زندگی بے بندگی شرمندگی

768

سیدہ عنبرین عالم
انعام الدین صاحب 40 برس کے ہوچکے تھے، ماشاء اللہ ماں باپ حیات تھے اور انہی کے ساتھ قیام پذیر تھے۔ دو بھائی اور تھے، وہ علیحدہ ہوگئے تھے، بس عید، بقرعید میں ماں باپ کو سلام کرنے آجاتے۔ انعام صاحب چھوٹے ہونے کے ناتے ہر مہینے دو مہینے میں بڑے بھائیوں کو سلام کر آتے۔ انعام صاحب کی بیگم شاہانہ بھی انتہائی خوش اخلاق تھیں۔ میکہ سسرال خوب نبھا رہی تھیں، کسی کو ان سے شکایت نہ تھی۔ دو بیٹیاں تھیں عائزہ اور فائزہ، بالترتیب 14 اور 12سال کی تھیں۔ اولادِ نرینہ کی خواہش دس سال بعد پوری ہوئی۔ چھوٹا شہزاد ابھی ایک سال کا تھا۔ ساتھ میں انعام صاحب کی بڑی ہمشیرہ بھی رہتی تھیں۔ بچپن سے ہی شوگر کی مریض تھیں۔ علالت اتنی بڑھی کہ دونوں گردے فیل ہوگئے، ڈائیلاسز پر تھیں۔ کبھی آنکھوں میں انجکشن لگ رہے ہیں، کبھی کوئی رسولی ہوئی تو اس کا آپریشن، کبھی خون کے بڑے بڑے انفیکشن ہوجاتے۔ مختصر یہ کہ ڈائیلاسز کے علاوہ بھی مستقل کسی نہ کسی مرض میں گھری رہتیں۔ کچھ نہیں تو روز جاکر اپنے انسولین کے انجکشن لاتیں جو کبھی کام ہی نہ کرتے۔ شوگر کی زیادتی سے ٹانگیںسُن رہتیں، پھر بھی مجال ہے اپنا کوئی کام کسی کو کہہ دیں۔ اپنا پرہیزی کھانا بھی خود بنا لیتیں۔ ماں باپ کی خدمت کی بھی ساری ذمہ داری خود اٹھا رکھی تھی۔ بس عبادت میں مشغول رہتیں۔ زیادہ بات چیت بھی نہ کرتیں۔ ایک بوتیک پر نئے نئے ڈیزائن بناکر چھوٹی بچیوں کے فراک وغیرہ سپلائی کرتیں۔ دو عورتیں مدد کے لیے رکھی ہوئی تھیں۔ اپنے علاج کا خرچا خود اٹھاتی تھیں۔ انعام صاحب اسٹیشنری کی دکان چلاتے تھے، ظاہر ہے اس میں کہاں اتنی آمدنی ہوتی ہے کہ اتنی بڑی بڑی بیماریوں کا خرچا اٹھا سکیں! بڑے بھائیوں کو تو اتنی توفیق بھی نہ تھی کہ کبھی ماں یا بہن کو ایک جوڑا ہی لاکر دے دیں، بس یہ کہ زندگی رواں دواں تھی، پُرسکون تھی۔
انعام صاحب کو سینے میں کچھ گھٹن سی رہنے لگی تھی۔ توانا آدمی تھے، زیادہ فکر نہ کی۔ جب تکلیف زیادہ بڑھ گئی تو بڑی بہن سے ذکر کیا۔ انہوں نے کہا: گیس وغیرہ کا مسئلہ ہوگا۔ ہاضمے کی دوائیں لاکر دے دیں، مگر مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی والا قصہ تھا۔ آخر باجی انہیں اسپتال لے گئیں، معلوم ہوا دل کی شریانوں میں کچھ بندش ہوگئی ہے۔ بات بہن بھائی کے درمیان ہی رہی، کسی سے ذکر نہ کیا اور علاج شروع کرا دیا۔
ایک رات انعام صاحب سونے کے لیے لیٹے۔ بچہ بہت رو رہا تھا تو شاہانہ بیگم اسے لے کر ڈرائنگ روم میں چلی گئیں کہ انعام صاحب سکون سے سوجائیں۔ رات کے کسی گہرے پہر انعام صاحب کی آنکھ کھل گئی، کمرہ گول گول گھوم رہا تھا اور اندھیرا اجالا جل بجھ رہا تھا۔ عجیب اختلاجی کیفیت تھی، جی متلایا ہوا تھا، آواز دینا چاہی تو آواز بھی حلق سے نہیں نکل رہی تھی۔ پسینہ پسینہ ہوگئے اور پھر بستر سے گر گئے۔ سمجھ گئے کہ دل کا دورہ پڑا ہے۔ شدید تکلیف سینے میں محسوس ہورہی تھی۔ ایک بڑا سا ہیولا اچانک سامنے آگیا ’’چلو بھئی تمہارے چلنے کا وقت ہوگیا، کراماً کاتبین بھی رجسٹر لے کر اوپر چلے گئے ہیں، چاہو تو کلمہ پڑھ لو، نیک آدمی ہو اس لیے موقع دے رہا ہوں ورنہ میرے پاس کہاں اتنا وقت ہوتا ہے۔ اوہ نہیں پہچانے؟ میں ملک الموت ہوں‘‘۔ وہ ہیولا بولا۔
اب انعام صاحب کا یہ حال کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔ یہ افتاد اچانک سے کیسے آپڑی۔ ’’بھائی! میرے چھوٹے بچے ہیں، میرے گھر والوں کا میرے سوا کوئی نہیں، میں مرگیا تو بڑی مشکل ہوجائے گی، چھوڑ دو بھائی‘‘۔ وہ گڑگڑائے۔
’’ارے بھائی! میری کیا مجال، مجھے تو حکم ہوا ہے، میں آگیا، آگے بھی آٹھ بندوں کی جان لینی ہے‘‘۔ ہیولا بولا۔
’’ملک الموت صاحب! کوئی حکمت کیجیے، کوئی طریقہ نکالیے، کوئی تو راستہ ہوگا‘‘۔ انعام صاحب منتیں کرنے لگے۔ ہیولا تھوڑا دھندلایا، پھر غائب ہوگیا، چند لمحوں بعد پھر نمودار ہوا ’’جی انعام صاحب! ایک صورت ہوسکتی ہے، آپ کو تین مہینے کا وقت میں اپنی صوابدید پر دے سکتا ہوں، اس سے زیادہ مجھے اختیار نہیں، اب اگر آپ ان تین مہینوں میں کوئی ایسی نیکی کر جائیں کہ میرا رب راضی ہوجائے اور اسے لگنے لگے کہ آپ کا کچھ عرصہ اور دنیا میں رہنا انتہائی بھلائی افزا ہوسکتا ہے تو آپ کو میرا رب جتنی چاہے گا اور زندگی دے دے گا‘‘۔ ملک الموت نے آفر دی۔ انعام صاحب نے سُکھ کا سانس لیا۔ ’’چلو تین مہینے تو ملے، ان شاء اللہ آگے بھی کوئی جگاڑ ہوجائے گی‘‘۔ وہ بولے۔
’’او مسٹر!‘‘ ملک الموت چنگھاڑا ’’جگاڑ کے مامے، تم اپنی پاکستانی سوچ نہ چھوڑنا۔ یہ جگاڑ نہیں، اللہ میاں کی تم پر خاص مہربانی ہے، اگر ان تین مہینوں میں کوئی بڑا گناہ کربیٹھے تو وہیں کے وہیں مہلت ختم، سیکنڈ نہیں لگے گا مجھے تم پر دوبارہ نازل ہونے میں۔ اس لیے اوقات میں رہنا، سمجھے؟‘‘ ہیولے سے آواز آئی۔انعام صاحب سٹپٹائے، ’’جی ملک الموت انکل! ان شاء اللہ شکایت کا موقع نہیں دوں گا‘‘۔ انہوں نے وعدہ کرلیا۔ دھواں سا اٹھا، کچھ خوشبو سی پھیل گئی اور ہیولا غائب ہوگیا۔ انعام صاحب کی طبیعت اب ٹھیک تھی۔
دوسرے دن کا آغاز عام انداز میں ہوا۔ وہی دیسی گھی میں تربتر تین چار انڈے اور چار پراٹھے۔ پانچ چمچے شکر ڈال کر چائے پیتے ہوئے انعام صاحب اسی سوچ میں غرق تھے کہ آخر اللہ کو وہی ملے تھے دل کا مریض بنانے کے لیے، آخر انہی کے ساتھ ایسا کیوں ہوا، وہ تو کسی کا دل بھی نہیں دُکھاتے۔
خیر جناب! اب تو انعام صاحب ہر وقت اس چکر میں رہتے کہ کوئی نیکی کرجائیں۔ پہلے بھی بداخلاق نہیں تھے، اب کچھ زیادہ ہی خوش اخلاق ہوگئے۔ مسجد جاکر پانچ وقت کی نماز تو پڑھتے ہی تھے، تہجد بھی پڑھنے لگے۔ ہر وقت زیرِ لب کوئی آیت یا اللہ پاک کے نام کا ورد رکھتے۔ بارشوں کا موسم تھا، ایک روز بیگم کو دیکھا کہ لاکھ جتن کے باوجود ماچس جلانے میں ناکام ہیں۔ مدد کے لیے آگے بڑھے، پوری ماچس ختم ہوگئی مگر مجال ہے کہ ایک تیلی بھی جلی ہو۔ فوراً گئے، بازار سے لائٹر لے کر آئے۔ بیگم کو کام کی سہولت ہوگئی۔ سوچنے لگے ہر گھر میں یہی مسئلہ ہوگا، بارش میں ماچس نہیں جلتی ہوگی۔ نیکی کی بتی جل اٹھی، 400 لائٹرز کا آرڈر دے آئے۔ اب جناب! دوستوں، رشتے داروں کو تو لائٹر دیے ہی دیے، غریب بستیوں میں بھی بانٹ آئے۔ بڑے خوش کہ کیا کلاس کی نیکی کی ہے۔ پھر دکان پر غریبوں کو اس قدر رعایت دینے لگے کہ دھندا چوپٹ۔ دو ہفتے نہ گزرے تھے کہ باجی کے آگے ہاتھ پھیلائے بیٹھے تھے کہ نیکیوں میں اتنا خرچا ہوگیا ہے، بچوں کی اسکول کی فیس کے پیسے تک نہ بچے۔ باجی بے چاری اپنی بیماری کا خرچا ہی جیسے تیسے اٹھا رہی تھیں، کبھی کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلایا، بولیں: ’’منے! کبھی یہ تو نہ پوچھا کہ میں مہینے کی 30 ہزار کی دوائیں کیسے لیتی ہوں، آج پیسے مانگنے آگئے ہو، ایک گھر میں رہتے ہوئے کبھی توفیق نہ ہوئی کہ مجھ سے ایک روپے کی نیکی کردو، باہر لائٹر بانٹتے پھرتے ہو! مجھ پر خود قرض چڑھا ہوا ہے، نئی حکومت کیا آئی، ٹیکسوں کے چکر نے مار ڈالا ہے، کوئی کاروبار نہیں چل رہا، ہم ناتجربہ کار گھریلو لوگ کیا کمائیں گے، کیا کھائیں گے…!‘‘ بڑے افسردہ ہوئے۔ اس بات پر نہیں کہ باجی بھی خالی ہاتھ ہیں، بلکہ اس بات پر کہ آج تک سگی بہن سے کوئی نیکی نہیں کرسکے۔ گھر کی نیکی ہاتھ سے گئی۔ روز بیگم ہاتھ پھیلا کر کھڑی ہوجاتیں اور پیسے نہ ملنے پر بے نقط کی سناتیں۔ نتیجتاً ہر چیز کے دام بڑھا دیے، اور اتنے بڑھا دیے کہ کوئی دکان پر ہی نہ پھٹکتا۔ پریشان کہ کیا نیکی کریں؟ پھر یوں کیا کہ آتے جاتے اپنی بوسیدہ سی موٹر سائیکل پر لوگوں کو لفٹ دینے لگے کہ چلو ثواب کمائیں گے۔ ایک دن ایک صاحب کو لفٹ دی، ذرا سناٹے کا علاقہ آتے ہی اُن صاحب نے کنپٹی پر پستول رکھ دیا۔ موبائل اور بٹوا تو گیا ہی، مشکل کا آسرا ان کی کھٹارا موٹر سائیکل بھی لے گئے، سناٹے میں ٹانگ میں گولی بھی مار گئے۔ اب چکر آنے لگے، کمزوری بڑھتی ہی گئی، خون جو بہت بہہ گیا۔ آنکھوں میں دھواں سا بھر گیا، پھر ایک ہیولا سامنے نظر آنے لگا۔ ’’اور سنائواستاد! پھر چلنے کی تیاری ہے؟‘‘ ملک الموت پھر سامنے کھڑے تھے۔ انعام صاحب کی حالت خراب تھی۔ ’’بھائی رحم کرو، ابھی نہیں، میرے تو دو مہینے ابھی باقی ہیں، آپ پھر سے سامنے آکھڑے ہوئے، یہ تو وعدہ خلافی ہے‘‘۔ انعام صاحب متزلزل آواز میں بولے۔
ہیولے سے ایک قہقہہ بلند ہوا۔ ’’کاہے کی وعدہ خلافی! کوئی ڈھنگ کی نیکی تم نہ کرسکے۔ لائٹر بانٹتے ہو، اور تمہارے گھر میں کل تمہاری باجی رات کے ایک بجے طبیعت خراب ہونے پر اکیلی اپنی دوا لینے گئیں، تمہاری ماں بغیر بلڈ پریشر کی دوا کے ایک ہفتے سے گزارا کررہی ہے کیوں کہ تمہاری باجی کے پاس انہیں دوا دلانے کے پیسے نہیں ہیں، تمہاری بیوی ایک مہینے سے اپنی ماں سے ملنے نہیں گئی کیوں کہ تم کرائے کے پیسے نہیں دیتے‘‘۔ وہ بولا۔
’’اچھا! اب میں خیال رکھوںگا۔ بھائی! میں تو نیکی کرنے کی بہت کوشش کرتا ہوں، مجھ سے ہوتی نہیں‘‘۔ انعام صاحب بولے۔ ہیولے نے ایک تھپڑ انعام صاحب کو مارا، ’’کیوں کہ تم اپنے رب سے پیار نہیں کرتے، اگر پیار ہی نہیں ہے تو ساری نیکیاں بے کار ہیں۔ نیکی کی توفیق بھی اللہ دیتا ہے، اللہ سے بنا کر رکھو۔ اسے تمہارے نفلوں کی حاجت نہیںہے، جائو تمہیں دوبارہ چھوڑ دیا، اب صرف دو مہینے باقی ہیں‘‘۔ وہ بولا اور دھواں بن کر فضا میں غائب ہوگیا۔
…٭…
انعام صاحب خون زیادہ بہہ جانے کی وجہ سے خاصی دیر بے ہوش پڑے رہے، پھر کسی راہ گیر نے ایدھی فون کیا۔ بس اللہ میاں نے جان بچالی، لیکن ہڈی خاصی چکنا چور ہوگئی، پلستر چڑھا اور انعام صاحب بستر کے ہوکر رہ گئے۔ دکان ابا میاں سنبھالنے لگے، آمدنی کچھ بہتر ہوئی۔ اب چونکہ ملک الموت صاحب باجی کے حوالے سے سرزنش کرچکے تھے، تو انعام صاحب نیکی کمانے کے لیے باجی کی کچھ خدمت کرنا چاہتے تھے، خود تو معذور بھی ہوگئے تھے اور جیب سے بھی خالی تھے، شاہانہ بیگم کو تنبیہ کردی کہ باجی بہت بیمار ہیں، ان کو اکیلا کہیں نہ جانے دو، کہیں کوئی حادثہ نہ ہوجائے۔ ’حکمِِ حاکم مرگِ مفاجات‘ شاہانہ بیگم اپنے ایک سال کے بچے کو اٹھائے اٹھائے ہر جگہ باجی کے ساتھ چل پڑتیں۔ باجی تین روز تو ڈائیلاسز پر جاتیں، باقی دن کبھی آنکھ کا ڈاکٹر، تو کبھی شوگر کا ڈاکٹر، پھر کاروبار کے سلسلے میں کہیں آنا جانا پڑتا، پھردرس وغیرہ میں بھی کئی جگہ شرکت کرتیں۔ آزاد باش خاتون تھیں، خودمختار زندگی گزار رہی تھیں، وہ بھی ہر وقت کے دُم چھلے سے عاجز آگئیں، اکثر جھنجھلا کر شاہانہ سے الجھ پڑتیں۔ اُدھر شاہانہ کے گھر سے جانے سے گھر کا سارا نظام تلپٹ ہوگیا۔ اماں کوئی بیس برس بعد دوبارہ باورچی خانہ سنبھالنے پر مجبور ہوگئیں، بچیاں الگ گھر کی صفائی ستھرائی، دادی کی مدد اور باپ کی خدمت میں ہلکان ہوئی جاتی تھیں۔ نتیجتاً ماہانہ ٹیسٹ میں فیل۔ شہزاد بھی ہر وقت باہر گھومنے اور باہر سے ہی الم غلم کھانے سے بیمار پڑ گیا۔ اماں کے گھٹنے، جو پہلے ہی دھکے پر چل رہے تھے، اس قدر محنت سے بالکل ہی جواب دے گئے، ڈاکٹر نے سرجری بتادی۔ اب انعام صاحب کا یہ حال کہ دل ہی نہیں لگتا تھا، گناہ سے تو گھبراتے تھے، اس لیے فلموں اور گانوں سے پرہیز تھا۔ قرآن بھی کتنا پڑھتے! دینی کتابیں اور اخبار بھی کتنا پڑھتے! بس بستر پر پڑے پڑے کھاتے رہتے۔ دو، دو سو روپے کے چپس کے پیکٹ روز کھا جاتے۔ کھانا تو چار پانچ ٹائم کھاتے، فون پر آرڈر کرکے برگر، پیزا بھی منگا کے کھاتے۔ ابا خرچے کا رونا روتے تو بچیوں کو بھیج کر سموسے منگا کر کھاتے۔ یعنی زندگی کی واحد تفریح بستر پر دراز ہوکر دن رات کھانا رہ گئی تھی۔ چوں کہ رب سے پیار کی تجویز بھی ملک الموت نے دی تھی تو بات چیت بہت کم کر دی تھی، بس اللہ کے نام پڑھتے رہتے اور زندگی کی بھیک مانگتے رہتے۔
ایک مہینہ گزر گیا، ٹانگ تو تقریباً ٹھیک ہو گئی تھی، مگر وزن 8 کلو بڑھ گیا، پھر ایک روز دل کا ایسادورہ پڑا کہ آنکھ ICU میں کھلی، سامنے ملک الموت صاحب بیٹھے مسکرا رہے تھے ۔’’بھئی آج تو آپ کو لیے بغیر نہیں جائوں گا، آپ نے پورا مہینہ سوائے بربادی کے کچھ نہیں کیا، اب مہلت ملنا ممکن نہیں‘‘۔ انہوں نے فرمایا۔
انعام صاحب کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں۔ ’’ارے ملک الموت چاچا! قسم کھا کر کہہ سکتا ہوں میں نے تو نیکی کی کوشش کی مگر کچھ نہ کچھ گڑبڑ ہی ہوجاتی ہے، کیا کروں!‘‘ وہ گڑگڑا کر بولے۔
ملک الموت صاحب مسکرائے، ’’مسئلہ یہ ہے کہ تم جو نیکی کرتے ہو، صرف اپنی جان بچانے کے لیے کرتے ہو۔ تم سے کہا تھا صرف وہ نیکی مقبول ہے جس کے پیچھے عشقِ الٰہی ہو، پھر اللہ کی مدد بھی آتی ہے اور نیکی واقعی بھلائیوں کا سبب بھی بنتی ہے… چلو تمہیں آخری مہینہ دیا، ایک بار پھر کوشش کرلو، یاد رکھنا یہ آخری موقع ہے‘‘۔ وہ بولے اور غائب ہو گئے۔
…٭…
انعام صاحب واکر سے چلنے لگے تھے، اب انہوں نے نارمل زندگی گزارنی شروع کردی، سوچ لیا کہ نیکی کی اتنی کوشش کے باوجود کامیاب نہ ہوسکا تو اب کیا کوشش کرنی! بس ایک مہینہ گزار کر چلا جائوں گا۔ صبح اٹھ کر فجر پڑھتے، پانی کی موٹر چلاتے، واکر سے ہی جاکر دودھ، انڈے، ڈبل روٹی لے آتے۔ موت کے خوف سے بھوک بھی اڑ گئی تھی، بہت مختصر اور سادہ کھانے لگے تھے۔ ناشتا کرکے تلاوت کرتے۔ دکان تو ابا نے ہی سنبھال لی تھی کیوں کہ یہ صحیح آمدنی کر نہیں پاتے تھے، یہ صبح آٹھ بجے سے آلو کاٹنے بیٹھ جاتے، پکوڑوں کا مسالہ تیار کرتے، ایک لڑکا ملازم رکھ لیا۔ قریب دو تین اسکول تھے، وہاں کڑھائی چڑھا کر بیٹھ جاتے۔ 12 بجے سے 3 بجے تک فرنچ فرائز اور پکوڑے تیار کرکے بیچتے، وہیں جاء نماز بچھا کر ظہر بھی ادا کرتے، دوپہر کا کھانا کھا کر سو جاتے۔ پھر عصر کے بعد دونوں بچیوں کو، اور جو لڑکا ملازم رکھا تھا، یتیم تھا، لے کر بیٹھ جاتے اور سات بجے تک انہیں اسکول کا بھی پڑھاتے اور دینی تعلیم بھی دیتے۔ پھر باجی کے ساتھ گھنٹہ بھر بیٹھتے۔ انہیں پہلی بار پتا لگا کہ باجی کس قدر علم رکھتی ہیں۔ کچھ دن میں ہی انہیں باجی کی صحبت میں بڑا مزا آنے لگا۔ شاہانہ اور امی بھی آکر بیٹھ جاتیں، خوب علم افزا باتیں ہوتیں۔ رات کا کھانا کھا کر اپنے کمرے میں جاء نماز پر بیٹھ جاتے اور رو رو کر تمام عمر کے گناہوں کی اللہ تبارک تعالیٰ سے معافیاں مانگتے۔ دل اس قدر نرم پڑ گیا تھا کہ کوئی اللہ کا نام بھی لیتا تو آنکھیں بھیگ جاتیں اور رب کی ثنا کرنے لگتے۔ ایک کیا تین مہینے گزر گئے، ملک الموت نہ آئے۔
آخر ایک روز سارا قصہ باجی کو کہہ سنایا۔ ’’منے تم نے عشق کو اپنا لیا۔ یہی سب سے بڑی نیکی ہے۔ جب اللہ سے براہِ راست رابطہ ہوجائے تو پھر وہ حال ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’مومن کی فراست سے ڈرو، وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے‘‘۔ جب فراست و بصیرت حاصل ہوگئی تو تمہارا ہر لفظ اور ہر عمل انتہائی مبارک ہوگا۔ بغیر عشق کے ہر نیکی بے کار ہے، مومن وہ ہے جو دن رات اپنے معمولات میں میرے رب کو یاد رکھے، ہر عمل اللہ کی رضا کے لیے ہو۔ ہر وقت عبادت ہی نیکی نہیں، مومن فطرت کے قریب زندگی گزارتا ہے، بالکل ایک عام انسان کی زندگی۔ کسبِ معاش، خاندان کی ذمہ داریاں، دوست، رشتے دار، تفریح سب کرتا ہے، لیکن ہر عمل اللہ کے حکم کے تابع ہوتا ہے۔ جب دل میں اخلاص ہو تو نیکی وارد ہوتی ہی ہے، ارادہ بھی نہیں کرنا پڑتا‘‘۔ باجی نے انعام صاحب کو سمجھایا۔
انعام صاحب نے جو یتیم لڑکا رکھا تھا، اب اُس کی دو بہنوں کی بھی ذمہ داری اٹھا لی ہے۔ ایک نیکی مگر مکمل ذمے داری کے ساتھ۔ دس نیکیوں کے چکر میں وہ ایک سے بھی جانا پسند نہیں کرتے۔ ماشاء اللہ چھوٹا سا ریسٹورنٹ کھول لیا ہے۔ باجی کا سارا خرچا بھی اب خود اٹھاتے ہیں۔ اماں کی سرجری ہوگئی، اب بہت سکون میں ہیں۔ شاہانہ ہر اتوار میکے جانے لگی ہیں، انعام صاحب بھی ساتھ جاتے ہیں، ساس سسر کی جی جان سے خدمت کی کوشش کرتے ہیں، جب بلائو حاضر، جیسے شاہانہ ان کے والدین کی خدمت کرتی ہیں۔ ملک الموت صاحب نے رجسٹر چیک کیے تو لکھا تھا کہ انعام صاحب اپنی دو بچیوں، ملازم لڑکے کی دو بہنوںکو رخصت کریں گے، پھر ہی راہی ملکِ عدم ہوں گے۔ کم از کم 30 سال کی مہلت اور مل گئی ہے۔

حصہ