صفائی کے نام پر کیمیائی اجزا کی فروخت

250

درخشاں فاروقی
خواتین کی بیشتر تعداد ٹی وی کمرشلز اور اخبارات کے اشتہاروں سے متاثر ہوکر شیمپو اور صابن خریدتی ہے۔ ہمیں اتنی فرصت نہیں یا ہم اتنے محتاط اور ذہین نہیں کہ ان صابن اور شیمپوز کی تیاری میں استعمال ہونے والے اجزا کو بھی پڑھیں۔ ہمارے باتھ رومز میں مختلف برانڈڈ فیس واش، ہاتھ دھونے کے صابن اور ہمہ قسم کے شیمپوز کی قطاریں لگی رہتی ہیں۔ ’’ہر مہینے ان اشیا کو بدل بدل کر استعمال کریں تو نتائج بہتر رہتے ہیں‘‘ اس مشورے کے بعد ہماری خواتین اپنے باتھ رومز میں مقامی اور غیر مقامی برانڈڈ مصنوعات کا ڈھیر لگا دیتی ہیں۔ آج ایک کام کرتے ہیں، ان شیمپوز کو اٹھا کے کیمیائی اجزا کا مطالعہ کرلیتے ہیں۔ کیا (ALS) Amonium Lauryl Sulphate یا (SLS) Sodium Lauryl Sulphate کی کچھ مقدار ان میں سے کسی کے اجزا میں شامل ہوتی ہے؟ کیمیائی تناسب میں یہ دونوں ایک دوسرے کے چچیرے بھائی ہیں، یعنی بعد از استعمال ان دونوں اجزا کے اثرات یکساں ہیں۔ اصل میں یہ مہلک تیزابی عناصر صفائی کے لیے مؤثر ترین اجزا پر مشتمل ہوتے ہیں۔ یہ جھاگ بناتے ہیں اور ہم ہلکے ہلکے ہاتھوں سے کئی ساعتوں تک انہیں جلد اور بالوں میں لگا رہنے دیتے ہیں اور مساج کرتے رہتے ہیں۔ ہمارے خیال میں اس عمل سے ہماری جلد اور بالوں میں چھپے گرد و غبار کو دھونا آسان ہوتا ہے اور نتائج سو فیصد رہتے ہیں۔ یہ محض خام خیالی ہے۔
1983ء میں امریکن کالج آف ٹوکسی کولوجی کی ایک تحقیق کے بعد جو حقائق منظرِعام پر آئے وہ حفظِ ماتقدم کے طور پر مدنظر رکھے جانے ضروری ہیں، مثلاً جلد کی گہرائی تک صفائی کرنے والے لوشنوں کے متواتر استعمال سے ابھرنے والے جلدی امراض کا ہونا کبھی گمان میں نہ تھا، مگر اب ہونے لگے ہیں۔ چنانچہ ایسی تمام کریموںکے لیبارٹری معائنوں کے بعد SLS اور ALS جیسے اجزا کے مضر اثرات واضح ہوگئے۔ لمحۂ فکریہ ہے کہ ان دونوں ضرر رساں اجزا کے مسلسل استعمال کے بعد سرطانی مادے کی افزائش ہونے لگتی ہے، لہٰذا جتنی جلد ممکن ہو ان اجزا پر مشتمل مصنوعات کا استعمال ترک کرنا بہتر ہے۔ عام طور پر شیمپو ہم ہر تیسرے روز استعمال کرتے ہیں اور ٹوتھ پیسٹ دن میں تین مرتبہ استعمال کرنا ضرورت ہے۔ ہمارے کپڑے جس طاقتور ڈٹرجنٹ سے دھلتے ہیں، وہ طویل گرمیوں کے موسم میں ہماری اوّلین ضرورتوں میں شامل ہوچکے ہیں۔ گرمیوں کے موسم میں ماہرِ جلد، بال اور ناخن بے انتہا مصروف ہوجاتے ہیں، کیونکہ ایک تو ماحولیاتی آلودگی، غلط غذائی عادتوں اور کاسمیٹکس کے غلط استعمال سے جلد کی حساسیت بڑھ جاتی ہے یا مختلف انفکیشن ہوسکتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ مردوں اور خواتین دونوں میں جلدی امراض بڑھنے لگے ہیں۔ کیونکہSLS چکنائی اور نمی کو کاٹتا ہے، چکنائی پیدا کرنے والے غدود اس مؤثر ترین کیمیائی جزو کے سبب کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں، جلد یعنی کھوپڑی کے اطراف خشکی کی مقدار بڑھنے لگتی ہے۔ اور یہی نہیں، ایک دفعہ مکمل طور پر شیمپو دھو لینے اور زائل کرنے کے بعد بھی یہ جلد کی بیرونی تہہ میں خشکی کے اثرات برقرار رکھتا ہے۔ گویا یہ سر کی جلد میں بری طرح جذب ہوتا ہے اور ماتھے کے اطراف لگا رہ جائے تو مہاسوں کی شکل میں ظاہر ہونے لگتا ہے۔ اس لیے کیمیائی اجزا پر مشتمل شیمپوز کو خیرباد کہہ دینے میں ہی بھلائی ہے۔ بیشتر شیمپوز اور کلینرز میں SLS کی مقدار 20 فیصد ہوتی ہے، جب کہ ماہرِ جلد کہتے ہیں کہ بالوں اور چہرے کی صفائی کے لیے 5 فیصد تک کا استعمال کافی ہوسکتا ہے۔ بعض حساس جلد کے مالکوں کے لیے یہ مقدار بھی ضرورت سے زیادہ تصور کی جاتی ہے۔ بے بی شیمپوز میں بھی ALS اور SLS کا شامل کیا جانا، ان مصنوعات کے مؤثر ترین ہونے اور تجارتی نقطۂ نظر سے کامیاب ہونے کی دلیل مانی جاتی ہے۔ بچے نہاتے وقت خیال نہ رکھیں تو شیمپو کا آنکھوں میں داخل ہوجانا اور آنکھوں میں سرخی کی شکایت کا ہوجانا ایک معمول کا عمل بن گیا ہے، تاہم یہ خطرناک بات ہے۔ اس کیمیائی عنصر کا براہِ راست بینائی اور آنکھوںکے عضلات پر اثر پڑتا ہے۔ یہ کیمیائی جزو اپنے اندر اس قدر متحرک اور مہلک تیزابی اثرات رکھتا ہے کہ اگر غلطی سے شیمپو گردن یا بدن کے کسی حصے پر کچھ دیر تک لگا رہے تو جلد کی قدرتی نمی بھی زائل ہونا شروع ہوجاتی ہے، اور ہارمونز تک متاثر ہوسکتے ہیں۔ لہٰذا کبھی غلطی سے بھی کسی فیس واش سے نہانے کی غلطی نہ کریں، اور خاص کر خواتین حساس اعضا کا مکمل بچائو کریں۔
صابن ملے پانی کے بخارات اندرونی جسمانی اعضا میں خلیات کو متاثر کرتے ہیں، اور بہت دیر تک پانی سے محظوظ ہوتے ہوتے ہم اپنا نقصان کربیٹھتے ہیں۔ اگر صابن جسم کے نازک حصوں پر ملنے سے چبھن اور تکلیف دے تو سمجھ جایئے کہ یہ SLS کی کثیر مقدار پر مشتمل ہے، اور یہ آپ کی جلد کے خلیات کو بری طرح متاثر کرسکتا ہے۔ کوشش کیجیے کہ ان صابنوں کی معمولی مقدار استعمال کریں اور نازک اعضا پر کبھی رگڑ کر استعمال نہ کریں، ورنہ جلد کے کینسر کے امکان بھی ظاہر ہوسکتے ہیں۔ ہمارے ہاں سپر مارکیٹوں کے کلچر میں غیر ملکی اور ملکی مصنوعات کا انبار اس قدر پُرکشش طور پر سجایا جاتا ہے کہ ہم پیکنگ سے متاثر ہوکر فوراً خرید لیتے ہیں۔ ان میں سے بیشتر اشیا Toxin Free نہیں ہوتیں۔
وہ ماضی کے سہانے دن دوبارہ لوٹانے کی کوشش کرلیں اور نانی جان یا دادی اماں کے نسخوں کو آزمائیں۔ فینسی مصنوعات کو ایک طرف دھر دیں۔ بیسن، دودھ اور لیموں کے چند قطروں سے تازہ بہ تازہ ابٹن بنائیں اور ہاتھوں، پیروں، گردن اور بازوئوں کی صفائی اس آمیزے سے کریں۔ دانتوں کے لیے مسواک کا استعمال بھی کرسکتی ہیں۔ اگر حکماء اور مستند طبیبوں سے مشورہ کرلیا جائے اور کیمیائی اجزا سے مکمل طور پر پاک اور شفاف طریقے سے شیمپو بنوا لیا جائے تو وہ سر اور بالوں کے کئی امراض دور کرسکتا ہے۔ روزانہ کی صفائی کے ساتھ ساتھ بالوں کی رنگت اور صحت بھی قائم رہ سکتی ہے۔ اس طرح آپ دہرے فوائد حاصل کرسکیں گی، آپ کی گھریلو معیشت بھی متوازن ہو سکے گی، بجٹ بھی متاثر نہ ہوگا، اضافی اخراجات میں کٹوتی آسکے گی اور آپ ماحول دوست مصنوعات اپنا کر اپنی اور اپنے کنبے کی صحت برقرار رکھ سکیں گی۔

حصہ