جیسے کفریہ کلمات قصرِ ایمان سے نکال باہر کردیتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ آپ علیہ السلام سے منقول دعاؤں میں یہ دعا بھی کثرت سے ملتی ہے کہ آپ اس ( فقر و غربت) سے پناہ مانگا کرتے تھے۔ ’’اے اللہ! میں آپ کی پناہ میں آتا ہوں کفر سے، فقر و فاقہ سے۔‘‘
حصولِ آزادی کی ایک طویل مدت کے بعد بھی وطن عزیر کی رگوں میں غربت کا خون اب تک بڑی تیزی سے دوڑ رہا ہے۔ حکومت تاحال غربت کی پیاس بجھانے میں ناکام رہی ہے۔ عہدے تو تبدیل ہوتے ہیں ‘چہرے بھی تبدیل ہوجاتے ہیں مگر وہ سوچ تبدیل نہیں ہو پاتی ایسا منصوبہ تیار نہیں کیا جاتاجو غربت کے خاتمے کا سبب بن سکے۔ ناجانے اب تک کتنے معصوم پھول غربت کے مارے ابدی نیند سو چکے ہیں۔ آئے دن کا یہ معمول ہے کہ جب اخباروں کی سرخیوں پر نظر جاتی ہے تو کچھ یوں نقش نظر آتا ہے” باپ نے اپنے چار بچوں کو غربت کی وجہ سے موت کے گھاٹ اتار دیا” کبھی ایسا جملہ رقم ہوتا ہے” غربت سے تنگ آکر باپ نے اپنے دو بچوں کا گلا گھونٹ دیا۔ اس طرح کی خبریں کوئی آٹے میں نمک کے برابر نہیں بلکہ آٹے کی مقدار کے برابر ہوتی ہیں۔
گزشتہ چند روز قبل ایک راستے سے گزر ہوا، ایک ماں اپنے دو بچوں کو تھامے سنسان راستے میں اپنے دامن پھیلائے، اپنی عفت و پاکدامنی کو خطرہ میں ڈال کر ،راستے کے کنارے بیٹھی تھی۔ آخر کس چیز نے اس خاتون کو چار دیواری کی زینت بننے کے بجائے اپنی عزت کو خطرہ میں ڈالنے پر مجبور کیا؟
یہ کوئی ایک واقعہ نہیں، قطع نظر پیشہ وروں کے صرف شہر کراچی کی سڑکوں میں نکلیں، ہزاروں کی تعداد میں ایسے معصوم چہرے نظر آئیں گے، جن کی عمر ہے کھیلنے کودنے کی، مگر وہ بھیک کا پیالہ ہاتھ میں تھامے نظر آئیں گے۔ اگر بات صرف بڑے عمر کے افراد کی ہوتی تب بھی خیر! مگر ان معصوم بچوں اور بچیوں کا کیا قصور؟ کس چیز کی سزا ان کو دی جارہی ہے؟ آخر یہ کس چیز کی سزا بھگتنے پر مجبور ہیں؟ کیا ان کا حق نہیں کہ وہ بھی بھیک مانگ کر بھوک مٹانے کے بجائے، ہنرمند اور تعلیم یافتہ بن کر اپنے لیے اچھے مستقبل کا سامان تیار کرسکیں۔ ایک طرف مہنگائی کا طوفانِ مسلسل اور دوسری طرف سیٹوں کے پجاری، بے چاری عوام کیا کیا برداشت کرے۔
اس وقت ایک اور منظر نے ذہن کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ دل چاہ رہا ہے کہ نقش دماغ سے نقش قرطاس کردوں۔ ’’ہمارے علاقے میں ہفتہ وار بازار لگتا ہے۔ چوں کہ منزل تک جانے کے لیے اس راستے کو ہی اختیار کرنا پڑتا ہے۔بازار لگنے والے دن کی اگلی صبح اس مقام پر کچھ بڑی عمر کی خواتین کچھ چنتے نظر آتی ہیں۔ بارہا دیکھا، مگر کبھی فکر کے گھوڑے نہیں دوڑائے۔ مگر ایک ہفتہ من کے خیال نے اس جگہ قدم اس طرح جمادیے کہ قدم آگے بڑھنے کی جرأت نہ کرسکے۔ پھر کیا تھا، غور سے دیکھنے لگا۔ جو دیکھا اس منظر کے درد و الم کو لفظوں کے پیرائے میں بیان کرنا از حد مشکل ہے۔ وہ خواتین سڑی گلی سبزیاں اپنے ہاتھ میں تھامے تھیلے میں ذخیرہ کررہی ہیں۔‘‘
یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ یہ چنیدہ سبزیاں وہ ہوتی ہیں جن کو سبزی فروش اچھی سبزیوں کو خراب ہونے سے بچانے کے لیے زمین پر دے مارتا ہے۔ مگر اس کو بھی کیا معلوم کے اس کے بھی قدر دان اور حاجت مند موجود ہیں۔
مساجد میں بعد نماز کے اعلان سوال بھی روز بہ روز بڑھتا جارہا ہے۔ گو کہ شرعاً اس کی اجازت نہیں دی گئی مگر درد کے ماروں اور غربت کے ستائے ہوئے آخر کہاں جائیں…؟

حصہ