بدلتے موسم

553

آسیہ راشد
موسمِ بہار کے دن رات طبیعت میں خوش گواری کا جو احساس پیدا کرتے ہیں وہ کسی اور موسم کے حصے میں نہیں۔ ایسی سکون بخش طمانیت صرف اور صرف بہار کی ہی عنایت ہے۔ کسی گھنے پیڑ کے نیچے کرسیاں بچھائے بیٹھے ہوں، دھوپ اور چھائوں کے امتزاج کا لطف اٹھایا جارہا ہو، اس کا کہنا ہی کیا! دھوپ کبھی تیز لگتی ہے تو کرسی چھائوں میں کھینچ لی جاتی ہے، جب ہوا تیز لگتی ہے تو دھوپ مزا دینے لگتی ہے، اس کے بعد تو لان سے اٹھنے کو جی ہی نہیں چاہتا۔
ایک وقت تھا جب ہمارے بچپن میں گھروں کے بڑے بڑے صحن ہوا کرتے تھے۔ سردیوں کی دھوپ کا لطف لینے کے لیے صحن میں چارپائیاں بچھا دی جاتی تھیں اور دھوپ کے ساتھ ساتھ چارپائیاں بھی صحن کے آخری کونے تک سفر کرتیں۔ جب تک دھوپ دیوار پر نہیں چڑھ جاتی تھی چارپائیوں کا سفر بھی دھوپ کی جانب جاری رہتا۔
قدرت کی عنایات پر غور و فکر کریں تو اللہ تعالیٰ کا ارشاد یاد آجاتا ہے کہ ’’کیا تم غور و فکر نہیں کرتے۔‘‘ اللہ تعالیٰ کا ہم پر عظیم احسان ہے کہ اس نے ہر چیز میں ہمارے لیے انعامات اور فائدے رکھے ہیں، انہیں تلاش کرنا چاہیے۔ برگد، پیپل، گولہڑ، نیم، دھریک، جامن اور بیر کے درخت ناپید ہوتے جارہے ہیں۔ ان درختوں سے میرا پرانا رشتہ ہے۔ جہاں کہیں ان درختوں کو دیکھتی ہوں ان سے وابستہ یادیں آنکھوں میں جگنو بھر دیتی ہیں۔ پیپل اور دھریک کی ٹھنڈی چھائوں اور منہ میں جامن اور بیروں کی مٹھاس محسوس ہونے لگتی ہے۔
مگر اب صرف پھولوں سے رشتہ باقی ہے۔ تمام لان رنگ برنگے پھولوں سے بھرا پڑا ہے۔ یہ پھول ہماری عملی زندگی میں کتنی اہمیت رکھتے ہیں، سبھی جانتے ہیں۔ موسمِ بہار میں تو پھول ایک نیا جوبن دکھلاتے ہیں۔ گھروںکی سجاوٹ، دفتروں کی آرائش اور مریضوں کی صحت یابی پر پھول خوش گوار اثر ڈالتے ہیں۔ یہ زندگی میں نئی توانائی بھر دیتے ہیں۔ رنگ برنگے دل کش پھولوں کو دیکھ کر لبوں پر خودبخود مسکراہٹ مچلنے لگتی ہے۔ مریضوں کو یہ Get well soon کا پیغام دیتے ہیں۔ نرم و نازک پھول اپنے اندر بڑی طاقت رکھتے ہیں جو انسانوں کو جینے کی امنگ، حوصلہ اور امید دیتے ہیں۔ اسی لیے پھولوں کو بہترین معالج بھی کہا جاتا ہے۔ ان کے اندر بیماریوں کو دور بھگانے کی قوت بھی ہوتی ہے۔
بہت سے پھول ادویہ میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔ دل کی بیماری اور کینسر کے مرض میں فائدہ مند ہیں۔
میری گولڈ تو صدیوں سے یونانی، ہندوستانی، مصری اور رومن ادویہ میں استعمال ہوتا ہے۔ یہ سر درد، دانت کے درد، سوجن اور دل کی بیماری میں مفید ہے۔
ڈیفوڈل (Daffodill) جس کے بارے میں انگریز شاعر وڈز ورتھ کی لازوال نظم جو ہر دور میں ہمارے نصاب میں شامل رہی ہے، اس کا تو کہنا ہی کیا ہے۔ یہ پھول نہ صرف اپنی خوب صورتی سے قدرتی ماحول کو دل کش بناتا ہے بلکہ دماغ کے کینسر کے لیے بھی مفید ہے۔
عرقِ گلاب کی افادیت سے کون انکار کرسکتا ہے! یہ عرق چہرے کی خوب صورتی کو بڑھانے، جھریوں کو دور اور آنکھ کی سوزش ختم کرنے، دل کی مضبوطی اور کھانوں کی لذت دوبالا کرنے میں کام آتا ہے۔
بات موسم کی ہورہی تھی، بہت دور جا نکلی۔ اب موسم کے پھل کینو، مالٹے، سنگتروں کی بات ہوجائے۔ ترش پھلوں کے درخت پھلوںسے لدے ہوئے ہیں۔ پھلوں کی کھٹی میٹھی خوشبو کے ساتھ ساتھ انواع و اقسام کے پھولوں کی مسحور کن خوشبو چہارسو پھیلی ہوئی ہے۔ آج کل تمام درخت اور پودے اپنے پرانے پہناوے اتارکر نئے پتوں کے ساتھ طلوع ہورہے ہیں۔ پیپل، جامن، انجیر، آم سبھی نے نئے لباس پہن لیے ہیں۔ کچنار کے درخت سفید اور پیازی ڈوڈوں سے لدے ہوئے ہیں۔
سفید گلاب کی لڑیاں جھومر کی طرح دیواروں پر لٹکی جھوم رہی ہیں۔ ان کے بعد بوگن ویلا کی بیلیں دیواروں کو نیا رنگ و روپ دینے کی تیاری میں ہیں۔
ہمارے گھر کے باہر لگے کیکر کے درخت نے نئی اوڑھنی اوڑھ لی ہے۔ اس درخت کے بہت سے قصے پرانی کہانیوں میں ملتے ہیں۔ جادوئی داستانوں میں اس کا تذکرہ خصوصاً ملتا ہے۔ اے حمید کی بارش، سماوار اور خوشبو میں ان کا بہت ذکر ہے۔ اس کی پراسرایت اپنی جگہ پر، مگر یہ فائدہ مند بھی ہے۔ برصغیر میں صدیوں پہلے اس کی چھال سے مختلف مشروب بنائے جاتے تھے۔ بہت سے دیہات میں آج بھی اس کے گودے سے قہوہ تیار کیا جاتا ہے۔ یہ اُس دور کی بات ہے جب برصغیر میں چائے ابھی متعارف نہیں ہوئی تھی۔ کیکر کی لکڑی چھوٹے موٹے فرنیچر میں استعمال ہوتی ہے۔ مضبوط فرنیچر کے لیے شیشم زیادہ مقبول ہے۔ کیکر کی کچی پھلیوں کو گوشت اور قیمے میں پکایا جاتا ہے۔ اس کے کھانے سے ریشہ ختم ہوجاتا ہے اور جوڑوں کے درد میں بھی مفید ہے۔ اس کی ٹہنیوں سے مسواک بہت اچھی بنتی ہے۔ یہ پرندوں کی محفوظ پناہ گاہ بھی ہے۔ اکثر پرندے کیکر کے درخت میں گھونسلہ بناتے ہیں، کیوں کہ اس کے کانٹوں کی وجہ سے بڑے پرندے ادھر کا رخ نہیں کرتے۔
ہمارے پرانے گھر میں گولہڑ کا درخت تھا جس کے کچے پھل کو قیمہ میں پکایا کرتے تھے، اور پکے پھل کی شکل انجیر یا اسٹرابری سے ملتی جلتی تھی، جسے لوگ جھولیاں بھر بھر کے کھانے کے لیے لے جاتے اور اس سے مختلف دوائیاں بناتے۔
بوڑھے درختوں کے نیچے بیٹھے ہوں تو اکثر ٹھنڈک کے فرحت بخش احساس کے ساتھ ساتھ ان کے پتّے ماضی کی بہت سی کہانیاں سناتے محسوس ہوتے ہیں۔ مگر ماضی ہمیشہ آج کے دور سے بہتر محسوس ہوتا ہے۔

حصہ