مولانا مودودیؒ اور اِمام ابن تیمیہؒ

1290

ڈاکٹر محمود احمد غازی
مرتب: اعظم طارق کوہستانی
(گزشتہ سے پیوستہ)
اس کے برعکس ابن تیمیہؒ اصلاً ایک فقیہہ‘ متکلم‘ مناظر اور محدث تھے۔ اس لیے ان کی تنقیدی تحریریں ذرا مختلف انداز کی ہیں۔ ایک محدث کی سی دقت نظر‘ جزئیات کو بیان کرنے کا محدثانہ اسلوب اور مغربی افکار پر خالص دینی نقطۂ نظر سے تنقید کے دوران بھی ابن تیمیہؒ منطقی دلائل کا استعمال کرتے نظر آتے ہیں۔
یوں تو مولانا مودودیؒ اور ابن تیمیہؒ دونوں کے ہاں عقل و نقل کا امتزاج یکساں طور پر پایا جاتا ہے لیکن اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ ابن تیمیہؒ کا زیادہ زور نقل پر اور مولانا کا عقل پر ہے۔ شاید اس کی وجہ بھی یہ ہے کہ ابن تیمیہؒ کی ذہنی تشکیل اور علمی ساخت علمِ حدیث کے ماحول میں ہوئی‘ اس لیے ان کی تحریروں پر نقل کا اسلوب غالب ہے۔ اس کے برعکس مولانا مودودیؒ اپنے ابتدائی کیریئر میں چونکہ صحافی رہے‘ اس لیے ان کو عامۃ الناس کی سطح پر بڑی تعداد میں ایسے لوگوں کو اپنا مخاطب بنانا پڑا جو کسی دینی پس منظر کے حامل نہ تھے‘ چنانچہ انھیں لازماً ایسا اسلوب اپنانا پڑا جس میں اپیل کی اصل بنیاد نقل کے بجاے عقل ہو۔ چنانچہ عقلی اپیل کا یہ اسلوب مولانا کی تحریروں کا طرئہ امتیاز بن گیا۔ اس اسلوب کا ایک نمایاں مظہر یہ بھی ہے کہ جہاں مولانا خالص دینی معاملات پر گفتگو کرتے ہیںوہاں بھی ان کے طرز استدلال میں عقل کا پلہ بھاری نظر آتا ہے۔ اس کی نمایاں مثال ان کی کتاب سنت کی آئینی حیثیت ہے جو ایک ایسے موضوع پر ہے جس کا تعلق خالصتاً نقل کے میدان سے ہے‘ لیکن اس کتاب میں بھی مولانا کا عقلی استدلال (بمقابلہ نقلی دلائل) نمایاں اور غالب معلوم ہوتا ہے۔
ان دونوں شخصیتوں کا ایک اہم اور مشترک وصف ان کا داعیانہ جوش بھی ہے۔ یہ داعیانہ جوش مولانا مودودیؒ کی ابتدائی تحریروں میں بہت نمایاں نظر آتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ (بالخصوص قیام پاکستان کے بعد) جب مولانا کو سیاسیات کے تلخ حقائق سے واسطہ پڑا تو ان کے ہاں گفتگو اور مکالمے میں ایک نیا انداز سامنے آیا۔ اس نئے انداز میں نسبتاً زیادہ ٹھیرائو‘ زیادہ احتیاط اور زور بیان کی ارادی کمی معلوم ہوتی ہے۔
غالباً ابن تیمیہؒ کو ایسی کسی صورتحال سے دوچار نہیں ہونا پڑا اس لیے ان کے ہاں ایسی کوئی تبدیلی نمایاں طور پر محسوس نہیں ہوتی۔ البتہ زور بیان دونوں کے ہاں غیر معمولی ہے۔
یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ اردو زبان میں دینی ادب تخلیق کرنے والے اہلِ علم میں مولانا مودودیؒ کا درجہ اگر سب سے اونچا نہیں تو بہت اونچا ضرور ہے۔ اگر اردو زبان کے دینی ادیبوں اور اہل قلم کے اعلیٰ ترین مقام پر فائز ہونے والی دو ایک شخصیتوں کا انتخاب کیا جائے تو یقینا مولانا مودودیؒ ان میں سے ایک ہوں گے۔ ان کا درجہ علامہ شبلی نعمانی ؒ‘ مولانا عبدالماجد دریا بادیؒ اور مولانا ابوالحسن علی ندویؒ جیسے جید ترین دینی ادیبوں سے اگر بڑھ کر نہیں تو کسی طرح کم بھی نہیں۔ لیکن ابن تیمیہؒ کے پورے احترام کے باوجود یہ عرض کر دینے میں مضائقہ نہیں کہ عربی زبان و ادب کی تاریخ نے ابن تیمیہؒ کو بطور ایک ادیب تسلیم نہیں کیا۔ عربی زبان میں دینی موضوعات پر جن شخصیتوں کا زور بیان اور ادیبانہ اسلوب ضرب المثل ہے ان میں ابن تیمیہؒ کا نام نظر نہیں آتا۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ عربی زبان کی عمر اردو سے کم از کم آٹھ گنا زیادہ ہے اور عربی زبان میں اعلیٰ ترین دینی ادب تخلیق کرنے والوں کی تعداد شاید اُردو زبان کے مقابلے میں کئی ہزار گنا ہو۔ ان حالات میں شاید ابن تیمیہؒ اور مولانا مودودی ؒ کا یہ تقابل مبنی بر انصاف نہ ہو۔
اوپر ان دونوں شخصیتوں کے حوالے سے تفردات کی بات کی گئی تھی۔ تفردات میں بھی یہ دونوں شخصیتیں ایک دوسرے سے خاصی مشابہت اور مماثلت رکھتی ہیں۔ دونوں کا جذبۂ اخلاص‘ دونوں کی حیرت انگیز تائید ‘دونوں کی بے مثال جرأت اور دونوں کا اپنے نقطۂ نظر اور اپنی رائے پر اصرار حیرت انگیز طور پر مشابہت رکھتا ہے۔
ابن تیمیہؒ کے انتقال کے کم و بیش ۶۰۰ سال بعد ان کے اجتہادات و تفردات کی علم بردار ایک حکومت قائم ہوئی جس نے ابن تیمیہؒ کے اثرات کو چار دانگ عالم میں پھیلا دیا۔ آج روے زمین پر بہت کم دینی اور اسلامی کتب خانے ایسے ہوں گے جہاں ابن تیمیہ کی تصنیفات دستیاب نہ ہوں۔ آج کوئی دینی درس گاہ مشکل سے ہی ایسی ملے گی جہاں ابن تیمیہؒ کی کسی نہ کسی تصنیف سے اعتنا کرنے والے موجود نہ ہوں۔ آج دنیا کے کسی بڑے ملک میں جہاں جہاں مسلمان قابل ذکر تعداد میں آباد ہیں‘ ابن تیمیہؒ کے اجتہادات پر عمل کرنے والے بھی سرگرم نظر آتے ہیں۔ بعض اہم مسائل میں دنیاے اسلام میں ابن تیمیہؒ کے اجتہادات و تحقیقات کو قبول عام حاصل ہو چکا ہے۔ شاید ابن تیمیہؒ کی قوت استدلال‘ داعیانہ جوش‘ کثرت معلومات و شواہد اور زور بیان نے ان کے نقطۂ نظر کو بہت سے حلقوں میں منوا لیا ہے۔ مثال کے طور پر توہین رسالتؐ کی سزا کے معاملے میں آج دنیا میں ہر جگہ ابن تیمیہؒ ہی کی رائے کو قبول عام حاصل ہے۔ بہت سے لوگوں کو شاید یہ معلوم بھی نہیں کہ اس معاملے میں امام ابو حنیفہؒ اور احناف کی رائے کیا رہی ہے۔
ابن تیمیہؒ کے برعکس مولانا مودودیؒ کے افکار و خیالات کو قبول عام حاصل کرنے کے لیے نہ ۶۰۰سال انتظار کرنا پڑا اور نہ ان کو کسی حکومتی سرپرستی کی ضرورت پڑی۔ان کی زندگی ہی میں ان کے خیالات دنیاے اسلام میں ہر جگہ پہنچے‘ ہر ملک میں مقبول ہوئے اور ان کے اجتہادات و تفردات کو جوش و جذبے سے قبول کرنے والے بھی بڑی تعداد میں سامنے آئے۔ ابن تیمیہؒ کے افکار کے فروغ میں جو کردار حکومت سعودی عرب نے انجام دیا‘ وہی بلکہ اس سے بڑھ کر موثر کردار ان بے شمار دینی و ملی تحریکوں و تنظیموں نے انجام دیا جو مولانا مودودیؒ کے حلقے سے وابستہ سیکڑوں بلکہ ہزاروں نوجوانوں نے دنیا کے کونے کونے میں قائم کیں۔ ابن تیمیہؒ کی طرح مولانا مودودیؒ کے افکار بھی دنیا میں اتنی تیزی سے پھیلے ہیں کہ ان کی چھاپ بیسویں صدی کے اسلامی اور دینی ادب پر نظر انداز نہیں کی جا سکتی۔
اپنی تمام عظمتوں اور تاثیر کے باوجود مولانا مودودیؒ ایک انسان تھے۔ دوسرے انسانوں کی طرح مولانا مودودیؒ اور ابن تیمیہ ؒ بھی ان تمام تحدیدات سے محدود اور ان تمام قیود کے پابند تھے جن سے اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو مقید اور محدود کیا ہے۔ نہ صرف ان دونوں کے بارے میں بلکہ تاریخ اسلام کی تمام عظیم شخصیتوں کے بارے میں محفوظ و مامون طرز عمل وہی ہے جس کی نشان دہی امام مالکؒ نے ساڑھے بارہ سو سال پہلے فرمائی تھی:
کل یوخذ من قولہ و یترک الا صاحب ھذا القبر صلی اللّٰہ علیہ وسلم:ہرشخص کے اقوال کا ایک حصہ قابل قبول اور ایک حصہ ناقابل قبول ہے۔ اس باب میں صرف ایک ہی استثنا ہے اور وہ (روضۂ مبارک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) اس صاحبِ قبر کا ہے۔
ہمارا رویہ ان دونوں شخصیتوں کے بارے میں یہی ہونا چاہیے۔

مولانا مودودی کے بارے میں فاطمہ ثریا بجیا مرحوم کی راے

(معروف ادیب)
مولانا کا یہ قول کہ قرآن وسنت کی دعوت لے کر اُٹھو اور پوری دنیا پر چھا جائو کا مطلب یہ نہیں کہ آپ دنیا پر قابض ہو جائیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے کردار اور اخلاق کو دنیا کے سامنے عام کروجیسا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات سے آپ کے آنے کا مقصد پوچھا جاتا تھا تو وہ فرماتی تھیں کہ وہ تکمیل اخلاق انسانی کے لیے آئے ہیں۔میری خوش قسمتی یہ ہے کہ میں نے بچپن سے اُنھیں اپنے گھر میں پایا ۔وہ حیدر آباد دکن میں میرے نانا کے پاس آیا کرتے تھے اور میرے نانا بھی ان کی بہت عزت کرتے تھے۔ حید ر آباد دکن میں لوگ اُنھیں ایک صالح نوجوان کے نام سے جانتے تھے ۔ ان کا بات کرنے کا انداز اور کردار صالح ہی تھا۔
سوال یہ بھی ہے کہ ان کا اسلوب تحریر کیسا تھا ان کا اسلوب تحریر نہایت عام فہم اور سادہ تھا۔ ان کی تحریر میں وہی الفاظ شامل ہوتے تھے جو ہم عام زندگی میں بولتے ہیں۔ ان کی تحریر میں شائستگی حسن سادگی ادب اور تاریخ بھی ہے۔یہ تمام کمالات ایک تحریر میں ہونا بڑی بات ہے ۔

مولانا مودودی کے بارے میں ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کی راے

(بانی تنظیم اسلامی)
واقعہ یہ ہے کہ مغرب کی مرعوبیت کا ازالہ علامہ اقبال بہت حد تک کر چکے ہیں مگر مولانا مودودی نے ابلاغ تک اسے وسیع تر کیا اور اپنے سلیس انداز سے اُنھیں سمجھایا۔مولانا نے دین کو ایک ثانوی حیثیت دی ۔ مولانا کا بہت بڑا کام یہ ہے کہ اُنھوں نے جماعت کے اکثر اجتماعات اور پروگرامات میں قرآن اور تفہیم کا مطالعہ لازمی قرار دیا۔ مولانا نے جو اسلامی تحریک چلائی اُنھوں نے اپنی تفسیر تفہیم القرآن میں اس کا رشتہ جوڑا۔ آج کے نوجوان کے لیے تفہیم پڑھنا اور سمجھنا بہت آسان ہے ۔پرانے علما کی تفاسیر میں مشکل عربی اصطلاحات اورتحریکی فکر کا نہ ہونا آج کے نوجوان کو متاثر نہیں کرتی۔ فتنہ انکار حدیث اور ختم نبوت کے حوالے سے اُنھوں نے بہت دلیل سے بات کی ان کا ایک چھوٹا سا کتاب چَہ جو اُنھوں نے قادیانیوں کے خلاف لکھا تھا۔ اس کی وجہ سے اُنھیں ملٹری کورٹ کی جانب سے پھانسی کی سزا سنائی گئی۔

مولانا مودودی کے بارے میں حافظ محمد ادریس کی راے

(معروف اسلامک اسکالر)
مولانا اس صدی کے مجدد تھے ۔ اللہ رب العالمین نے اُنھیں بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ ان کی سوچ اور فکر قرآن وسنت سے اَخذ کی گئی ہے اور ان کا پاکستانی قوم پر یہ بہت بڑا احسان ہے کہ اُنھوں نے نوجوانوں کو بے راہ روی سے بچا کر اللہ کے ساتھ جوڑا۔ وہ ادارے جہاں مخلوط تعلیم ہے وہاں طلبہ کے اندر خوف خدا پیدا کرنا یہ ان کا بہت بڑا کارنامہ ہے۔ اللہ نے اُنھیں علم اور حلم دونوں عطا کیے تھے۔ تدبر اور حکمت، جرات و شجاعت کا ایسا پیکر بنایا تھا کہ مولانا کبھی بھی مشتعل اور غصے کے اندر آپے سے باہر نہیں ہوئے اور ایک داعی کے اندر یہی خوبیاں ہوتی ہیں ۔ مولانا نے جو بھی محنت ومشقت کی ۔ اس کا واحد مقصد صرف یہی تھا کہ اللہ کا دین غالب آجائے۔

۱: کیا آپ نے مولانا مودودیؒ کو پڑھا ہے؟
۲: مولانا کو پڑھنے کے بعد آپ نے خود میں کوئی تبدیلی محسوس کی؟
۳: یا پھر مولانا کے حوالے سے آپ نے کوئی مضمون یا نظم تحریر کی ہے؟
۴: اگر آپ مولانا کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کرنا چاہتے ہیں تو دیر کس بات کی؟
اپنا قلم اُٹھائیے اور لکھ دیجیے
…کچھ خاص …کچھ نیا…
آپ کی تحریر ضروری نوک پلک سنوار کر شائع کردی جائیں گی۔
انچارج سید مودودیؒ صفحہ: اعظم طارق کوہستانی
kazam_tariq@yahoo.com

حصہ