زوجین کے ایک دوسرے پر حقوق

612

افروز عنایت
دینِ اسلام ضابطۂ حیات ہے، جیسے جیسے آپ دین میں داخل ہوتے جائیں گے آپ کے اوپر اس کی خوبیاں آشکارا ہوتی جائیں گی، سبحان اللہ۔ زندگی کا کوئی پہلو بھی تو ایسا نہیں جس کے بارے میں اسلام نے روشنی نہ ڈالی ہو اور ہدایات نہ دی ہوں۔ اگر ہم ان ہدایات کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالیں تو یہ معاشرہ مکمل طور پر اسلامی معاشرے کے روپ میں ڈھل سکتا ہے۔ دینِِ اسلام نے بندے کے دوسرے بندوں سے خوبصورت تعلقات استوار کرنے کے لیے جو احکامات اور ہدایات دی ہیں ان میں زوجین کے بارے میں بھی ہدایات ہیں، کیونکہ کسی بھی گھرانے کی بنیاد زوجین کے تعلقات پر انحصار کرتی ہے۔ ماں باپ کے درمیان خوبصورت بندھن اولاد کی زندگی پر نمایاں طور پر اثرانداز ہوتا ہے۔ بہو اور بیٹے کے درمیان خوبصورت تعلق پورے گھر کو روشن کرتا ہے۔ بیٹی اور داماد کے درمیان حسین تعلقات ماں باپ کو پُرسکون رکھتے ہیں۔ غرض کہ پورا گھرانا ان کے اچھے یا برے تعلق سے متاثر ہوسکتا ہے۔ اسی لیے مذہب اسلام نے دونوں (شوہر اور بیوی) کے حقوق اور فرائض کو واضح کیا ہے۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ صرف مرد کو سر کا تاج بناکر اُس کی سیوا کرنے کا حکم ہے، بلکہ عورت کے حقوق کو بھی خوبصورت انداز میں واضح کردیا گیا ہے۔
ابودائود کی حدیث ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تم کھائو اس کو بھی کھلائو، جب کپڑا پہنو اس کو بھی پہنائو، اور (نافرمانی اور گستاخی پر) اس کے منہ پر مت مارو اور اس کو کوسنا نہ دو، اور نہ اس سے ملنا چھوڑو مگر گھر کے اندر اندر۔‘‘ اسی طرح مشکوٰۃ شریف کی حدیث ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں بہتر وہ ہے جو اپنی بیویوں کے ساتھ اچھی طرح پیش آئے۔‘‘۔
اس حدیثِ مبارکہ سے کتنی خوبصورت تعلیم حاصل ہوتی ہے کہ بہترین انسان کی دلیل ہی یہ ہے کہ بیوی سے اس کا برتائو اچھا ہو۔
اسی حدیث کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح بھی فرمایا کہ ’’سب لوگوں سے اچھا وہ ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ اچھا سلوک کرتا ہے، اور میں تم سب سے بڑھ کر اپنی بیوی سے اچھا سلوک کرنے والا ہوں۔‘‘ (مشکوٰۃ شریف)
نہ صرف آپؐ نے اپنے اقوال و احادیث سے بیوی کے حقوق کو واضح کیا، بلکہ عملی طور پر آپؐ کی زندگی میں بیویوں کے ساتھ محبت اور حُسنِ سلوک کی جھلکیاں ہمارے سامنے ہیں… اماں عائشہؓ صدیقہ سے آپؐ کی محبت اور پھر ان کی دلجوئی کرنا آپؐ کی زندگی سے واضح ہے۔ جب میں نے افک کا واقعہ (سورۃ النور میں) پڑھا تو تفصیل جان کر حیرت کے ساتھ مسرت ہوئی کہ اتنے بڑے واقعے پر آپؐ کی طبیعت میں منفی ردعمل یا غصہ نظر نہیں آتا، بلکہ آپؐ کو بیوی پر اعتماد بھی تھا اور رب العزت کی طرف سے اماں عائشہؓ کی بریت کا انتظار بھی تھا، گرچہ اس واقعے نے آپؐ کو تکلیف پہنچائی تھی۔ یہ تھی آپؐ کے کردار و عمل کی بردباری، تحمل اور دانائی… دینِ اسلام نے تو تیز و طرار عورت کے ساتھ بھی تدبر اور دانائی سے برتائو کی تاکید فرمائی ہے تاکہ وہ راہِ راست پر آسکے۔
جیسا کہ آپؐ نے فرمایا: ’’میں تمہیں عورتوں کے بارے میں اچھے برتائو کی نصیحت کرتا ہوں، تم اسے قبول کرلو، کیونکہ عورت ٹیڑھی پسلی سے پیدا ہوئی ہے، اگر تم اسے سیدھا کرنا چاہو گے تو اسے توڑ دو گے، اور اس کا توڑنا طلاق ہے، اور اگر اس کو اس کے حال پر چھوڑ دو گے تو ٹیڑھی رہے گی۔ اس لیے اس کے حق میں اچھے سلوک کی نصیحت قبول کرو۔‘‘ (بخاری مسلم)۔
اس حدیث ِمبارکہ کی روشنی میں بیویوں کے ساتھ اعتدال، توازن و انصاف کے ساتھ برتائو کرنے کی ہدایت ہے۔ کس قدر خوبصورت و جامع الفاظ میں شوہروں کو بیویوں کے ساتھ برتائو کی تعلیم دی گئی ہے۔
خوش نصیب ہیں مسلمان عورتیں کہ رب العزت نے اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے خواتینِ اسلام کے لیے ایک واضح دستور پیش کردیا ہے، ان کو تکریم و تحفظ فراہم کردیا گیا ہے، زمین پر ٹکنے کے لیے ان کے پائوں مضبوط کردیے ہیں، شوہروں کو ان کے ساتھ عزت، حُسنِ سلوک، نان نفقہ فراہم کرنے اور ان کا خیال رکھنے کی تاکید فرمائی ہے۔ قیمتی اور نایاب اشیاء کو جس طرح سنبھالنے کی تاکید کی جاتی ہے اسی طرح مسلمان عورت کو حجاب، عزت و تکریم اور تحفظ عطا کیا گیا ہے۔ ہم مسلمان خواتین اس روئے زمین پر خوش نصیب ہستیاں ہیں جن کے بارے میں اللہ نے قرآن پاک میں اور ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے احادیث میں احکامات اور حقوق واضح کیے ہیں، جس کی مثال کسی مذہب، معاشرے اور ملک میں نہیں ملتی، سوائے حدودِ اسلام کے دائرے کے۔
جس طرح صنف ِنازک یعنی عورت (بیوی) کے حقوق احکاماتِ الٰہی اور احادیث سے واضح ہیں، اسی طرح بیوی پر شوہر کے حقوق کو بھی واضح کردیا گیا ہے۔
آج کے ماڈرن دور کی عورت جس طرح شوہر کے حقوق کو روندتی بے لگام نام نہاد ترقی کی طرف دوڑ رہی ہے، وہ لمحہ فکریہ ہے۔
اسلامی احکامات اور احادیث میں عورت کے اوپر اپنے شوہر کے جو حقوق واضح کردیے گئے ہیں اس کے پیچھے حکمت و دانائی اور مصلحتیں پوشیدہ ہیں، اور ان ہی حقوق کی پاسداری کرنے میں عورت کو عزت و تحفظ بھی حاصل ہے۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ آپؐ سے پوچھا گیا کہ کون سی عورت اچھی ہے؟ فرمایا: جو ایسی ہوکہ جب شوہر اس کو دیکھے تو اسے خوش کرے، جب اس کو حکم دے تو بجا لائے، اور اپنی ذات اور اپنے مال میں اس کے خلاف نہ کرے اس طرح کہ ناخوش رکھے مرد اس کو۔(نسائی)۔
عورت (بیوی) کو اپنے شوہر کی ضروریات کا خیال رکھنا ضروری ہے، اور شوہر جو اپنے معاشی حالات کے مطابق اس کے نان نفقے کا خیال رکھتا ہے اس کی قدر کرنی چاہیے۔ بعض عورتیں ہمیشہ شوہروں سے نالاں رہتی ہیں، ان کی ناقدری کرتی ہیں، ان کے اچھے اور مہربان رویّے کے باوجود ناشکری کی بات کرتی ہیں جو کہ غلط روش ہے۔ ایسی ہی عورتوں کے لیے آپؐ نے فرمایا: میں نے (دوزخ میں) دیکھا کہ زیادہ تر عورتیں ہیں۔ لوگوں نے پوچھا: حضورؐ اس کا کیا سبب ہے؟ فرمایا: ان کی ناشکری۔ صحابہ نے عرض کیا: کیا خدا کی ناشکری؟ فرمایا: خاوند کی ناشکری اور بے قدری، (ان کی ناشکری اتنی زیادہ ہے کہ) اگر تم عمر بھر ان کے ساتھ احسان کرتے رہو، پھر ایک بار ذرا سی کمی ہوجائے تو جھٹ کہہ دیتی ہیں میں نے کبھی تیری طرف سے بھلائی نہیں دیکھی۔ (بخاری مسلم)۔
یہ حقیقت ہے۔ آپ اپنے چاروں طرف نظر دوڑائیں، تجزیہ کریں تو آپ کو ضرور چند ایسی عورتیں نظر آئیں گی جو شوہر کی تمام اچھائیوں پر پانی پھیر دیتی ہیں کہ اس بندے سے تو مجھے کچھ ملا ہی نہیں۔ ایسی خواتین اکثر خود بھی بے سکونی کا شکار رہتی ہیں اور گھر میں بھی بے سکونی کا سبب بنتی ہیں۔ شوہر کے ساتھ ان کی اَن بن رہتی ہے جس کا اثر گھر کے باقی افراد خصوصاً ان کی بچوں پر بھی پڑتا ہے، بلکہ سب سے زیادہ شکار وہی رہتے ہیں۔ میں نے اپنی والدہ کو دیکھا کہ وہ ہمیشہ بابا کے ’’گن‘‘ گاتی رہتی تھیں کہ اس شخص نے مجھے عزت، دولت، توجہ اور اولاد سب دیا ہے (رب کی رضا سے)۔ یہی وجہ تھی کہ ہمارے دلوں میں بھی باپ کا ایک اعلیٰ مقام رہا، اور گھر میں سکون اور خوشحالی رہی (الحمدللہ)۔
غرض کہ دینِ اسلام نے میاں بیوی کے جو حقوق ایک دوسرے پر عائد کیے ہیں ان کی پاسداری سے مستحکم معاشرے اور گھرانوں کی بنیاد پڑتی ہے، سکون اور محبتوں کے رشتے استوار ہوتے ہیں، ایک دوسرے کے لیے عزت و احترام پروان چڑھتا ہے۔
ایک دوسرے کی چھوٹی چھوٹی غلطیوں اور کوتاہیوں کو نظرانداز کرنے، اور درگزر، تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کرنے سے ہی ’’پیارا گھر‘‘ بن سکتا ہے۔
لہٰذا والدین کی یہ بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ بیٹے اور بیٹی کی تربیت کرتے ہوئے انہیں اس تعلیم سے بھی آشنا کریں تاکہ ان کے بچے اور وہ خود بھی پُرسکون زندگی گزار سکیں۔

حصہ