وقت کا تحفہ

286

کشور پروین
معاذ اور محب دونوں ساتویں جماعت کے طالب علم تھے۔ دونوں کا تعلق معاشی طور پہ تقریباً ایک جیسے گھرانوں سے تھا مگر دونوں کے ماحول اور عادات و اطوار میں بہت فرق تھا۔ محب قدرے سلجھا ہوا اور بڑوں کی بات سمجھ کر ماننے والے لڑکا تھا جب کہ معاذ بگڑا ہوا اور اپنی من مانی کرنے والا تھا۔ محب اسے بہت سمجھاتا مگر معاذ اس کی ایک نہ سنتا۔ پھر بھی محب اس کی بری باتوں کا نظرانداز کرکے اس کی اصلاح میں مصروف رہتا۔
ایک دن معاذ نے محب سے بازار چلنے کا کہا تو وہ دونوں شام میں کھیل کے بعد بازار ہو لیے۔ وہاں چل کر معاذ نے بہت سے پٹاخے اور آتش گیر مواد خریدا۔ محب نے حیران ہوتے ہوئے معاذ کو مخاطب کیا، ’’یہ کیا معاذ! یہ سب سا مان تم نے کیوں خریدا ہے؟‘‘ ’’ارے یار! نیا سال آرہا ہے ناں اور میرے کزن کی شادی بھی ہے‘‘، معاذ نے لاپرواہی سے جواب دیا۔’’ہاں تو سال نو اور شادی کا ان سب چیزوں سے کیا تعلق؟ اور اب تو آتشبازی پہ پابندی بھی لگ چکی ہے‘‘، محب نے کہا۔ ’’وہی کام کرنے میں تو مزا ہے جس پہ پابندی ہو‘‘، محب کی بات پہ معاذ نے زبردست قہقہہ لگاتے ہوئے کہا۔
“اور ویسے بھی انسان اپنی خوشی کے مواقع پہ انہی باتوں سے تو اپنی خوشی اور جذبات کا اظہار کرتا ہے۔ تم دیکھنا میں شادی پہ اور نئے سال پہ کیسی رونق کرتا ہوں‘‘، معاذ نے جوش سے کہا۔ ’’مثلاً کیسے رونق کرو گے تم؟‘‘ محب نے پوچھا۔ ’’ساری رات ایکو پہ تیز آواز میں گانے چلیں گے، باربی کیو اور زبردست آتش بازی‘‘، معاذ جیسے ابھی سے انجوائے کررہا تھا۔ ’’اور یہ تیز آواز سن کر اردگرد کے لوگوں کو کتنی تکلیف ہوگی؟ کل ہی ہمارے محلے میں ایسی ہی ایک تقریب تھی ساری رات جاگنے کی وجہ سے میرے دادا جی کا بلڈ پریشر ہائی تھا آج‘‘، محب نے ناگواری سے کہا۔ ’’ارے یار! یہ سب چلتا ہے، ہوتا رہتا ہے‘‘، معاذ کو گویا کوئی پروا نہ تھی۔ ’’مگر معاذ۔۔۔‘‘، محب قدرے پریشان تھا۔
’’ارے میرے شریف بھائی! ایسا کرنا اس بار نئے سال کی سیلیبریشن پہ تم بھی ہمارے ساتھ رہنا۔ دیکھنا کتنا انجوائے کرو گے‘‘، معاذ نے محب کو پیشکش کی جسے محب نے فورا مسترد کردیا۔ ’’مجھے معاف کرو! بلکہ میری بات سمجھو اللہ نے ہمیں یہ زندگی، یہ سال، ماہ، خوشیاں اس لیے نہیں دیں کہ ہم انہیں یوں آتشبازی اور مخلوق خدا کو تکلیف دے کر گزاریں۔ میری مانو تم بھی باز آؤ۔ یہ بھی نقصان دہ ہے‘‘، محب نے معاذ کو سمجھاتے ہوئے کہا۔ ’’اچھا میرے بھائی! سوچوں گا ابھی تومیری جان چھوڑو‘‘، معاذ نے اکتاتے ہوئے ہاتھ باندھے اور اس کااکتایا ہوا انداز دیکھ کر محب نے نہ چاہتے ہوئے بھی خاموشی اختیار کرلی۔
کچھ عرصے میں معاذ کے کزن کی شادی تھی جس کے لیے وہ پرجوش تھا اور بہت تیاری کررکھی تھی اس کی اس تیاری کے حوالے سے محب نے اسے بہت سمجھایا مگر معاذ نے ایک نہ سنی اور تو اور وہ تو سال نو کے لیے بھی یہی سب کرنے کا ارادہ رکھتا تھا مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ معاذ اپنے دوسرے ساتھیوں کے ساتھ پٹاخے اور آتش بازی میں مصروف تھا کہ ایک پٹاخہ اڑ کر سجاوٹ پہ لگا اور اس کی وجہ سے آگ لگ گئی اور اسی آگ نے معاذ اور کچھ لڑکوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اللہ کا کرم ہوا کہ زیادہ جانی نقصان نہ ہوا مگر پھر معاذ اچھا خاصا زخمی ہوا کہ اسے ہسپتال میں ایڈمٹ کرنا پڑا۔
آج رات سال نو کا آغاز ہونا تھا اور معاذ اپنے بستر پہ پڑا تھا سامنے موجود پھول اور کارڈز اس کے اپنوں کی محبت کی ترجمان تھے مگر وہ بہت اداس تھا۔ اتنے میں گھڑی نے بارہ ہندسے پورے کیے، فضا پٹاخوں کے شور اور آتش بازی سے گونج اٹھی اور معاذ جو ہر سال اس ہنگامے میں خود پیش پیش ہوتا تھا آج بے آواز رورہا تھا۔ اتنے میں محب اپنے ابو کے ساتھ ہاتھوں میں پھول لیے اندر داخل ہوا اور معاذ کو روتا دیکھ کر تیزی سے اس کی جانب بڑھا۔
’’ارے ارے معاذ! کیا ہوگیا ہے تمہیں؟ تم تو بہت حوصلے والے ہو، انشاء اللہ تم جلد ٹھیک ہو جاؤ گے‘‘، محب نے معاذ کے آنسو پونچھے۔ ’’ہاں معاذ بیٹا! سب ٹھیک ہو جائے گا۔ آپ پریشان نہ ہوں‘‘، محب کے والد نے بھی اسے تسلی دی۔ ’’نہیں انکل! میں اپنی بیماری کی وجہ سے نہیں رورہا‘‘، معاذ نے افسردگی سے کہا۔ ’’توپھر تم کیوں رورہے ہو؟‘‘، محب حیران ہوا۔ ’’یہ ندامت کے آنسو ہیں۔ تم نے مجھے کتنا سمجھایا تھا مگر میں نہ مانا۔ ہمیشہ میں دوسروں کو تکلیف دیتا رہا مگر مجھے احساس نہ ہوا مگر آج خود پہ بیتی تو مجھے پتا لگ رہا ہے‘‘، معاذ سے افسوس سے کہا۔ ’’اوہ!‘‘ محب نے گہری سانس لی۔ ’’میں تو تمہیں سمجھاتا تھا مگر تم سنتے ہی نہیں تھے‘‘، محب نے کہا۔ ’’جی بیٹا! نیا سال اللہ کی طرف سے دیا گیا تحفہ ہے۔ وقت کا تحفہ، جس کی ہمیں قدر کرنا ہے۔ ماضی میں کی گئی بری چیزیں چھوڑنی ہیں اور مستقبل اچھا کرنا ہے‘‘، محب کے والد نے پیار سے سمجھایا۔
’’جی انکل اب آئندہ سے بالکل ایسا ہی کروں گا اور ہمیشہ وقت کے تحفے کی قدر کروں گا ان شاء اللہ‘‘، معاذ نے کہا۔ ’’ان شاء اللہ‘‘، محب کے والد نے معاذ کے سر پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔ ’’تو پھر اس سب کا کیا ہوگا؟‘‘ محب جیسے پریشان سا بولا۔ ’’کس کا؟‘‘ معاذ نے حیرانی سے پوچھا۔ ’’پٹاخے اور آتش بازی کا سامان‘‘، محب شرارت سے معاذ کو دیکھ رہا تھا۔ ’’توبہ کرو‘‘، معاذ نے کانوں کو ہاتھ لگایا اور دونوں دوست ساتھ ہنس پڑے۔ سال نو کا وقت کا تحفہ دونوں دوستوں پہ مسکرانے لگا۔

حصہ