چشم دید گواہ

259

ظہیرخان
بقرعید میں ابھی تین دن باقی تھے۔ لیاقت آباد کی بکرا منڈی میں لوگوں کا ہجوم تھا۔ سورج غروب ہوچکا تھا۔ فقیر محمد بکروں کا بیوپاری تھا، اپنے سارے دن کی کمائی کپڑے کے ایک تھیلے میں رکھی اور اپنے آدمی کرمو کو یہ ہدایت دیتے ہوئے کہ جانوروں کا خیال رکھے، وہاں سے رخصت ہوگیا۔ سڑک قریب ہی تھی، فقیر محمد کو زیادہ دور پیدل نہیں چلنا پڑا، اب وہ بس اسٹاپ پر کھڑا ملیر جانے والی بس کا منتظر تھا۔
لڈّن لیاقت آباد کا رہائشی تھا۔ چوری کرنا، لوگوں کی جیبیں کاٹنا ہی اس کا پیشہ تھا۔ اِس فن میں اُسے مہارت حاصل تھی اور اُسے اپنے پیشے پر ناز بھی تھا۔ وہ کہتا تھا کہ آدمی کسی بھی طرح کی محنت مزدوری کرلے، بس عزت کی روٹی کھائے، کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلائے، بھیک نہ مانگے چاہے IMF ہی کیوں نہ ہو۔ کئی روز سے اُس کی نظر فقیر محمد پر تھی، مگر لڈّن ابھی تک اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوسکا تھا۔ آج اُس نے پختہ ارادہ کرلیا تھا کہ فقیر محمد کا روپیوں سے بھرا تھیلا اسے ہر حال میں حاصل کرنا ہے۔ لہٰذا بکرا منڈی سے ہی وہ فقیر محمد کے پیچھے لگ گیا تھا۔ اس وقت وہ بھی اسی بس اسٹاپ پر کھڑا تھا جہاں فقیر محمد تھا۔ بس آگئی، فقیر محمد کے ساتھ لڈّن بھی بس میں سوار ہوگیا۔ بس ملیر پہنچی، فقیر محمد گلیوں سے ہوتا ہوا اپنے گھر جو ملیر ندی کے کنارے غیر قانونی پلاٹ پر تعمیر تھا، پہنچ گیا۔ چونکہ ندی کا کنارہ تھا اس لیے گھر کے باہر اچھی خاصی جگہ تھی جس پر فقیر محمد نے جانوروں کا باڑا بنایا ہوا تھا۔ بانس بلی لگاکر ہر طرف سے گھیرا ہوا تھا اور اوپر ہلکا پھلکا سائبان بھی تھا۔
فقیر محمد جانوروں کے باڑے سے ہوتا ہوا گھر میں داخل ہوگیا۔ لڈّن بکرے بکریوں کے درمیان سے ہوتا ہوا باڑے کے ایک کونے میں چُھپ کر بیٹھ گیا۔ اُس کا ارادہ تھا کہ رات کے کسی پہر جب گھر والے گہری نیند میں ہوں گے وہ کسی طرح گھر میں داخل ہوجائے گا اور اپنی کارروائی کرڈالے گا۔
رات کا دوسرا پہر تھا، ایک شخص جس کی شکل صاف نظر نہیں آرہی تھی، گرم چادر اوڑھے باڑے میں داخل ہوکر گھر کے دروازے کے قریب جاکھڑا ہوا اور چند ہی لمحوں میں گھر کا دروازہ کھل گیا۔ ایسا لگتا ہے جیسے کوئی اس کی آمد کا پہلے سے منتظر تھا، جس نے فوراً ہی دروازہ کھول دیا۔ وہ شخص گھر میں داخل ہوگیا۔
لڈّن نے سوچا وہ بھی گھر کا کوئی فرد ہوگا جو دیر سے گھر پہنچا ہے، لہٰذا اب اور انتظار کرنا پڑے گا تاکہ یہ شخص بھی گہری نیند سوجائے۔ مگر ابھی کوئی آدھا گھنٹہ ہی گزرا ہوگا کہ لڈّن نے عجیب و غریب نظارہ دیکھا۔ گھر کا دروازہ کھلا اور ایک شخص ایک لاش گھسیٹتا ہوا باہر آیا، ایک عورت بھی اس کے ساتھ تھی۔ لڈن نے اندازہ لگایا کہ لاش گھسیٹنے والا وہی شخص ہے جو ابھی کچھ دیر قبل چادر اوڑھے گھر میں داخل ہوا تھا۔ لاش گھسیٹ کر باڑے کے ایک طرف لے جائی گئی، وہاں بندھے دو بکروں کی رسی عورت نے کھولی اور انہیں دوسری جگہ باندھ دیا۔ مرد نے پُھرتیلے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک طرف رکھا ہوا بیلچہ اٹھایا اور لاش کے قریب کی جگہ کی کھدائی شروع کردی۔ کوئی ایک گھنٹہ لگا ہوگا کہ اچھا خاصا گڑھا تیار ہوگیا۔ مرد اور عورت نے مل کر لاش گھسیٹی اور گڑھے میں دھکیل دی۔ دونوں نے مل کر گڑھے میں مٹی ڈالنی شروع کی، گڑھا مٹی سے بھر گیا، باقی مٹی اردگرد پھیلا دی گئی۔ عورت نے ان دونوں بکروں کو واپس لاکر اسی جگہ باندھ دیا جہاں وہ پہلے سے بندھے تھے۔ لاش مٹی میں دبا دی گئی، مگر راز مٹی میں نہ دب سکا، دو اجنبی آنکھیں رازدار بن گئیں اور بعد میں یہی رازداں ان دونوں کی بربادی کا سبب بنا۔ مرد اور عورت دونوں اپنے کامیاب آپریشن پر خوش تھے، راستے کا کانٹا صاف ہوچکا تھا، مگر انہیں نہیں پتا کہ اللہ کی کیا مرضی ہے اور آگے کیا ہونے والا ہے۔ دونوں گھر کے اندر چلے گئے، دروازہ بند ہوگیا۔
لڈّن حیران و پریشان تھا کہ یہ سب کیا ہورہا ہے! وہ یہاں اپنے آنے کا مقصد بھی بھول چکا تھا۔ صبح کے چار بجنے والے تھے، لڈّن نے اسی میں بہتری سمجھی کہ اب یہاں سے نکل جائے، کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ کسی بڑی مصیبت میں گرفتار ہوجائے۔
لڈّن اپنے گھر لیاقت آباد پہنچ چکا تھا، مگر اس کی بے چینی اور پریشانی ختم نہیں ہوئی تھی، ساری رات جاگنے کی وجہ سے بستر پر لیٹتے ہی سوگیا۔ دوپہر کے بارہ بجے تھے، لڈّن بیدار ہوا اور اس کے ذہن میں وہی رات کا سین تھا۔ وہ گھر سے باہر آیا اور اب ملیر جانے والی بس میں سوار تھا۔ بس سے اترتے ہی وہ سیدھا فقیر محمد کے گھر پہنچا۔ کیا دیکھتا ہے کہ وہاں ایک جم غفیر ہے، پولیس کی وین بھی کھڑی ہے، اہلِ محلہ بھی موجود ہیں، کچھ پولیس والے باڑے کے اندر ہیں، ایک سب انسپکٹر چارپائی پر بیٹھا کچھ لکھ رہا ہے اور اس کے سامنے ایک مرد اور ایک عورت جو مسلسل آنسو بہا رہی ہے، زمین پر بیٹھے ہیں۔ لڈّن نے ان دونوں کو پہچان لیا، یہ دونوں وہی ہیں جنہوں نے کل رات لاش ٹھکانے لگائی تھی۔ لڈّن نے مجمع کے ایک شخص سے دریافت کیا کہ کیا ماجرا ہے؟ اس شخص نے لڈّن کو تفصیل بتائی کہ یہ مکان فقیر محمد کا ہے اور سامنے بیٹھی ہوئی عورت اس کی بیوی ہے، اس نے پولیس میں رپورٹ درج کرائی ہے کہ اس کا شوہر کل سے غائب ہے اور ساتھ والا مرد، فقیر محمد کا جگری دوست خیرالدین ہے۔
لڈّن کی سمجھ میں ساری باتیں آگئیں کہ فقیر محمد اگر کل سے غائب ہے تو اِس وقت وہ کہاں ہے، اس کے جگری دوست خیرالدین نے دوستی کا حق کس طرح ادا کیا، اور اس کی باوفا بیوی کس طرح آنسو بہا کر اپنی محبت کا ثبوت دے رہی ہے۔
لڈّن چارپائی پر بیٹھے سب انسپکٹر کے قریب گیا جو مسلسل کچھ لکھنے میں مصروف تھا۔ ’’صاحب ذرا ادھر تو آنا، میں آپ سے ضروری بات کرنا چاہتا ہوں‘‘۔ سب انسپکٹر نے بڑی حیرت سے لڈّن کی طرف دیکھا۔ ’’کون ہو تم اور کیا بات کرنا چاہتے ہو؟‘‘ انسپکٹر نے اونچی آواز میں کہا۔ ’’صاحب آپ ادھر آ تو جائو، بات بہت ضروری ہے۔‘‘
انسپکٹر کے دل میں نہ جانے کیا آئی کہ وہ اٹھ کھڑا ہوا، لڈّن اس کا ہاتھ پکڑ کر ایک طرف لے گیا اور بہت ہی رازدارانہ انداز میں کہا ’’صاحب یہ جو آدمی اور عورت آپ کے سامنے آنسو بہا رہے ہیں پہلے ان دونوں کو قابو کرلو، بھاگنے نہ پائیں، پھر میں آپ کو بتائوں گا کہ فقیر محمد کہاں ہے۔‘‘ انسپکٹر کو اس مخبوط الحواس شخص کی باتوں پر یقین تو نہیں آرہا تھا، مگر اس نے اپنے دو سپاہیوں کو اشارے سے بلایا اور انہیں ہدایت دی کہ وہ ان دونوں مرد اور عورت پر نظر رکھے، یہ لوگ بھاگنے نہ پائیں۔
’’ہاں اب بتائو فقیر محمد کہاں ہے؟‘‘ انسپکٹر نے حاکمانہ لہجے میں لڈّن سے کہا۔ ’’میرے ساتھ ادھر آئو۔‘‘ لڈّن انسپکٹر کو اُس طرف لے گیا جہاں فقیر محمد دفن کیا گیا تھا۔ ’’یہاں کی کھدائی کرو، آپ کو فقیر محمد مل جائے گا۔‘‘ انسپکٹر لڈّن کی شکل حیرت و استعجاب سے دیکھ رہا تھا۔ ’’اگر میں جھوٹ بولوں تو آپ میری گردن اڑا دو۔‘‘ لڈّن نے بڑے ہی پُراعتماد لہجے میں کہا۔ انسپکٹر نے اپنے ایک سپاہی کو حکم دیا کہ کھدائی کرے۔ بیلچہ قریب ہی رکھا تھا، کھدائی شروع ہوگئی۔
فقیر محمد کی بیوی اور خیرالدین کے آنسو خشک ہوچکے تھے، چہروں پر ہوائیاں اُڑ رہی تھیں، بھاگ بھی نہیں سکتے تھے کیوں کہ سروں پر دو عدد سرکاری فرشتے تعینات تھے۔ انہوں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ جو کام رات کے اندھیرے میں اس قدر رازداری سے کیا گیا تھا اُس کا بھی کوئی چشم دید گواہ ہوسکتا ہے۔ جلد ہی فقیر محمد کی خون آلود مٹی میں لتھڑی لاش نے گڑھے سے باہر آکر ہر کسی کو حیرت میں ڈال دیا۔
انسپکٹر نے بڑے ہی پیار و محبت سے فقیر محمد کی غم زدہ اور باوفا بیوی اور فقیر محمد کے وفادار دوست کے ہاتھوں میں ہتھکڑی پہنائی اور سپاہیوں کو حکم دیا کہ انہیں وین میں بٹھا کر تھانے لے چلو۔
اب انسپکٹر لڈّن کی طرف متوجہ ہوا ’’کیا نام ہے تیرا اور یہ قتل کا راز تجھے کیسے پتا لگا؟‘‘ لڈّن نے رات کی ساری کہانی انسپکٹر کو سنادی۔ انسپکٹر لڈن کی کہانی سن کر محوِ حیرت تھا، یہ اس کی زندگی کا پہلا اور سب سے انوکھا واقعہ تھا جس میں قاتل اتنی آسانی سے اس کے ہاتھ لگ گیا تھا، اور لڈّن کے دھندے کا بھی اسے پتا لگ چکا تھا کہ بندے کا کاروبار کیا ہے۔ ابھی وہ کچھ کہنے ہی والا تھا کہ لڈّن بول پڑا ’’صاحب جی دو دن سے کوئی کام دھندا نہیں ہوسکا ہے، اللہ قسم جیب بالکل خالی ہے،‘ اُدھر گھر والی کا چولہا بھی ٹھنڈا پڑا ہے، کچھ خرچہ پانی تو دے دو صاحب، مہربانی ہوگی۔‘‘ لڈّن نے بڑے ہی انکسارانہ لہجے میں انسپکٹر سے کہا۔ ’’پولیس والوں سے خرچہ پانی مانگتا ہے، شرم نہیں آتی! یہ حق تو صرف پولیس والوں کو حاصل ہے جو ہر دم عوام سے خرچہ پانی مانگتے رہتے ہیں۔ فی الحال تُو میرے ساتھ تھانے چل، تیرا بیان لیا جائے گا اس کے بعد ہر پیشی پر تجھے اپنے خرچ پر عدالت میں حاضر ہوکر اپنی جوتیاں گھسنی پڑیں گی کیوں کہ تُو اس واقعے کا چشم دید گواہ ہے۔‘‘
انسپکٹر نے لڈن کو اپنی گاڑی میں بٹھایا اور گاڑی ملیر تھانے کی سمت روانہ ہوگئی۔

سجھتے کیا تھے مگر سنتے تھے ترانہ درد
سمجھ میں آنے لگا جب تو پھر سنا ُ نہ گیا

یگانہ چنگزی

حصہ