ایک ادھوری نظم

273

مریم عرفان

جی چاہتا ہے…
چاہتوں کی اک کتاب لکھوں
زندگی کا نصاب لکھوں
ہر لب پہ مسکراہٹوں کا ڈیرا ہو
نفرتوں کا نہ کسی بھی دل میں بسیرا ہو
ہر ذی نفس خوشحال ہو
کوئی چہرہ نہ پرملال ہو
ہر آنکھ خوابوں کی چمک سے جگمائے
ان خوابوں کی لمبی اڑان ہو
کہیں بھوک ہو نہ پیاس ہو
کوئی خستہ حال دکھے نہ اداس ہو
ہر دل سے دکھ درد مٹا دیں
خوشیوں کے پھول ہی پھول کھلا دیں
ہاتھوں میں ہم ہاتھ دیں
اک دوجے کا ساتھ دیں
آسانیوں کو عام کریں
اپنے کچھ لمحے محبت کے نام کریں
اپنے حصے کی شمع جلائیں
جس سے اہلِ جہاں روشنی پائیں
آؤ
حسین سپنے بنیں
پھر ان میں رنگ بھریں
محبت کے، چاہت کے، الفت کے رنگ

حصہ