جہیز ایک لعنت

1354

ثناء نوشین
ہم اکثر سنتے اور بولتے ہیں جہیز ایک لعنت ہے۔ بے شک جہیز ایک لعنت ہے مگر کوئی یہ بھی تو بتائے کہ ہمارے آج تک کے تمام اقدامات میں جہیز دینے اور لینے کے کلچر کو فروغ دیا گیا ہے یا روکنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ میرے بچپن کے دور کی بات ہے تب جہیز کو لعنت کہا جاتا تھا اور کہا جاتا ہے مگر اب تو جہاں دیکھوں کبھی لڑکے والے مظلوم لگتے ہیں تو کبھی لڑکی والے۔ جہیز تو بی بی فاطمہؓ کو بھی دیا گیا تھا۔ یہ ہم نے تیسری جماعت میں پڑھا تھا اگر زیادہ تفصیل سے بات کی جائے تو اس جہیز میں وہ سامان تھا جو ایک نئے جوڑے کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ چٹائی، لوٹا، چادر، مشکیزہ وغیرہ مگر ہم نے جب اس کو بنیاد بنا کر بیٹی کی مدد کی تو جذبات میں کچھ زیادہ ہی آگے نکل گئے۔ ہم نے ضرورت سے آسانی تک کا سفر کیا اور آسانی سے آسائش کی طرف چل پڑے۔
بگاڑ جب پیدا ہوا جب لڑکی والوں کے راضی و خوشی سے دیے جانے والے جہیز کے ضروری سامان کو لڑکے والوں نے اپنا حق سمجھ کر قبول کرنا اور مانگنا شروع کردیا۔ بات اس قدر آگے نکل گئی کے اب شادی سے قبل فہرست تیار کرکے لڑکی والوں کے گھر اس شرط کے ساتھ پہنچا دی جاتی ہے کے جہیز میں یہ تمام چیزیں موصول ہوئیں تو ہی بارات روانہ ہوگی۔ لڑکی کے باپ کا کندھا جھکتا چلا گیا اور لڑکے والوں کی ڈیمانڈز میں اضافہ ہوتا گیا اور اس جہیز خوری نے سارے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اب بات کرتے ہیں شرعی حق مہر کی جو کہ ایک تحفے کی صورت رکھا گیا تاکہ میاں بیوی میں دوستی اور پیار کا رشتہ استوار ہو مگر جب یہ اچھا عمل بھی اپنی حدودپارکر لے تو برا ہو جاتا ہے حکم ہے۔ آپ اچھا رشتہ آئے تو شادی کر دیں یہاں میں والدین کے ظلم گنواتی ہوں رشتہ آئے تو 18 سے 20 سال کی بچی ابھی چھوٹی ہے۔ شادی کی عمر نہیں جب کہ بچی اگر تیرہ یا پندرہ سال کی ہے تب بھی شادی کے لائق ہے۔ یہ میرا نہیں میرے رب کا حکم ہے جو سب جانتا ہے۔ اب دوسرا ظلم بچی ابھی پڑھ رہی ہے کہہ کر اچھا رشتہ گنوا دینا۔ تیسرا ظلم ہم برادری سے باہر شادی نہیں کرتے۔ چوتھا ظلم شادی کے لیے اتنی شرائط کہ بندہ کہے ان کی بیٹی سے شادی کرنے سے بہتر ہے بندہ شادی ہی نہ کرے۔
میری نظر میں ناجائز مطالبے یہ ہیں کہ مرد کا گھر یا زمین کا جائیداد میں جو حصہ ہے ہماری بیٹی کے نام کیا جائے یہ ظلم ہے۔ جب عورت کا کفیل مرد ہے تو جائیداد عورت کے نام کرنے کا فائدہ اور ایسے ہی کئی رشتے ہم نے شادی سے پہلے اور بعد ٹوٹتے دیکھے ہیں۔ اب دوسرا مطالبہ ہے زیورات۔ آپ میری بیٹی کو کتنا زیور دیں گے؟ اب مطالبے ہوتے ہیں کہ بچی کو آپ 20 تولہ دیں 25 تولہ دو کنال زمین اورحق مہر 20 لاکھ پچاس لاکھ۔ اب خدا واسطے کی بات کریں بیٹی کے نام پر اتنی وصولی کے بعد تو ایک کاغذ پر اعتراف لکھنے کی کمی ہے کہ ہم نے بچی کی بھلائی کے نام پر جتنا لوٹنا تھا لوٹ چکے۔ اس کے علاوہ بعض جگہ میں نے خود دیکھا مہندی کا کھانابھی مرد راضی با رضا دے رہا ہوتا ہے۔ اکثر جہیز بھی مرد دے دیتا ہے۔ اب بھی آپ کہیں جہیز حرام ہے تو حیرت ہے۔
یہی مسائل لڑکے والوں کی جانب سے ہیں جنہیں تیس پینتیس سال کے لڑکے کے لیے سولہ سالہ دوشیزہ کی تلاش ہوتی ہے۔ جس کا پڑھا لکھا ہونا بھی ضروری ہے اور عمر بھی کم سے کم ہو۔ کھاتا پیتا گھرانہ ہو اور گھر بھر کر جہیز دینے کی استطاعت بھی رکھتا ہو۔ ہمارے معاشرے کا یہ عام چلن ہے کہ لڑکے والے رشتہ دیکھنے جاتے ہیں، کھاتے پیتے ہیں اور لڑکی میں معمولی نقص کی بنا پر شادی سے انکار کردیتے ہیں۔نہ جانے آج ہی ان ہی سماجی رویوں کے باعث کتنی ہی لڑکیوں کے سروں میں چاندی اتر آتی ہے لیکن وہ معاشرے کے معیار پر پورا نہیں اتر پاتیں۔ ان کا بوڑھا باپ جہیز جمع کرنے کے چکر میں زندگی بھر محنت کرتا ہے لیکن پھر بھی اپنی بیٹیوں کو ان کے خوابوںکی تعبیر دینے میں ناکام رہتا ہے۔
مسئلہ جہیزیا بری نہیں ہے،مسئلہ یہ سماجی رویے ہیں جو دونوں کے طرف کے لوگوں کو سمجھنا چاہیے۔ نکاح آسان کرنا ہے تو پہلی فرصت میں بہترین رشتہ دیکھ کر ذات برادری کے چکر میں پڑے بغیر سادہ طریقے سے دعوت طعام کا اہتمام کرکے بیٹی کو رخصت کردیا جائے۔ ہم معاشرے میں ناک اونچی رکھنے کے چکر میں نکاح کو مشکل ترین اور زنا کو آسان تر بناتے جارہے ہیں۔ اگر ہم چاہتے ہیں ہماری آنے والی نسلیں زنا جیسے گناہ عظیم میں مبتلا نہ ہوں تو آج ہی نکاح آسان بنانے کے لیے عملی طور پر اقدامات کیجیے۔

حصہ