زندگی اے زندگی

547

فرحی نعیم
۔’’باجی! میں کل نہیں آئوں گی۔‘‘ سکینہ تیزی سے کوفتے بناتے ہوئے پتیلی میں ڈالتے ہوئے بولی، اور میں جو کیبنٹ میں سے مسالے نکال رہی تھی، یکدم ہاتھ روک کر اسے دیکھا۔ اس نے لمحہ بھر نگاہ اٹھا کر میری پریشان صورت دیکھی اور دھیرے سے مسکرا دی۔ معلوم تھا ناں کہ ان لوگوں کے بغیر کام رک جاتے ہیں۔
’’خیریت تو ہے… کیا کسی بچے کی طبیعت ٹھیک نہیں؟‘‘
’’نہیں نہیں، بچے تو شکر ہے سب ٹھیک ہیں، بہن سے ملنے جانا ہے لانڈھی۔‘‘
’’تو شام میں چلی جانا، کام کرکے۔‘‘
’’نہیں باجی، صبح ہی دس بجے تک نکلوں گی، ڈیڑھ گھنٹے کا تو راستہ ہے۔ بیگم اشرف سے تو میں نے کل ہی کہہ دیا تھا، آپ سے آج کہہ رہی ہوں، اگر کام کرکے جائوں گی تو بہت دیر ہوجائے گی۔‘‘ اس نے آخری کوفتہ گریوی میں ڈالا اور پتیلی چولہے پر رکھی۔ پھر گوندھے ہوئے آٹے کی پرات اپنی طرف کھینچی۔
’’اچھا…‘‘ میں نے ڈھیلے ڈھالے انداز میں کہا۔ ’’بڑی بہن سے؟‘‘
’’نہیں جی، چھوٹی بہن ہے، پانچ سال بعد مل رہی ہوں۔‘‘
’’کیوں، کیا گائوں سے آئی ہے، یا تم لوگوں کا کوئی جھگڑا، ناراضی…؟‘‘
’’کیسی ناراضی یا جھگڑا؟ قسمت نے تو خود اُس کے ساتھ بہت بڑا جھگڑا کیا ہے۔‘‘ اس نے روٹی توے پر ڈالی اور دوسرا پیڑا بنانے لگی۔
’’ٹھیک سے بتائو، اس طرح آدھی ادھوری بات سے میں کیا سمجھوں؟‘‘ میں کچھ جھنجھلائی۔
’’کل جیل سے آئی ہے بھائی کے گھر، وہیں جائوں گی ملنے۔‘‘
’’ہیں… ایں… جیل…؟‘‘ حیرت سے میری آنکھیں کھلیں۔ ’’پر کیوں…؟‘‘
’’میاں کے قتل کا الزام تھا، وہ بھی جھوٹا۔‘‘
’’جھوٹا الزام… کمال ہے، تم نے بتایا نہیں۔‘‘
’’کیا بتاتی باجی! یہ کوئی فخر کی بات تو تھی نہیں، پھر اتنے برسوں میں مَیں خود اس کے پاس نہ جا سکی ملنے، شروع شروع میں تو دو دفعہ مل آئی بھائی بہن کے ساتھ، لیکن میرے میاں نے بڑا شور ڈالا میرے جانے پر۔ بس پھر کیا کرتی، خاموش بیٹھ گئی۔ اب کل آئی ہے تو ملنے کو دل تڑپ رہا ہے۔‘‘
’’ہوں، اچھا ٹھیک ہے۔‘‘ میں نے سر ہلایا، لیکن اصل قصہ جاننے کا تجسس سر ابھارنے لگا تھا۔ ’’چلو پرسوں آئو گی تو تفصیل سے بتانا۔‘‘
’’یہ مرد بڑے ظالم ہوتے ہیں، نہ جانے عورت اور خاص طور پر بیوی سے انہیں کیا بیر ہوتا ہے! بیوی بناکر لائے ہو تو اسے خوش بھی رکھو، لیکن اس کی جان عذاب میں کردیتے ہیں۔‘‘
وہ اب جلدی جلدی پھیلاوا سمیٹ رہی تھی۔ کام اس کا مکمل ہوچکا تھا، زیرِ لب اس کی بڑبڑاہٹ جاری تھی ’’نہ زندگی میں سُکھ دیتے ہیں اور نہ مرنے پر…‘‘
’’کیا بول رہی ہو سکینہ؟‘‘ اس کی بڑبڑاہٹ سن کر میں نے گردن موڑی۔
’’بس باجی! ہم عورتیں بڑی مظلوم ہیں، ہماری کہانیاں بھی عجیب ہیں۔‘‘ وہ پھیکی ہنسی ہنسی۔ ’’بتائوں گی آپ کو کسی وقت فرصت سے۔‘‘ اتنا کہہ کر وہ چلی گئی اور میرے ذہن میں عجیب الجھن ڈال گئی۔ زندگی میں تو دکھ دینے کا سمجھ میں آتا ہے، لیکن مرنے کے بعد؟ موت کا ہی غم ہوگا اور کیا ہوسکتا ہے! سکینہ کی بہن کی زندگی کی کہانی میں انتہائی دل چسپی محسوس ہوئی۔
…٭…
’’کیا کرو گی باجی! مجھ بدنصیب کی کہانی سن کر؟‘‘ میرے بہت اصرار پر آج سکینہ اپنی بہن کو لے آئی تھی اور اب ہم تینوں آمنے سامنے بیٹھے تھے۔ سکینہ نے آج دوسرے گھروں کا کام مختصر کرکے جلدی نمٹا لیا تھا، اسی لیے اب اطمینان سے بیٹھی تھی۔
’’شاید کچھ کر ہی لوں، اور اگر کچھ نہ بھی کرسکی تو کم از کم تمہارے لیے سچے دل سے دعا تو کر ہی سکتی ہوں۔‘‘ میرے لہجے میں شاید ایسا کچھ تھا جو اُس کے دل پر اثر کر گیا تھا، اس نے سر جھکا دیا۔ آنکھوں کے کنارے گیلے ہونے لگے تھے۔
’’جی باجی! اب تو مجھے دعائوں کی بہت سخت ضرورت ہے، بس آپ دعا کرنا کہ میری جتنی بھی زندگی ہے وہ سکون سے گزر جائے، میرے بچے میرے پاس آجائیں۔ جیل کے یہ پانچ سال، پانچ سال نہیں تھے بلکہ پچاس سال تھے۔ جو اذیت، کرب اور تکلیف میں نے جھیلی ہے، خدا کسی کو نہ دکھائے۔‘‘ آنسوئوں کے چند قطرے آنکھوں سے پھسل گئے تھے۔ ’’وہ تو خدا بھلا کرے ایک اسلامی جماعت کی وکیل عورتوں کا، جنہوں نے میرا کیس سن کر مجھ سے ہمدردی کی اور پھر مجھے اس جہنم سے نکالا، ورنہ اگر میں چند سال اور اُدھر رہتی تو نفسیاتی مریض بن جاتی۔‘‘ اس نے دوپٹے کے پلو سے چہرہ رگڑا۔
’’اللہ ہے ناں ہمارے ساتھ، وہ تھوڑی کسی پر ظلم ہونے دے گا۔‘‘
’’اللہ تو بے شک ہے، مگر یہ جو اللہ کے ظالم بندے ہیں ناں، یہ ہم عورتوں کو چین نہیں لینے دیتے۔‘‘ وہ زہرخند لہجے میں بولی۔
’’اری نورا تم باجی کو ٹھیک سے بتائو ناں، اس طرح وہ کیا سمجھیں گی!‘‘ سکینہ نے جیسے میرے دل کی بات کہہ دی تھی۔ میں بھی یہ چاہ رہی تھی کہ نورا مجھے شروع سے اپنی کہانی سنائے۔
’’کہاں سے شروع کروں باجی! وہاں سے جب ہم اپنے ابا کے گھر رہتے تھے۔ اگرچہ خوش حالی اور بے فکری تو وہاں بھی نہ تھی لیکن حالات اتنے خراب بھی نہ تھے۔ ہم چار بہنیں اور ایک بھائی، وہ بھی چاروں سے چھوٹا۔ ابا ایک اسکول میں چوکیدار تھا، اماں خالص گھریلو عورت۔ ابا کی تنخواہ میں ہم سات جانوں کا گزارا کیسے ہوسکتا تھا! لہٰذا اماں گھر میں سلائی کڑھائی کرکے ابا کا سہارا بنی ہوئی تھی۔ اسکول میں ابا کی نوکری کا یہ فائدہ ہوا کہ ہم سب بہنوں اور بھائی نے مشکل حالات کے باوجود کچھ نہ کچھ ضرور پڑھ لکھ لیا۔ ابا کی شرافت اور دیانت داری کی وجہ سے اسکول کے مالک نے ہماری فیس معاف کی ہوئی تھی۔ دو بہنوں نے آٹھویں کرکے چھوڑا ، اس نے (سکینہ نے) پانچویں کی۔ ایک میں ہی پڑھنے میں تیز تھی، میں نے میٹرک بڑے اچھے نمبروں سے کرلیا تھا، مگر پھر حالات نے اجازت نہ دی، اس لیے چاہتے ہوئے بھی آگے نہ پڑھ سکی۔ آہستہ آہستہ بہنوں کی شادیاں ہوتی گئیں۔ چوکیدار کی بیٹیوں کے رشتے بھی انہی جیسوں سے آئے تھے۔ کسی بہن کا میاں ڈرائیور تھا، تو کسی کا سبزی کا ٹھیلا لگاتا تھا۔ بھائی ابھی چھوٹا تھا، اس کو باپ کا سہارا بننے کے لیے ابھی بہت وقت چاہیے تھا۔ یوں ابا نے آنے والے رشتوں کی زیادہ دیکھ بھال نہ کی اور جلدی جلدی بیٹیاں نمٹانے لگا۔ میری شادی جمال سے ہوئی۔ وہ ایک بڑی سپر مارکیٹ میں سیلزمین تھا۔ آمدنی تو مناسب تھی لیکن وہ دماغ کا بڑا چڑچڑا تھا۔ اپنی ماں، بہن، بھائیوں سے بات بے بات لڑتا جھگڑتا تو میں تو پھر اُس کے پائوں کی جوتی کی حیثیت رکھتی تھی۔ اپنی مرضی ہوتی تو اچھی طرح بات کرتا، پیار جتلاتا، ورنہ ہاتھ اٹھانے سے نہ چوکتا۔ بس زندگی گزر رہی تھی۔ اسی دوران دو بچے بھی ہوگئے۔ بچوں کے بعد بھی بجائے اس کے کہ اپنی ذمہ داری کا احساس کرتا، اُس نے تو اور چیخنا چلّانا شروع کردیا تھا۔ جتنی دیر گھر سے باہر رہتا سکون رہتا، گھر میں آتے ہی فساد شروع کردیتا۔ اس کو برداشت کرنا میری مجبوری تھی، لیکن اس کی ماں، بھائیوں کی تو کوئی مجبوری نہ تھی۔ ایک دن بڑے بھائی نے اسے گھر سے نکل جانے کا کہہ دیا تھا۔ ان کے بیوی بچے بھی تنگ آئے ہوئے تھے۔ ماں نے بھی مجھے خوب سنائیں کہ میں اپنے شوہر کو سنبھال نہ سکی، اسے ٹھیک نہ کرسکی۔ میں کیا کہتی، جس شخص کو اُس کی ماں اور گھر والے نہ سمجھا سکیں میں نئی آنے والی کیا کرسکتی تھی! اور پھر مجھے وہ کوئی اہمیت دیتا ہی کب تھا! کبھی نرمی سے اُس سے کچھ پوچھنے کی کوشش کی تو فوراً ہی آپے سے باہر ہوجاتا۔ نہ جانے کیا مسئلہ تھا اُس کے ساتھ۔ میری ایک دوست نے مشورہ دیا کہ اسے کسی نفسیاتی ڈاکٹر کو دکھائو۔ میں نے ڈرتے ڈرتے یہ بات سسرال میں رکھی تو میرے خوب لتے لیے گئے۔ آخر خاموش ہوگئی۔‘‘ اتنا کہہ کر اس نے اپنا سر تھام لیا اور آنکھیں بند کرلیں۔ سکینہ نے پاس پڑا شربت کا گلاس اسے تھمایا تو چند گھونٹ بھر کر وہ پھر گویا ہوئی: ’’ماں، بھائی کے مجبور کرنے پر آخر جمال نے چند گلیاں چھوڑ کر دو کمروں کا ایک چھوٹا سا فلیٹ کرائے پر لے لیا۔ اس گھر میں تو ماں اور بھائیوں کے ڈانٹنے پر کسی وقت خاموش بھی ہوجاتا، لیکن یہاں تو قسمت کی ماری مَیں اور معصوم بچے ہی تھے۔ اب تو ہر وقت ہماری شامت آتی رہتی، پھر اب تو مکان کے کرائے اور دوسرے اخراجات بھی بڑھ گئے تھے، اس کی وجہ سے بھی وہ بدمزاج ہوچکا تھا۔ میں نے اگرچہ چند بچوں کو ٹیوشن پڑھانا شروع کردیا تھا، پھر کچھ سلائی بھی کرلیتی تھی، لیکن ہر وقت کی لڑائی نے جیسے گھر میں بے برکتی ہی ڈال دی تھی، اور پھر ایک دن…‘‘ اس نے جیسے خوف سے جھرجھری لی۔
’’شاید اُس کا باہر اپنے کام پر کسی سے جھگڑا ہوا تھا۔ وہ غصے کے ساتھ پریشان بھی تھا۔ میں نے اُس کی پریشانی جاننے کی کوشش کی، لیکن بجائے کچھ بتانے کے، مجھے بھی پیٹ ڈالا۔ اور پھر میں نے دیکھا کہ وہ کچھ گولیاں بھی کھاتا ہے۔ اس نے گولیاں لیں اور کمرہ بند کرلیا (ہفتے میں دو، تین دفعہ وہ اسی طرح کرتا تھا)۔ جب خاصی دیر تک کمرے کا دروازہ نہ کھلا تو میں نے پریشانی سے کھٹکھٹایا، پھر بھی نہ کھلا تو بمشکل کھڑکی کے ذریعے اندر کود کر دروازہ کھولا اور اسے دیکھا تو وہ بے سدھ تھا، سانس بھی آہستہ آہستہ چل رہی تھی۔ میں بری طرح گھبرا گئی، جلدی سے اس کے بھائی کو فون کیا، پڑوسیوں کو بلایا۔ سب جلدی سے اسپتال لے گئے اور اسپتال جاکر اس نے مرنے سے پہلے میرے ہی خلاف بیان دے دیا کہ میں نے اسے دھوکے سے کچھ کھلا پلا دیا ہے… آہ… یہ صلہ دیا اُس نے میری قربانی اور محنت کا، مرتے مرتے بھی مجھے قصوروار ٹھیرا کر ظلم کر گیا۔ اس کے گھر والے تو پہلے ہی مجھ سے بے زار تھے، انہوں نے فوراً پولیس بلوا لی۔ میں کتنا ہی روئی، پیٹی، دہائیاں دیتی رہی، لیکن ان ظالموں کو ذرا رحم نہ آیا۔ میرے خلاف پولیس میں کیسے کیسے الزام لگا دیے۔ میرے دونوں معصوم بچے مجھ سے جدا ہوگئے اور مجھے لمبی سزا ہوگئی۔ اس سے تو اچھا تھا میں اُسے گھر میں ہی مرنے دیتی۔‘‘
’’تو کیا تمہارے گھر والوں نے کچھ نہ کیا…؟‘‘ میں نے اچنبھے سے پوچھا۔
’’گھر والے…!! گھر میں تھا ہی کون…؟ اماں، ابا تو اس دوران اللہ کو پیارے ہوگئے تھے، تین بہنیں تھیں اور ان کے شوہر۔ بہنوئیوں کو کیا پڑی تھی پرائے پھڈے میں ٹانگ اڑاتے! بے چارا ایک بھائی تھا، اس نے بساط بھر کوشش کی، لیکن پھر وہ بھی تھک کر بیٹھ گیا اور مجھے قتل کے جرم میں سزا ہوگئی۔‘‘ اس نے ایک دفعہ پھر ہاتھ چہرے پر رکھے اور چند لمحوں بعد اسی طرح گویا ہوئی:
’’جیل کی وہ بیرک…آہ… ایسا لگتا تھا وہ جگہ انسانوں کے لیے نہیں، جانوروں کے لیے بنائی گئی ہے، اور وہاں رہتے رہتے وہ عورتیں بڑی بے درد، بے حس اور خودغرض ہوچکی تھیں۔ اکثر تو مجھے شاباشی دیتیں کہ میں نے مردوں کے اس معاشرے سے ایک مرد ذات کو جس کو وہ ’’بدذات‘‘ زیادہ کہتیں، کا خاتمہ کیا۔
تین سال میں نے ان کے ساتھ جس طرح گزارے وہ میں اور میرا خدا ہی جانتا ہے۔ پھر میرے بہت رونے پیٹنے پر مجھے دوسری جگہ منتقل کردیا گیا۔ وہاں کی عورتیں پھر بھی کچھ ہمدرد تھیں۔‘‘
’’تمہاری طرف سے وکیل نے…‘‘
’’ارے باجی! کیسا وکیل؟‘‘ وہ استہزائیہ ہنسی۔ ’’یہاں کون وکیل کرتا؟ کس کے پاس پیسے تھے؟ چار سال تو بغیر کسی وکیل اور پیشی کے ہی گزر گئے، پھر خدا بھلا کرے اُن وکیل عورتوں کا، جو بغیر کسی پائی پیسے کے ہم بے قصور، مظلوم عورتوں کا کیس لڑتی ہیں۔ پھر کئی مہینے میرا کیس چلا اور اس کے بعد میرے خدا نے مجھ پر کرم کردیا۔ میری رہائی کا فیصلہ ہوگیا۔ میں بے قصور ثابت ہوگئی۔ میری ساس، جیٹھ اور دیور کو بلایا گیا، اور وہ بھی میرے خلاف کوئی ثبوت نہ دے سکے۔ بس باجی وہ بچے دینے میں مجھے پریشان کررہے ہیں۔ نہ جانے انہوں نے میرے بچوں کے دماغ میں میرے خلاف کیسا زہر بھر دیا ہوگا۔ اگر میرے بچے ہی مجھے نہ ملے تو میری زندگی کا کیا فائدہ…!‘‘ وہ ایک دفعہ پھر سسکنے لگی۔
’’تم ایسا کرو اسی وکیل سے کہو، وہ ضرور تمہاری مدد کرے گی۔‘‘
’’ہاں باجی میں نے اسی سے کہا ہے، وہ چلے گی میرے ساتھ، اس نے مجھے بڑا حوصلہ دیا ہے۔ مجھے امید ہے میں اپنے بچوں کے ساتھ باقی زندگی گزاروں گی، وہ میرے پاس رہیں گے، مجھ سے اسی طرح محبت کریں گے جیسے پانچ سال پہلے کرتے تھے۔‘‘ بھرائی آنکھوں اور لہجے میں وہ مستقبل کے خوب صورت خواب بُن رہی تھی اور میں اسے دُکھے دل سے دیکھ رہی تھی۔
واہ ری عورت! تیری بھی عجیب کہانی… اُس مرد نے تو مرتے مرتے تجھے بھی پھنسا دیا، لیکن وہ عورت جو اس مرد کی ماں تھی اور معصوم بچوں کی دادی، اُس نے اس ظلم پر مہر لگاکر بچوں کے باپ کے ساتھ ماں کو بھی مار ڈالا۔ جب وہ اپنی بہو سے ایسی نفرت کرتی تھی تو ان پانچ برسوں میں اس نے بچوں کے کورے کاغذ جیسے ذہنوں میں نہ جانے کیا کچھ ثبت کر ڈالا ہو۔ باپ کی شفقت سے محروم بچوں کو ممتا سے بھی جیتے جی محروم کر ڈالا۔ یہ ظالم اور مظلوم عورتیں، میں ان دونوں کا موازنہ کررہی تھی۔

بریسٹ کینسر سے بچاؤ کے لیے کیا کریں

طب میں ہر مرض کا علاج موجود ہے، مگر پہلے کیوں ناں احتیاط کی جائے۔ وٹامن C اور فائبر پر مشتمل غذائیں ضرور استعمال کریں۔ انڈر گارمنٹس سیاہ رنگ میں نہ استعمال کریں، رات کو ہلکے پھلکے لباس پہنیں، دن بھر کی انڈر گارمنٹس رات میں استعمال نہ کریں۔ مائیں قدرتی دودھ بچوں کو ضرور پلائیں اور پھر احتیاط سے جسم کی صفائی بھی کریں۔ نیچرو پیتھی کسی بیکٹریا کی موجودگی کی نفی نہیں کرتی۔ یہ آلودہ کھانوں، لباس، جسم اور گندے پانی کے ذریعے جسم میں داخل ہوسکتے ہیں، چنانچہ کبھی جلد پر فنگس نہ بننے دیں، فوراً ڈاکٹر سے رجوع کریں۔

حصہ